پاکستان میں آزادی اظہار کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات



پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں چاہے وہ جمہوری ہو یا آمریت کا دور ہو۔ صحافیوں کو ہر دور میں مسائل کا سامنا رہا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں صحافیوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے آمریت کے دور میں بھی اتنے مسائل نہیں تھے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت ہی مسلسل خطرے میں قرار دی جاتی رہی ہے۔ کبھی فوجی آمر، کبھی جمہوری رہنما اور کبھی دہشت گردی کی وبا صحافت کی جان کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں۔

آج میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات میں صحافی اسی وجہ سے سیلف سینسرشپ پر مجبور ہیں۔ موجودہ حکومت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں آزادیٔ اظہار رائے پر دباؤ ہے اور ہر طرح سے مخالف آوازوں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں میڈیا اور اس سے وابستہ ایسے صحافیوں و اینکرز کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے جو مقتدر طبقے اور تحریک انصاف کی حکومت کے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔

آج کل حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے حامد میر کا پروگرام بند کروا دیا گیا۔ عاصمہ شیرازی کو ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم ایک عجیب معاشرہ ہیں جہاں آپ کو میڈیا پر ملک دشمنی، غداری، کرپشن اور جرائم کی فائلیں لہراتے عہدیدار اور حاکم نظر آتے ہیں، مگر ان سے کوئی پوچھتا نہیں کہ کسی نے جرم کیا ہے تو آپ یہاں میڈیا پر کیا کر رہے ہیں؟

عدالت میں ثبوت پیش کر کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دلواتے؟ اس سے قبل وقت نیوز سے مطیع اللہ جان، کیپیٹل ٹی وی سے مرتضی سولنگی، نجم سیٹھی، طحہ صدیقی، احمد نورانی اور ڈان نیوز سے نصرت جاوید، طلعت حسین کا پروگرام نیا پاکستان کو بند کیا گیا۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت، جن صحافیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں اور جمہوریت کے حامی ہیں، ان کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

غلامی پر مبنی رشتے میں محبت نہیں ہو سکتی، چاہے وہ افراد کے درمیان رشتہ ہو یا عوام اور ریاست کے درمیان! غلامی اور جبر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبر کے بغیر غلامی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ اور جہاں جبر ہوتا ہے، وہاں محبت نہیں ہو سکتی۔ جبکہ حکومت پاکستان کے عہدیداروں کا موقف ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر کسی طرح کی قدغن کی خواہاں نہیں ہے اور عہدیداروں کے بقول میڈیا ملک میں ماضی کی نسبتاً کہیں زیادہ آزاد ہے۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ آزاد اظہار کی آڑ میں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ صحافیوں کو حقائق بیان کرنے پر ہراساں کرنے یا ان پر پابندی لگانے سے کبھی مسائل حل نہیں ہوں سکتے بلکہ اس طرح کی کوششوں سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ سرکاری بیانیے کی مخالفت کرتے نیوز چینلز کو کیبل پر آگے پیچھے کر کے اور اخبارات کی ترسیل اور اشتہارات کی تقسیم پر اثرانداز ہو کر مخالف سمجھی جانے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔

جس کے جواب میں مختلف اینکرز نے یو ٹیوب چینل کھول دیے جہاں پر انہوں نے مزید آزادی کے ساتھ بولنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے آج کے وزیر چیخ رہے ہیں کہ یہ یو ٹیوب چینل والے اپنے ریٹنگ بنانے کے لئے کچھ بھی بول دیتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ وہ کس وجہ سے اس طرف آنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ غدار غدار کا کھیل آخر کب ختم ہو گا؟ کیا ہم عاصمہ شیرازی اور حامد میر کو اس طرف دھکیل رہے ہیں جس طرف ہم نے طحہ صدیقی، وقاص گورایا اور گل بخاری کو دھکیل دیا تھا۔

ہم ہمسایوں کے لیے خود لوگ تیار کر رہے ہیں۔ تا کہ وہ ہمارے اپنے لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کرے۔ اس کا انجام کیا ہو گا؟ محالفت میں کسی کو سیکورٹی رسک یا غدار کہنے کی غلط روایات سے چھٹکارا پانا ہو گا اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ ماضی میں مادر ملت فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے پر انتخابی مہم میں غدار قرار دیا گیا تھا۔ وہ لوگ جو محترمہ فاطمہ جناح کے مخالف اور ایک ڈکٹیٹر کے حامی تھے وہ آج بھی ملک کے نہ صرف وفادار بلکہ وفاداری کی سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہیں۔

فیض احمد فیض، حبیب جالب، احمد فراز، نواب اکبر بگٹی، حسین شہید سہروردی، خان غفار خان، ولی خان، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی غداری کے طعنے برداشت کیے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی نہ ہی تاریخ وعدہ معاف گواہ بنتی ہے۔ ہم کہاں تھے، کہاں ہیں اور کہاں کھڑے ہوں گے؟ کبھی سوچا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کی بات کرتے ہیں اور پھر ماضی کو ہی فراموش کر دیتے ہیں، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کے وعدے کرتے ہیں اور دانستہ نادانستہ غلطی در غلطی کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے نہیں ان کے ازالہ سے قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم تھے۔ جنرل ضیا الحق نے ان کا تختہ الٹا اور پھر بغاوت کے جرم میں سزا سے بچنے کے لئے بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا۔ بے نظیر بھٹو کو کبھی سکھر جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کبھی قید تنہائی کی اذیت۔ مگر جب 1988 ء میں وہ جیت کر وزیراعظم بنیں تو عدلیہ اور فوج کے کردار کی تلخ یادوں کے باوجود انہوں نے برداشت کی پالیسی اپنائی کسی ایک جرنیل یا جج سے اس کے ماضی کے کردار پر بازپرس نہیں کی گئی حتیٰ کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے بنچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان بھی رہے۔

جنرل حمید گل نے آئی جے آئی بنوائی مگر محترمہ اس کے باوجود ان سے میٹنگز کرتی رہیں۔ وہی مخالف جو اس کو غدار اور ”سیکورٹی رسک“ کہہ کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے رہے تھے پھولوں کی چادریں بھجوانے پر مجبور ہو گئے۔ صحافت اور سیاست، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کو محدود کرتے کرتے کچھ ادارے یہ بھول جاتے ہیں کہ گھٹن کے اس ماحول میں ایک وقت آئے گا کہ اتنی جگہ بھی باقی نہ رہی گی کہ ریاست اور اداروں کے لئے آواز اٹھانا بھی مشکل ہو جائے گا۔

آوازوں کا قتل عام بند کرو۔ یہ آواز کل آپ کے لیے بھی اٹھے گی۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے معیار اور جمہوری آزادیوں کا پیمانہ جہاں سیاسی آزادیاں، انتخابات، سیاسی جماعتوں کا وجود اور سیاسی اظہار ہوتا ہے وہیں پر اظہار رائے کی آزادی اور آزاد میڈیا کا وجود بھی اہم پیمانہ ہوتا ہے۔ آزاد میڈیا کا وجود پھلتی پھولتی اور صحت مند جمہوریت کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments