چترال کے عبدالواحد: ’آکسفورڈ میں داخلے پر لوگوں نے دولہے کے جیسا استقبال کیا‘

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد


اس روز عبدالواحد خان کی شادی کا دن تو نہیں تھا لیکن لوگ انھیں ہار ایسے ہی پہنا رہے تھے کہ جیسے وہ دولہا ہیں۔ ان کی گاڑی کو بھی سجایا گیا تھا۔ واحد پر بچوں نے پھولوں کی پتیاں برسائیں اور مٹھائی اور ضیافت کا اہتمام بھی بھرپور انداز میں کیا گیا۔

یہ چترال شہر سے 10 گھنٹوں کی مسافت پر موجود دور افتادہ علاقہ یاخن ہے۔ اور اہلِ علاقہ 26 سالہ واحد خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ ملنے پر جشن منا رہے ہیں۔ چترال کے لیے یہ پہلا اعزاز ہے۔

ابھی عبدالواحد خان آکسفورڈ سے ہی ماسٹرز کے آخری مرحلے میں تھیسز کر رہے ہیں اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے تھیسز اور آگے پی ایچ ڈی کا موضوع چترال کے ہی بارے میں ہے۔

واحد کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے ہر کونے تک پہنچیں۔

واحد کے بھائی عبدالواجد نے مجھے بتایا کہ ’یہ فخر کا لمحہ تھا ہمارے لیے بھی اور پورے گاؤں کے لیے بھی۔‘

انھوں نے کہا کہ واحد کے آکسفورڈ میں داخلے کی خبر تو ہمیں پہلے سے مل چکی تھی اور پورے گاؤں کے لوگ ہمارے گھر مبارکباد بھی دے چکے تھے لیکن جب اس نے پاکستان آنے کے بارے میں بتایا تو ہم نے گاؤں والوں کو یہ خوشخبری بھی سنائی۔

پھر گاؤں والوں اور واحد کے کزنز نے گھر پر کھانے کا انتظام کیا اور وہ اپنی سجائی ہوئی گاڑیوں میں گاؤں کے کچھ لوگوں کو لے کر آگے کے علاقے تک گئے۔

’علاقے میں مختلف مقامات پر ان کے لیے رنگا رنگ استقبالیے تھے جن پر ’ویلکم‘ یعنی خوش آمدید لکھا ہوا تھا۔ ان کے گلے میں پھولوں کے ہار اتنے تھے کہ آپ انھیں شمار نہ کر سکتے۔ گاڑیوں سے اتر کر پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے واحد کے پیچھے پیچھے موجود قطار میں تاحد نگاہ تو لوگ آ رہے تھے۔‘

عبدالواحد خان گاؤں پہنچے تو بھی لوگ اپنے گھروں کے سامنے بھی پھولوں کے ہار اور مٹھائی لے کر کھڑے تھے۔ اور پھر گھر پہنچے تو وہاں بھی عزیز و اقارب نے کھانے پر استقبال کیا۔

میرون کلر کے لباس میں عبدالواحد خان کی والدہ اس روز انتہائی خوش تھیں۔ کمرے میں روایتی انداز کے مطابق سب لوگ قالین پر بیٹھے تھے اور دیوار پر لگے شیلف پر عبدالواحد کو ملے میڈلز دکھائی دے رہے تھے۔

گاؤں کے کچھ لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے خوشی اور فخر کے لمحات تھے کہ ہم میں سے کسی نے اتنی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔

سلیم خان اسی گاؤں کے مکین ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ گاؤں کے سب لوگ عبدالواحد کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے علاقے کے لوگ علم دوست ہیں اور علم سے محبت ہی تھی کہ واحد کی کامیابی پر جشن منایا۔

میرے رابطہ کرنے پر واحد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یہ استقبال میرے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں امی نے مجھے تاکیداً کہا تھا کہ اسلام آباد سے سیدھے چترال کے لیے نکل آنا، دیر مت کرنا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ چترال شہر سے اپنے گاؤں یاخن پہنچنے تک میرا ایسا استقبال کیا جائے گا اور راستے میں ننھیالی گاؤں، مستوج میں بھی میرے لیے ایک بڑی ضیافت ہو گی۔‘

ان کے والد عبدالحمید خان صاحب نے خود انٹر کیا تھا اور وہ چترال سکاؤٹس میں صوبیدار میجر تھے اور جن کی خواہش تھی کہ ان کے بچے تعلیم کے میدان میں کچھ الگ کر دکھائیں۔

عبدالواحد کہتے ہیں کہ ’چونکہ ہمارے علاقے میں اچھی تعلیمی سہولیات نہیں تھیں ایسے میں والد نے ہمیں چترال میں موجود آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا۔ نرسری میں تو والد کے ساتھ تھے کیونکہ ان کی ٹرانسفر یہاں تھی لیکن اس کے اگلے برس ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ہمیں والد اور والدہ سے دور ہوسٹل میں رہنا پڑا ۔‘

وہ کہنے لگے کہ ’گھر تو سال میں دو بار جا سکتے تھے۔ ڈھائی سو کلومیٹر کی مسافت پر گھر تھا اور جلد آنا جانا ممکن نہ تھا۔ میرا بھائی اور میری بہن ہم تنیوں کو اچھی تعلیم دلوانا میرے والد کا خواب تھا۔‘

ہر بچے کی طرح آپ نے بھی کچھ بننے کا ارادہ کیا ہو گا اور پڑھائی میں آپ کیسے تھے؟ اس سوال پر عبدالواحد نے بتایا کہ والد آرمی میں تھے تو مجھے بھی یہ پروفیشن پسند تھا اور سکول میں سائنس ہی تھی تو وہی پڑھی اور میں پوزیشن ہولڈر رہا ہوں پڑھائی کے معاملے میں، تو کبھی والد سے نہ ڈانٹ کھائی نہ ہی مار پڑی۔

وہ کہتے ہیں کہ آٹھویں تک اے پی ایس میں پڑھنے کے بعد میں آغا خان ہائر سکینڈری سکول چترال گیا جہاں سے میں نے 2011 میں میٹرک کیا۔

میں نے پوچھا کہ پھر کالج لائف کیسی تھی اور کون سے مضامین رکھے تو جواب ملا ’میں نے کوشش کی کہ مجھے سائیکالوجی کا مضمون ملے لیکن انٹر کے لیے کراچی کے کالج میں میں گیا تو وہاں میرے کالج میں یہ مضمون نہیں تھا۔‘

میرے لیے یہ جواب حیرت انگیز تھا سائیکالوجی ہی کیوں جبکہ عام طور میٹرک کے بچوں کو اس مضمون کے بارے میں اتنا علم نہیں ہوتا۔ تو عبدالواحد کہنے لگے کہ میٹرک کے فوری بعد پاکستان امریکہ یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام میں داخلہ ملا اور وہاں انھیں سائیکالوجی پڑھنے کا موقع ملا تو اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

’میں جب میٹرک میں تھا تو ہمارے سکول کے کچھ سینیئر لڑکے ان دونوں امریکہ سے یوتھ ایکسچینج پروگرام میں شمولیت کے بعد واپس آئے۔ تب میں نے سوچا میں بھی اپلائی کروں یوں مجھے کامیابی ملی اور میں 2011 میں امریکی ریاست وسکونسن چلا گیا جہاں مجھے ایک خاندان کے ساتھ ایک سال رہنا تھا اور سکول جانا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والی پانچ ’شیر بہنوں‘ کی کہانی

زہرا خان: پاکستانی نژاد شیف لندن میں دو کامیاب کاروباروں کی مالک

خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون ڈی پی او جنھیں سی ایس ایس کی تیاری ان کے شوہر نے کروائی

واحد کے مطابق ان کے لیے بیرونی دنیا اور جدید تعلیمی ماحول کا یہ پہلا تجربہ تھا جو آگے ان کے تعلیمی کریئر میں بہت کام آیا۔

2012 میں ان کے والد اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے وفات پا گئے۔ اب انھیں اپنی تعلیم کے لیے خود تگ و دو کرنی تھی۔

’کالج میں پری میڈیکل کے مضامین رکھے لیکن اس کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ آگے مزید یہ مضامین پڑھنے میں رجحان نہیں ہے تو میں نے کراچی میں ہی حبیب یونیورسٹی میں سوشل ڈویلپمنٹ اینڈ پالیسی کا انتخاب کیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے یہ زیادہ دلچسپ مضامین لگتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے چترال میں ترقی کا بہت شور ہوتا ہے تو میں نے سوچا میں اُن ہی مضامین میں کچھ کروں۔‘

لیکن چار سال کے اس بی ایس سی پروگرام کو کرتے ہوئے آپ نے تھیوری اور زمینی حقائق میں کتنا فرق دیکھا؟

اس کے جواب میں عبدالواحد نے بتایا کہ ’ہمارے پروفیسر گراؤنڈ رئیلٹیز کو دیکھتے تھے وہ پروگرام ایک تنقیدی انداز میں حقائق کو دیکھتا تھا جیسا کہ ترقی اور ڈویلپمنٹ کسی علاقے میں کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں اور خصوصاً اگر لوگوں کو ترقیاتی پراجیکٹس میں شامل نہ کیا جائے۔‘

تعلیمی سفر میں کیا کبھی معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، تو میرے اس سوال کے جواب میں واحد نے کہا کہ ہر جگہ اچھی پوزیشن لینے کی وجہ سے ان کو سکالر شپ تو ملتی رہی لیکن انھوں نے کراچی جانے کے بعد پڑھائی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اندر ہی کام کیا۔ پروفیسرز کی معاونت کرنا، ریسرچ ورک اور اپنے ساتھیوں کی پڑھائی میں مدد کرنا۔ مشکل وقت میں ان کے دوستوں نے بھی ان کی مدد کی۔

سنہ 2018 میں واحد کو برطانیہ کے ایک نجی انسٹی ٹیوٹ کے گریجویٹ پروگرام، اسلامک سٹڈیز اینڈ ہیومینٹیز میں داخلہ ملا۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر سال دنیا بھر سے فقط دس لوگ منتخب ہوتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس پروگرام میں طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ دو سال اسی انسٹیٹیوٹ کے ساتھ گزارنے ہوتے ہیں لیکن تیسرے برس انسٹیٹیوٹ اپنے طلبا و طالبات کو یہ آپشن دیتا ہے کہ وہ کسی بھی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا چاہتے ہیں تو لیں۔ میں نے تھرڈ ائیر میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جس کے لیے انسٹی ٹیوٹ نے مجھے سپانسر کیا۔ اور ابھی میرا وہاں تھیسز چل رہا ہے۔‘

عبدالواحد خان کہتے ہیں کہ آکسفورڈ کا تجربہ بہت اچھا ہوا اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے حالات کچھ مختلف تھے معمول سے لیکن مجھے بہت اچھے اساتذہ ملے۔

’میرا ماسٹرز کا پروگرام نیچر، سوسائٹی اینڈ انوائرمنٹل گورننس تھا۔ وہ بتانے لگے کہ ’میں نے ستمبر کے شروع میں اسے جمع کرنا ہے اور اسی کے لیے میں پاکستان آیا ہوں۔ اس میں میں یہ دیکھوں گا کہ جو نئے معاشی سسٹم، نیو لبرازم کی وجہ سے کسی جگہ کا قدیم طرز زندگی کس طرح تبدیل ہوتا ہے۔‘

’میں پہلے سے یہاں رہ رہا ہوں کہ جو ہمارا پہلے رہن سہن کا طریقہ تھا وہ اب ختم ہو رہا ہے۔ ہماری مشترکہ زمینیں جیسے چراگاہیں اور دریا ہی تھے یہاں اب اسے حکومت اپنی تحویل میں لے رہی ہے۔ جیسے بلین ٹری سونامی وغیرہ۔ یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیسے کسی کمیونٹی کے لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو گا اور اس قسم کے اقدامات پر مقامی کمیونٹی اس تبدیلی کو کیسے دیکھتی ہے اور یہ بھی کہ باہر کی این جی اوز کے کام سے لوگوں کی طرز زندگی کیسے اثر انداز ہوتی ہے یا بدلتی ہے۔‘

عبدالواحد کے مطابق سیلف ریگولیٹر کمیونٹی کا یہ سسٹم بدلتا ہے تو میرا خیال ہے لوگوں پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔

میوزک، کرکٹ، شاعری اور لکھنے لکھانے کا شوق رکھنے والے عبدالواحد کہتے ہیں کہ ہر استاد سے ان کی زندگی میں بہت رہنمائی شامل رہی ہے لیکن یہاں پاکستان میں جب انھوں نے چترال پر کام شروع کیا تو پروفیسر نعمان بیگ اور وہاں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کی ایڈوائزر ایرئیل ایہرن نے ان کی بہت رہنمائی کی اور خاص طور پر پی ایچ ڈی کے لیے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ ابتدائی تعلیم ہو یا اعلیٰ تعلیمی مراحل آپ کے خیال سے پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کے بہتر تعلیمی نظاموں میں بنیادی فرق کیا ہے اور یہ دور کتنا مشکل ہے؟

ان کا جواب تھا میرا خیال ہے ہمارے سکولوں میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو بس رسمی لیا جاتا ہے طالبعلموں کو سمجھ بوجھ نہیں دی جاتی بس رٹا لگانے پر زور دیا جاتا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

’میرے خیال سے ان کے لیے زیادہ مضامین ہونے چاہیے جیسے سائیکالوجی، جغرافیہ، ماحولیات یہ بھی الگ سے ہونے چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا اب پاکستان میں حکومت ایک مشترکہ سلیبس سسٹم متعارف کروا رہی ہے امید ہے کہ اس میں ایسا سب کچھ مد نظر رکھا جائے گا۔

اسلامک سٹڈیز اینڈ ہیومینٹیز کی تعلیم کا تجربہ کیسا تھا اور پاکستان میں اس مضمون کو پڑھنا اور پڑھانا کس قدر آسان ہے؟

اس سوال کے جواب میں عبدالواحد نے کہا کہ بیرون ملک اس مضوع کو پڑھنے کا تجربہ بہت اچھا اور مختلف تھا وہاں ایک دوسرے کی بات کو سمجھا جاتا تھا۔ مذہب کی تاریخ کو تنقیدی انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت چیلنجنگ تھا جب آپ ایک مضمون پڑھتے ہیں تو آپ کو اپنے عقیدے سے ہٹ کر اسے ایک طالب علم کے طور پر سمجھنا ہوتا ہے۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس مضمون کو پڑھنے پڑھانے کے لیے ابھی یہ مشکل لگتا ہے کیونکہ یہاں بات چیت کا ماحول نہ تو محفوظ ہے نہ ہی آزادی ہے۔

تعلیم کے اس سفر میں جو اب بھی جاری ہے کے بارے میں عبدالواحد نے کہا کہ ’ایک بڑی قربانی میری ماں کی جانب سے دی گئی میں کیونکہ چھوٹا بیٹا تھا اور انھوں نے بخوشی کئی سال میری دوری کو برداشت کیا اور اب بھی کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے اپنی والدہ کے کھوار زبان (چترال کی مقامی زبان) میں ادا کیے جانے والے الفاظ ہم تک پہنچائے جس میں ان کی والدہ کہتی ہیں ’میں خوش قسمت ہوں کہ اپنے بیٹے کو ایک بڑی یونیورسٹی میں جاتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ میں خود تعلیم یافتہ نہیں مجھے نہیں معلوم اس کا کیا مطلب ہے لیکن مجھے امید ہے کہ میرا بیٹا اپنی برادری کی خدمت کرے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp