بچوں سے جنسی رغبت کا عارضہ (پیڈوفیلیا) – ایک نفسیات دان کا نقطہ نظر


ڈاکٹر سہیل گیلانی سے ہماری عمر بھر کی واقفیت ہے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج میں دوران طالب علمی ان کا حوالہ شعر و ادب، فن تقریر اور طلبا سرگرمیوں میں شرکت تھا۔ اب ان کی شناخت امریکہ کے ایک ایسے سائیکاٹرسٹ کی ہے جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں انتہائی خطرناک مجرمانہ ذہنوں کے نہاں خانوں میں اتر کر مقفل دروازے وا کرتا ہے تاکہ تشخیص، علاج، اصلاح اور دوبارہ ان کو سماجی زندگی میں لانے کی راہیں نکالی جاسکیں۔

پیڈوفیلیا کیا ہے؟

سہیل گیلانی: یہ ایک بالغ شخص کی نابالغ بچوں میں حد سے بڑھی ہوئی جنسی کشش ہے جو بار بار سر پر سوار ہو کر شہوانی جذبات ابھار دیتی ہے۔ یہ کبھی بلا استثنا (Exclusive) نہیں ہوتا۔

بلا استثنا سے کیا مراد ہے؟

سہیل گیلانی: مطلب بچوں کی اس کشش کے ساتھ ساتھ یہ افراد اکثر بالکل نارمل یا معاشرے کے نزدیک نارمل جنسی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یہ شادی شدہ اور صاحب اولاد بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کے مخالف جنسی یا ہم جنسی تعلقات ممکن ہیں۔

اس مرض کا سبب کیا ہے؟

سہیل گیلانی: اس بارے میں کئی نظریات ہیں جن میں سے ایک تحلیل نفسی تھیوری ہے۔ جس کے مطابق یہ سرخ لکیریں عبور کرنے باؤنڈری وائلیشن کا معاملہ ہے۔ مقدس رشتوں سے جنسی عمل کرنا (انسیسٹ) یا جانور سے مباشرت، غیر رضامند اجنبی کے ساتھ زیادتی کرنا یہ سب سرخ لکیر عبور کرنے کی ہی مثالیں ہیں۔

پیڈوفیلیا بھی ایسا ہی ایک عمل ہے جس کا مریض مناسب اور غیر مناسب میں تمیز نہیں کر پاتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان انسانوں کا فہم و ادراک بری طرح مسخ ہو چکا ہوتا ہے۔ Significant Cognitive Distortion ہو جاتی ہیں۔ اس کی بہت بڑی وجہ ناقص عزت نفس یعنیPoor Self Esteem ہے ایسا شخص جس کی عزت نفس سلامت ہو وہ دباؤ اور بہت زیادہ اکسائے جانے پر حقیقت سے مکمل طور پر کٹ نہیں جاتا لیکن ناقص عزت نفس کے حامل افراد خطرے کو بھانپنے اور کم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

تیسرے ایک درجہ بند معاشرے Hierarchical Society میں سب انسان برابر نہیں ہوتے۔ یہ لمبا ہے وہ چھوٹا ہے۔ اس کا ایمان کمزور ہے اس کا مضبوط ہے، یہ نسل برتر ہے وہ کمتر ہے وغیرہ جس سوسائٹی میں مسلسل اختیار کی جنگ چل رہی ہو وہاں اس مرض کے شکار افراد کو چیزیں سمجھنے میں بہت مشکل درپیش ہوتی ہے۔ ناقص عزت نفس کے باعث یہ لوگ معاشرے کے طاقتور طبقات کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔

چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ ایک درجہ بند معاشرہ میں جاندار اشیاء کو بے جان سمجھ کر برتا جاتا ہے یعنی آبجیکٹفائی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عورت، جانور یا بچے کو آبجیکٹفائی کر کے ان پر تشدد کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ تشدد جسمانی بھی ہو سکتا ہے اور جنسی بھی۔ جنسی تشدد سے فریق کو مکمل مغلوب کر لینے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

آپ نے جان دار کو بے جان سمجھنے یعنی آبجیکٹی فکیشن کہا۔ کیا اس کا مطلب انسان نہ سمجھنا ہے؟

سہیل گیلانی: جی ہاں دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ دوسرے انسان کو دیکھنے کے تین طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک چلتا پھرتا گوشت کا لوتھڑا ہے اور بس۔ خطرناک جرائم پیشہ افراد اسی طرح سوچتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ دوسرا بھی انسان ہے۔ تیسرا طریقہ یہ کہ وہ ناصرف انسان ہے بلکہ ممکن ہے اس کی بوڑھی ماں اس کا انتظار کر رہی ہو جس کا یہ واحد سہارا بھی ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں تیسرے رویے کو عام کرنے سے پرتشدد جرائم میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

کیا دیگر ایسے امراض بھی ہیں جن سے پیڈوفیلیا ہو سکتا ہے؟

سہیل گیلانی: بالکل۔ کبھی دماغی چوٹ سے بھی جنسی رجحان میں تبدیلی اور بہت زیادہ جنسی اضطراریت کا غلبہ ہو سکتا ہے۔

سائیکاٹرسٹ یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ پیڈوفیلیا کے ساتھ ساتھ کہیں شخصی عدم ترتیبی جیسے سماج دشمن عدم ترتیبی یا خط الحدود شخصی بے ترتیبی تو نہیں۔

یہ عارضہ کتنے فیصد افراد کو ہوتا ہے؟

سہیل گیلانی: یوں تو انسان مختلف قسم کی تصوراتی دنیا میں رہ سکتا ہے اور بچوں کے متعلق سوچنے والے افراد بھی ہوتے ہیں جن کا تناسب 5 فیصد سمجھا جاتا ہے لیکن باقاعدہ پیڈوفیلیا کے مرض میں مبتلا افراد کی عالمی شرح ایک فیصد مانی جاتی ہے۔

کیا یہ مرض مغرب میں زیادہ عام ہے؟

سہیل گیلانی: غالباً ایسا نہیں ہے۔ امریکہ کی مثال لیں جہاں پچھلے تیس سالوں میں اسے ایک اہم مسئلہ سمجھ کر اس کے متعلق شعور و آگاہی میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے رپورٹنگ کا نظام بہت اچھا ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس بیماری کا تناسب مستحکم ہے اس میں اضافہ دیکھنے مین نہیں آ رہا جو ایک مثبت بات ہے۔

روزمرہ کی خبروں سے لگتا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں وبائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟

سہیل گیلانی: پاکستان کے حوالے سے کوئی قابل اعتبار اعداد و شمار موجود نہیں۔ البتہ ایک رپورٹ میں بچوں کے خلاف جرائم میں چار فیصد اضافہ بیان کیا گیا جو بہت اہم ہے حالانکہ یہ سارے واقعات پیڈوفیلیا کے نہیں ہوں گے۔

مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرے مین نسلی، مذہبی، فرقہ ورانہ، معاشی، عمر اور جنس کی بنیاد پر شدید درجہ بندی اور بے لچک نظریات کئی موجودگی سے ہمدردی مفقود ہو گئی ہے اور لوگ دوسروں کو بے جان سمجھنے لگے ہیں۔

کیا پیڈوفیلیا ایک لگنے والی بیماری ہے؟

سہیل گیلانی: جن بچوں کے ساتھ بچپن میں غلط کاری ہوتی ہے ان کی ایک کثیر تعداد بڑے ہو کر اس فعل کا ارتکاب کرتی ہے۔ بہت ضروری ہے کہ رپورٹنگ بہتر کر کے مرض کو پھیلنے سے روکا جائے۔

پیڈوفیلیا کا نشانہ بننے والے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

سہیل گیلانی: ان بچوں پر بڑے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ساری عمر رہ سکتے ہیں۔ ان میں ڈپریشن، انگزائٹی، توجہ رکھنے میں ناکامی، تعلیمی میدان میں بری کارکردگی شامل ہیں۔ کبھی کبھی انہیں مکمل پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا عارضہ پوجا تا ہے۔ خودکشی کا رجحان بہت بڑھ جاتا ہے۔ سب سے خطرناک یہ کہ خود مظلوم رہنے والا آگے چل کر ظالم بننے کا سوچتا ہے اس طرح پورا معاشرہ ایک منحوس ظالمانہ دائرے میں گھومنے لگتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں؟

سہیل گیلانی: وہاں مان لیا گیا ہے کہ یہ ایک گمبھیر ترین مسئلہ ہے۔ اس بارے میں عوام کو اسکول کی سطح سے مسلسل آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ رپورٹنگ کا نظام بنایا گیا ہے اور بچوں کے ساتھ کام کرنے والے ہر شخص کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے طبی کارکنان، اسکولوں کے عملے، اسکاؤٹس، چرچ ہر ملازمت دیتے ہوئے یہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

کیا پیڈوفائل خطرناک ہوتے ہیں؟

سہیل گیلانی: یہ مرض پورے معاشرے پر دیرپا منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی بڑے پیمانے پر موجودگی معاشرے میں ناخوشی لاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جن بچوں کو پامال کیا جاتا ہے ان میں سے کچھ آگے چل کر دوسروں کو پامال کریں گے۔ پیڈوفیلیا عام ہونے کا مطلب ہے بے کسی اور بے بسی کا عام ہونا۔ دنیا کے ہر معاشرے میں بچوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ جس معاشرے کے بچے اپنی عصمت دری کے مسلسل خوف میں بڑے ہوں اس کا مستقبل آپ سمجھ سکتے ہیں کیسا ہو گا۔

کیا پیڈوفیلیا کا علاج ممکن ہے؟

سہیل گیلانی: مرض کی شدت کے لحاظ سے انفرادی علاج تجویز کیا جاتا ہے۔ پہلے درجے میں وہ مریض ہیں جن کا مرض ہلکی نوعیت کا ہے۔ امریکہ میں ان کے لئے سیکس آفینڈر ٹریٹمنٹ پروگرام کرایا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کی نفسیاتی تعلیم کی جاتی ہے جس میں انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ بچہ کیا ہے، رضامندی کیا ہے اور آبجیکٹی فکیشن کیا ہے۔ یہ پروگرام بارہ ہفتے جاری رہتا ہے۔

دوسرے درجہ پر وہ مریض ہیں جن کے مرض کی شدت درمیانی ہے۔ ان میں ایسی ادویات کے بہت اچھے نتائج آئے ہیں جن سے جنسی رغبت اور صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ اسے کیمیائی آختہ کاری کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مخصوص اینٹی ڈپریسنٹ کے فوائد سامنے آچکے ہیں۔

بہت ہی شدت والے مجرمان کے لئے آپ کے یہاں برطانیہ میں ان افراد کو الیکٹرانک ٹیگ باندھ کر ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا نظام 90 سے ہی کیا جا رہا ہے لیکن امریکہ میں یہ دس سال بعد شروع ہوا۔ ان میں سے کچھ مریضوں کو مکمل حراست میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

فحش فلموں (پورن) اور پیڈوفیلیا کے مابین کوئی تعلق ہے؟

سہیل گیلانی: دیکھا گیا ہے کہ جو افراد بچوں کی فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان میں پیڈوفیلیا کا امکان ہوتا ہے ہو سکتا ہے کچھ لوگ وہ ہوں جو بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار رہے اور اب ان تجربات کو تازہ کرنا چاہ رہے ہوں۔ بہرحال لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ چائلڈ پورن کو تمام مغربی ممالک میں بہت بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے خلاف بڑے سخت قوانین موجود ہیں۔ اس طرح کی دلچسپیاں رکھنے والے قانون کی نظروں سے زیادہ دیر بچ نہیں سکتے، ان کے لئے اچھے روزگار کے تمام دروازے بند ہو جائے ہیں۔ پاکستان میں یہ شعور ناپید ہے۔

کیا چوراہوں پر پھانسیاں لگانے اور مجرم کو بلند عمارتوں سے دھکا دینے سے یہ بیماری ختم کی جا سکتی ہے؟

سہیل گیلانی: بالکل غیر سائنسی اور فرسودہ سوچ ہے جس سے جرم کے اسباب کو سمجھنے اور ان کا انسداد کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ مجرم، مظلوم اور جرم کی شرح کسی کے لئے بہتری کا سامان نہیں ہوتا۔ معاشرہ مزید پرتشدد ہوجاتا ہے۔ عام شہری کا شعور مزید گدلا جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ طاقتور کا ساتھ دینے میں اس کی عافیت ہے۔

معاشرے میں سخت گیر درجہ بندی ختم کر کے جمہوری اقدار اور کھل کر ڈائلاگ سے پیڈوفیلیا کی شناخت کرنے اور اصلاح کرنے میں بہت معاونت ہو سکتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments