شریف خاتون کون ہیں؟


سو سوری رابعہ، میرے چھوٹے بھائی کی شادی، ہفتے بھر کا کلینک اور پھر ڈیڑھ سال تک کورونا کی وبا کی وجہ سے کہیں نہ جانے کے بعد دو چھٹیوں میں اتنی مصروفیت رہی کہ آپ کے سوال کا جواب لکھنے کا وقت قطعاً نہیں مل سکا۔ آپ کا سوال بہت دلچسپ ہے اور میں نے اس بات پر کافی سوچ بچار کی کہ ہماری قوم کے نزدیک ایک شریف خاتون کون ہیں؟ پھر مجھے یاد آیا کہ میں ان شریف خاتون سے کئی شہروں اور ملکوں میں مل چکی ہوں۔

شریف خاتون ایک اٹھاون سالہ خاتون ہیں۔ انہوں نے کوئی دو سال پرانے لان کے ڈیزائن کی شلوار قمیض پہنی ہوئی ہے اور میچنگ کا دوپٹہ سر پر اوڑھا ہوا ہے۔ آج کل کی لڑکیوں کے نئے ٹائٹ رومال کی طرح نہیں رابعہ بلکہ جیسے ہمارے بچپن میں ایسے ہی ڈھیلا سا سر پر دھرا دوپٹہ ہوتا تھا ویسے۔ انہوں نے آگے سے کھلی ہوئی بغیر ہیل کی چپلیں پہنی ہوئی ہیں جن پر کھسے کے ڈیزائن کی کڑھائی ہوئی ہے اور اس میں سے پیر کی انگلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کا قد پانچ فٹ اور وزن دو سو بیس پاؤنڈ ہے۔ ان کے چہرے اور بازوؤں پر جھریاں ہیں اور بال کالی مرچ اور سفید نمک کا مرکب ہیں۔ جو ان کو کسی جج یا بیرسٹر کی طرح باوقار نہیں بلکہ تھکا ہوا اور بوڑھا دکھا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کے ناخنوں میں آٹا لگا ہوا ہے جیسے آنے سے پہلے وہ پراٹھے پکا رہی تھیں اور جلدی سے گھر سے نکلنا پڑا۔ ان میں سے پیاز اور لہسن کے تڑکے کی مزیدار اور جانی پہچانی خوشبو آ رہی ہے۔ چونکہ وہ خود ڈرائیونگ نہیں کر سکتیں، ان کو ان کا امریکی پوتا کلینک لایا ہے جس کو ان کی میڈیکل ہسٹری کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے اور وہ ہر سوال پر بے پرواہی سے کندھے اچکا دیتا ہے۔

وہ کلینک کے باہر ایک گاڑی کی پچھلی سیٹ سے بمشکل خود کو باہر نکال کر آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر شدید گرمی میں سامنے والے دروازے تک پہنچتی ہیں۔ وہ اندر آنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن وہاں پر موجود رضاکار ان کو باہر انتظار کرنے کے لیے کہتا ہے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی اندر جا سکتا ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وبا کے زمانے میں اکٹھے کئی افراد کلینک میں نہیں جا سکتے ہیں۔ صرف پارکنگ لاٹ میں گاڑی سے دروازے تک پہنچنے میں ان کا سانس پھول چکا ہے اور ماتھے پر پسینہ بھی چمکنے لگا ہے۔ میں ان کے پاس سے گزری تو محسوس کیا کہ ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے اپنی امی اور اپنی ساس یاد آ گئیں جن کی ٹانگیں اسی طرح ان کو نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ میں نے رضاکار سے درخواست کی کہ باہر گرمی ہے، ان کو دروازہ کھول کر ایک کونے میں کرسی پر بٹھا دیں۔

شریف خاتون کو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول، مٹاپے پن، جوڑوں میں تکلیف اور ڈپریشن کے امراض لاحق ہیں۔ ان کو اپنی دواؤں کے نام معلوم نہیں ہیں، صرف رنگوں اور ساخت سے پہچانتی ہیں۔ ان کو فون ملا نا نہیں آتا اور نہ ہی کمپیوٹر استعمال کرنا ان کو آتا ہے۔ ان کا اپنا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے اور وہ صرف اپنی مادری زبان جانتی ہیں۔ وہ اپنی دوائیں پابندی سے نہیں لے سکتیں کیونکہ جب دوا ختم ہو جائے تو کسی رشتہ دار یا بچے کو کہنا پڑتا ہے کہ اور دوا لا دے یا فارمیسی یا کلینک لے جائے۔ شریف خاتون نے قرآن کے علاوہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ باہر کا ویزا حاصل کرنے کے لیے ان کے بچوں نے ان کو اپنا نام لکھنا سکھا دیا تھا تاکہ ان کو انگوٹھا نہ لگانا پڑے۔

شریف خاتون اپنے ہر بچے پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں۔ وہ کس سے دوستی کریں، کس سے شادی کریں، کہاں نوکری کریں اور کیا پڑھیں وہ سب شریف خاتون اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ کہیں سیدھی انگلیوں سے گھی نکل جاتا ہے اور کہیں ان کو انگلیاں ٹیڑھی کرنا پڑتی ہیں۔ شریف خاتون کے ایک بیٹے نے اپنے سسر کو گھر میں رکھ لیا تو شریف خاتون نے ان بڑے میاں کو نکلوا دیا کہ یہ تو میرے بیٹے کا گھر ہے، آپ اپنے بیٹے کے گھر جا کر رہیں، بیٹی کے گھر نہیں رہ سکتے۔ دوسرے بیٹے نے اپنے سالے کو ایک کمرہ دیا تاکہ وہ ان کے شہر میں کالج جائے تو اس کی بھی چھٹی کروا دی گئی۔ معلوم ہے رابعہ، ان کے منجھلے لڑکے نے پسند کا بیاہ کر لیا۔ وہ اور اس کی گوری دلہن شادی کے جوڑے میں پھول ہاتھ میں لیے شریف خاتون کے گھر پہنچے تو انہوں نے چارپائی پر لیٹے لیٹے اپنا جوتا ان پر پھینکا اور اپنی مادری زبان میں گالیاں دیں۔ شریف خاتون کی وجہ سے بہت لوگوں کے دل ٹوٹے اور بہت لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ انہوں نے تمام زندگی اپنی اور اپنی اولاد کی بقا کے لیے بہت لوگوں کو نقصان پہنچایا لیکن پھر بھی دن کے آخر میں (حتمی تجزیے میں) وہ ایک شریف خاتون ہیں۔

شریف خاتون ایک مرتبہ ایک ویگن میں اپنے میکے چلیں تو اس کا ڈرائیور سارے راستے ان کی ٹانگ کو بار بار چھوتا رہا۔ اس سے وہ شدید دہشت زدہ ہوئیں لیکن اپنا اسٹاپ آنے پر جلدی سے اتر کر اپنے راستے ہو لیں۔ اس بات کا ذکر انہوں نے کبھی کسی سے نہیں کیا۔ ایک شریف خاتون کبھی ایسی بات کسی کو نہیں بتاتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ کسی کو پتا چل گیا تو وہ خود ہی میلی لگیں گی۔ اسی رات ٹی وی پر خبر آئی کہ شہر میں کسی لڑکی کا ریپ ہوا تو بولیں ہوگی کوئی آوارہ!

شریف خاتون ایک شریف خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی پیدائش گھر پر ہی ہوئی تھی اور پیدائش کے دوران ان کی ماں کی وفات ہو گئی تھی۔ گھر سے باہر جانا اور لیڈی ڈاکٹر سے علاج کروانا ان کے خاندان میں ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ ان کے والد نے جلد ہی دوسرا بیاہ کیا اور شریف خاتون ایک سوتیلی بیٹی بن گئیں جن کا کام اپنے چھوٹے بہن بھائی سنبھالنا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں ان کو کسی جاننے والے سے بیاہ دیا گیا تھا۔ اپنے شوہر کو انہوں نے سہاگ رات میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ اس شادی میں ان کے ایک کے بعد ایک گیارہ بچے پیدا ہوئے۔ پچپن سال کی عمر میں شریف خاتون کے تمام دانت گر چکے ہیں۔ وہ صبح اٹھ کر زمین پر بیٹھ کر جلنے والے چولہے میں تمام گیارہ بچوں اور ان بچوں کے بچوں کے لیے پراٹھے پکاتی رہی ہیں۔ شریف خاتون کے پاس نہ ہی اپنے پیسے ہیں، نہ نوکری ہے اور نہ ہی ان کے نام سے گھر کے معاملات سے متعلق کوئی دستاویز آتی ہے۔ مکان کی ملکیت سے لے کر بجلی کے بل تک سے ان کا نام غائب ہے۔ کوئی سات آٹھ برس بعد ان کی اپنے شوہر میں دلچسپی پیدا ہوئی لیکن اس وقت تک وہ اوبھ چکے تھے۔ شریف خاتون کو کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی کیونکہ یہ شریفانہ چلن نہ تھا۔ سردی کے موسم میں جب ان کی جاں پر حرارت رہتی تو دھوپ میں نوکرانیوں سے مالش کرواتیں اور خزاں کی لمبی راتوں میں لحاف عجیب و غریب ہیتیں بناتا۔ لیکن شریف خاتون کے اندر ایک طاقت تھی۔ وہ طاقت ان کے گیارہ بچے تھے۔ انہوں نے وقت کے ساتھ سیکھ لیا کہ کس طرح ان کی زندگی، فلاح اور بہبود کا دار و مدار ان کے بچوں اور ان کی تنخواہوں پر ہے۔

شریف خاتون کو ہماری قوم نسل در نسل سے جانتی ہے۔ شریف خاتون اخبار نہیں پڑھتی ہیں، وہ ووٹ ڈالیں بھی تو اسی کو ڈالیں گی جس کے بارے میں ان کو حکم دیا گیا ہو۔ شریف خاتون کے پاس پچپن سال کی عمر میں دکھانے کے لیے کوئی معرکے، کوئی سرٹیفکٹ یا کوئی ایوارڈ نہیں ہیں۔ نہ انہوں نے کوئی اسکول بنایا نہ ہسپتال۔ ان کی زندگی انہوں نے خود نہیں گزاری بلکہ ان کی زندگی ان کے اردگرد کے افراد نے گزاری ہے۔ اور وہ خود بھی اپنی زندگی نہیں گزار رہی ہیں بلکہ اپنے بچوں کی زندگی گزار رہی ہیں۔ کیا ان کی وجہ سے ان کے اردگرد کے افراد کی زندگی بہتر ہوئی یا بدتر؟ یہ سوالات سوچنے کے لائق ہیں۔

شریف خاتون کے شریفانہ طریقہ حیات کے ان کے خاندان، محلے، شہر اور ملک پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کا ازالہ شاید اگلی سات نسلیں نہ کر پائیں گی۔ لیکن پھر بھی دن کے آخر میں وہ ایک شریف خاتون ہیں۔ وہ جانی پہچانی ہیں۔ وہ اسی نظام کا حصہ ہیں جن سے ہماری قوم سمجھوتا کرچکی ہے۔ شریف خاتون کو دیکھ کر اور ان کے طریقہ حیات کو دیکھ کر کسی کو پریشانی نہیں ہوتی کہ معلوم نہیں ان کا راستہ کل کیا دکھائے گا؟ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا کل بھی گزرے ہوئے کل ہی کی طرح ہوگا۔ تبدیلی سے ہم گھبراتے ہیں۔ دنیا چاہے بدلتی جائے لیکن ہمارا اس کے ساتھ بدلنا کیوں ضروری ہو؟ جو بھی ہے بس یہی اپنا ہے۔ اسی لیے ہم نسل در نسل اپنی بیٹیوں کو یہی شریف خاتون بنانے میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments