ہماری لڑکیاں


اس بات کو ماننے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں حقوق نسواں کے لیے جتنی تحریکیں چلیں، جتنے سیمینار ہوئے، جتنے موم بتی والے احتجاج ہوئے، جتنی شعلہ بیان تقاریر کی گئیں، جتنے عورت مارچ ہوئے ؛ سب بے سود اور بے فائدہ رہے، سب دعوے زمیں بوس ہو گئے، سب نعرے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں آج سے صدیوں پہلے زمانہ جاہلیت کے وہ لوگ کھڑے تھے جو اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ہمارے رویوں اور برتاؤ میں رتی برابر فرق نہیں آیا، نہ عمل بدلا، نہ سوچ، نہ ظلم کم ہوا، نہ جرم کو جرم کہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

اگر آپ کو اتفاق ہوا ہو کہ کسی ایسے سیمینار میں جانے کا جہاں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کی جا رہی ہو، کچھ شعلہ بیان مقررین حقوق نسواں کے حوالے سے پالیسی بیان دے رہی ہوں، کچھ لیڈران کرام خواتین کے حقوق کے مطالبات پیش کر رہے ہوں تو اس سیمینار سے نکل کر آپ ضرور سوچتے ہیں کہ اس علم افروز گفتگو کا نتیجہ کیا ہے؟ مطالبات کیا ہیں؟

مجھے ایسے سیمینارز میں جانے کا اکثر اتفاق ہوتا ہے اور ان تمام بصیرت افروز بحثوں کو غور سے سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خواتین کے یہ مطالبہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کی عزت کی جائے بلکہ وہ تو یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان کی توہین کچھ کم کی جائے، بے عزتی پہلے سے کم کی جائے، مار پیٹ میں کمی کی جائے، تشدد اور جنسی ہراسانی میں کمی کی جائے۔ اس سماج نے خواتین کو یہ جرات ہی نہیں دی کہ وہ یہ مطالبہ کر سکیں کہ ان کی عزت کی جائے، ان کا احترام کیا جائے، ان کو برابری کے مواقع دیے جائیں، ان کو برابر کی تنخواہ اور ترقی کے مواقع نصیب ہوں۔ یہ بہت دور کی کوڑی ہے اس معراج پر پہنچنے کے لیے ہمیں مزید کئی صدیاں درکار ہیں۔

تعلیم، ملازمت، خوراک اور صحت میں برابری کے مواقع تو بعد کی بات ہے، اصل مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ خواتین پسند کی شادی کر سکتی ہیں کہ نہیں، اس پر غیرت ایسے جوش مارتی ہے کہ اس خواہش کے اظہار کی سزا کم از کم قتل ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، مریخ تک کو مسخر کر لیا، سائنس نے کیا کیا ایجادات کر لیں لیکن ہماری سوئی اسی نقطے پر پھنسی ہوئی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی یہ بات سنے تو دانتوں تلے انگلیاں داب لے اور ضرور یہ سوچے کہ یہ کیسا جانوروں کا معاشرہ ہے کہ جہاں خواتین اپنی مرضی سے جیون ساتھی منتخب نہیں کر سکتیں، کسی کو پسند نہیں کر سکتیں، کسی سے اظہار محبت نہیں کر سکتیں تو وہ ہمیں غاروں کے دور میں رہنے والے اجڈ گنوار اور جاہل کہیں گے لیکن ہم اس سب سے پرواہ ہو کر عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل میں مصروف ہیں۔ اس معاشرے میں مرد کو چار شادیوں اور کم از کم چالیس افیئرز فخریہ چلانے کا حق ہے مگر عورت کی یہ خواہش ہی اس سماج کا سب سے بڑا جرم ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ آنے والے وقتوں کے لوگ ہماری جہالت کے قصے اسی طرح بیان کریں گے جس طرح آج ہم نفرت کے ساتھ زمانہ جاہلیت کے ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں کہ جو اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔

اس سارے واقعہ میں سیاسی مصلحتوں کا بہت دخل ہے۔ ریاستی سطح پر ہمارا حقوق نسواں کا بیانیہ صرف بیانات تک محدود رہا ہے۔ بیشتر علاقوں میں اب بھی پولیس غیرت کے نام پر قتل کی ایف آئی درج کرنے سے ہچکچاہٹ سے کام لیتی ہے اور اسے گھریلو معاملہ کہہ کر نپٹا دیا جاتا ہے۔ اب بھی خواتین کی تعلیم کو بے راہ روی کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ اب بھی گھریلو ملازماؤں سے لونڈیوں جیسا سلوک رکھنے میں عار نہیں سمجھی جاتی، اب بھی بیٹے کو کماؤ پوت اور بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اب بھی خواتین کی ملازمت کو فحاشی تصور کیا جاتا ہے، اب بھی گھر والی پر تشدد کی اخلاقی دلیلیں اور توجیہات پیش کی جاتی ہیں، اب بھی ڈراموں میں خواتین پر مظالم کا پرچار ”سیلنگ پوائنٹ“ سمجھا جاتا ہے، اب بھی ملازمت پیشہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا قابل مذمت تصور نہیں کیا جاتا، اب بھی اعلیٰ تعلیم کے دروازے خواتین پر بند ہیں، اب بھی روٹی نہ پکانے والی خواتین کو معاشرے کے لیے مضر قرار دیا جاتا ہے، اب بھی موٹر سائیکل چلاتی لڑکی باغی کہلاتی ہے، اب بھی جینز پہنے پر فتوے دیے جاتے ہیں، اب بھی برقع شرافت کا معیار ہے۔

ہم اتنے شدت پسند نہیں تھے ؛ ضیاء الحق کے دور سے پہلے خواتین ہمارے لیے عجوبہ نہیں تھیں لیکن اس دور قبیح کے بعد پی ٹی وی پر دوپٹہ فرض ہو گیا، ڈرامے کے کسی رومانی منظر میں بھی روحانیت کا یہ ہالہ لازم ہو گیا۔ نیوز کاسٹر اور اداکارائیں سب اسی رنگ میں رنگی گئیں۔ اس دور کے بعد خواتین پر مظالم کا تاریک دور ہم پر منجمد ہو گیا۔ اب بھی عمران خان کو جب خاص قسم کے مذہبی شدت پسند عناصر کی مدد درکار ہوتی ہے تو بیان سامنے آتا ہے کہ خواتین کا لباس ”ریپ“ کا سبب بنتا ہے۔ اسی وزیر اعظم کو جب میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر اپنی روشن خیالی کا ثبوت دینا ہوتا ہے تو اسی بیان کی تردید سامنے آ جاتی ہے، اس دور میں بھی حکومت کا ایک وزیر بھرے جلسے میں ایک خاتون لیڈر کے منہ پر تھپڑ برسانے کے عزم صمیم کا اعادہ کرتا ہے، وزیر اعظم تبسم فرماتے ہیں اور مجمع پرجوش نعروں سے گونج جاتا ہے، اب بھی خواتین لیڈروں کے بارے میں غلیظ ٹرینڈ سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ یہ معاملات اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک ریاست ایک متفقہ اور متوازن بیانیہ لے کر سامنے نہیں آتی، جب تک سیاسی ضرورتوں کے تحت خواتین کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں گی اس وقت تک یہ سماج، یہ معاشرہ اسی طرح چلتا رہے گا؟

ریاست اپنا بیانیہ نہیں بدلے گی تو گڑیوں سے کھیلتی، گڈی گڈے کی شادی کرواتی، کانچ کی چوڑیاں پہنتی، ہاتھوں کو مہندی سے سجاتی، سپنوں کے شہزادوں کا انتظار کرتی، اردو شاعری کے محبوب کے عشق میں مبتلا خواتین، ڈراموں میں ہیرو کی بے وفائی پر دیر تک روتی لڑکیاں اسی طرح مار کھاتی، تشدد کا نشانہ بنتی، جلتی، کٹتی، مرتی اور قتل ہوتی رہیں گی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments