خواجہ سرا نایاب علی۔ گوہر نایاب ہو تم


1913 میں ایلینر پورٹر کا بچوں کے لئے تحریر کردہ ناول ’پولیانہ‘ شائع ہوا۔ پولیانہ ایک خوش گمان اور رجائیت پسند بچی کا کردار ہے جو منفی واقعات و حالات میں بھی مثبت پہلو تلاش کر لیتی ہے اسے وہ glad game کا نام دیتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پورے قصبے کو اس کھیل کا شائق بنا لیتی ہے اور اس عمل سے وہ اپنے قصبے کے لوگوں کی زندگی میں امید اور مسرت کا مثبت تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ 1970 میں دو محققین مٹلن اور اسٹانگ (Matlin and Stang) نے اس مثبت انداز فکر (positive bias) کو پولیانہ پرنسپل کا نام دیا۔

مٹلن اور اسٹانگ کے مطابق کوگنٹو پراسس (cognitive processes) خوشگوار پیغامات کو ناخوشگوار پیغامات پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ حکمت عملی ہمیں امید، مثبت سوچ اور ناخوشگوار یادوں کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنا سکھاتی ہے وہ سب جو کارزار حیات میں روزمرہ مسئلوں سے نمٹنے اور افراد کے آپس کے تعلقات میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ”

ریسرچ کے مطابق ہمارا لاشعور خوشگوار لمحات و واقعات کو ناخوشگوار واقعات پر ترجیح دیتا ہے لیکن شعوری طور پر ہم ناخوشگوار واقعات کو زیادہ یاد رکھتے ہیں اگر ہم شعوری طور پر مثبت انداز فکر کو اپنا لیں تو نہ صرف روزمرہ کے حالات میں افسردگی سے بچا جاسکتا ہے بلکہ یہ طرز فکر زندگی کے ناخوشگوار اور تلخ تجربات کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

آج ہم جس حقیقی کردار کی کہانی بیان کر رہے ہیں ان کی زندگی پولیانہ پرنسپل کا بھرپور عملی نمونہ ہے۔ معاشرے نے ان سے انتہائی ہتک آمیز اور ایذا رساں رویہ اختیارکیا اور زندگی نے بارہا پاتال میں پٹخا لیکن ان تلخ تجربات نے مایوسی اور یاسیت کے بجائے ان کے حوصلے کو مہمیز کیا اور وہ اپنی نگاہ امید کی کرن پر مرکوز کیے روشنی کا سفر طے کرتی رہیں۔ ان کی زندگی تلخ ترین حقائق، کریہہ المنظر واقعات اور تکلیف دہ رویوں کے موڑ کاٹتی ہوئی ہمت، لگن، ولولے اور علم کی کمند سے ستارے تسخیر کرنے کی کہانی ہے۔

=================================

اوکاڑہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہونے والے پانچویں بچے کا نام ارسلان رکھا گیا۔ اٹھ دس سال کی عمر میں یہ حقیقت مترشح ہو چلی تھی کہ مردانہ نام کے باوجود بچے میں لڑکیوں کی نزاکت اور بانکپن تھا اس کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں نسوانیت تھی۔ اسکول میں اساتذہ اور ساتھی طلبہ کی جانب سے تحقیر آمیز سلوک روا رکھا جاتا کوئی اسے زنخا کہتا تو کوئی ہیجڑا کہہ کر تذلیل کرنے کی کوشش کرتا۔ کوئی اس کا دوست بننے کو تیار نہ تھا اسے جسم کے مختلف حصوں پر چھڑی مار کر سدھرنے کا حکم صادر کیا جاتا۔

محلے میں لوگ آوازہ کستے مرد نہ عورت تم ہو مورت۔ ارسلان کے گھر والے اسی معاشرے کا حصہ تھے لوگوں کے تضحیک آمیز القابات پر وہ اشتعال میں آتے اور ارسلان پر سختی کرتے کہ وہ اپنی چال ڈھال اور بولنے میں زنانہ پن سے اجتناب کرے۔ لیکن ارسلان کی پیڑ سمجھنے کو کوئی تیار نہیں تھا کہ وہ ایسا جان بوجھ کر نہیں کرتا اگر اس کی تخلیق میں کوئی کجی ہے تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر بھی مردانگی کے آثار نمودار نہیں ہوئے تو یہ بات طے ہو گئی کہ اللہ نے اسے مخنث پیدا کیا ہے۔

لیکن نہ تو والدین یہ بات تسلیم کرنے پر تیار تھے۔ نہ معاشرہ تیسری جنس کو انسان سمجھنے پر آمادہ تھا۔ معاشرے نے مرد اور عورت کے دو خانے ترتیب دے لئے ہیں اور اس کے باہر موجود خلق خدا کے وجود کو انسانیت کا درجہ دینے کے بجائے حشرات الارض سمجھا جاتا ہے۔ تیرہ سال کی عمر تھی جب سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات میں ارسلان کو گھر سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس کی والدہ کی احتجاج کرتی زبان طلاق کی دھمکی کی درانتی سے کاٹ دی گئی۔ وہ رات ارسلان نے فٹ پاتھ پر یہ سوچتے ہوئے گزاری۔

یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں

والدہ اسے اپنے گھر میں تو نہ رکھ پائیں لیکن انہوں نے اپنی والدہ سے مدد مانگ لی اور یوں ارسلان نانی کے گھر میں پناہ گزین ہو گیا۔ دو سال وہ نانی کی چھاؤں تلے دل لگا کر پڑھتا رہا۔ لیکن تقدیر کے امتحان ابھی باقی تھے۔ میٹرک کے امتحان میں کامیابی کی نوید لے کر گھر پہنچا تو اجل کا ظالم پنجہ اس کی واحد ہمدرد نانی اماں کے ساتھ اس کی چھت بھی چھین چکا تھا۔ ماموں اور ممانی نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ مزید اس کا وجود اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتے۔

اس کی ہستی کو دنیا میں لانے والے ماں باپ اس سے لا تعلق ہو چکے ہیں تو وہ کیوں یہ بوجھ اٹھائیں۔ اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں ہی میں چلا جائے۔ اس دوران ارسلان نے مولانا غلام یاسین سے، فقہ اور صحاح ستہ کی تعلیم حاصل کی وہ اسلام میں خواجہ سرا کی حیثیت جاننا چاہتا تھا۔ ساتھ ہی وہ خواجہ سرا کمیونٹی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتا رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خواجہ سرا کمیونٹی کے کسی گرو کے زیر سایہ چلا جائے گا۔

اسے اب ارسلان نام کے جھوٹے لیبل کی حاجت نہ تھی۔ وہ نایاب علی کے نام سے خواجہ سرا کے ایک محلے میں بس گئی۔ اس کمیونٹی کا حصہ بننے کے بعد نایاب کو سکون، راحت تحفظ اور اپنے پن کا وہ احساس ملا کہ پھر اس چار دیواری کے باہر کی دنیا میں لوٹنے کا جی ہی نہیں چاہا۔ یہاں کوئی اس کا مذاق نہیں اڑاتا تھا، کوئی اسے ذلت آمیز القاب سے نہیں پکارتا تھا وہ سب اس کے جیسے تھے اور وہ ان جیسی تھی۔ ان کی طرح اس نے کبھی بھکاری اور کبھی ناچنے گانے والی کا کردار نبھایا کیونکہ اس تنگ نظر، کوتاہ دامن معاشرے میں خواجہ سرا کے لئے کسی اور کسب کے مواقع ہی نہیں۔

نایاب کے دل میں اکثر ماں کی یاد چٹکیاں لیتی اور اس کے کانوں میں آواز گونجتی۔ وہ اس کے بہن بھائیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی تھی ”، بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنو عزت پاؤ“ ۔ نایاب نے یہ بات آنچل سے باندھ لی تھی اسے پڑھ لکھ کر عزت پانی تھی۔ اگرچہ یہ خواہش انہونی تھی لیکن اس کے گرو نے اس کی ہمت افزائی کی۔ نایاب نے پنجاب یونیورسٹی سے نباتیات میں بی ایس سی آنرز کیا اور پھر پریسٹن یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کیا۔

انہی دنوں زندگی اسے ایک نئے موڑ پر لے آئی۔ ایک خواجہ سرا جنسی زیادتی کا شکار ہوئی تو سب نے اسے عمومی واقعہ گردانتے ہوئے بھول جانے کا مشورہ دیا لیکن وہ دم کٹی چھپکلی کی طرح تڑپتی ہوئی نایاب کے پاس آئی اور اس کے تعلیم یافتہ ہونے کا واسطہ دے کر مدد کی درخواست کی۔ نایاب اصولی طور پر اس سے متفق تھی ایسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ نایاب اس کے ساتھ تھانے گئی اور ایف آئی آر درج کروائی۔ تاہم بھیڑیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے شیر کا جگر چاہیے ہوتا ہے زیادتی کا شکار ہونے والی خوجہ سرا میں وہ جرات اور استقامت نہیں تھی۔

فریقین میں صلح نامہ طے پا گیا۔ نایاب نے اولوالعزمی دکھائی تو دشمنی کا رخ اس کی طرف موڑ دیا گیا اور اسے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ تین مہینے بستر علالت پر گزارنے کے باوجود نایاب کا حوصلہ شکستہ نہ ہوا۔ دوبارہ زندگی ملنے کو نایاب نے آگے بڑھنے کا ایک اور موقع جانا۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے بعد خوف بے معنی ہو گیا اور وہ فینکس (phoenix) کی طرح بجھی ہوئی راکھ سے نشاة ثانیہ پاکر اونچی اڑان کے لئے پر تول کر کھڑی ہو گئی۔

اس نے باقاعدہ طور پر خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اب اس کی زندگی کا ہر لمحہ اس پسے ہوئے طبقے کی بہتری، بھلائی اور کسمپرسی سے نجات کی جد و جہد کے لئے وقف تھا بالآخر شبانہ روز محنت رنگ لائی اور سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مقننہ کے ذریعے قانون تحفظ حقوق خواجہ سرا 2018 منظور کر لیا گیا۔ نایاب اس کے مسودہ کے تحریر کرنے والوں میں شامل تھیں۔ شناختی کارڈ میں تیسری جنس کا اضافہ کیا گیا اور پاسپورٹ پر بھی مرد، /عورت/x کا اندراج کیا جانے لگا۔ سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد خواجہ سرا کا کوٹا مختص کیا گیا۔ اس کی ایک مثال خواجہ سرا فیصلہ کریں جو نائب قاصد کے طور پر سرکاری نوکری کر رہے ہیں اس کے علاوہ پولیس میں بھی بھرتی کی گئی۔

نایاب کی خدمات کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی طور پر کیا گیا۔ سنہ 2020 میں انہیں تین بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

1۔ فرینکو جرمن ایوارڈ فار ہیومن رائٹس
2۔ ہیرو ایشیا ایوارڈ
3۔ گالاز انٹرنیشنل ایکٹیوسٹ ایوارڈ

اس کے علاوہ UNDP (United Nations development programme) نے انہیں جینڈر اییکوئلٹی ایکٹیوسٹ ایوارڈ (gender equality activist award ) عطا کیا

انہوں نے SWERA (Social work، encouragement، recognition and appreciation award) اور پی سی بی کا ہیرو ایوارڈ بھی حاصل کیے۔

وہ UNDP میں ٹرانس جینڈر رائٹس کنسلٹنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔

وہ پہلی خواجہ سرا ہیں جو اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمEVAWG (Ending violence against women and girls) پاکستان چیپٹر کی سربراہ بنی ہیں۔ وہ پہلی خواجہ سرا ہیں جن کی کمپنی بنام ٹرانس جینڈر رائٹس کمپنی SECP میں رجسٹرڈ ہے۔

انہوں نے تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع نہیں کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے وومن اینڈ جینڈر اسٹڈیز میں ایم فل کیا۔ وسائل کی کمی کے سبب انہوں نے ایم فل آن لائن کیا لیکن اب وہ ایک ریگولر اسٹوڈنٹ کے طور پر پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ٹرانس جینڈر رائٹس پر ان کے کئی ریسرچ پیپر شائع ہوچکے ہیں جن میں تازہ ترین ہے۔ impact of covid 19 on transgenders in KPK

وہ مصنفہ بھی ہیں ان کی کتاب ”اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا نظام“ منظر عام پر آ چکی ہے۔

وہ پولیس، ججز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے capacity building workshop منعقد کرتی ہیں۔ پولیس کے لئے standard operating procedures پر لیکچر دیتی ہیں۔

Gender biased violence جینڈر با ایسڈ وایولینس کے موضوع پر ججز کے لئے ایک ورکشاپ کے دوران انہوں نے اچانک سوال کیا

”خواجہ سرا کا لفظ سن کر آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے“
حسب توقع جوابات کچھ اس طرح تھے۔ مظلوم، بھکاری، ناچنے گانے والا، انگلیاں کھول کر تالیاں بجانے والا۔

نایاب نے کہا ”آپ کے ذہن میں کوئی استاد، کوئی جج، کوئی پولیس افسر کیوں نہیں اتا۔ کبھی آپ نے سوچا کوئی خواجہ سرا اس ہال میں آپ کو لیکچر دے رہا ہو“ ان کی اس بات پر استہزائیہ ہنسی کی بھنبھناہٹ ہال میں پھیل گئی لیکن اگلے ہی لمحے شہر خموشاں کا سا سناٹا چھا گیا جب نایاب علی نے جرآت مندانہ کہا

”میں ایک خواجہ سرا ہوں“ ۔

نایاب کو اندازہ ہے کہ تعلیم ہی خواجہ سرا کو اس اسٹیریو ٹائپ امیج سے نجات دے سکتی ہے اس لئے انہوں نے 2017 میں اوکاڑہ میں خواجہ سرا کمیونٹی کے لئے اسکول شروع کیا۔ اس کا نصاب روایتی نہیں بلکہ اس کے مخصوص طلباء کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس اسکول میں مروجہ تعلیم کے علاوہ ووکیشنل ٹریننگ اور ڈرائیونگ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

نایاب نے 2018 میں NA۔ 42 سے الیکشن میں حصہ لیا۔ اگرچہ انہیں صرف 1200 ووٹ ہی ملے تاہم ان کا کہنا ہے یہ حقیقی ووٹ تھے جو بغیر کسی لالچ اور دباؤ کے دیے گئے۔

پاکستان میں تقریباً چار لاکھ خواجہ سرا ہیں لیکن صرف چار ہزار نادرا میں رجسٹر ہیں۔ ان کے حقوق کے حصول کے لئے ان کی صحیح تعداد کا تعین ضروری ہے۔ ویکسینیشن کے دوران بھی یہ مسئلہ درپیش رہا۔ نایاب خوجہ سراؤں کے لئے اگہی، معاشی استحکام اور معاشرے میں باعزت مقام کے حصول کے لیے پیہم بر سر پیکار ہیں۔ یہ راستہ آسان نہیں، نومبر 2020 میں ایک بار پھر ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ساڑھے تین گھنٹے تک انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن نایاب کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے گھر میں تنہا رہتی ہیں۔ اور اپنی ہمہ جہت دلچسپیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ انہیں زندگی سے شکایت نہیں، بس عید کے دن وہ اداس ہوجاتی ہیں۔ انہیں ایک بے نام سا انتظار رہتا ہے شاید باپ کی طرف سے عید مبارک کا پیغام اجائے یا بھائی عیدی بھجوا دے یا بہن ایک فون ہی کر لے۔

نایاب کا ایک شعر ہے
میرے باپ کے پانچ بچے تھے
دو لڑکے دو لڑکیاں اور میں
وہ کہتی ہیں ” ’میں‘ استثنا ہے محبت، شفقت اور اپنائیت کے لئے۔“

میری دعا ہے خدا کرے معاشرے کی سوچ بالغ ہو اور کوئی والدین اپنے گھر جنم لینے والی تیسری جنس کو اپنی محبت، شفقت اور اپنائیت سے مستثنیٰ نہ کریں۔ ٹی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments