طالبان کے تازہ مقبوضات میں شہریوں کی حالت زار


لاطینی امریکہ کا ایک بہت بڑا لکھاری تھا۔ نام تھا اس کا گبرائیل گارسیا مارکوئز۔ اس کے دوست اور مداح اسے محبت سے ’’گابو‘‘ پکارتے تھے۔ گابو نے دور حاضر کے حقائق کو ایسے انداز میں بیان کرنے کا ہنر دریافت کیا جو زمانہ قدیم میں طلسماتی داستانیں بیان کرنے کو اپنایا جاتا تھا۔ اس کی دریافت کو Magical Realismپکارا گیا۔ اردو میں غالباََ طلسماتی حقیقت پسندی کہا جاسکتا ہے۔

گابو کا ہنر مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ اس کے ذکر کی وجہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب ہے جو اس کے بیٹے نے لکھی ہے۔ اس کتاب میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کہ اپنی موت سے کئی برس قبل گابو اپنی یادداشت سے بتدریج محروم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر نے جب اس کے مرض کی پہلی بار نشاندہی کی تو گابو گھبرا گیا۔ نہایت بے بسی سے اپنے بیٹے کے سامنے دہراتا رہا کہ اس کی یادداشت ہی تووہ خام مال فراہم کرتی ہے جو اس کے شہرئہ آفاق ناولوں کی تخلیق کا سبب ہوا۔ یادداشت کی قوت سے محروم ہوکر وہ بقیہ زندگی کیسے بسرکرسکتا ہے۔ یادداشت کھودینے کے باوجود تاہم وہ کئی برس تک زندہ رہا اور اس کی بیوی اور بچے قصے کہانیوں سے مالا مال ذہن کے اجاڑ ہوجانے کے بعد گابو کی خاموشی اور تنہائی کو اذیت ناک صدمے کی صورت طویل عرصے تک بردداشت کرتے رہے۔

میری مرحومہ والدہ بھی اپنے انتقال سے کئی برس قبل یادداشت سے بتدریج محروم ہوگئی تھیں۔ گابو کے فرزند کی لکھی کتاب پڑھتے ہوئے کئی بار محسوس ہوا کہ وہ میرا دکھ بیان کررہا ہے۔ وہ بنیادی طورپر فلم ساز ہے۔ اپنے باپ کے اختتامی برسوں کو ایک کتاب کے ذریعے بیان کرنے سے اس لئے بھی گھبراتا رہا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ایک مہا لکھاری کے آخری دنوں کی چشم دید گواہی مرتب کرتے ہوئے خود بھی ایک لکھاری کے طورپر مشہور ہونا چاہتا ہے۔ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ مذکورہ الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا۔ سوشل میڈیا کے غلام ہوئے دور حاضر میں بے بنیاد الزامات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اسی باعث گابو کے بیٹے نے عصر حاضر کو Age of Vulgarityکہا۔

Vulgarity ہمارے ہاں عموماََ فحاشی کا مترادف تصور ہوتی ہے۔ گابو کے بیٹے نے مگر اس لفظ کو اس یاوہ گوئی کو عیاں کرنے کے لئے استعمال کیا ہے جو سوشل میڈیا پر کاملاََ حاوی ہوچکی ہے۔ اس کی بدولت مخالفین کی چسکہ بھری غیبت سے بھد اڑانا ہی مقصود ہوتا تو شاید حساس افراد اتنے پریشان نہ ہوتے۔ سنگین تر مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا نے جو اندھی عقیدت ونفرت متعارف کروائی ہے وہ ہمیں عام انسانوں کے حقیقی اور کئی صورتوں میں انتہائی تکلیف دہ مسائل پر توجہ دینے کی صلاحیت وسکت سے بھی محروم کر رہی ہے۔ افغانستان کی سنگین تر ہوتی صورتحال کی سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی ’’رپورٹنگ ‘‘ اس کی بدترین مثال ہے۔

کچھ وقت نکال کر ذرا غور کیجئے تو آپ کو فوراََ دریافت ہوجائے گا کہ افغانستان کی تازہ ترین اور دن بدن بگڑتی صورتحال نے لوگوں کو بنیادی طورپر دو مخالف کیمپوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے طاقت ور وہ گروہ ہے جو طالبان کی افغان شہروں کی جانب پیش قدمی کی بابت انتہائی فخرسے شاداں محسوس کررہا ہے۔ اپنے گھروں میں محفوظ بیٹھے بے تحاشہ پاکستانی خوش ہیں کہ خود کو دُنیا کی واحد سپرطاقت سمجھتا امریکہ اربوں ڈالر کے زیاں اورہزاروں جانیں گنوانے کے بعد افغانستان سے ذلیل ورسوا ہوکر فرار ہورہا ہے۔ امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے نظر آنے والی ذلت وندامت ’’افغان باقی کہسار باقی‘‘ والی حقیقت کا مذکورہ گروہ کی دانست میں اثبات بھی ہے۔

طالبان کی مسلسل پیش قدمی کے بارے میں کرکٹ کے میدان میں لگائے چوکے چھکوں کے حوالے سے ہوئی مداح سرائی ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں مقبول انداز کے برعکس افغانستان کی شہری مڈل کلاس کے نمائندے سوشل میڈیا پر اپنی تمام مصیبتوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرارہے ہیں۔ طالبان کو ’’پنجابیوں‘‘ کی کٹھ پتلیاں بتایا جارہا ہے۔ امریکہ سے گلے شکوے بھی ہیں۔ طالبان جب کسی شہر پر قابض ہوجاتے ہیں تو اسے ’’آزاد‘‘ کروانے کے لئے امریکہ سے فضائی حملوں کی فریاد ہوتی ہے۔ اس کے بھیجے B-52 طیارے بمباری سے جو تباہی پھیلاتے ہیں اسے نہایت اطمینان سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا جاتا ہے۔

طالبان کی حمایت اور مخالفت میں دیوانوں کی طرح سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے گروہوں میں سے ایک بھی اس بنیادی سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کہ طالبان جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں عام شہری بھی موجود ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے عام شہریوں کی طرح افغان شہریوں کی اکثریت بھی بنیادی طورپر محض اپنی روزمرہّ زندگی کے بارے میں فکر مند رہتی ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام شہریوں کا تخت یا تختہ والے معرکوں میں الجھے فریقین سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارے حبیب جالب نے 1969کے آغاز میں عام آدمی کی خواہشات کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا تھا:’’روٹی ،کپڑا اور دوا۔ رہنے کو گھر چھوٹا سا۔ مفت مجھے تعلیم دلا۔ میں بھی مسلمان ہوں واللہ‘‘اس نظم کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوال اٹھتا ہے کہ طالبان جب کسی شہر میں داخل ہوجانے کے بعد وہاں قابض ہوجاتے ہیں تو مذکورہ بالا بنیادی ضروریات کے حوالے سے کیا مناظر نمودار ہوتے ہیں۔ ہر گلی میں جنگ ہورہی ہوتو دکانیں اور تندور بند ہوجاتے ہیں۔ اسی باعث عام شہری ہزاروں کی تعداد میں ان شہروں اور قصبات سے نقل مکانی کو مجبور ہوجاتے ہیں جن پر قبضے کی جنگ جاری ہو۔ محض اپنی جان بچانے کے لئے گھروں سے بیوی بچوں سمیت بے گھر ہوئے قافلوں پر نازل ہوئی قیامت سوشل میڈیا پر مگر واہ واہ کرنے والے کسی خاطر ہی میں نہیں لاتے۔

شہروں اور قصبوں کو طالبان سے ’’آزاد‘‘ کروانے کے لئے امریکہ اور افغانستان کے طیاروں کے ذریعے ہوئی بمباری فقط جنگجوئوں ہی کو نشانہ نہیں بناتی۔ ہسپتال،بازار اور گلیوںمیں بہت چائو سے بنائے کئی گھر بھی فضائی بمباری کی وجہ سے آناََ فاناََ کھنڈروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی اور ان کے مخالفین کی جانب سے ہوئی فضائی بمباری شہروں اور قصبوں کو جس تیزی سے ویران اور کھنڈروں میں بدل رہی ہے اس کا سرسری تذکرہ ریگولر میڈیا پر یقینا ہوتا ہے۔ انسانی اذیتوں کی تفصیلات بیان کرنا مگر برسرزمین جائے بغیر ممکن ہی نہیں۔

یمن اور شام میں افغانستان جیسی خانہ جنگی کئی برسوں سے جاری ہے۔ حتمی ’’فاتح‘‘ کا مگر فیصلہ نہیں ہوپایا ہے۔ اپنی ’’فتح‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے خانہ جنگی میں مصروف فریقین نے مگر لاکھوں شہریوں کو دربدر کردیا ہے۔ کم عمر بچے اور بچیاں فاقہ کشی کی وجہ سے محض ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے ہیں۔ دربدر ہوئے شہریوں اور فاقہ کشی کی وجہ سے زندگی کی خوشیوں اور امکانات سے محروم ہوئے بچوں کا مگر کوئی والی وارث نہیں۔ سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے تماش بینوں کو ان کے مصائب کی بنیادی آگاہی بھی میسر نہیں۔ سنا ہے کہ دونوں عالمی جنگوں کے دوران یورپ کے بیشتر شہر بھی آج کے افغانستان،شام یا یمن کی طرح نظر آتے تھے۔ اپنی جبلت میں موجود سفاکی کا اشرف المخلوقات کہلاتے انسان اجتماعی طور پر مگر کوئی علاج ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments