منٹو کا فحش افسانہ؟ ٹھنڈا گوشت


یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی۔ مگر ناکام رہی، اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت نا امیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی، اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر، بپھرے ہوئے لہجے میں کہا
”ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے، جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے۔ جس نے تجھے نچوڑ ڈالا ہے؟ “

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ کلونت کور غصے سے ابلنے لگی۔
”میں پوچھتی ہوں؟ کون ہے چڈو۔ کون ہے وہ الفتی۔ کون ہے وہ چورپتا؟ “

ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
”کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔ “

کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔ کھا واہگورو جی کی قسم۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟ ”
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگرکلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی۔

”قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔ تکا بوٹی کردوں گی، اگر تو نے جھوٹ بولا۔ لے اب کھا واہگورو جی کی قسم۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟ “

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا، کلونت کور بالکل دوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وارکردیا۔ آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کوموٹی موٹی گالیاں دیتی رہیں۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔
”جانے دے اب کلونت! جانے دے۔ “

آواز میں بلا کا درد تھا، کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔ خون، ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گررہا تھا، اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔
”میری جان! تم نے بہت جلدی کی۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔ “

کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔
”مگر وہ کون ہے تمہاری ماں؟ “

لہو، ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا، جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ گئی۔
”اور میں۔ اور میں۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کرچکا ہوں۔ اسی کرپان سے۔ “

کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔
”میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟ “

ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلارہی تھیں، ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔
”گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔ “

کلونت چلائی۔
”میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟ “

ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی۔
”بتاتا ہوں۔ “

یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔
”انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔ “

کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی۔
”ایشر سیاں، تو مطلب کی بات کر۔ “

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔
”مطلب ہی کی بات کررہا ہوں۔ گلا چراہے ماں یا میرا۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔ “

اور جب وہ بات بنانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت! میری جان۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا؟ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ گہنے پاتے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمہیں دے دیے۔ لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔ ”

ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔
”کون سی بات؟ “

ایشرسنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔ جس مکان پر۔ میں نے دھاوا بولا تھا۔ اس میں سات۔ اس میں سات آدمی تھے۔ چھ میں نے۔ قتل کر دیے۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔ چھوڑ اسے۔ سن۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر۔ اس کو اٹھا میں اپنے ساتھ لے آیا۔ ”

کلونت کور، خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔
”کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا۔

”نہیں، ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی بھی چکھ دیکھ۔ “
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔
”ہوں۔ ! “

اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔ راستے میں۔ کیا کہہ رہا تھا میں؟ ہاں راستے میں۔ نہر کی پٹڑی کے پاس، تھوہڑ کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں
”۔ یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔ کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔

”پھر کیا ہوا؟ “
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔

”میں نے۔ میں نے پتا پھینکا۔ لیکن۔ لیکن۔ “
اس کی آواز ڈوب گئی۔ کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا۔
”پھر کیا ہوا؟ “

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کیجسم یک طرف دیکھا، جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔
”وہ۔ وہ مری ہوئی تھی۔ لاش تھی۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔ “
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا، جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments