جنرل ضیا کی جعلی تلاوت اور بے نظیر بھٹو کی سادگی


ضیاء الحق نے مذہب کو اپنے اقتدارکوطول دینے کے لیے جس طریقے سے استعمال کیا، وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اختر وقارعظیم نے بھی ایک واقعہ بیان کیا ہے،جس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے حکمران مذہب کے نام پر قوم کو کس طرح بیوقوف بناتے رہے ہیں۔ ان کے بقول’’ اقوام متحدہ کے ذکر پر مجھے یاد آیا، ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق وہاں خطاب کرنے گئے توقاری خوشی محمد اورٹیلی ویژن کے اناؤنسراظہرلودھی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ صدر کا یہ خطاب پاکستان ٹی ویژن پر براہ راست دکھایا گیا تھا۔ تقریرسے پہلے اظہرلودھی نے اعلان کیا کہ کچھ دیر بعد صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق خطاب فرمائیں گے۔ ان کی تقریرسے پہلے تلاوت کلام پاک سنیے، اور پھراس کا ترجمہ۔ قاری خوشی محمد نے تلاوت کی، پھر قرآنی آیات کا ترجمہ سنایا۔ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ صدرنے کانفرنس ہال سے تلاوت کلام پاک سنانے کا خصوصی انتظام کیا ہے، مقصود بھی یہی تھا۔ قرات کے دوران ہال میں بیٹھے مندوبین کی تصویریں بھی دکھائی جاتی رہیں تاکہ محسوس ہوکہ وہ تلاوت کلام پاک سن رہے ہیں حالانکہ وہ اس وقت صدرپاکستان سے پہلے بولنے والے مقررکی تقریرسن رہے تھے۔ بعض اخبارات میں اس حوالے سے تعریفی خبریں بھی چھپوائی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اظہرلودھی کی اناؤنسمنٹ اور قاری خوشی محمد کی تلاوت اقوام متحدہ کے ہال سے منسلک ایک اسٹوڈیو سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی عمارت میں ایسے کئی اسٹوڈیوموجود ہیں جہاں سے آنے والے وفود کی کیمرہ ٹیمیں اپنی خبریں اورپروگرام تیارکر کے اپنے ملک بھیجتی ہیں۔ ‘‘

اس دورمیں سنسرکی بڑی سخت پابندی تھی۔ ہر پروگرام نشر ہونے سے پہلے ایک کمیٹی دیکھتی۔ بلھے شاہ کا یہ شعر

مسجد ڈھاڈے مندر ڈھاڈے،ڈھاڈے جو کچھ ڈھینڈا

ایک بندے دا دل نہ ڈھائیں، رب دلاں وچ رہندا

عون محمد رضوی نے ایک پروگرام میں ریکارڈ کیا تو سنسرکمیٹی نے مسترد کردیا۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ یہ شعر کچھ دن پہلے وزیراعظم نوازشریف نے پڑھا اور ٹی چینلوں پر سنا بھی گیا۔ چلیں ہم اتنا توآگے آگئے ہیں کہ ہمارے حکمران ایسا شعر سنسرکرانے کے بجائے اسے پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگ معترض بھی ہوئے ہیں جن میں سے ایک صاحب کو وجاہت مسعود نے جواب بھی دیا ہے لیکن معترضین کا قصور نہیں، بند ذہن سے بلھے شاہ کے شعر پلے نہیں پڑتے ۔ بلھے شاہ کے شعر کی کم علموں نے جو گت بنائی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے ۔

شعرمرا بمدرسہ کہ برد

ضیا الحق قاری خوشی محمد سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔ پس منظر میں مجیب الرحمن شامی کو دیکھا جا سکتا ہے

یہ کتاب نوازشریف کے ذکرسے خالی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں، ’’میاں نوازشریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں میاں صاحب کے انٹرویو اورخبروں کی کوریج میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا کہ ان کی تصویرمیں سرکا پچھلا حصہ دکھائی نہ دے کیونکہ ان کے سرکے اس حصے میں بال کچھ کم تھے جنھیں دکھانا وزیراعظم کو پسند نہ تھا۔ اس حوالے سے باقاعدہ تحریری احکامات جاری ہوئے تھے۔ ‘‘ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب ہیرٹرانسپلانٹ شاید اتنا عام نہ تھا، آنے والے برسوں میں شریف برادران نے اپنے گنج کا مسئلہ حل کرلیا، جس سے ان کی شخصیت میں نکھارآیا، اوراس کام کے کرنے والے کوشریف برادران کے سخت ناقد ایاز امیر نے بھی اپنے ایک کالم میں داد دی۔ اختر وقارعظیم بتاتے ہیں کہ جنرل مشرف نے 12 اکتوبرکی رات کو کمانڈو کی جس قمیص کو پہن کر خطاب کیا وہ ان کی اپنی نہ تھی بلکہ ڈیوٹی پر موجود کمانڈو سے مستعار لی گئی تھی۔ اس موقع پر بننے والے گروپ فوٹو میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ تصویرمیں سوٹ کی پتلون نظر نہ آئے۔

اختروقارعظیم نے ضیا اورمشرف کے فراڈ ریفرنڈم کا زمانہ دیکھا، جس میں پی ٹی وی کی ذمہ داری تھی کہ ظاہرکیا جائے کہ لوگ جوق درجوق ان آمروں کوووٹ دینے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آمروں کے آنے پر مٹھائی بانٹنے والے ریفرنڈم کے وقت ستو پی کر کیوں سوئے رہتے ہیں ؟

ضیا کے اس ریفرنڈم، جس کے بارے میں حبیب جالب نے لکھا:

شہر میں ہُو کا عالم تھا

جن تھا یا ریفرنڈم تھا

اختر وقارعظیم بتاتے ہیں ’’مقامی اور مرکزی سطح پرانتظامیہ نے اہتمام کررکھا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پرلوگوں کی قطاریں لگی ہوں لیکن جونہی پی ٹی وی کے کیمرہ مین اپنی فلم بنا کر الگ ہٹتے ، قطارمیں کھڑے لوگ بھی ادھر ادھر کھسک جاتے۔ انتظامیہ بھی انھیں وہاں روکے رکھنے کی بس اس حد تک پابند تھی کہ ٹی وی والے اپنی تصویریں بنا لیں۔‘‘

جنرل پرویزمشرف کے ریفرنڈم کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال تھی۔ پولنگ اسٹیشن ویران تھے لیکن سرکاری ریڈیو اورٹیلی ویژن برابرریفرنڈم میں لوگوں کی دلچسپی کی خبریں نشرکررہے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان فراڈ ریفرنڈموں کی کل وقتی حمایتی بھی اب دھاندلی پر شور مچاتے ہیں۔

اختر وقار عظیم لمبا عرصہ اسپورٹس کے شعبے کے نگران رہے۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں سے ان کا بہت ملنا جلنا رہا۔ اس کتاب میں کرکٹروں کے بہت سے واقعات ہیں۔ 1983ء میں پاکستان ٹیم ظہیرعباس کی کپتانی میں ہندوستان گئی۔ ایک ٹیسٹ جالندھرمیں تھا۔ ضیاء الحق بڑے خوش تھے کہ پہلی باردونوں ٹیمیں ان کے آبائی شہرمیں میچ کھیل رہی تھیں۔ صدر نے فون کیا توظہیرعباس نے کہا کہ وہ اوران کے ساتھی آپ کا آبائی مکان دیکھنے جائیں گے۔ صدر یہ سن کربہت خوش ہوئے، اورظہیرعباس کا مقصد بھی یہی تھا۔ ایسا کوئی پروگرام پہلے سے نہیں تھا، اس لیے اختر وقار عظیم نے ظہیرعباس سے پوچھا: ’’جنرل صاحب کا گھرکہاں ہے کچھ پتا ہے؟‘‘یہ پتا چلانا ہمارا نہیں ہمارے سفارتخانے کے لوگوں کا کام ہے۔ ظہیرنے جواب دیا۔ سفارتخانے والوں کی گھرتلاش کرتے کرتے مت ماری گئی، ایک دوبار انھوں نے اس جھنجھٹ سے جان چھڑانی چاہی لیکن خوشامدی ظہیرعباس راضی نہ ہوئے، انھیں ڈرتھا کہ صدرپاکستان نے واپسی پر پوچھ لیا توکیا ہوگا۔ قصہ مختصر، صدرکا گھر تلاش کرلیا گیا۔

’’پرانی طرزکے بنے گھرکی خالت خاصی خستہ تھی، تقریباً غیرآباد تھا۔ گھرکے برآمدے میں ایک سائیکل والے نے پنکچرلگانے کی دکان کھول رکھی تھی، لیکن گھرکے گیٹ کے ساتھ دیوارمیں نصب جنرل ضیاء کے والد کے نام کی تختی اب بھی موجود تھی۔ ‘‘

اختروقارعظیم نے اس کتاب میں پی ٹی وی سے متعلق شخصیات کوبھی بیچ بیچ میں یاد کیا ہے، جن میں سے سب سے وکھری ٹائپ کے آدمی ہمیں مصلح الدین لگے، جو اپنا مافی الضمیربیان کرنے سے نہیں چوکتے تھے،خواہ سامنے کتنا ہی بااثرشخص کیوں نہ ہو۔ ضیاء دورمیں مشیر اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن کے سامنے کوئی چوں نہ کرتا تھا لیکن مصلح الدین انھیں بھی پلٹ کرجواب دیتے۔ ایک موقع پر جنرل صاحب صدر کی کسی تقریب کی تصویرکشی کے سلسلے میں کئے جانے والے انتظامات پر برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔ روشنی کی جا رہی تھی،اس میں کچھ دیر ہو رہی تھی، مصلح الدین بھی وہاں موجود تھے، وہ کچھ دیر تو خاموش رہے، پھربات ان کی برداشت سے باہرہوگئی تو انھوں نے جنرل صاحب کومخاطب کیا: ’’جناب عالی یہ روشنی بہترتصویربنانے کے لیے ضروری ہے، کیمرہ لائٹ مانگتا ہے، یہ کام صرف ایمان کی روشنی سے نہیں ہو سکتا؟‘‘ جنرل مجیب الرحمٰن نے سب کے سامنے یہ سنا اور خاموش رہے۔ ‘‘

ایک بارجنرل مجیب نے جب یہ کہا کہ ’’بی بی سی والے کیسے اتنی اچھی اور خوبصورت فلمیں بنالیتے ہیں؟‘‘اس پرمصلح الدین نے کہا ’’ وہاں وزارت اطلاعات اور سیکرٹری اطلاعات نہیں ہوتے۔ ‘‘

اشاعت مکرر – 5 جولائی 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments