گہر ہائے رفتگاں سے قلمی دشمنی


کچھ دن پہلے اشفاق احمد ورک کی ایک تحریر بعنوان ’’اچھے لوگوں کی انوکھی باتیں‘‘ (منگل 30 نومبر 2021 – روز نامہ 92 نیوز) نظر سے گزری۔ اشفاق ورک صاحب روز نامہ 92 نیوز میں ’’قلمی دشمنی‘‘ کے نام سے ہفتہ میں دو بار کالم لکھتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی اخباروں میں ’’قلمی دشمنی‘‘ کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اسی عنوان کے تحت ان کے مزاحیہ خاکوں کا پہلا مجموعہ بھی چھپا تھا۔ جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اشفاق ورک مزاح نگار ہیں۔ ایک دعویٰ کے مطابق اب تک ان کی 22 کتب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ شیخو پورہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایف سی کالج میں اردو کے استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ عمر کی نصف صدی مکمل کر چکے ہیں۔ طالب علموں میں مقبول ہیں۔ شنید ہے کہ نامور مزاح نگار اور ادیب بھی ان کے ادبی جوہر کے قدر دان رہے ہیں۔ مزاح نگاری کے ساتھ ساتھ خاکہ اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ شاید شعر بھی کہتے ہیں اور سفرنامے بھی لکھے ہیں۔ البتہ ان کی بنیادی پہچان مزاح ہی ہے۔

اشفاق ورک کا عمومی شخصی مزاج دائیں بازو کے روایتی دانشوروں سے میل کھاتا ہے۔ اورینٹل کالج میں بھی ان کا تعلق زیادہ تر اسی مکتبہ فکر کے افراد سے رہا اور ہے۔ صلح جو قسم کے انسان دکھائی پڑتے ہیں۔ شاید یہی پس منظر ہے کہ ان کے اس کالم نے غم و غصے سے زیادہ حیرت اور بے یقینی کو جنم دیا۔ یوں تو اشفاق ورک صاحب کا شمار ان کالم نویسوں میں نہیں کیا جاتا کہ جن کی تحریر سے ادب یا سیاست کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوجائے یا جن کی رائے عوام الناس کے ایک وسیع حلقے کو متاثر کر ے البتہ اس مخصوص تحریر میں جن اصحاب کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان پر جو اعتراض اٹھائے گئے ہیں یا الزامات لگائے گئے ہیں۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان کا جواب پیش کیا جائے کیونکہ تحقیق کسی کو جھوٹ بولنے سے نہیں روک سکتی البتہ یہ کوشش ضرور کر سکتی ہے کہ جھوٹ سچ کے طور پر اپنے آپ کو راسخ نہ کر سکے۔

مذکورہ کالم میں موصوف کہتے ہیں کہ

’’شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت کے اس دور میں ۔۔۔ کسی دوسرے کی غلطیوں سے سیکھ لینے میں بھی کیا مضائقہ ہے”، پھر فرماتے ہیں کہ جن کی غلطیوں سے سبق لینا مقصود ہے وہ دراصل ان کی” پسندیدہ شخصیات” ہیں۔ انہوں نے اپنے ’’سگے والد مرحوم‘‘ (جن کی سب سے بڑی خامی جو انہوں نے گنوائی وہ یہ تھی کہ موصوف کے بچپنے ہی میں والد مرحوم انتقال فرما گئے اور انہیں بیٹھے بٹھائے پیغمبرانہ سنت کا شرف بن مانگے حاصل کروا گئے) کے علاوہ تین اور شخصیات انتظار حسین، سہیل احمد خاں اور ذوالفقار علی بھٹو کو تنقید کی سان پر چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ انتظار حسین کے بارے میں بات کرتے ہوئے موصوف نے انہیں سطحی ناول نگار قرار دیا ہے۔ مزید فرماتے ہیں۔

’’۔ ۔ ۔ اور کالم تو محدود سے موضوعات کی بڑی طویل جگالی ہے۔ خود نوشت سوانح، اسلوب و واقعات دونوں حوالوں سے اوسط سے بھی نچلے درجے میں جگہ پاتی ہے۔ (یہ میری رائے ہے۔ خامی اس کے بعد آ رہی ہے) خامی یہ ہے کہ یہ حضرت تمام عمر کلچر کلچر کوکتے رہے۔ لیکن لاہور جو دنیا بھر کے کلچروں کا دادا ابو ہے، انہوں نے سات دہائیاں اس بھرے پرے شہر کے بیچوں بیچ لوگوں سے ملتے جلتے اور بے شمار محافل میں پردھان بن کر گزاریں۔ یہاں کے ادبی، عوامی اور سیاسی لوگوں نے بھی انہیں سر آنکھیں تو رہیں ایک طرف کہاں کہاں نہیں بٹھایا، لیکن ان حضرت نے ہمارے لاہور اور پنجاب کو تمام عمر گھاس تک نہیں ڈالی۔۔۔ وہ عمربھر ڈبائی اور بلند شہر ہی کے گن گاتے رہے جہاں شاید ان کو دوسرے محلے والے بھی نہ جان پاتے۔ ‘‘

اللہ اکبر جانے اشفاق احمد ورک صاحب کو یہ وہم یا زعم کیسے ہوا کہ وہ کالم نگار سے زیادہ ایک نقاد بھی ہیں۔ چلیے خیر خوش گمانی کا علاج تو کیا ممکن ہے۔ موصوف کو انتظار صاحب کے کالم “محدود موضوعات کی جگالی” ، خود نوشت سوانح “غیر معیاری اسلوب اور اوسط سے بھی نچلے درجے کی تحریر” اور ناول “سطحی” محسوس ہوتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ یہ ان کی ’’تنقیدی بصیرت‘‘ ہے اور وہ اپنی رائے کی تشکیل کے لیے آزاد ہیں البتہ انہیں یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ رائے کی تشکیل اور بات ہے اور اس کا عوامی اظہار چیزے دگر۔ انھوں نے انتظار صاحب کو اوسط درجے کا ادیب قرار دیا ہے تو انھیں اس دعویٰ کے ساتھ دلیل اور امثال کے ذریعے ثبوت بھی فراہم کرنا چاہیے. چلیے کالم میں تو اتنی جگہ ہوتی ہے نہ کالم نگار سے فی زمانہ ایسی ذمہ داری کی امید ہی کی جا سکتی ہے لیکن بعض سوالات تو ان کے سامنے رکھے ہی جا سکتے ہیں۔ مثلاً کیا مصنف اپنے تخلیقی اظہار کے لیے صنف، اسلوب یا موضوعات کے انتخابات میں آزاد ہوتا ہے یا اسے کسی کل کے صحافی نما ادبی لونڈے سے مشاورت کی حاجت ہونی چاہیے یا اس پر لازم ہے کہ وہ شہر کی ادبی برادری سے اسٹامپ پیپر پر اجازت نامہ لکھوا کر اپنے تخلیقی اظہار کی راہ ڈھونڈنے نکلے۔ کیا تخلیق کار کسی ذاتی تجربے یا اجتماعی مشاہدے کو تخلیق کا موضوع بنا سکتا ہے یا اس کو اپنے تخلیقی زاویے، عوام الناس کی مرضی سے طے کرنا ہے۔ کیا تخلیق کار، ایک ہی تخلیقی تجربے کو پیش کرتے رہنے میں آزاد ہے یا اس پر لازم ہے کہ وہ ضرور متنوع معاملات سے اثر پذیر ہو اور کسی نہ کسی طور پر انہیں اپنے ادب کا حصہ بنائے وغیرہ۔

انتظار صاحب کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ تمام عمر کھوئے ہوئوں ہی کی جستجو کرتے رہے، نہایت محدود مطالعے اور ادب کی کوری تفہیم کا ثبوت ہے۔ ایسی رائے مدرسانہ تنقید اور نصابی تحقیق کے پروردہ اذہان ہی رکھ سکتے ہیں۔ چلیے خیر، اب کس کس کی تصحیح کی جائے، یوں بھی ان باتوں سے انتظار حسین کو کبھی زندگی میں فرق نہ پڑا تھا تو موت کے بعد کیا بگڑنے والا ہے۔ البتہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ’’لاہور اور پنجاب کے کلچر کو دادا کلچر‘‘ کہنے والا جو بائیس کتابوں کا مصنف ہے۔ خود اس زبان میں کیوں نہیں لکھتا جس کے نہ بولنے پر وہ انتظار حسین کو معتوب گردان رہا ہے۔ انتظار حسین تو چلیے دوسرے علاقے دوسری تہذیب سے آئے تھے۔ اشفاق ورک تو پنجاب کے فرزند ہیں۔ شیخو پورہ سے آبائی تعلق ہے۔ انھوں نے اپنے اظہار کے لیے اردو ہی کو کیوں منتخب کیے رکھا۔ مزاح نگاروں میں ان کے ممدوح مشتاق احمد یوسفی یا مختار مسعود صاحب سے اسی بات پر کیوں خفا نہیں ہوتے کہ دونوں اصحاب نے پنجاب اور پنجابی کو کبھی گھاس نہیں ڈالی۔

یہی سوال منٹو، بیدی، فیض یہاں تک کہ حضرت اقبال کے لیے بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی دھرتی پہ جنم لینے کے باوجود ان ادیبوں نے دیگران کی طرح پنجابی کو منہ لگانے کے قابل کیوں نہیں سمجھا جبکہ بقول اشفاق ورک ’’ان کے دوست سویا مانے جاپان سے آکر چار مہینوں ہی میں پنجابی میں ٹوں ٹاں کرنے لگے تھے۔

انتظار صاحب کے بارے ان کی پیش گوئی کہ اگر وہ لاہور نہ آتے اور یہاں کے ادبی عوامی اور سیاسی لوگ انھیں ’’کہاں کہاں‘’ نہیں بٹھاتے تو ان کے علاقے میں انہیں دوسرے محلے والے بھی نہ جان پاتے، برحق ہو یا نہ ہو قارئین کو یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ موصوف غیب کا علم بھی جانتے ہیں ورنہ ایسا دعویٰ وہ کیونکر کر سکتے تھے۔

خبط عظمت ایک نہایت مہلک نفسیاتی عارضہ ہے۔ اخبارات میں بار بار چھپنے والے افراد میں عام طور اپنی اہمیت کا ایک طاقتور خیال جنم لینے لگتا ہے۔ وہ خود آرا اور خود بیں تو ہوتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ شاید ان کے لکھے ہر لفظ پر قارئین آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں گے (یا انہیں لے آنا چاہیے) اور ان سے کسی جملے کا محاسبہ کرنے کی کسی میں طاقت ہوگی نہ کسی کو ایسا خیال ہی آئے گا۔ دوسری طرف کالم نویسی بذات خود ایک اعصاب شکن کام ہے۔ ہر دوسرے روز اخبار کی مخصوص خالی جگہ منہ پھاڑے آپ کے سامنے ہوتی ہے اور اس خالی جگہ کو بھرنے کے لیے آپ نے کچھ نہ کچھ لکھنا ہی ہے۔ کم یا زیادہ پیسہ پکڑنا ہے بھائی تو لکھنا پڑے گا۔ موضوع ہے یا نہیں۔ گھر میں پریشانی ہے یا طبیعت خراب لفظ تو اگلنے ہی پڑیں گے۔ دکان تو کھولنی ہی ہے۔ گاہک کو اس سے کیا غرض کہ گودام میں مال کتنا رہ گیا۔ پھر گاہک کو پرچانا بھی ضروری ہے۔ ورنہ دوسری دکان پر زیادہ رنگین مال مل رہا ہے، ادھر نکل جائے گا۔ ریٹنگ چاہیے۔ اور بس پھر وہی ہوتا ہے جو اشفاق احمد ورک کی دوسری ’’پسندیدہ ‘‘ شخصیت سہیل احمد خاں کے ساتھ ہوا۔

انتظار صاحب کو تکرار کا طعنہ دینے والے اشفاق ورک صاحب (حالانکہ ان کی اسی تحریر میں ’’کہاں کہاں” کی بیزار کن تکرار قاری کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیتی ہے) نے سہیل احمد خاں صاحب کے علمی مرتبے پر سوال اٹھانے کی بجائے ایک نہایت گھٹیا اور پست درجہ وار کرنے کی کوشش کی ہے۔ سہیل احمد خاں کے علمی وقار پر تو وہ کوشش کر کے بھی اعتراض اٹھانے کے قابل نہیں ہو سکتے کہ طاقتور کو ہرانے کے لیے اس سے زیادہ طاقتور ہونا ضروری ہے جو کم از کم اشفاق صاحب کے بس کی بات نہیں، اور شاید یہ ان کا ٹارگٹ بھی نہیں تھا۔ لہذا انہوں نے سہیل احمد خاں کی ذاتی زندگی کے بارے جھوٹ، الزامات اور بہتان کا ایسا سلسلہ جاری کیا ہے کہ جس کا جواب دینا از بس ضروری ہے۔

تحریر کے آغاز ہی میں اشفاق ورک صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’باپ ایک خوشحال پولیس آفیسر”. سہیل احمد خاں کے والد صاحب پولیس افسر کبھی نہیں رہے۔ وہ تحصیل دار، مجسٹریٹ اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تو ضرور رہے، یہی وجہ ہے کہ ایم اے مکمل کرنے کے بعد جب ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے ان سے آئندہ زندگی میں سی ایس پی آفیسر بننے کے بارے میں پوچھا تو سہیل صاحب نے اس طرف دلچسپی ظاہر نہ کی اور درس و تدریس کو ترجیح دی۔ اشفاق ورک کی اس بے دھیانی کو تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ تحقیقی مقالہ نہیں لکھ رہے البتہ آگے چل کر انہوں نے جو جاروبی بیانات صادر کیے اس میں لکھتے ہیں۔ ’’سنتے ہیں کہ یہ جس خاتون کو چاہتے تھے، اس کی کسی اور سے شادی ہوگئی. ملک سے باہر بھی چلی گئی لیکن ان کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس انھی کے پہلو میں آن براجی‘‘۔ یہ بالکل غلط اور بعید از حقائق بیان ہے۔ یہ درست ہے کہ نجمہ سہیل کی ڈاکٹر سہیل احمد خاں سے دوسری شادی تھی لیکن ان کی پہلی شادی اورینٹل کالج کا حصہ بننے سے پہلے ہو چکی تھی اور اس شادی کے ٹوٹنے کا سہیل صاحب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سہیل احمد خاں اور ان کے ارد گرد موجود افراد نے کبھی ان کی ذاتی زندگی کے اس پہلو پہ تبصرہ نہیں کیا اور نہ کرنا ہی چاہیے تھا۔ نجمہ سہیل کی سہیل صاحب سے دوسری شادی کب اور کن حالات میں ہوئی، یہ ہمارا موضوع نہیں اور نہ اس سے دونوں کی شخصی عظمت یا علمی وجاہت ہی پہ کوئی اثر پڑتا ہے۔ آج جب دونوں ہستیاں اس دنیا میں موجود نہیں، ایسی باتوں کو سیکنڈ لائز کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اشفاق صاحب نے اسی بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے چل کر لکھتے ہیں۔

sohail ahmad khan

’’لیکن آخر آخر میں گھریلو زندگی کا اس انداز سے بکھرجانا کہ کئی کئی راتیں گھر سے باہر گزارنا ۔ ۔ ۔ ۔ بقول عظمیٰ مسعود ایک عامیانہ سے معاشقے میں انتہائی حد تک ملوث یا استعمال ہوجانا بعید از قیاس ہی نہیں بعید از حواس بھی ہے۔ ‘‘

سہیل احمد خاں کی زندگی کے آخری حصے کے بارے میں اس تکلیف دہ افواہ کو نقل کرتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے اور قلم کانپ کانپ جاتا ہے۔ نہ جانے یہ عظمیٰ مسعود صاحبہ کون ہیں اور ان کی رائے کا درجہ استناد کیا ہے جو اشفاق صاحب کو ایک لخطے کے لیے خیال نہ ہوا کہ اخبار میں ایسی بات لکھنے سے پہلے تھوڑی بہت تحقیق کر لی جانی چاہیے۔ عظمیٰ مسعود صاحبہ کے بارے مجھے صرف اتنی معلومات ہیں کہ محترمہ لاہور کالج برائے وومن یونیورسٹی کے (اردو نہیں) کسی اور شعبے میں پڑھاتی رہی ہیں اورخود کو نجمہ سہیل کے دوستوں میں شمار کرتی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ محترمہ نے اپنی مرحوم دوست اور اس کے شوہر بارے ایسے بہتان تراشے. نہ جانے اس گھٹیا حرکت کے پیچھے ان کے کیا ذاتی مفادات ہیں یا وہ ایسی نیچ باتیں کر کے مرنے والوں سے کس چیز کا بدلہ لے رہی ہیں۔ ان پر فرض ہے کہ وہ اپنی بات کا ثبوت بھی دیں ورنہ سنی سنائی باتیں تو بہت لوگ کرتے ہیں اور ان میں چسکے دار تفاصیل کا اضافہ آستین کے سانپوں کا مرغوب مشغلہ ہوا کرتا ہے۔

 سہیل احمد خاں کا انتقال 2009 میں ہوا۔ مجھے 1996سے 2009تک ان کی براہ راست شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی انہی کی نگرانی میں لکھا گیا۔ یونیورسٹی میں ان کے جونیر ترین رفیق کار کی حیثیت میں بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کے تقریباً تمام دوستوں اور ان کی زندگی کے بیشتر معاملات کے بارے ، میں نہ صرف جانتی تھی بلکہ بعض کی چشم دید گواہ بھی رہی ہوں۔ ان کی زندگی کا یہ وقت جب بقول اشفاق ورک ’’وہ ایک عامیانہ معاشقے میں استعمال ہوئے اور گھر سے باہر رہنے لگے‘‘ کم از کم میں نے تو نہیں دیکھا۔ ان کے انتقال کو ایک دہائی سے اوپر کا وقت گزر جانے کے بعد بھی، ان کے کسی قابل ذکر دوست یا مخالف کی تقریریا تحریر میں بھی ایسے کسی واقعے یا حادثے کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اگر ملتا ہے تو اشفاق صاحب سے گزارش ہے کہ ضرور بتائیں تاکہ میں اپنی تصیحح کر سکوں۔

نجمہ سہیل نے سہیل صاحب کے انتقال کے بعد سویرا کے لیے سہیل صاحب کا خاکہ لکھا تھا۔ اس خاکے میں سہیل احمد خاں کے مجموعی مزاج کی خبر ملتی ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سہیل صاحب ہمیشہ ہی سے دروں بیں شخصیت کے حامل تھے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نجمہ سہیل اور سہیل احمد خاں دونوں ہی مضبوط اور دبنگ شخصیات کے حامل افراد تھے لہٰذا دونوں کی آپسی محبت شاید عام دنیا کے معیارات سے مختلف رہی لیکن یہ کہیں بھی نہیں لکھا گیا کہ سہیل احمد خاں آخری عمر میں بے حواس ہو چکے تھے۔

سہیل صاحب 2000 میں جاپان چلے گئے۔  2003 میں وہاں سے واپسی پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر جی سی یونیورسٹی میں بحیثیت صدرِ شعبہ اور ڈین آف آرٹس جوائن کیا۔

2005ء میں ان کے بڑے داماد کا انتقال ہوا۔ معاذ صرف ان کے بھانجے اور داماد ہی نہ تھے بلکہ بیٹے کی طرح ان کو عزیز تھے کیونکہ سہیل احمد خاں صاحب اولادِ نرینہ کی نعمت سے محروم تھے۔ دامادی سے پہلے بھی ان کا سہیل صاحب سے رشتہ بہت گہرا تھا۔ جی سی آنے کے بعد سہیل صاحب نے گاڑی تبدیل کی تو بہت شوق سے بتایا کہ گاڑی کے انتخاب میں معاذ ہی نے انہیں مشورے دیے بلکہ بنیادی انتخاب بھی انہی کا تھا۔ معاذ ایئر فورس میں اسکوا رڈن لیڈر تھے۔ شادی کو محض سات برس ہوئے تھے۔ بڑا بیٹا چھے برس کا تھا جبکہ چھوٹے کی عمر ابھی ڈیڑھ مہینہ بھی نہیں ہوئی تھی جب وہ اپنے چھوٹے بیٹے اور بیوی کے ساتھ وقت گزارنے سرگودھا سے لاہور آئےاور سہیل صاحب ہی کے گھر قیام پذیر تھے کہ یہیں اچانک انھیں برین ہمرج ہوا اور چند روز کوما میں گزارنے کے بعد اس نوجوان نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ سہیل احمد خاں صاحب کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس صدمے نے انہیں کیسا توڑ کر رکھ دیا تھا۔ جوان بیٹے کی ناگہانی موت کا دکھ الگ، اور جوان بیوہ بیٹی اور چھوٹے چھوٹے یتیم نواسوں کی کفالت، نگہداشت اور حفاظت کی ذمہ داری الگ۔ وہ بھی اس وقت جب سہیل صاحب ایک طرح سے تمام خانگی ذمہ داریاں نبھا چکے تھے۔ پھر فرائض منصبی میں جو جانفشانی درکار تھی، انھوں نے کبھی اس سے بھی روگردانی نہ کی۔ مضبوط شخصیت کی بدولت انھوں نے کبھی اس جانکاہ دکھ کا اظہار تو نہ کیا البتہ اندر یہی اندر گھلتے رہے۔ (تفصیل جاننے کے لیے نجمہ سہیل کا لکھا ہوا خاکہ اور محمد سلیم الرحمان صاحب کا تعزیتی مضمون ہی دیکھ  لیا جائے تو کافی ہے) تو جس شخص نے خانگی اور منصبی فرائض کو اتنی جانفشانی سے نبھایا ہو۔ (منصبی فرائض کے بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ سہیل صاحب کے عرصہ صدارت میں شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی لاہور کے زیرِ اہتمام جتنی اور جس طرح کی تقریبات (کانفرنسیں، سیمینار، لیکچرز) ہوئیں اس کی نظیر نہ پہلے ملتی ہے نہ بعد میں)، اس پر ایک مجہول قسم کے راوی کی نسبت سے یہ بیہودہ الزام نہ صرف نیچ اور تکلیف دہ ہے بلکہ ان کے اور ان کے پسماندگان کے ساتھ صریح زیادتی بھی ہے۔

کاش اشفاق احمد ورک صاحب یہ لکھنے سے پہلے سہیل صاحب کی اولاد ہی کے بارے میں سوچ لیتے کہ ان کی بیٹیوں اور نواسوں پر اس طرح کے گھٹیا الزام پڑھ کر کیا گزرے گی۔ سہیل صاحب کے انتقال کے تقریباً دو اڑھائی برس کے بعد نجمہ سہیل بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی تینوں بیٹیوں نے اردو والوں سے زیادہ ربط نہیں رکھا. اشفاق صاب کا کالم پڑھ کر خیال آتا ہے کہ شاید ان کا یہ فیصلہ درست تھا۔ سہیل صاحب کے عزیز از جان شاگرد طارق زیدی صاحب حیات ہوتے تو یقینا وہ ان الزامات کی زیادہ بہتر طریقے سے تردید کر پاتے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے سہیل صاحب کے کسی شاگرد کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ بڑھ چڑھ کر اس الزام کا پردہ چاک کریں یا شاید اشفاق صاحب کا کالم ان تک پہنچا ہی نہیں یا اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ جواب دیا جائے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر ایک ہی کالم میں دونوں دوستوں کو نشانہ بنانے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اس سوال کا ایک سیدھا سا جواب تویہی ہے کہ انتظار حسین اور ان کے دوست ایک عرصہ تک اردو کے ادبی افق پر چھائے رہے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ بالعموم اور حالیہ کرونائی برسوں میں بالخصوص ، سرحد کے دونوں پار اس نسل کے تمام/ بیشتر برگزیدہ افراد یکے بعد دیگرے رخصت ہوئے تو شاید کچھ حلقوں کو ادب کی گدی پر قبضہ جمانے کا نادر خیال آنے لگا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے مختلف افراد یا گروہوں کی طرف سے ایسے سوالات سر اٹھانے لگے ہیں کہ شمس الرحمان فاروقی کیا بیچتے تھے یا حنفی صاحب کی پاکستان میں مقبولیت کے پس پردہ کیا راز تھا وغیرہ وغیرہ۔

چلیے یہ تو ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنے تئیں اردو ادب کا گدی نشیں بن بیٹھنے کا دعوی دار ہو یا کوشش کر دیکھے، البتہ یہ حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی بھی طرز کے ذاتی یا اجتماعی مفاد کی خاطر کسی چاند پر تھوکے، یا کسی کی قبر کشائی کر کے، اس کے دامن کو آلودہ کرنے کی کوشش کرے۔ اشفاق ورک صاحب کو اپنے الزامات کا ثبوت دینا چاہے یا معذرت کرنی چاہیے اور آئندہ ایسی حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ میرا سوال اس اخبار کے ایڈیٹر سے بھی ہے کہ جہاں یہ کالم چھپا۔ ان سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ اپنے اخبار کو زرد صحافت کا نمائندہ بننے سے بچائیں اور اپنے کالم نگاروں کو صاف ستھری اور سچائی پر مبنی صحافت کا پابند کریں اور یقینی بنائیں کہ کالم نگار صاحب اس کالم کے مندرجات کو ثابت کریں یا معذرت کریں کہ اس سے پسماندگان کی صریح دلآزاری ہوئی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments