لتا منگیشکر: میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے


جو درجہ، مان اور سنمان آئن اسٹائن کو سائنس، رابندر ناتھ ٹیگور، خلیل جبران کو ادب، سقرط، ارسطو کو فلسفہ، نیلسن منڈیلا، ابراہم لنکن کو سیاست اور عبدالستار ایدھی و مدر ٹریسا کو خدمت انسانیت کے شعبے میں ادا کی گئی خدمات کے نتیجے میں حاصل ہوا بلکل وہ ہی مقام گلوکاری اور سروں کے میدان میں بلبل ہند لتا منگیشکر المعروف لتا دیدی کو ملا، جن کی آواز تقریبن 80 برس پر محیط طویل عرصے تک سرحد کے دونوں پار کروڑوں انسانوں کے دکھی دلوں پر مرہم کا کام کرتا آیا، یہ اعزاز بھی لتا منگیشکر کے حصے میں آیا کہ انہوں نے طویل عمر پانے کی بدولت برصغیر کی چار نسلوں کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑ کر رکھا اور جب بھی لتا کے مدھر گیت ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر پر سننے کا موقع ملتا ایسا محسوس ہوتا کہ روح کی غذا مکمل ہوگئی پھر کسی اور کو سننے کا دل نہیں کرتا تھا۔

سروں کی دیوی لتا منگیشکر کا اصل نام ہیما تھا، انہوں نے پنڈت دینا ناتھ منگیشکر کے گھر 28 ستمبر 1929ء میں آنکھ کھولی، ان کے والد بھی ایک کلاکار تھے، جن کی بلونت سنگھ سنگیت منڈلی کے نام سے ناٹک کمپنی تھی اور یہ حقیقت کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ لتا دیدی نے گلوکاری سے قبل صرف 5 برس کی عمر میں اپنے والد کی سرپرستی میں بننے والے مراٹھی زبان کے ڈراموں میں اداکاری بھی کر چکی تھیں اور 1942ء میں عارضہ قلب کے باعث والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داریاں بھی ان کے کندھوں پر آگئیں اور انہوں نے اداکاری کیساتھ ساتھ گلوکاری بھی شروع کی اور سب سے پہلا گیت مراٹھی زبان میں گایا۔

1945ء میں ممبئی منتقل ہونے کے بعد لتا منگیشکر کے لئے بالی ووڈ کے دروازے کھلے اور انہوں نے فلم  ، بڑی ماں، میں اپنی چھوٹی بہن نامور گلوکارہ آشا بھونسلے کیساتھ کام کیا تھا، میک اپ کرنا لتا منگیشکر کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اسلئے انہوں نے اداکاری کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر باضابطہ طور پر ہندی فلموں کیلئے پلے بیک گلوکاری کو منتخب کیا اور اس وقت کے نامور موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے انہیں 1948ء میں پہلا موقع فراہم کیا، لتا پر قسمت کی دیوی تو پہلے سے ہی مہربان تھی اور فلم مجبور کیلئے کیریئر کا گایا ہوا پہلا ہی گیت مقبول ہوگیا جس کے بول، دل میرا توڑا، مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، تھے، اگلے سال یعنی 1949ء میں فلم محل میں مدھو بالا پر فلمایا گیا گیت ، آئے گا، آئے گا آنے والا، نے مقبولیت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور اسی سال راج کپور اور نرگس کی سپر ہٹ فلم ، برسات، کے لئے گائے گئے سدابہار گیتوں نے لتا کے کیریئر کو بلندی تک پہنچا دیا۔      

اس کے بعد لتا منگیشکر نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکا اور اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بالی ووڈ فلم انڈسٹری پر بطور فیمیل پلے بیک سنگر عرصہ دراز تک ان کی ڈکٹیٹرشپ قائم رہی کیوں کہ ان کی آواز ایکا یسا جادو تھا جو سننے کے بعد کافی وقت تک انسان کی سماعتوں کو اپنے طلمساتی قبضے میں لے لیتا تھا اور اس آواز کی اپنے سحر میں جکڑ کر رکھنے والی لازوالیت تاقیامت قائم رہے گی۔

اگرچہ لتا منگیشکر کو ان کی لافانی آواز کے بدولت بے پناہ شہرت، دولت اور عزت نصیب ہوئی پر انہوں نے اس پر کبھی فخر یا گھمنڈ محسوس نہیں کیا اور زندگی کی آخری گھڑیوں تک وہ سادہ ہی رہیں، اپنی حیات کے آخری برسوں میں وہ روزانہ سوشل میڈیا کے ذریعے مداحوں سے رابطے میں رہتیں اور ماضی کے دوستوں، خیرخواہوں کو جنم دن و برسی کے موقع پر خراج تحسین پیش کرتیں جس سے ان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، سروں کی دیوی کو ہندوستان کے مہان موسیقاروں کی لازوال دھنوں نے فن گائیکی کے آسمان پر ایک عظیم مقام پر پہنچایا پر باوجود اس کے وہ ملکہ ترنم نورجہاں کو خود سے بڑی گلوکارہ قرار دیتے سے کبھی نہ ہچکچاتیں اور اپنے کئی انٹرویوز میں انہوں نے ملکہ ترنم نورجہاں کی پرستار ہونے کا برملا اظہار بھی کیا۔

تقسیم ہند کے بعد نورجہاں بالی ووڈ کو خیرباد کہہ کر پاکستان منتقل ہوگئیں اور لتا منگیشکر بھارت میں رہ گئیں پر دونوں کے درمیاں دوستی کا تعلق اور رابطہ ختم نہ ہوا اور روبرو ملاقات کی ہمیشہ خواہش رہی جو منفرد طور پر 1952ء میں پوری ہوئی جب لتا منگیشکر امرتسر اور نورجہاں لاہور سے واہگہ بارڈر پہنچیں اور دونوں نے اشکبار آنکھوں کیساتھ ایک دوسرے کو گلے لگایا تو اس موقع پر موجود تمام افراد بشمول دونوں ممالک فوجی بھی فرط جذبات سے رو پڑے تھے۔   

لتا منگیشکر کے برصغیر کے عظیم گلوکار محمد رفیع کے ساتھ گائے ہوئے دوگانے بھی سپر ہٹ رہے پر محمد رفیع سے زندگی نے زیادہ وقت وفا نہین کی اور 1980ء میں یہ جوڑی ٹوٹ گئی، لتا کے والد مراٹھی اور والدہ گجراتی تھیں، جبکہ گھر میں مراٹھی زبان بولی جاتی تھی اس لئے کیریئر کی ابتداء میں ان کیساتھ اردو تلفظ کا مسئلہ رہا جسے حل کرنے میں مولوی محبوب اور پھر شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے بڑی حد تک مدد کی، دلیپ کمار کیساتھ ان کا تعلق ہمیشہ بھائی بہن والا رہا اور وہ انہیں بڑا بھائی مانتی، راکھی بھی باندھتیں۔

سروں کی دیوی نے اپنے کیریئر کے دوران اردو، ہندی، مراٹھی، پنجابی اور سندھی سمیت 36 زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گیت گائے، انہیں نہ صرف فلمی گیت گانے پر عبور تھا پر غزل گائیکی میں بھی کمال مہارت حاصل تھی اور مرزا غالب کی دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے سے لیکر میر تقی میر کی دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا تک جن غزلوں کو اپنی آواز دی وہ سب امر ہوگئے۔ ان کے گائے مقبول گیتوں میں نام گم جائے گا، اے دل ناداں، تیرا میرا پیار امر، دل ڈھونڈتا ہے پھر وہ ہی فرصت کے رات دن، عجیب داستاں ہے یہ، کہیں دیپ جلے کہیں دل، تیرا جانا دل کے ارمانوں کا لٹ جانا، دیدی تیرا دیور دیوانہ، ہم کو ہمیں سے چرالو، مجھے خبر تھی وہ میرا نہیں پرایا تھا، دو پل رکا خوابوں کا کارواں اور دیگر شامل ہیں۔

6 فروری 2022ء کو موسیقی، سر اور سنگیت اس وقت سوگوار ہوگئے جب سروں کی دیوی لتا منگیشکر نے ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں آخری سانس لی، اگرچہ لتا منگیشکر جسمانی طور پر ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئیں پر ان کی آواز کا سحر ہزاروں برس قائم و دائم رہے گا اور برصغیر میں جنم لینے والی اگلی نسلیں لتا دیدی آواز کی لازوالیت کو محسوس کرتی رہیں گی۔

نام گم جائے گا،

چہرہ یہ بدل جائے گا،

میری آواز ہی پہچان ہے،

گر یاد رہے۔۔۔۔!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments