دلال قاتل کو رہا کرو، عورت مارچ بند کرو


گزشتہ ماہ کے دوران دو نہایت افسوس ناک واقعات پیش آئے : پہلا قندیل بلوچ کے دلال قاتل بھائی، وسیم کی رہائی، اور دوسرا مولانا نور الحق قادری کا حکومت کو خط جس میں آئندہ عورت مارچ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مسائل نسواں اور حقوق نسواں کا احساس رکھنے والے طبقات اور افراد کے لئے یہ دونوں واقعات تشویش ناک ہیں۔

ہمارے ہاں جاہل سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عام آدمی سے لے کر قرآن و سنت کا علم رکھنے والوں تک۔ سب کی سوچ عورت کے بارے میں تقریباً یکساں ہے۔ بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عورت کو خاندان کی حتیٰ کہ ماؤں کی بھی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ قندیل بلوچ کی ماں نے بیٹی کے دلال قاتل کو اس بنا پر معاف کر دیا ہے کہ وہ طویل مقدمے بازی کی اذیت سے تنگ آ گئی تھی اور بیٹی کے چلے جانے کے بعد کم از کم بیٹے کو بچا لینا چاہتی تھی کہ وہ اس کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔ یہی وہ دلالوں والی ذہنیت ہے جو عورت کو اس کی مرضی سے جینے نہیں دیتی اور جو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو معاف بھی کر دیتی ہے۔ قندیل کا باپ مر چکا ہے لیکن اس نے بھی قاتل بیٹے کو معاف کر کے اس کی بریت کی درخواست عدالت میں دی تھی۔ ممکن ہے قندیل کے والدین بھی اس کے قتل میں ملوث ہوں۔

اگرچہ ایسے کیسز میں ریاست مدعی ہوتی ہے لیکن قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری ریاست اپنی ذمہ داریوں میں کتنی فرض شناس ہے اور اس کی توانائیاں کہاں صرف ہو رہی ہیں۔ حقوق نسواں کی سرگرم کارکن، نگہت داد نے بھی قاتل وسیم کی رہائی پر احتجاج کیا اور کہا کہ آئین اور قانون، معاشرے میں شر و فساد کا موجب بننے والے کسی عمل کی اجازت نہیں دیتے۔ انہوں نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ اسی نکتے کی بنا پر ان کی تنظیم قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے وسیم کو سزا دلوانے کی پوری کوشش کرے گی کیونکہ قاتل وسیم کی بریت سے دیگر مردوں کو بھی غیرت کے نام پر قتل کی ترغیب ملے گی۔ اللہ نگہت داد کو اس قانونی جنگ میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔

اب آتی ہوں مولانا قادری کی طرف۔ عورت مارچ کو معاشرے کے لئے نقصان دہ قرار دے کر اس پر پابندی کا مطالبہ کرنے والے غیرت اور حمیت اسلامی سے سرشار بزرگ نے وسیم جیسے دلال قاتلوں کے خلاف تو کبھی حکومت وقت کو خط نہ لکھا۔ یہ غیرت مند مولانا صاحب اس وقت کہاں تھے؟

جب کم سن بچی زینب کو جنسی زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا؛ جب موٹر وے پر ایک ماں کو بچوں کی موجودگی میں مردانہ شکل کے درندوں نے بے آبرو کیا؛ جب ایک بدکار درندے نے زیادتی کے بعد نور مقدم کا گلا کاٹ دیا؛ جب مفتی عبدالقوی جیسا باحیا اور متقی، قندیل بلوچ کی نگاہ التفات کے لئے تڑپتا تھا؛ جب عزیز الرحمٰن جیسے بدکار مفتی کے خلاف بچے سے بدفعلی کے ناقابل تردید وڈیو ثبوت سامنے آئے ؛ جب سیالکوٹ اور خانیوال میں غیرت اسلامی سے سرشار جانوروں کے ہجوم نے ایک سری لنکن مینجر اور ایک مقامی نیم پاگل شخص کو توہین مذہب کے نام پر قتل کر دیا؛ جب مذہبی دہشت گردوں کو معصوم انسان قرار دے کر معافی دے دی گئی؛ جب لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے والی ملالہ پر طالبان دہشت گردوں نے قاتلانہ حملہ کیا؛

اور یہ اس وقت کہاں ہوتے ہیں؟

جب روزانہ ہزاروں خواتین اور لڑکیاں گھر میں اور باہر جنسی ہراسانی و تشدد اور ازدواجی آبرو ریزی کا نشانہ بنتی ہیں ، جب کسی بیٹی، بہن، ماں، یا بیوی سے جان چھڑانے کے لئے بدکاری کے جھوٹے الزامات لگا کر غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے ؛ جب شادی یا دوستی سے انکار پر عورت کو تیزاب گردی، قتل، اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ؛ جب عورت کو جائیداد سے محروم کرنے کے لئے اس کی قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے ؛ جب کم عمر بچیوں اور لڑکیوں کو اغوا کر کے یا محبت کی شادی کے نام پر بھگا کر بازار حسن میں فروخت کر دیا جاتا ہے اور یہ کار خیر لاہور میں داتا دربار اور بادشاہی مسجد جیسے مقدس مقامات کے قریب انجام پاتا ہے ؛ جب مدارس میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والے کم سن طلبہ و طالبات کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، یہ اور ان جیسے کئی حادثات و واقعات جہاں مرد کا ہدف عورت یا بچے ہوتے ہیں اور انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تب ان جیسے بزرگان کہاں ہوتے ہیں؟

ایک عورت مارچ ہی رہ گیا ہے جس سے معاشرے کو خطرہ لاحق ہے۔ باقی تمام خطرناک معاشرتی مسائل تو گویا حل ہو چکے ہیں۔ یہ عورت سے تب تک خوش ہیں جب تک وہ اندھی، گونگی، بہری بنی ان کی تابعداری کرتی رہے۔ وہ حجاب ڈے منائے تو یہ خوش اور راضی۔ وہ اپنے حقوق اور ”میرا جسم میری مرضی“ کی بات کرے تو انہیں تکلیف۔ جس طرح عورت کو حجاب اتارنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح حجاب پہننا بھی اس کی مجبوری نہیں۔

جہاں عورت کی دلالی اور خرید و فروخت، اس کے خلاف تیزاب گردی، جنسی تشدد، اور دیگر قبیح جرائم، جبری اور کم عمری کی شادی، غیرت کے نام پر قتل اور قبائلی و پہاڑی علاقوں میں غگ جیسی کراہت آمیز رسومات، قرآن سے شادی، اور جائیداد سے محرومی دھڑلے سے اور کئی عشروں سے جاری ہے، وہاں چند سالوں سے ہونے والا عورت مارچ باعث تکلیف کیوں ہے؟ شیریں مزاری صاحبہ نے اس حوالے سے بالکل درست بیان دیا کہ حیا مارچ اور حیا ڈے کی طرح پرامن عورت مارچ بھی خواتین کا قانونی حق ہے جسے روکا نہیٰں جا سکتا۔

مولانا قادری جیسی شخصیت کو خواتین اور عورت مارچ کے خلاف بات کرنا زیب نہیں دیتا۔ وہ کوئی عام آدمی نہیں جو عورت یا عورت مارچ کے خلاف بولتے پھریں۔ اب عورت کو بزور طاقت روکنا ممکن نہیں رہا۔ طاقت تو عورت کے پاس بھی ہے، وہ جو اس کے اندر سے اٹھی ہے اور یہ ہے شعور کی طاقت۔ عورت مارچ کو زبردستی اور ڈنڈے کے زور پر روکنے کی بات کرنے والے سن لیں، عورت چوڑیاں اتار چکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments