زبان کی پھسلن


پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ جب ڈی چوک پینچا تو بلاول بھٹو کی زبان چوک گئی۔ بلاول بھٹو کا بچپن، لڑکپن اور جوانی یورپ میں گزری۔ وہ بھی قائد اعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح اردو روانی سے بولنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ اب تو خیر وہ انگریزی زبان کی طرح اردو میں بھی خاصے رواں ہو گئے ہیں مگر اردو بھی انگریزی لہجے میں بولتے ہیں۔ اس کے باوجود اپنا مافی الضمیر بطریق احسن بیان کرتے ہیں۔ ڈی چوک میں کی گئی ولولہ انگیز تقریر کے دوران ایک جملہ ان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے جوش خطابت میں فرمایا کہ اتنے عظیم الشان لانگ مارچ اور جلسے کو دیکھ کر سیلیکٹڈ کی ”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“ ۔ پی پی والے تو اس بات پر مصر ہیں کہ یہ کارستانی پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی ہے جنہوں نے بڑی مہارت سے کچھ ٹوٹے جوڑ کر بلاول کے ساتھ یہ جملہ منسوب کر دیا۔ یو ٹیوب پر بلاول کی جو تقریر گردش کر رہی ہے اس میں زبان کی پھسلن والی ایسی کوئی بات نہیں۔

بہر حال اگر بلاول بھٹو نے ایسا کہا بھی تو یہ زبان کی پھسلن ہے جو بعض موقعوں پر بڑے بڑے لیڈروں، دانشوروں اور زبان و بیان کے ماہرین سے سرزد ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول کی اس زبان کی پھسلن پر اب تک ہزاروں میمز بن چکی ہیں اور خاص طور پر حکومتی صفوں سے ان پر طعن و تعریض کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ بد قسمتی سے وزیراعظم پاکستان نے بھی بلاول کی اس چوک کا فوراً نوٹس لیا اور اپنی تقریر میں ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ زرداری صاحب اپنے بیٹے کو درست اردو تو سکھا دیں۔ مگر خود انہوں نے اپنی اسی تقریر میں کہاوت کو کہات کہہ کر اپنی بھد اڑوائی۔ جواب آں غزل کے طور پر پیپلز پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم بھی برسر بیکار ہے اور بھرپور جواب دے رہی ہے۔

بلاول والے واقعے سے راقم کو یاد آیا کہ غالباً دو ہزار دو یا تین میں ہم کالج کے طلبا کو مطالعاتی و تفریحی دورے پر لاہور لے گئے تھے۔ ہمارے ساتھ کالج کے وائس پرنسپل اور اردو کے کہنہ مشق استاد بھی موجود تھے۔ ایک ہوٹل میں انہوں نے کھانے کا آرڈر دیتے ہوئے دیگر ڈشز کے ساتھ جب ”تکن چکا“ کا اضافہ کیا تو ویٹر ہونق ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔ ہم نے اسے پروفیسر صاحب کی زبان کی لغزش قرار دے کر ویٹر کو بتایا کہ سر چکن تکا کہہ رہے ہیں۔

اردو زبان و ادب میں شفیق الرحمٰن ایک بہت معتبر نام ہے۔ بلاشبہ وہ طنز و مزاح میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کسی کتاب میں زبان کی ایسی ہی دلچسپ لغزشوں کا ذکر کیا ہے، جنہیں پڑھ کر ہنسی روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ایک آدمی سیڑھی سے پھسلنے کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کر رہا تھا۔ ”پھسلی سے جو سیڑھا تو دور تک سیڑھتا ہی چلا گیا“ یہی کردار کسی دوسرے موقعے پر اس وقت زبان کی لڑکھڑاہٹ کا اس طرح شکار ہوا کہ وہ تانگے والے سے پوچھنا تو یہ چاہتا تھا کہ کیا آپ کا تانگا خالی ہے؟ مگر کہہ یہ گیا کہ ”کیا آپ کی خالہ تانگی ہے“ ؟

ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ برگیڈیئر صدیق سالک شہید نے اپنی کتاب ”ہمہ یاراں دوزخ“ میں بھی تحریر کر رکھا ہے۔ یہ کتاب ان کی بھارت میں قید و بند کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیل میں وقت گزاری کے لیے ہم دوستوں نے بہت سے مشاغل اختیار کر رکھے تھے تاکہ جیل کی تکالیف اور اپنی بے بسی کا احساس کم سے کم ہو سکے۔ ان مشاغل میں ادبی محافل، گلوکاری اور شعر و شاعری کی نشستیں بھی شامل تھیں۔ ان محفلوں میں ایک صوبیدار صاحب بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے مگر صرف سننے کی حد تک۔

ہمارا ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ایک سخن فہم مگر کم گو آدمی ہیں۔ ایک دن وہ کوریڈور میں میرے ساتھ ٹہل رہے تھے اور میں کسی ادبی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا۔ صوبیدار صاحب بار بار سر ہلا کر میری باتوں کی تائید کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد صوبیدار صاحب کچھ یوں گویا ہوئے کہ سر اس سلسلے میں میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ آپ کے سامنے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ اس موقعے پر ان کی یہ بات سن کر میں اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔ دراصل صوبیدار صاحب سورج کو چراغ دکھانے والا محاورہ استعمال کرنا چاہتے تھے مگر ہماری بدقسمتی کہ ان کے ہتھے چڑھ گئے۔

دو ہزار تیرہ کی الیکشن مہم کے دوران میں موجودہ وزیراعظم سے بھی ایسی ہی زبان کی لغزش سر زد ہوئی تھی جب انہوں نے حاضرین جلسہ سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن والے دن تمام لوگ پولنگ اسٹیشنز پر جا کر شیر کے انتخابی نشان پر مہر لگائیں۔ بہرحال بلاول بھٹو کی زبان کی پھسلن پر بلاول پر میمز بنانے والوں کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ وہ کسی ماہر علاج سے اپنا حکیم کروائیں تاکہ انہیں کچھ افاقہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments