امر پیرزادو کی کتاب: ”بابا۔ انور پیرزادو“


 

”مجھے کبھی یہ آئیڈیا پسند نہیں آیا کہ اولاد یا والدین اپنے سلیبریٹی یا مشہور شخصیت والدین، یا والدین اپنے سلیبریٹی اولاد کے بارے میں کتاب لکھیں۔ پھر چاہے وہ ارنسٹ ہیمنگوے یا عاصمہ جہانگیر یا فیض احمد فیض یا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹیاں، یا شیخ ایاز یا رسول بخش پلیجو کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے نہ ہی والدین، اور نہ ہی وہ اولاد، جن پر وہ کتاب لکھی جا رہی ہے، کے ساتھ انصاف ہو سکے گا، اور نہ ہی قاری کے ساتھ!

لکھنے والے کی محبت، عقیدت اور عشق اپنی جگہ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انور پیرزادو اگر امر پیرزادو کے والد ناں بھی ہوتے، پھر بھی ان کے بارے میں وہ ایسے ہی لکھتے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جیسا کہ امر پیرزادو نے خود لکھا ہے کہ ’انور پیرزادو اپنے اور اپنے کام کے بارے میں تعریف سن کر کہا کرتے تھے کہ ان کو اسٹریس ہوتا ہے۔ ‘ وہ اگر آج زندہ ہوتے تو ان کو اس قدر اسٹریس ہوتا کہ، جو ہر سچے انسان، اور انسان دوست شاعر، موسیقار اور مصور کو ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔“

یہ بات نامور شاعر اور نقاد حسن مجتبیٰ نے، نوجوان شاعر اور نثر نویس، امر پیرزادو کی اپنے والد اور سندھ کے منجھے ہوئے شاعر، صحافی، آرکیالوجسٹ، اور تاریخ نویس، انور پیرزادو کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے مختلف مضامین پر مشتمل کتاب ”بابا۔ انور پیرزادو“ کا دیباچہ لکھتے ہوئے کہی ہے۔

یہ کتاب امر نے اپنے ہمہ جہت تخلیقی شخصیت کے مالک والد، اور سندھ سے ماضیٔ قریب میں بچھڑنے والے باصلاحیت دانشور، شاعر اور صحافی، انور پیرزادو کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے 32 مختلف موضوعات پر مضامین کو ترتیب دے کر شائع کی ہے۔ یہ تمام مضامین خود انہی کی تصنیف ہیں۔ ان تمام نگارشات میں صرف سادہ بیان کے انداز میں محض یاددادشتوں کو قلمبند نہیں کیا گیا، بلکہ ان میں تحقیق کا پہلو بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔

ان میں سے ہر تحریر کو امر نے موضوع و مذکور کتاب کی تحریروں خواہ تقاریر، نگارشات کے ساتھ ساتھ گفتگو میں سے متعلقہ حوالوں سے سجایا ہے اور ہر تحریر کی سند کے لئے اس میں ذکر شدہ واقعات سے متعلقہ دیگر افراد سے گفتگو کر کے، ان واقعات کے حوالے سے ان کے تاثرات شامل کر کے ہر نوشت کو زیادہ سے زیادہ مدلل بنانے کی کوشش کی ہے، اور وہ اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ اس لئے کتاب میں شامل ہر نگارش کو تحقیق کا نمونہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

میں اپنے شاعر اور دانشور دوست، حسن مجتبیٰ کی مندرجہ بالا رائے کے ساتھ متفق ہونے کے باوجود، اس بات کے حق میں ہوں، کہ اگر امر پیرزادو کی اس کتاب کی طرح کوئی اولاد، اپنے قابل فخر والدین کے کام کے حوالے سے (کسی حد تک) غیر جانبدار ہو کر خالصتاً پیشہ ورانہ انداز میں لکھنے کی سعی کر سکتا ہو، تو ایسے اقدام کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ امر پیرزادو کی اس کتاب کو میں ’الیسیا ایبٹ‘ کی یادداشتوں کی کتاب ”فیری لینڈ: اے میموائر آف مائی فادر“ ، ’الیگزینڈرا اسٹریون‘ کی کتاب ”ریڈنگ مائی فادر“ ، ’جان وین‘ کی ”مائی فادر از آئسا وین“ ، ’مارٹن شین‘ اور ’ایمیلیو ایسٹیوز‘ کی لکھی ہوئی مشترکہ کتاب ”الانگ دی وے : دی جرنی آف اے فادر اینڈ سن“ اور ’ایلن کمنگ‘ کی کتاب ”ناٹ مائی فاردس سن“ سمیت ان تمام کتب کا تسلسل سمجھتا ہوں، جو دنیا کے لاتعداد بیٹوں اور بیٹیوں نے اپنے والدین کے لئے لکھی ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی رقم کیا کہ امر نے محض یادداشتیں تحریر نہیں کیں، بلکہ ان میں تحقیق کا پہلو شامل کر کے ان نگارشات کو تحقیقی سورس مٹیریل بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔

امر پیرزادو نے اپنے والد سے متعلق لکھی اپنی یہ یکتا کتاب، اپنے والد کے ’اسکول آف تھاٹ‘ ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام منسوب کی ہے، جو بقول امر کے، انور پیرزادو کے فکری اور روحانی رہبر تھے۔

انتساب کے اگلے ہی صفحے پر انور پیرزادو کی ایک مختصر نثری نظم ان کی تصویر کے ساتھ طبع کی گئی ہے، جس کا ترجمہ ہے :

زندگی، کتنی بھی بے رونق
کتنی بھی کٹھن
کتنی ہی مشقت سے بھرپور
مگر، سچ پوچھیں تو۔
موت سے پیاری ہے۔

آج کل سندھی میں شائع ہونے والی اکثر کتب کے برعکس، مجھے اس کتاب کی یہ بات بے حد پسند آئی کہ اس میں کتاب کے اصل متن سے پہلے مصنف یا موضوع سخن سے متعلق تحریروں کی بھرمار ہرگز نہیں ہے، بلکہ صرف دو تحریروں پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو اس کتاب ترتیب دینے اور لکھنے کے حوالے سے خود مصنف کی جانب سے بیان کیا گیا اس تحریک کا بیان ہے، جس نے امر کو یہ اہم کتاب لکھنے پر مجبور کیا، جس کا عنوان بھی مصنف نے انتہائی سیدھا اور سادہ رکھا ہے، جو ہے ”کتاب لکھنے کا مقصد“ ، جبکہ اس کے بعد ، حسن مجتبیٰ کا تحریر شدہ مختصر دیباچہ ہے، جس کا میں نے اس تبصرے کے انتہائی آغاز میں ذکر کیا۔ حسن، اس پیش لفظ کا عنوان رکھتے ہیں : ”ہو رانو رام کلیٔ جہڑو“ (ترجمہ: وہ، جو شاہ لطیف کے کلام کے جوگیوں پر مشتمل باب ’رامکلی‘ جیسا، اسی شاہ بھٹائی کے کردار ’رانو‘ کے مثل تھا۔ )

امر نے اس کتاب لکھنے کا مقصد، اپنے جواں مرگ بھائی زبیر اور والدہ کی وفات کے بعد ، اپنے والد کے چھن جانے اور اپنے والد انور پیرزادو کی جانب سے ملنے والی اس ہمہ رنگ رہنمائی کو بتایا ہے، جو ان کی وفات کے بعد روز مرہ کی زندگی میں ان کو یہ احساس دلاتی رہی، کہ ان کے ان تمام اوصاف کو قلمبند کیا جانا ضروری ہے، جو ان کے مختلف ادبی و صحافتی پہلوؤں کے علاوہ بھی ہیں، جو اپنی تربیت کے ذریعے انور، اپنی اولاد میں منتقل کر گئے۔

اسی وجہ سے اس کتاب میں موضوعات کے انتخاب میں ان موضوعات کی بھی کثیر تعداد ہے، جو پہلو بحیثیت ادیب اور دانشور، انور کے معاصرین اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کے لئے جاننا ضروری ہیں، او ایسی خوبیوں کا ذکر بھی ہے، جو خالصتاً ان کی ذاتی خوبیاں تھیں، مگر ظاہر ہے کہ ان کی مجموعی مثالی شخصیت کا حصہ تھیں۔ اپنی اس محض 4 صفحات پر مشتمل نوشت میں امر لکھتے ہیں :

”انور پیرزادو کیا تھے! یہ بات سمجھنے میں یہ کتاب مدد فراہم کر سکے تو یہی اس کتاب کی اشاعت کا مقصد ہے۔ وہ ایک شاعر، صحافی، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی تفہیم کرنے والے، ترقی پسند تحریک کے اہم کردار، ماہر آثار قدیمہ، ادیب، مترجم، کمپئر، سندھ کے عاشق، بائیں بازو سے وابستہ ایک تاریخی کردار تو تھے ہی، مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی تھے، جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔“ اور وہی ’کچھ اور‘ سمجھانے کے لئے امر نے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ مگر ان خوبیوں میں سے امر نے ان کی ’بائیں بازو‘ کے ساتھ جس وابستگی کا ذکر ان کی خوبی کے طور پر کیا ہے، اس کو حسن مجتبیٰ، انور کی خامی گردانتے ہیں، اور اس حوالے سے پیش لفظ میں رقم طراز ہوتے ہیں :

”انور، حسین، شائستہ اور شفیق تخلیق کار، انور کی خراب بات کیا؟ میرے حساب سے انور کی خراب قسمت یوں ہوئی، کہ وہ کمیونسٹوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اور پھر ایسا لگا کہ اس کی جنم بھومی کو محض ’بلہڑیجی‘ کہنا کافی نہ تھا، کہ اسے ’لٹل ماسکو‘ کہنے لگے۔ بلہڑیجی، ماسکو سے ہزار درجہ بہتر تھا، کیوں کہ وہاں نہ تو ’کے جی بی‘ جیسے جلاد جاسوس تھے، اور نہ ہی قرطاس فکر پر کوئی بندشیں تھیں۔ اگر روس (سوویت یونین) پہلے ٹوٹا ہوتا، تو انور اپنی فیلڈس میں اور بہتر کام کر جاتے۔“

اس قدر دو ٹوک اور بے باک انداز میں لکھنا، حسن مجتبیٰ ہی کے قلم کا کام ہو سکتا ہے۔

کتاب کے پشتے (بیک ٹائٹل) پر انور پیرزادو کے مداحوں میں سر فہرست، معروف سندھی ادیب و افسانہ نویس، محمد علی پٹھان نے اپنی مختصر رائے میں لکھا ہے :

”کتاب کے مصنف نے، اس کتاب کے لئے جن موضوعات کا انتخاب کر کے، ان پر قلم اٹھایا ہے، ان میں ان کی نہ صرف کئی راتوں کے رتجگے شامل ہیں، بلکہ بے تحاشا عرق ریزی سے کی گئی تحقیق بھی شامل ہے۔ جس کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بابا کے ہر شعبے میں کیے گئے کام کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ جس کے صفحۂ اول سے لے کر ہی کتاب، کسی دریا کی تیز رو کی طرح قاری کو اپنے ساتھ بہاتی لیتی جاتی ہے اور بالآخر اسے صفحۂ آخر پر ہی سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔“

امر پیرزادو نے اپنے منفرد انداز تحریر میں اپنے والد کی شخصیت کے حوالے سے کل 32 موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ ان موضوعات میں سے ہر موضوع پر الگ الگ تحریریں شامل ہیں۔ ان مضامین / ابواب میں ( 1 ) ”ابتدائی زندگی، خاندانی پس منظر، تعلیمی سفر اور روزگار“ ( 2 ) ”ائر فورس سے کورٹ مارشل ہونے کی کہانی“ ( 3 ) ”بہادر، آدرشی اور محنت کش صحافی“ ( 4 ) ”بینظیر بھٹو کے ساتھ ایک ملاقات“ ( 5 ) ”انور ایک بھٹائیسٹ“ ( 6 ) ”جدید اور ٹرینڈ سیٹر شاعر“ ( 7 ) ”سیاسی مورچے کا انقلابی کردار“ ( 8 ) ”سندھی ادبی سنگت کے ساتھ وابستگی اور قائدانہ پہلو“ ( 9 ) ”بلہڑیجی کو ماڈل گاؤں بنانا“ ( 10 ) ”سندھ سے عشق“ ( 11 ) ”انہوں نے دریائے سندھ کا کیس کیسے لڑا“ ، ( 12 ) ”آرکیالوجی میں وجود کا متلاشی“ ( 13 ) ”سندھ کے پہاڑوں میں ہمہ وقت سفر کرنے والا محقق“ ( 14 ) ”تھر میں سندھو تہذیب ڈھونڈھنے والا“ ( 15 ) ”بحیثیت ایک ترقی پسند نقاد“ ( 16 ) ”انور پیرزادو۔

ایک مترجم“ ( 17 ) ”انور پیرزادو کے سندھ پر لکھے کچھ گزیٹیئرز“ ( 18 ) ”انور پیرزادو کی نظامت (کمپئرنگ)“ ( 19 ) ”ایک فیمینسٹ“ ( 20 ) علم فیلڈ میں ہے ” ( 21 )“ موسیقی کے ساتھ لگاؤ ” ( 22 )“ ماں جیسا دل رکھنے والا باپ ” ( 23 )“ خود پسندی سے دور رہنے والا شخص ” ( 24 )“ نوجوانوں کے لئے ہمت افزائی کا باعث ” ( 25 )“ انور پیرزادو کی دوستی ” ( 26 )“ ذاتی صفائی ستھرائی کے حوالے سے ایک مثالی شخصیت کا حامل ہونے والی خاصیت ” ( 27 )“ گلشن حدید کراچی میں سکونت والا دور ” ( 28 )“ امریکا یاترا ” ( 29 )“ انور پیرزادو، سندھ کے کچے کے علاقے کا ایک زمیندار ” ( 30 )“ سینیئرز کی عزت ” ( 31 )“ سحر انگیز شخصیت ”اور ( 32 )“ کینسر کی بیماری کا بہادری سے مقابلہ کرنا! ”جیسے اہم موضوعات پر مشتمل نگارشات شامل ہیں۔

اس کتاب میں مصنف نے خود ہی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ”یہ کتاب انور پیرزادو کے ادبی کارناموں کو باضابطہ طور پر قلمبند کرنے کا آغاز ہے۔“ اور وہ اس حوالے سے پرامید ہیں کہ اس موضوع پر دیگر کتب بھی تحریر و طبع ہوں گی ۔ دیگر کتب طبع ہونے کا پیشگی خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اس بات کی توقع بھی کرتے ہیں، کہ اس کتاب کی مزید اشاعتیں بھی شائع ہوں اور جب جب ایسی اشاعت ہو، تو ہم اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ اس کا ہر موضوع، اگلی بار واقعات و حوالہ جات کے اضافوں کے ساتھ شائع ہو۔

ایسی گنجائش اب بھی دوران مطالعہ مجھے اکثر مضامین میں محسوس ہوئی، اور ظاہر ہے کہ جب یہ کتاب انور پیرزادو کے ادبی رفقاء کے تمام حلقوں تک پہنچے گی، تو ان موضوعات کے حوالے سے اور بھی بہت سارے حوالے سامنے آئیں گے، جو حوالہ جات اس کے اگلے ایڈیشنز میں شامل کیے جانے چاہئیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال میں انور صاحب کی نظامت کے ہنر کے حوالے سے منسوب باب سے دوں گا، جس میں مصنف نے راقم سے کی ہوئی بات چیت کا حوالہ بھی شامل کیا ہے۔

اس مضمون میں زیادہ تر ذکر انور صاحب کی ٹیلی وژن اور اسٹیج کے لئے کی گئی نظامت کا ہے، جبکہ ان کی ریڈیو کی پرفارمنس کا صرف ایک پیراگراف میں سرسری ذکر ہے۔ جبکہ ریڈیو پاکستان کراچی کے ادبی پروگرام ”رسالو“ میں، بالخصوص ضیائی مارشل لاء کے دوران انور صاحب کی انجام دی ہوئی فنی و ادبی خدمات اس لئے اہم اور یکتا ہیں، کہ اس سخت زباں بندی والے دور میں یہ ”رسالو“ کی باصلاحیت دانشور ٹیم ہی کا کمال تھا، کہ اس پروگرام میں شامل ادیب، بظاہر تو شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری اور پیغام کی تشریح و تفہیم کیا کرتے تھے، مگر وہ دراصل اس پردے میں حاکم وقت کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے، اسے للکار رہے ہوتے۔ اور غالب کے اس شعر کا عملی اظہار بنے ہوتے تھے، کہ:

آگہی دام شنیدن، جس قدر چاہے بچھائے،
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

امر پیرزادو کو ریڈیو پروگرام ”رسالو“ کے حوالے سے انور صاحب کے اس اہم کردار پر تفصیلی روشنی ڈال کر، اس ضمن میں ان کے ”رسالو“ کے پینل میں شامل اور ساتھیوں، بشمول بدر ابڑو، ہدایت بلوچ اور عطیہ داؤد کی آراء شامل کر کے اگلے ایڈیشن میں اس مضمون کو اور جامع بنانا چاہیے اور اسی طرح اگلی اشاعت کے لئے کتاب کے تمام مضامین/ ابواب کو اضافوں کے ساتھ اپ ڈیٹ کرنا چاہیے۔

مذکورہ کتاب کو ’پیکاک پبلشرز‘ کراچی نے انور پیرزادو اکیڈمی کی معاونت سے، اسی برس ( 2022 ء میں ) انور پیرزادو کے ماہ پیدائش و وفات جنوری میں طبع کیا ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل معروف ڈیجیٹل مصور، خدا بخش ابڑو نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ کتاب سندھ کے کم و بیش ہر اہم بک سٹال پر آسانی سے دستیاب ہے۔ 240 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments