والدین پر تشدد: معاشرے میں تیزی سے پنپتا ہوا ناسور


ایک شخص جو اپنے والد کو بوجھ سمجھتا تھا اس فراق میں رہتا تھا کہ کس طرح اس بوجھ سے نجات حاصل کی جائے، ایک روز اپنے والد سے کہنے لگا کہ چلیں دریا کی سیر کرتے ہیں، تو اس کے باپ نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا اور راضی ہو گیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ پریشان ہو، دونوں گھر سے نکل کر دریا کی جانب ہو لیے، دریا پر پہنچ کر بیٹے نے کہا کہ ابا چل کر دریا کے پانی میں نہانے کا لطف اٹھاتے ہیں، اس بار والد نے پھر چونک کر بیٹے کی جانب دیکھا مگر فوراً ہی راضی ہو گیا اور کچھ گہرائی کی طرف بڑھ گیا، کچھ دور جانے کے بعد بیٹا بولا کہ ابا اتنی دیر سے چل چل کر تھک گئے ہوں گے میں آپ کو اٹھا لیتا ہوں، اس بار تو باپ کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

مگر وہ کچھ نہ بولا اور اس بار بھی راضی ہو گیا، بیٹے نے باپ کو کمر پر اٹھایا اور گہرے پانی کی طرف چل دیا، جب وہ اپنے باپ کو پانی میں پھینکنے ہی والا تھا تو باپ بولا کہ بیٹا مجھے یہاں نہ پھینک، یہاں تو میں نے اپنے باپ کو پھینکا تھا، ذرا آگے کر کے پھینک تاکہ تیرا بیٹا بھی تجھے اور آگے لے جا کر ڈبو سکے۔

دنیا بھر میں کوئی معاشرہ بھی ایسا نہیں جہاں والدین کی عزت احترام کو مقدم نہ رکھا جاتا ہو، چہ جائیکہ اسلامی معاشرہ، آپ ﷺ نے بارہا اپنی احادیث کے ذریعہ والدین کی تکریم کو اجاگر کیا ہے، خود قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین کی تابعداری اور عزت و احترام کے متعلق بہت واضح الفاظ میں ہدایات موجود ہیں، لیکن آج جب ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالتے ہیں تو معاشرہ بد ترین اخلاقی ابتری کا شکار نظر آتا ہے۔ بالخصوص والدین سے بدسلوکی کے واقعات تواتر سے مشاہدے میں آ رہے ہیں۔ جو انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن بات ہے، کبھی کبھی تو اس چلن کو عقل تسلیم کرنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ یہ ہم ہی ہیں جو سگے تو دور محلے کے بزرگوں تک کے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ اور اب روزانہ کوئی نہ کوئی دلخراش خبر آپ کی سماعتوں کی منتظر ہوتی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ روش ہمارے معاشرے میں اتنی پروان چڑھ چکی ہے کہ کسی معمولی بات کی طرح بہت سے واقعات تو اردگرد موجود لوگوں کے ذاتی تجربات و مشاہدات سے ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ میڈیا اتنا طاقتور اور فعال ہو گیا ہے کہ لمحوں میں کوئی بھی خبر زبان زد عام ہوجاتی ہے، سوشل میڈیا اور نیوز چینلز روزانہ کسی نہ کسی خبر کی تشہیر کر رہے ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک دن جمعہ کے وعظ کے دوران مولانا صاحب نہایت افسوس کے ساتھ فرمانے لگے کہ زمانہ کیا آ گیا ہے کہ :

ایک بیٹے نے اپنی 85 سالہ ماں کو گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا در بدر کر دیا کہ اگر آپ یہ جائیداد میرے نام نہیں کریں گی تو آپ یہاں رہ بھی نہیں سکیں گی۔ یہ ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو والدین ہی سب سے زیادہ محترم اور قابل تعظیم سمجھے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے تکلیف دہ واقعہ ایک ویڈیو کلپ کی شکل میں دیکھنے کو ملا، جس میں ایک نہایت ہی پروقار بزرگ نہایت عاجزی سے بھیک مانگ رہے تھے، وہ بتا رہے تھے کہ اسی شہر میں ان کا ایک بیٹا بھی رہتا ہے، جو ڈاکٹر ہے، بڑے بنگلے میں رہتا ہے اور نہایت مہنگی گاڑی میں سفر کرتا ہے، اسی بیٹے کی خاطر انہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اسے پڑھایا لکھایا، ڈاکٹر بنایا اور آج بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

ایسا ہی ایک دلخراش مووی کلپ مظفر آباد کا تھا جس میں ایک بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو اسی کی چلنے کی مدد گار چھڑی سے نہایت ہی بے دردی سے پیٹ رہا ہے، تشدد اس قدر ظالمانہ اور روح فرسا ہے کہ شاید ہی کسی نے وہ پوری ویڈیو کلپ دیکھی ہو۔ اسی طرح پنڈی کا وہ بد بخت بیٹا جو کئی سالوں سے اپنی سگی ماں پر بدترین جسمانی تشدد کیا کرتا تھا، کتنے سنگین گناہ اور بدسلوکی کی انتہا ہے کہ وہ والدین جو اپنی زندگی کا خوبصورت ترین وقت اولاد کی پرورش کی نظر کرچکے ہوتے ہیں عمر کے آخری دور میں جب انہیں پیار، سہارے اور توجہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے، ظلم کی ایسی خوفناک صورتحال سے دوچار ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہماری روایات و تہذیب کے برخلاف والدین سے بدسلوکی کا یہ عفریت ہمارے معاشرے میں خوب پھل پھول رہا ہے، نئی نئی تاویلیں جنم لے رہی ہیں نئے نئے جواز سامنے آ رہے ہیں مگر درحقیقت سب طفلی تسلیاں، جھوٹ و مفاد پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

موجودہ معاشرہ اس ابتلا کا بڑی بری طرح شکار ہو چکا ہے اور جہاں بھی نگاہ جاتی ہے ایک نئی تکلیف دہ کہانی کے ساتھ لوٹ کر آتی ہے۔ ابھی ذرا پہلے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اولڈ ہاؤسز کا تصور بھی نہ تھا۔ بلکہ ہمارے ہاں لوگ ہنستے تھے اور حقارت سے کہتے تھے کہ یورپ و امریکہ کی یہ کیسی تہذیب ہے یہ کیسی تعلیم ہے اور یہ کیسی ترقی ہے جس میں لوگ اپنے والدین کو خود سے جدا کر کے بوڑھے لوگوں کی پناہ گاہوں میں پھینک جاتے ہیں۔

اور اب وہی کچھ ہمارے یہاں بکثرت ہو رہا ہے۔ دراصل ایک بہت ہی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بچے والدین کے محتاج یا زیر کفالت ہوتے ہیں والدین کو برداشت کرتے ہیں مگر جوں ہی خود کفیل ہوتے ہیں گھر کے بزرگ بوجھ نظر آنے لگتے ہیں۔ ان کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا، ان کی ہر بات بری لگنے لگتی ہے، اب وہ جنہوں نے زندگی جینا سکھایا ان کی زندگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں، دخل در معقولات کرتے ہیں،

خالص ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں، اور حد تو یہ کہ زندگی جینا مشکل کر رکھا ہے۔ نتیجۃً بیٹے باپ کے گریبان پر بلا تکلف ہاتھ ڈال دیتے ہیں، بیٹیاں ماؤں کو چار چار چلو آنسوؤں کے رلاتی ہیں، سخت الفاظ ناروا سلوک اور بدتمیزی ماؤں کی زندگی کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ یہ وہی ماں ہیں جن کی عظمت کا گواہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ہے۔ وہی ماں آج اپنی اولاد کے ہاتھوں نہ صرف تشدد سہ رہی ہے بلکہ ذلیل و خوار ہو ہو کر بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

کون سے عوامل ایسے ہیں جو اولاد کو اتنا بے حس اور سنگدل کر دیتے ہیں کہ ان کو اپنے والدین پر ترس نہیں آتا بلکہ والدین بوجھ، رکاوٹ اور فضول سی شہ لگنے لگتے ہیں۔ کچھ قصور والدین کا بھی ضرور رہا ہو گا، تربیت کے معاملے میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سقم ضرور ہے جو اس برائی کو جنم دے رہا ہے اور پروان بھی چڑھا رہا ہے۔ یہ کہیں خود اپنی لگائی ہوئی آگ تو نہیں جو اب ہمارے اپنے دامن کو جلا رہی ہے۔ کون سے ایسے عوامل ہیں جو اولاد کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہ والدین، بہن بھائی دیگر رشتہ دار ہمارے کسی کام کے نہیں، کیا ہم وہی ہیں جو بڑوں کی ایک بات پر دوڑیں لگایا کرتے تھے تو اب ایسا کیا ہو گیا کہ ہم اپنی خاندانی اور معاشرتی روایات کو پس پشت ڈال کر سب سے رو گردانی کرنے پر تلے ہیں اور ضمیر ہے کہ مطمئن ہے۔

کیوں آخر کیوں؟ کہیں مغرب کہ اندھی تقلید تو اس کا سبب نہیں، کہیں ہم اپنے بچوں کے سامنے گھر کے بزرگوں کی عزت کا تماشا تو نہیں بناتے رہے تھے۔ کہیں ہم لاشعوری طور پر اپنے بچوں کے سامنے اپنے بڑوں سے اختلافات کا تذکرہ تو نہیں کرتے رہے ہیں، کہیں ہم اپنے بڑوں کی کمزوریوں کا تذکرہ اپنے بچوں کی موجودگی میں تو نہیں کرتے رہے ہیں، اگر محلے کے کسی بڑے نے ہمارے بچے کو ڈانٹ دیا ہو تو ہم جھٹ لڑنے تو نہیں پہنچ جاتے۔

اگر یہ سب کچھ ہوا ہے تو پھر یہ آگ ہمارے گھر کو بھی ضرور اپنی لپیٹ میں لے گی ایسے میں دین سے دوری اور منزلیں آسان کر دیتی ہے، اور لوگ خود کو طفلی تسلیاں دے کر مطمئن کرتے رہتے ہیں کہ یہ سب تو قدرتی ہے، عین فطرت ہے، سب جگہ ایسا ہی ہوتا ہے، ساری دنیا ایسا ہی کر رہی ہے۔ ہم نے کر لیا تو کون سی قیامت آ گئی۔ مگر درحقیقت ہم پاکستانی کبھی بھی ان افعال قبیحہ کو فخر و انبساط کا موجب نہیں بنا سکتے ہمارے لاشعور میں دکھ کی گھنٹی بجتی رہے گی۔

کیونکہ ہماری روایات، ہمارا گھریلو نظام، ہمارے اجداد کا طریق ہمیں اس کے برعکس بتاتا اور سکھاتا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کے بلا تفریق اپنے اردگرد، اپنے گھر، محلے، قصبے گاؤں شہر ہر جگہ وہی پرانا کارآمد فیملی سسٹم رائج کریں جہاں محلے کا ہر بزرگ سب کا سانجھا ہوتا تھا جو کسی کو بھی روک کر پوچھ سکتا ہو، ہدایت کر سکتا ہو، اور والدین کو کوئی اعتراض نہ ہو، تو دیکھئے گا نتیجہ میں وہی بہترین تربیت یافتہ نسل سامنے آئے گی، معاشرے سے اخلاقی ابتری دور ہوگی، اطمینان اور بھائی چارہ بڑھے گا۔ بس ہمیں جہاں موقع ملے اس بات کو چلا نا ہے، کہ کہنے سننے سے ہی یقین پیدا ہو گا، اور یقین ہی نتائج کا حامل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments