بائیں بازو والوں نے تاریخ کو پڑھنے میں بار بار غلطی کی


ہمارے دوست محمود الحسن زندگی کی نعمتوں میں سے ایک ہیں۔ دو ٹوک سچ اور دوست نوازی کا ایسا امتزاج مشکل ہے۔ آج محبی ڈاکٹر وسیم رضا گردیزی (گورنمنٹ زمیندارہ کالج گجرات میں صدر شعبہ پنجابی زبان و ادب ہیں اور درویش کے یکے از دوستاں میں شمار ہوتے ہیں) کے حکم کی تعمیل میں ادھر ادھر کی گرد پھانک رہا تھا کہ محمود الحسن کی ایک شفقت ہاتھ آئی۔ فروری 2014۔ آٹھ برس بیت گئے۔ بیت گئے ہیں کئی زمانے، جا کر واپس آنے میں۔ مگر جانے والے، دوست ہوں یا زمانے، واپس کہاں آتے ہیں۔ دل سے گہری بات کیسے بھلائی جائے۔ محمود الحسن کی محبت میں احساس سرشاری سے مہمیز پا کر اور سلیم احمد کی طرح لمحہ گزراں کو یاد کرتے ہوئے کہ ”جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا“ ، زمانہ تو واپس نہیں لوٹا لیکن ”ترا چہرہ نہ بھلانا آیا“ ۔ محمود الحسن کی محبت، آپ کی نذر۔

٭٭٭                   ٭٭٭

ایمان دار دانش ور کا پہلا امتحان وہاں ہوتا ہے، جب وہ کسی ایسے نتیجے کو رد کرنے پر مجبور ہوتا ہے، جو منطقی طور پر غلط لیکن جذباتی طور پراس کے لیے دل کش ہو۔ اگر اس نے جذباتی دل کشی رکھنے والے نتیجے کو منطق کے علی الرغم قبول کر لیا تو گویا وہیں خود کشی کرلی۔ (شمس الرحمن فاروقی)

اردو کے ممتاز ادیب کے اس بیان میں ایمان دار دانش ور کے لیے بیان کردہ پہلے امتحان میں وجاہت مسعود ہمیشہ سرخرو ٹھہرے اور خودکشی کرنے سے بچے رہے۔ علامہ اقبال نے پنجابی مسلمان سے گلہ کیا تھا

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

ان کی ساری علمی تگ و تاز اس شعر سے متصادم رہی۔ تحقیق کے جویا ہیں۔ سند یا تصدیق کے بغیر کوئی بات سپرد قلم نہیں کرتے، اور اس مقصد کے لیے اپنی قابل رشک لائبریری سے برابر استفادہ کرتے ہیں۔ ذمہ داری کا ان جیسا احساس ہمارے ہاں کے اردو لکھنے والوں میں اب کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کا اعزاز ہے کہ شکاگو یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریتس سی۔ ایم۔ نعیم جو اردو صحافت سے جڑے بڑے بڑے جغادری قلم کاروں کی حقائق سے روگردانی کی  نشاندہی کرتے رہتے ہیں، وہ بھی وجاہت مسعود کی تحریروں کے قائل ہیں۔

یہ رہا تحقیق کا معاملہ تو جناب! پیری مریدی میں وہ مشتاق احمد یوسفی کے مسلک سے ہیں، یعنی پیری پر تو ان کا یقین ہو گا ہی کہ اس سے کس کو رستگاری ہے، مگر مریدی کے یہ بھی ان کی طرح سے قائل نہیں۔ مطالعہ اور تفکر ہی وہ عامل ہیں، جن سے ان کی سوچ کا رخ متعین ہوتا ہے۔ اس واسطے ان کی فکر میں جمود کے بجائے ارتقا کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا شمار اردو لکھنے والے ان معدودے چند لکھاریوں میں ہوتا ہے، جو اندھی جذباتیت کے ذریعے لوگوں کا استحصال کرنے کے بجائے معروضی اور منطقی پیرائے میں عمدہ نثر کے ذریعے حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ انھوں نے خود کو کسی خاص نظریاتی دائرے میں مقید نہیں کیا۔ ان کے خیال میں ”زندگی نظریے سے بڑی ہے۔ وجود مطلق کسی بھی سیاسی، ادبی اور فلسفیانہ نقطہ نظر سے بڑا ہے۔“

وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن رہے۔ کمیونزم کے فلسفے کا ڈوب کا مطالعہ کیا۔ چھان پھٹک کے بعد اس نظریے کو رد کر دیا۔

پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو لبرل حضرات اور این جی اوز کا ایک انبوہ ضمیر فروشاں، بقول وجاہت، کنسورشیم کی صورت میں ان کے حضور پہنچ گیا۔ وجاہت مسعود ان سے مگر الگ رہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئین شکن جرنیل روشن خیال نہیں ہو سکتا ۔ ان کے بقول ”ہر فوجی حکمران کا خواب ایک ایسی چراگاہ ہے جہاں عوام کے نام پر بہت سی بھیڑ بکریاں اس کے دماغ عالی پر اترنے والی ہر پھلجھڑی کو حکم خداوندی سمجھیں۔ دانشور وہ آوازۂ انکار ہے جو آمر کا خواب کرکرا کر دیتا ہے۔“ دانشور کا فرض ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے آنے والے واقعات کی چاپ سن کر خلق خدا کو ان کے مضمرات سے آگاہ کرے۔ وجاہت مسعود نے یہ فریضہ بھی انجام دیا، جس کی ایک مثال یوں ہے کہ نوے کی دہائی میں جب ملا ملٹری الائنس زوروں پر تھا، اس وقت انھوں نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ فوج کا ہم رکاب ملا ایک دن فوج جو ایک ریاستی ادارہ ہے، اس کے خلاف کھڑا ہو جائے گا۔

اس وقت کسی نے ان کی بات کو مانا نہیں لیکن اب ہم سب آنکھوں سے سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ دانشور اور لبرل آدمی ان کے خیال میں وہ ہے، جو ہر لمحۂ موجود میں انتخاب کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ سیاسی، تمدنی اور جمہوری قوتوں پر عسکری اداروں کی بالادستی کی مخالفت کی لیکن بدلے حالات میں وہ طالبان کے خلاف فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے وہ قائل ہیں۔ اس کے حق میں بہتیرا لکھا بھی، مگر جب انھیں لگا کہ اس کے فیصلوں سے ایگزیکٹو بے دست و پا ہو رہی ہے تووہ اس پر تنقید سے چوکے نہیں۔ پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے وجاہت مسعود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سخت ناقد اور انھیں بصیرت سے عاری سیاستدان قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو تیسری قوت کو سامنے لانے کی پرانی خواہش رکھنے والے کرم فرماؤں نے بڑھایا چڑھایا۔ ان کا تجزیہ ہے کہ مستقبل میں وہ اصغر خان جیسے سیاسی انجام سے دوچار ہوں گے۔

1966 ء میں گوجرانوالہ میں آنکھ کھولنے والے وجاہت مسعود کی حیات مستعار پر نگاہ کی جائے توان کے ہاں، ایک اضطراب مسلسل غیاب ہو کہ حضور والی کیفیت نظر آتی ہے۔ ماں باپ کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے پنجاب میڈیکل کالج میں داخلہ تو لیا، پر طبیعت ادھر نہ آئی تو گورنمنٹ کالج سدھار گئے۔ انگریزی ادب کے ساتھ گریجویشن کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1988 ء میں ایم اے انگریزی کیا۔ ان تعلیمی اداروں میں پڑھ کر بھی چین نہ پایا۔ گورنمنٹ کالج کے درودیوار، درختوں، کیفوں، لائبریری اور ہوسٹل کی یادیں تو آج بھی ذہن میں ترو تازہ ہیں، لیکن اس درس گاہ سے انھیں شکوہ یہ ہے کہ یہاں درس حریت نہیں دیا جاتا اور یہ ادارہ والدین کی توقعات پر پورا اترنے والے careerist پیدا کرتا ہے۔

ضیاء الحق کے دور میں پنجاب یونیورسٹی کے گھٹن زدہ ماحول نے اضطراب کو اور بھی بڑھایا۔ شائستہ سراج الدین کے استثناء کے ساتھ، کسی استاد نے متاثر نہ کیا۔ 1988 ء میں ماسٹرز کرنے کے بعد خاندانی منصوبہ بندی کے محکمہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے، یہاں سے بھی طبیعت جلد اوب گئی۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ٹاپ کر کے لیکچرر بنے، پھر اس ذمہ داری سے بھی پنڈ چھڑا لیا۔ اس کے بعد انھوں نے وہی کام کیا جوان کے مزاج سے لگا کھاتا تھا۔ 1994 ء میں جمہوری کمیشن برائے انسانی ترقی کے بانی رکن بنے۔ بارہ برس اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا۔ اس ادارے کے پلیٹ فارم سے نکلنے والے خرد افروز تحریروں پر مشتمل ”نوائے انسان“ کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ دیہات میں بارہ برس انسانی حقوق کی تعلیم کا فریضہ انجام دیا۔ سلطانیٔ جمہور کے لیے جدوجہد کے سفر میں شریک حیات تنویر جہاں بھی شانہ بشانہ رہیں، جنھوں نے ان کے بقول ”چوبیس برس قبل پاکستان میں سیکولر جمہوریت اور انسانی ترقی کے خواب میں سانجھ کی تھی۔“

انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل رہنے کے ساتھ علمی و صحافتی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی سے انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی اور یورپی قانون میں ایل ایل ایم کی سند حاصل کی۔ ان کی علمی شخصیت کی ایک جہت ترجمہ نگاری ہے۔ ”ان کے قلم سے ہونے والے تراجم میں“ نوبل انعام یافتگان کے افسانے ”،“ مولوی تمیزالدین بنام وفاق ”،“ امن ممکن ہے ”،“ سہروردی کی سیاست بیتی ”،“ کشمیر اور انتقال اقتدار ”،“ لسانی فسادات اور صحافت ”شامل ہیں۔ صحافت سے ان کا تعلق مختلف حیثیتوں میں قائم رہا، سردست وہ ایک قومی روزنامہ میں کالم لکھ رہے ہیں۔ “ نصاب گل ”،“ محاصرے کا روزنامچہ ”اور“ پاکستان دوراہے پر ”، ان کی صحافیانہ تحریروں پر مشتمل کتب ہیں۔

”بنیادی سیاسی تصورات“ میں انھوں نے، جمہوریت، سیکولر ازم، بنیاد پرستی اور تنقیدی شعور سے متعلق خیالات کو قلمبند کیا۔ انگریزی میں دو اسکرین پلے بھی لکھے۔ ”والٹن کیمپ نہیں مکیا“ ان کا پنجابی شعری مجموعہ ہے۔ شاعری کے تعلق سے بتاتے ہیں ”شعر اندر ہوتا ہے، میرے اندر بولتا ہے، میں اس کو بسر کرتا ہوں، میں نے بہت پہلے سوچ لیا تھا کہ میں شعر سے لطف اٹھا سکتا ہوں۔ اس شعری واردات میں رہ سکتا ہوں۔ میں شاعر نہیں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا ہنر اعلیٰ درجے کا نہیں۔ زبان کی سیاست کا بندہ نہیں۔ پنجابی شاعری کی پروموشن وغیرہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو زبان کی سیاست کرنے والے ہیں، ان کے ہمنوا ہوں، یہ میں نہیں کر سکتا۔ پنجابی زبان سے محبت ہے مگر اس کے نام پر ہونے والی سیاست سے دلچسپی نہیں۔“

وجاہت مسعود اپنی طبع مضطر جو وقت گزرنے کے ساتھ کچھ کچھ سنبھلتی جا رہی ہے، اس کے بارے میں بتاتے ہیں ”جب آپ شعور سنبھالتے ہیں تو بنیادی سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ اپنے دنیا میں آنے کو معنی کیسے دیے جائیں، معنی کی صورتیں ان گنت ہیں۔ ہم جو چناؤ کریں گے، وہ وسائل، صلاحیت اور اس بنیاد پر ہو گا کہ ہم تاریخ کے کس موڑ پر پیدا ہوئے۔ اسی تناظر میں سب طے پائے گا۔ میرے ہاں اضطراب امبیشن کا نہیں۔ پیسا برا نہیں لگتا لیکن اس کے پیچھے کبھی نہیں بھاگا۔ جائیداد اور منصب میرے لیے کشش نہیں رکھتے۔ رفتہ رفتہ انسان اپنی تحدیدات کو قبول کر لیتا ہے، نوجوانی میں یہ ماننا کہ ہماری سماجی، سیاسی اور معاشرتی تحدیدات ہیں مشکل ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ پتا چلتا ہے کہ ہم یہ یہ کر سکتے ہیں اور یہ یہ نہیں کر سکتے۔“ وہ کہتے ہیں کہ عزت ہر انسان کو اچھی لگتی ہے، مگر ”مجھے ان لوگوں کی طرف سے عزت اچھی لگتی ہے، جن کی میں عزت کروں۔“ وہ جہاں ایک طرف بات ببانگ دہل کہنے پر یقین رکھتے ہیں تو دوسری طرف انھیں تقیہ بھی پسند ہے۔

”اگر آپ نے معاشرے میں ایک نقطہ نظر اپنایا ہے اور اگر آپ کو کبھی اس پر کھڑے ہونے کے لیے پوچھا جائے تو پھر آپ کو کھڑا تو ہونا ہی پڑے گا۔ کھڑے ہونے کے مواقع خود invoke نہیں کرنے چاہئیں۔ دعوت دے کر مصیبت اپنے گلے نہیں ڈالنی چاہیے۔ لکھنے کے عمل میں کوشش رہتی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ وہ جو نوجوانی میں ایک شوق ہوتا ہے کہ ہم نے یہ بھی کہہ دیا، ہم نے وہ بھی کہہ دیا، وہ اب نہیں رہا۔“ تصوف اور روحانیت کے وہ قائل نہیں۔ اقبال کی طرح خرد کی گتھیاں سلجھا کر صاحب جنوں ہونے کی آرزو مند بھی نہیں۔ ان کے بقول ”خرد کی گتھیاں سلجھاتے رہنا ہی منصب انسانیت ہے۔“

ہمارے جیسے معاشرے میں وجاہت مسعود جیسے افراد مس فٹ ہیں۔ ان کے خیال میں یہاں قیام کو گوارا بنانے میں بزرگوں اور ہمعصروں کی محبت کو بہت دخل ہے۔ جوانی میں ہمچو ما دیگرے نیست والا رویہ ان کے ہاں پیدا ضرور ہوا لیکن آگے بڑھا اس لیے نہیں کہ ایسے لوگوں سے تعارف ہو گیا جن سے مل کر لگ پتا گیا کہ عالم اصل میں کون ہوتا ہے۔ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں صحافت پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار نہ ہو سکی۔ نوجوانوں کو قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہیں، جن کے لیے ان کے خیال میں ریاست کو روزی روٹی سے بڑھ کر ذات کے اظہار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، اور نئی نسل کے لیے مسرت کا حصول یقینی بنانا ہو گا۔

وہ اس بات کو پاکستان کے حق میں خوش آیند جانتے ہیں کہ ”ملا کا جدید ریاست کے ساتھ وجودی تضاد کھل کر سامنے آ گیا ہے اور وہ ریاست کے ساتھ اختلاف کو جہاں تک لے جا سکتا تھا، لے گیا ہے، اب یا تو پاکستان کی ریاست تباہ ہو جائے گیا یا پھر اس کی طاقت کو ختم کر دے گی۔“ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں سیاسی معاملات پر ہونے والے ان کہے سمجھوتے کو مثبت سیاسی پیش رفت قرار دیتے ہیں، اور اسے مک مکا کہنے والوں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کی دانست میں، جمہوریت سے ہی اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے کیونکہ بندوق کے زور پر مسلط ہونے والی حکومت سے خیر کی توقع نہیں باندھی جا سکتی۔ ان کے خیال میں، ملک کو مسیحا نہیں بہتر جمہوری نظام کی ضرورت ہے۔ وجاہت مسعود ان دنوں بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں تدریس سے متعلق ہیں۔ (بیکن ہاؤس یونیورسٹی اب خواب و خیال ہوئی۔ ہم سے چھوٹا قمار خانہ عشق- و-مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments