عورت کا سرطان


میں نے پھر ہمت کی اور دلاسا دینے کے لئے کہا تھا، ”دیکھو رضیہ! مرنا تو ہر ایک کو ہی پڑتا ہے اور قسمت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں کسی کو کچھ یہاں ملتا ہے کسی کو کچھ وہاں ملتا ہے، اوپر والے کا حساب اوپر والا ہی سمجھتا ہے۔ ہم لوگ تو بالکل جاہل اور عاجز بندے ہیں، اوپر والے کا حساب کتاب کیا جانیں گے، کیا سمجھیں گے؟ پر دیکھو ہم لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ میں اور جاوید مل کر تمہارے دونوں بچوں کا انتظام کر دیں۔ دیکھو کتنے میاں بیوی روز میرے پاس آتے ہیں جنھیں بچوں کی ضرورت ہے مگر قدرت نے انھیں اولاد نہیں دی ہے۔ ایسے ہی کوئی جوڑا ان دونوں بھائی بہن کو اپنا لے گا جو ان کا خیال رکھیں گے، انھیں تعلیم دیں گے اور اولاد کی طرح سے چاہیں گے، پالیں گے۔ بالکل اپنے بچوں کی طرح سے۔“

زندگی اتنی کٹھور ہوتی ہے، ایک مرتی ہوئی ماں سے یہ بات کہنا بڑا مشکل ہے مگر میرے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ یہ بات کہتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرے دل کو اپنے ہاتھوں سے پیس کر رکھ دیا ہے۔

”ڈاکٹر میرے آٹھ بچے ہیں اور میں انھیں مرنے سے پہلے دیکھ بھی نہیں سکوں گی۔ میں سوچتی تھی اپنی زندگی تو گزر ہی جائے گی کسی نہ کسی طرح۔ ایک دن بوڑھی ہو کر میں تلاش کرلوں گی کامران کو، نعیم کو، سیما کو، فرزانہ کو، رفیق کو، اور عمران کو۔ یہ دونوں تو ہیں ہی میرے پاس۔ پھر مرجاؤں گی۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے کسی سے شکایت کیے بغیر۔ زندگی نے اتنا تو سکھا دیا ہے مجھے مگر اب یہ ہو گیا ہے۔ یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ آپ کے اوپر والے نے انصاف تو نہیں کیا میرے ساتھ۔“ اس کے کرب ناک چہرے پر شدید غصہ موجیں مار رہا تھا۔ ”یہ کیسا انصاف ہے آپ کے اوپر والے کا، ایک میں ہی عاجز رہ گئی تھی اس انصاف کے لئے۔ صرف میں ہی رہ گئی ہوں۔ بے اولادوں کے گھروں کو اولاد والا بنانے کے لئے، کسی کا بچہ جننے کی مشین کی طرح یہ کام سونپ دیا گیا ہے مجھے۔ واہ رے ماں، واہ ری دنیا؟“

”یہ کفر ہے رضیہ، اس طرح سے نہیں بولتے ہیں۔“ میں اپنے اوپر والے کے دفاع میں اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر یکایک میرے ذہن میں آیا تھا کہ اتنی جوان عورت کے آٹھ بچے کہاں سے ہو گئے اور میں نے پوچھا تھا، ”رضیہ باقی بچے کہاں ہیں؟ مجھے بتاؤ میں انھیں تم سے ملانے کی کوشش کروں گا۔“ میں نے پورے خلوص دل کے ساتھ کہا تھا۔ ”میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہارے اس آخری وقت میں وہ تمہارے ساتھ ہوں۔ جاوید سے کہوں گا۔ ایدھی والے تلاش کریں گے انھیں۔ میں نے دلاسا دینے کی کوشش کی تھی۔

آیا پانی کا گلاس لے کر آ گئی تھی۔ یہ آیا میرے بہت سارے ڈاکٹروں اور نرسوں سے بھی اچھی تھی۔ مہربان اور ہمدرد۔ مریضوں سے پیار کرتی تھی۔ انھیں سمجھتی تھی اور انھیں سمجھانے کی کوشش بھی کرتی تھی۔ میں اس کی موجودگی میں مریضوں کے ساتھ اچھا محسوس کرتا تھا۔ اس نے ہمدردی سے پانی رضیہ کو پلایا ”دل نہ چھوٹا کرو رضیہ!“ اس نے مکرانی لہجے میں کہا تھا۔

رضیہ نے پانی پیا، ایک طویل سانس بھری اور دھیرے سے بولی تھی، ”وہ سب کھو گئے، ڈاکٹر۔ نہ جانے کہاں کھو گئے، کوئی اورنگی میں، کوئی جیکب آباد میں، کوئی سانگھڑ میں اور کوئی لانڈھی میں۔ مجھے کیا ملا، بچہ دانی کے منھ کا کینسر۔“ اور پھر وہ دوبارہ خاموش ہو گئی تھی۔

” مجھے بتاؤ رضیہ، مجھے سب کچھ بتاؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ اگر مجھے پتا چل جائے گا تو میں کوشش کروں گا کہ ان تک پہنچوں۔“ نہ جانے کیوں مجھے اس سے ہمدردی ہو گئی تھی۔

اس نے مجھے غور سے دیکھا تھا جیسے تول رہی ہو پھر بولی، ”ڈاکٹر میں نو سال کی تھی تو میری ماں ہم تین بہنوں کو چھوڑ کر چوتھے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی مر گئی۔ پھر میری دونوں بہنیں بھی ایک ایک کر کے مر گئی تھیں۔ میری تو سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا کہ کیا ہوا میری ماں، میری بہنیں یکایک کہاں کھو گئیں۔ مجھے میرے باپ کی شکل یاد ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ روتے رہتے تھے اور ہمیں دیکھتے رہتے تھے۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک دوسری ماں میرے گھر میں آ گئی تھی۔

ابھی میں بارہ سال کی ہی تھی کہ میری شادی زمان سے کردی گئی۔ میں تو اسے شادی ہی سمجھتی تھی مگر مجھے بعد میں پتا لگا تھا کہ میری شادی نہیں کی گئی تھی بلکہ میری سوتیلی ماں نے مجھے بیچ دیا تھا۔ مجھے تو پتا بھی نہیں ہے کہ میرے باپ کو پتا تھا بھی کہ نہیں۔ گھر پر کچھ لوگ آئے تھے، مجھے لال کپڑے پہنائے گئے تھے، ایک مولوی نے کچھ پڑھا تھا اور زمان مجھے اٹھا کر اپنے گھر لے آیا تھا۔ اورنگی میں ہی کسی جگہ پر، اس بستی میں کسی مکان پر۔ اورنگی کی ہزاروں گلیوں میں لاکھوں مکانوں میں نہ جانے کس مقام پر آ گئی تھی۔ مجھے تو اب یاد بھی نہیں ہے۔

”زمان اچھا آدمی تھا مگر نشہ کرتا تھا۔ وہاں پر تو سبھی نشہ کرتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات تو نہیں تھی۔ مجھے تو کچھ پتا نہیں تھا کہ زندگی میں اور بھی کچھ ہوتا ہے۔ میری زندگی تو میرا چھوٹا سا گھر تھا، جہاں میری ساس تھی اور زمان تھا اور پھر میرے ایک ایک کر کے دو بچے ہو گئے تھے، یہ دونوں لڑکے تھے ایک، ایک سال کا اور دوسرا دو سال کا۔

ایک رات میں ان دونوں کے ساتھ سو رہی تھی کہ رات گئے زمان گھر میں داخل ہوا اور مجھے نسیم کے حوالے کر دیا۔ وہ مجھے جوئے میں ہار گیا تھا۔ میرے دونوں بچے وہیں رہ گئے اور نسیم مجھے دوسرے آدمیوں کے ساتھ ٹیکسی میں ڈال کر نیو کراچی لے کر آ گیا تھا۔ میری چیخ پکار، میرا شور شرابا نہ میری ساس پر اثر کر سکا نہ ہی محلے والے کچھ کرسکے تھے اور نہ محلے کے ان سیاسی کارکنوں نے کچھ کیا، جن کی مرضی سے وہاں ہر کام ہوتا تھا اور نہ پولیس کی موبائل نے ان کے راستے روکے تھے۔

میں نیو کراچی کے کسی گھر میں قید تھی۔ پہلی رات تین آدمیوں نے مجھے باری باری پامال کیا۔ میں جوئے میں جیتی ہوئی عورت تھی۔ میرے ساتھ تو سب کچھ کیا جاسکتا تھا، میں کوئی انسان تھوڑی تھی۔ عورت تھی، بچہ دانی کے منھ کے ساتھ۔ تین دفعہ اس گھر سے میں بھاگی مگر تینوں دفعہ پکڑ لی گئی تھی اور ہر دفعہ مجھے مارا گیا، پیٹا گیا اور نہ جانے کتنے لوگوں نے مجھے پامال کیا۔ اسی عرصے میں دوبارہ حاملہ ہو گئی تھی اور اس حمل کے دوران بھی نہ جانے کیا کیا کچھ میرے ساتھ ہوتا رہا تھا۔ ایک ایک دن کی ایک ایک گھنٹے کی کہانی درد بھری داستان ہے۔ ”

میں تقریباً سکتے کی حالت میں اسے دیکھ رہا تھا۔ آیا کے چہرے کی جھریاں اور گہری ہو گئی تھیں۔

”پھر ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ گھر میں ہی دائی نے جنم دیا تھا اسے، بالکل میری ماں کی طرح شکل تھی اس کی اور میں اسے اپنی ماں کے نام سیما سے یاد رکھتی ہوں۔ صرف دس پندرہ منٹ کے لئے دیکھا تھا اسے میں نے اور اسے دائی اپنے ساتھ لے کر چلی گئی تھی۔ مجھے تو صرف آواز آئی تھی۔ ایک ہزار روپے دیے تھے دائی نے نسیم کو اور مجھ سے کہا تھا بہت اچھے گھر میں پلے گی میری بیٹی، یہاں رہے گی تو یہ رنڈی بنا دیں گے اسے میں جن لوگوں کو دے رہی ہوں ان کا کوئی نہیں ہے۔ شہزادی بنا کر رکھیں گے۔ عورت ایک عورت کے ساتھ ایسا کر سکتی ہے، یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ اس وقت بڑا غصہ آیا تھا مجھے، مگر شاید یہ اچھا ہی ہوا میری سیما، میری ماں کسی شہزادی کی طرح پل رہی ہوگی۔ وہ لوگ تو اسے رنڈی بنا دیتے میری طرح سے۔

میری ہر وقت کے رونے دھونے اور بھاگنے کی کوشش سے نسیم بہت گھبرا گیا تھا۔ ایک دن اس نے مجھے مارا بری طرح سے اور پھر مجھے ایک سندھی وڈیرے کے ہاتھ بیچ دیا۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ ایک گاڑی چلانے کے بعد کسی جگہ لے کر پہنچ گئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں سے ذرا ہٹ کر یہ ایک بڑا سا مکان تھا۔ کئی کمرے تھے کئی چوکیدار۔ کسی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ جیکب آباد کا علاقہ ہے۔

حویلی کی عورتوں میں مجھے لاکر پھینک دیا گیا۔ کسی نے کچھ کھانے کو دیا، کچھ کپڑے دیے تھے۔ ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد مجھے رات کی تاریکی میں سائیں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ وہ مجھ سے کسی گڑیا کی طرح کھیلتا رہا اور میں سہمی سہمی ڈری ڈری اس کے حکم کے مطابق گڑیا بنی رہی۔ میرا جسم پختا رہا، روح چھلنی ہوتی رہی، دماغ سن ہوتا گیا کہ مجھے کچھ نظر آنا ہی بند ہو گیا تھا۔ میرے حواس قائم تھے مگر سمجھ ختم ہو چکی تھی، میں پھر حمل سے ہو گئی۔

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں؟ میں کسی کی زبان نہیں سمجھتی تھی۔ پوری حویلی میں ایک خوف ناک ماحول تھا۔ سائیں کی بیوی بچے اور خاندان کے دوسرے لوگ کسی اور جگہ پر رہتے تھے۔ اس جگہ پر صرف چوکیدار تھے اور مختلف عورتیں تھیں، جنہیں سائیں یا سائیں کے دوست، سرکاری افسر، پولیس والے استعمال کرتے تھے۔ حمل کا پتا چلتے ہی سائیں نے مجھے اللہ نواز کے حوالے کر دیا تھا۔ اللہ نواز اپنے ساتھ مجھے ڈیرہ مراد جمالی کے کسی گاؤں میں لے کر آ گیا تھا۔ یہاں پر میری چوتھی بچی پیدا ہوئی تھی اور اللہ نواز نے ہی اسے فوزیہ کا نام دیا تھا۔ میں اس بچی کو ہر وقت اپنے سینے سے لگا کر رکھتی تھی۔ مگر دو دن کے بعد ہی ایک گاڑی میں ایک عورت آئی تھی اور فوزیہ کو لے کر چلی گئی تھی۔ اللہ نواز نے بتایا تھا کہ یہی حکم سائیں کا تھا۔

وہ اچھا آدمی تھا۔ دو مہینے میں اس کے پاس رہی تھی، اس نے اور اس کی بیوی نے میرا خیال رکھا تھا۔ اس کی بیوی بڑی معصوم عورت تھی وہ بچوں کو دیکھتی تھی، کھیت پر کام کرتی تھی۔ مجھے اپنی زبان میں تسلی دیتی تھی اور شاید میری ہمدردی میں خاموشی سے روتی بھی تھی۔ میں سائیں کی امانت تھی اور ان کا فرض تھا کہ مجھے دیکھتے رہیں۔ دو مہینے کے بعد مجھے پھر سائیں کی حویلی میں پہنچا دیا گیا تھا۔ ”

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments