عورت کا سرطان


یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا ملک ہے، یہ کیسا صوبہ ہے، یہ کیسے لوگ ہیں، کراچی سے جیکب آباد، اورنگی سے ڈیرہ مراد جمالی تک کس طرح سے ایک معصوم بچی کے جسم و روح پر، پے در پے وار کیے گئے ہیں۔ زخموں سے بھی اسے ملا ہے ایسا ہی ملا ہے۔ یہ ملک ہے ہمارا اور یہ لوگ ہیں۔ ہم نے ایٹم کے جن کو قابو میں کر لیا ہے لیکن انسان کے اندر کے شیطان کو قابو میں نہیں کرسکے ہیں۔ یہ اسی ملک میں ہو رہا ہے جہاں انسانی تہذیب پانچ ہزار سالوں سے کروٹیں لے رہی ہے۔ یہ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے اجداد نے سندھو دریا کے کنارے نسلوں کی حفاظت میں جانیں دی تھیں۔ بوڑھے سندھو دریا کو تو سوکھنا ہی ہو گا۔ یہ انتقام ہے انتقام۔

”تمہاری بچی ملی کہ نہیں؟“ میں نے آہستہ سے پوچھا، ”نہیں۔ اس کا مجھے کچھ پتا نہیں چلا۔ اللہ نواز نے مجھے صرف یہ بتایا تھا کہ سائیں نے کسی بڑے افسر کو وہ بچی دے دی تھی جن کا کوئی بچہ نہیں تھا اور مجھ سے بھی یہی غلطی ہو گئی تھی کہ سائیں کی حویلی میں کوئی افسر آیا تھا جس کی گاڑی کے ساتھ پولیس کی بھی ایک گاڑی تھی۔ میں تو یہی سمجھی تھی کہ اس کے پاس میری بچی ہے۔ وہ سائیں سے باتیں کر رہا تھا کہ میں بھاگی ہوئی اس کے پاس چلی گئی تھی کہ مجھے ایک نظر فوزیہ کو دکھا دو، میں اس کی ماں ہوں۔ اس کی ماں ہوں۔

اس نے مجھے حیرت سے دیکھا تھا اور مجھے سائیں کا غضب ناک چہرہ یاد ہے۔ چار پانچ لوگ مجھے فوراً ہی پکڑ کر لے گئے تھے۔ کمرے میں لے جاکر مجھے بند کر دیا تھا۔ مجھے وہ سارے گھونسے، تھپڑ ابھی تک یاد ہیں بلکہ ان کے درد سے ابھی بھی کبھی کبھی میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

پھر میں نے سائیں کی شکل دوبارہ نہیں دیکھی۔ اسی شام مجھے پھر بیچ دیا گیا تھا۔ سائیں کو پتا نہیں تھا کہ میں پھر حاملہ ہو چکی ہوں اگر پتا ہوتا تو شاید مجھے پھر اللہ نواز کے پاس بھیج دیتا اور میرا بچہ کسی سرکاری افسر کے پاس پل رہا ہوتا۔ اس کی تعلیم ہوتی، اس کی تربیت ہوتی۔ پھر وہ بھی بڑا ہو کر کوئی بڑا سرکاری افسر بن جاتا۔ خدا جانے کتنے بڑے بڑے افسر وڈیروں، جاگیرداروں، چودھریوں کی ہی ناجائز اولادیں ہیں، میری جیسی عورتوں کے جنے ہوئے جن کے بچہ دانیوں کے منہ پر کینسر ہو گیا ہے۔ ”یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی تھی۔ درد اس کے چہرے پر عیاں تھا۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولی تھی۔

” اس دفعہ جس نے مجھے خریدا تھا اس نے اور اس کے دوستوں نے تین چار مہینے تک مجھے استعمال کرنے کے بعد پھر بیچ دیا تھا۔ میرا حمل کافی واضح ہو چکا تھا اور میری قسمت مجھے حیدرآباد کے چکلے میں لے کر آ گئی تھی۔ یہاں پر بھی ایک کے بعد دو بچے پیدا ہوئے تھے۔ ایک سائیں کا بیٹا تھا رفیق اور دوسرا نہ جانے کس کا بچہ تھا۔ عمران، دونوں کا نام میں نے رکھا تھا۔ دونوں کو میں نے جنم دیا تھا اور دونوں کو میرے دل کے ٹکڑوں کو، میرے جسم کے حصوں کو، میری روح کو میرے مالکوں نے بیچ دیا تھا۔ چکلے کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ لڑکی پال کے جسم بیچنے کے لئے تیار کی جاتی ہے، لڑکے بیچ دیے جاتے ہیں۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے اس وقت سے بازار حسن سجے ہوئے ہیں اور اس بازار کا یہی دستور ہے۔

پھر اس چکلے میں ہی میں نے جنگ شاہی سے آنے والے سرفراز کو پھنسا لیا تھا۔ میں نے اتنے لوگوں میں رہ رہ کر آہستہ آہستہ بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ اسے مجھ سے محبت ہو گئی تھی۔ مجھے محبت کا کچھ پتا نہیں تھا۔ محبت ایک نا سمجھ میں آنے والا لفظ ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہوں گے جنھیں سچ مچ محبت ہوتی ہوگی میں نے تو صرف ایسے لوگ دیکھے تھے جنہوں نے مجھے نوچا تھا، جس طرح سے مرے ہوئے گدھے کو گدھ نوچتے ہیں۔ اسی طرح سے مجھ کو زندہ کو ان لوگوں نے نوچا تھا، بھنبھوڑا تھا، اور میرا سودا کیا تھا، میرے بچوں کو بیچا تھا۔ اوپر والا انصاف کرتا ہو گا مگر وہ انصاف مجھے نہیں ملا ہے ڈاکٹر صاحب! ”تھوڑی دیر کے لئے وہ خاموش ہو گئی تھی۔ اس کا چہرہ اس کے ذہن کی کیفیت بتا رہا تھا۔ نڈھال، بے چین اور خوف زدہ ساتھ میں ایک غصہ تھا اس کے ایک ایک لفظ میں۔

میں نے پھر پانی کا گلاس اسے دیا تھا اور آیا نے اس کے شانے کو آہستہ سے پیار سے دبایا تھا۔ وہ پھر بولنے لگی۔

” پھر ایک صبح جب سب ہی سو رہے تھے میں سرفراز کے ساتھ بھاگ کر جنگ شاہی آ گئی تھی۔ مجھے اس سے کسی قسم کی محبت نہیں تھی مگر ایک تعلق تھا اس سے وہ مجھے نہ جانے کیوں بہت چاہتا تھا۔ اسے میرے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا اور نہ میں نے اسے بتایا تھا کہ میرے پہلے سے بچے ہیں۔ وہ شادی شدہ آدمی تھا اور اس کی بیوی اور بچے بھی تھے۔ اس نے مجھے اپنی زمینوں پر ہی ایک گھر میں رکھا تھا اور میری زندگی کے یہی تین سال سکھ چین سے گزرے تھے۔

یہیں پر میرے یہ دونوں بچے ہوئے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ آہستہ آہستہ میں نے سرفراز کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا اور سوچا تھا کہ اب یہاں پہ ہی زندگی گزار دوں گی، جب جوانی اپنی کشش کھودے گی، جب میں عورت، ایک گالی، ہوس کا پتلا نہیں رہوں گی تو پھر اپنے بچوں کو تلاش کرلوں گی۔ اورنگی جاکر زمان سے چھینوں گی اپنے بچوں کو، جیکب آباد کے سائیں سے پوچھوں گی کہ کہاں ہے میری بیٹی، نیو کراچی کے نسیم سے پوچھوں گی کہاں ہے میری بیٹی۔

حیدر آباد کے چکلے میں جاکر ڈھونڈوں گی ان رنڈیوں کو اور پوچھوں گی کہ کہاں گئے ہیں میرے بچے۔ مگر سب کچھ ختم ہو گیا۔ ایک شام سرفراز کا ملازم میرے پاس گھبرایا ہوا پہنچا، اس نے بتایا تھا کہ سرفراز کو اس کے سوتیلے بھائی نے گولی مار دی تھی اور وہ لوگ پولیس کچہری سے فارغ ہو کر مجھے بھی مار دیں گے، لہٰذا جتنی جلدی ہو سکتا ہے یہاں سے بھاگ جاؤں۔ کچھ روپے میرے پاس تھے، کچھ روپے اس نے دیے تھے اور مجھے جنگ شاہی کے اسٹیشن پر پہنچا کر گاڑی میں سوار کر دیا تھا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ لانڈھی کے اسٹیشن پر اترنے کے بعد مجھے جاوید بھائی مل گئے۔ انہوں نے میرے لئے جھگی کا بندوبست کیا اور کام کا انتظام بھی کیا تھا۔ ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ یہ سب کچھ ہو گیا۔ بڑا عجیب انصاف کیا ہے اوپر والے نے میرے ساتھ۔ ”اس کے سوالیہ چہرے کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا۔

میں نے اسے تسلی دی تھی اور کہا تھا کہ وہ بجلی کا علاج جاری رکھے اور جاوید کو میرے پاس بھیج دے، میں کوشش کروں گا کہ کچھ اس کے لئے کر سکوں۔ وہ نہیں آئی تھی۔ جاوید بھی نہیں آیا۔ دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں گزر گئے تھے اور پھر جاوید نے آ کر خبر دی تھی کہ رضیہ مر گئی۔

میں نے اپنی خوشی کو چھپاتے ہوئے جاوید سے پوچھا کہ اس کے بچوں کا کیا کرنا ہے؟

جاوید نے بتایا تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی دونوں بچے ایک ایسے جوڑے کو دے دیے تھے جن کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ ”بڑی ہمت والی عورت تھی، ڈاکٹر صاحب بہت ہمت والی۔“ جاوید نے مجھ سے کہا، ”اپنی زندگی میں اپنے بچے کون دیتا ہے؟“

میں نے کچھ نہیں کہا۔ میں تو جانتا ہوں ماؤں کو۔ وہ تو ایسا ہی کرتی ہیں، ان کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ سب کچھ لٹا دیتی ہیں اپنے بچوں کے اوپر۔ رضیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ میں نے جاوید کو رضیہ کے بقیہ چھ بچوں کے بارے میں نہیں بتایا۔

میں کیا بتاتا کہ کس کس طرح کے عذاب جھیلے ہیں رضیہ نے۔ کس کس طرح سے پامال کیا گیا اسے۔ ارے، وہ تو جب سے پیدا ہوئی ہے صرف دے رہی ہے۔ پہلے ماں دے دی اس نے، اس نظام کو، جہاں حاملہ عورتیں بچے جننے کے دوران مر جاتی ہیں پھر اپنی بہنیں کھودی اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے، پھر خود ہی بک گئی چند روپوں کے عوض۔ اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں پھر مرد اسے بیچتا رہا اس کے بچوں کو بیچتا رہا۔ بچہ بنانے کی مشین تھی، عیاشی کا ایک چلتا پھرتا اسٹال تھی وہ۔ لیکن۔ ہاں لیکن آخر تو ایک عورت تھی اندر سے۔ سسکتی رہی اپنے بچوں کے لئے۔

کیا دیا تھا ہم لوگوں نے اسے، بچہ دانی کے منھ کا کینسر۔ میرے باس نے مجھے بتایا تھا، ”میری کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ مسلمان اور یہودی عورتوں کو بچہ دانی کے منھ کا کینسر نہیں ہوتا ہے کیوں کہ ان کے شوہر ختنہ کراتے ہیں، کیوں کہ ان کی عورتوں کے بہت سارے جنسی ساتھی نہیں ہوتے۔ میرا دل کرتا ہے اپنی کتابوں کو آگ لگا دوں۔ اپنے باس کے نوٹس کو پھاڑ کے پھینک دوں۔ انھیں رضیہ دکھا دوں۔ رضیہ کی لاش دکھا دوں۔ ان تمام مردوں کے ساتھ جن کے ختنے۔ ہوچکے تھے۔

میں اس رضیہ کی لاش دکھاؤں، جو ایک غیر اہم فرد کی غیر ضروری موت مر گئی مگر وہ لاش کیسے دیکھیں گے؟ یہ لاش سرطان بن کر پورے معاشرے کے تن بدن میں پھیل چکی ہے، ناسور بن کر سڑ رہی ہے۔ کیا ان سب لوگوں کو اس لاش کے سڑنے کی بدبو نہیں آ رہی!

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments