بھٹو تو دور آپ تو نواز شریف بھی نہیں


میں نے انہیں جب بھی دیکھا، جب بھی سنا، میں نے سوچا اسے بتا دوں کہ عمران خان صاحب اب کرکٹ ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں کے کپتان نہیں ہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگوں اور چھ لاکھ فوج کے ایٹمی ملک کے ذمہ دار وزیراعظم ہیں۔

پتہ نہیں کیوں انہیں وزیراعظم بننے کا اعزاز کرکٹ ٹیم کے کپتانی سے کمتر لگتا تھا۔ جبکہ کرکٹ میں بھی ان کی وجہ شہرت مختلف قسم کی سکینڈلز تھے کیونکہ ان کی کارکردگی کبھی بھی مستقل اور لمبے عرصے تک ورلڈ کلاس نہیں رہی۔ انہوں نے 88 ٹیسٹ میچز میں 37.69 کی ایوریج سے 3807 رنز بنائے جبکہ ٹیسٹ باؤلنگ میں 22.81 کی ایوریج سے 8258 رنز دے کر 362 وکٹ لیے۔ جبکہ ون ڈے کیریئر میں کل 175 میچز کھیل کر 33.41 کی ایوریج سے 3709 رنز بنائے اور باؤلنگ میں 26.61 کی ایوریج سے 4844 رنز دے کر 182 وکٹ لیے۔

ان کو یاد ہی نہیں کہ جس ورلڈ کپ کے نشے سے وہ نکل نہیں سکتے، اس ورلڈ کپ میں نہ وہ پاکستان کی طرف سے ٹاپ سکورر تھے اور نہ ٹورنامنٹ کی لیول پر۔ وہ پاکستان کی طرف سے ٹاپ وکٹ ٹیکر باؤلر تھے اور نہ ہی ٹورنامنٹ کے۔

ان کی سٹریٹیجی سوشل میڈیا پر شہرت کے بھوکے صارف سے مشابہ تھی جو کسی مشہور شخصیت کے ساتھ تصویر بنا کر اپلوڈ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں فلاں کے۔ بڑی بڑی مشہور ہیروئینوں کے ساتھ سکینڈلز بنا کر خود کو لائم لائٹ میں رکھا۔ نواز شریف اور ضیاء الحق سے مالی فوائد کے علاوہ خبروں کی زینت بھی بنتے رہیں۔ جمائمہ سے شادی دیسی ذہن کی رومانیت ہے۔ مالکوں کی لڑکی سے شادی دیسی بندے کے زخمی آتما کا سیراب شدہ خواب ہوتا ہے۔

عمران نے جمائمہ سے شادی کر کے خود کو ان کا خواب بنا دیا۔ وہ اتنا چالاک تھا کہ باقی سیاستدانوں سے ووٹر پیسے لیتے ہیں عمران خان نے اپنے چاہنے والوں سے چندے بھی لیے اور ووٹ بھی۔ انہوں نے بڑی منصوبہ بندی اور موقع شناسی سے خود کو لارجر دین لائف پروجیکشن دلا کر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ جبکہ اسی ٹورنامنٹ کا جس کی کہانیاں عمران خان اپنے بچوں سے لے کر ٹرمپ اور پوٹن کو بھی سنا چکا ہے، اس کا لیڈنگ وکٹ ٹیکنگ باؤلر آج بھی ٹی وی پر اشتہارات میں خواتین کو واشنگ پاؤڈر بیچ کر زندگی گزار رہا ہے۔ باقی دس کھلاڑی کس حالت میں ہیں وہ نہ عمران خان جانتے ہیں نہ قوم۔

1992 کے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں عمران خان تھے ہی نہیں، دوسرے میچ کو عامر سہیل کی سینچری نے جتوایا۔ تیسرے میچ میں پاکستان کی پوری ٹیم 74 پر آؤٹ ہوئی تھی جس میں عمران خان پھر موجود نہیں تھے۔ اگلے میچ میں ساؤتھ افریقہ کے خلاف عمران خان نے صرف دس رنز بنائے تھے جبکہ اس سے اگلے میچ میں انڈیا کے خلاف عمران خان زیرو پر آؤٹ ہوئے تھے اور آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے میچ میں عمران خان سات رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تھے۔

اگلے میچ میں سری لنکا کے خلاف عمران خان پھر زیرو پر آؤٹ ہو گئے تھے۔ سیمی فائنل جیسے اہم ترین میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 264 کا ٹارگٹ دیا تو عمران خان نے 93 بالوں پر 44 سکور کر کے رن ریٹ آٹھ پر پہنچایا تھا اگر انضمام الحق 37 بالوں پر 60 رنز نہ بناتا تو پاکستان وہ میچ عمران خان کے سلو رنز ریٹ کی وجہ سے ہار چکا تھا۔ اسی طرح فائنل میچ میں وسیم اکرم نے مخالف ٹیم کے دو بہترین کھلاڑی یکے بعد دیگرے آؤٹ کیے تو میچ پاکستان کے حق میں ہوا۔ لیکن اسی ورلڈ کپ میں اسی معمولی کارکردگی کے ساتھ ورلڈ کپ کے شہ بالے عمران خان صاحب بنتے ہیں اور باقی دس کھلاڑی باراتی نظر آتے ہیں۔

دس دس سال تک مسلسل ورلڈ کپ جیتنے والے تو جہانگیر خان اور جان شیر خان بھی ہیں۔ وہ نارمل لوگوں جیسے زندگی گزارتے ہیں اور عام لوگوں جیسا رویہ رکھتے ہیں۔ شہر کے غمی شادی میں شرکت کرتے ہیں لیکن کبھی ان کے منہ سے کسی سکواش مقابلے یا ورلڈ کپ کی بات بلا ضرورت نہیں سنی۔ نہ کبھی ان کو چوک یادگار میں کھڑے ہو کر سکواش چیمپئن شپ پر عوام کو تقریر کرتے ہوئے سنا ہے۔ جب تک کہ ان سے خصوصی طور پر پوچھا نہ جائے وہ کھیل پر بات ہی نہیں کرتے۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ برٹش سکواش چیمپئن شپ کھیلنے سے پہلے جان شیر خان اور جہانگیر خان کی جوڑی پی ٹی وی پر معین اختر کے پروگرام میں مہمان تھی۔ معین اختر نے اپنے مخصوص انداز میں شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ سکواش کھیلنے نہیں جا رہے ہیں آپ تو جیتنے جا رہے ہیں۔ اور یہ سچ بھی ہے۔ ایک دفعہ جان شیر خان کہہ رہا تھا کہ مسلسل جیت نے اسے بور کر دیا تھا کیونکہ گیم میں کوئی مقابل ٹکتا ہی نہیں تھا۔

جبکہ دوسری طرف عمران خان خود میدان میں اترتے تو ان کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کھیلنے جا رہے ہیں یا ہارنے، وکٹ لینے جا رہے ہیں یا مسل پل کرنے۔ کیونکہ یہی بات معین اختر نے ایک دن ٹی وی پروگرام میں عمران خان کو چھیڑتے ہوئے کہی تھی کہ باقی کھلاڑی گیند مار چڑھاتے ہیں آپ پٹھا چڑھاتے ہیں۔ جان شیر خان اور جہانگیر خان اکیلے اپنے زور بازو پر دس دس سال تک دنیا بھر میں منعقدہ سارے کپ جیتے رہے ہیں، کرکٹ کی طرح گیارہ کھلاڑیوں کی زور پر ایک کپ نہیں، جبکہ اپنے ساتھی گیارہ کھلاڑیوں کو عمران خان آج تک کوئی کریڈٹ دینے کو تیار ہیں نہ اس دن انہوں نے ان کو کوئی کریڈٹ دی تھی جب وننگ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر انہوں نے تقریر کی تھی دیکھنے والوں کو یاد ہو گا عمران خان نے اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کی تعریف یا شکریہ میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا تھا۔

یونس خان بھی ایک کرکٹ ورلڈ کپ ملک کے لئے جیت کر لائے ہیں، جو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سب سے زیادہ کلین اور اصولی کھلاڑی ہیں۔ وہ بھی مردان شہر میں تعزیتوں اور شادیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جو بات محفل میں ہوتی ہے اس پر بات کرتا ہے، کبھی کرکٹ کیریئر پر تقریر کرتے ہوئے اور لوگوں کو عقل دیتے ہوئے نہیں دیکھا، جس طرح خان صاحب کرتے ہیں۔ ٹرمپ سے ملاقات ہو یا کسی شہزادے سے، اقوام متحدہ ہو یا قانون ساز اسمبلی، جہاں ان کو موقع ملتا ہے خان صاحب کرکٹ کی کہانی شروع کر دیتے ہیں۔

جبکہ جب وہ کھیلتے تھے، تو ہم دیکھتے تھے۔ جب وہ فارن ٹورز پر جاکر ٹیم ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی اداکارہ سے ملنے رات کو ہوٹل سے غائب ہو جاتے تھے اور صبح بالنگ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی مسل پل ہوئی ہوتی تھی تو ہم اس کی کہانیاں کرکٹ میگزینوں میں پڑھتے تھے۔ لوگ پھر بھی ان کی محبت میں ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ دس دس سال تک مسلسل ورلڈ کپ جیتنے والے جہانگیر اور جان شیر جیسث وہ نہیں تھے، کیونکہ انہوں نے کیرئیر کا واحد ورلڈ کپ اکیلے محنت کر کے نہیں جیتی۔ ان کے ساتھ گیارہ کھلاڑی اور بھی تھے۔ اس دن کی تقریر میں عمران خان نے کہا تھا کہ میرے کرکٹ کیریئر کے اس جھٹ پٹے میں مجھے یقین نہیں آتا کہ میں ورلڈ کپ جیت جاؤں گا جب کہ آج وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انگریز کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ میں ان کو شکست دینے کے لئے میدان میں اترتا تھا۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ آپ کرکٹ کے عظیم کھلاڑی، بہترین اسٹریٹیجسٹ اور ناقابل شکست کپتان تھے۔ لیکن اس کے احسان میں قوم نے آپ کو چندے دے کر ہسپتال بنانے کے قابل بنایا۔ پھر حمید گل اور کمپنی نے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کے اصطبل میں گروم کرنا شروع کیا جس کی کہانی قوم کے ہمدرد عبدالستار ایدھی نے برملا قوم کو بتا دی۔ جس سیاسی جدوجہد کو آپ بائیس سال پر کھینچ کر لے جاتے ہیں وہ دراصل مشرف کے ریفرینڈم سے شروع ہوتی ہے۔ آپ نے اس کی ٹیم میں بھی اسی طرح سیلیکٹ ہونے کی کوشش کی جس طرح کرکٹ ٹیم میں ماجد خان کی سفارش سے سلیکٹ ہوئے تھے۔

لیکن مشرف کو آپ کی صلاحیت پر یقین نہیں تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آپ کرکٹ کے تو کپتان تھے لیکن سیاست کے بارہویں کھلاڑی ہیں۔ جس کو بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے متبادل کے طور پر سائیڈ لائن پر موجود بنچ پر بٹھایا گیا تھا۔ اور وقت نے ثابت بھی یہی کیا کہ آپ نواز شریف کے متبادل کے طور پر ٹیم میں شامل کیے گئے تھے، جونہی وہ فٹ ہوئے آپ کو پھر سائڈ لائن پر بٹھایا گیا۔ آپ کو بھٹو بننے کی کوشش بالکل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بھٹو کی طرح امر ہونے کے لئے دار کی رسی ڈکٹیٹر شپ کے سرد موسم میں مفلر کی طرح گردن کے گرد لپیٹنی پڑتی ہے۔

بھٹو تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ آپ کی طرح ”سوشل میڈیا کا دور“ کہہ کر دھمکی دینے کا روادار نہیں تھا۔ عمران خان کے خیال میں عوام کا حافظہ بہت محدود اور شارٹ سرکٹ ہوتا ہے لیکن لگتا ہے وہ خود جلد بھول جاتے ہیں، کیونکہ جس سوشل میڈیا کی تڑی وہ آج کل کسی کو دے رہے ہیں اسی سوشل میڈیا پر اظہار خیال کے بدلے میں وہ پانچ سال قید اور لاکھوں روپے جرمانے کی پیکا قانون لانا چاہتے تھے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ اونٹ پہاڑ سے چھوٹا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا یاد آ گئی۔

معاف کیجئے بھٹو تو کیا آپ تو نواز شریف جتنی جرات بھی نہیں رکھتے۔ کیونکہ خط دکھا کر اس کی متن پر بات تک نہیں کر سکتے جبکہ نواز شریف کو غلام اسحاق نے چلنے نہیں دیا تو ٹی وی پر آ کر انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا اور اس دفعہ نکالے جانے پر دو طاقتور ترین جرنیلوں کو نام سے پکار کر کہا کہ آپ دونوں ذمہ دار ہیں، جبکہ آپ اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ حکومت تو کیا میری جان بھی چلی جائے تو میں دے دوں گا لیکن این آر او نہیں دوں گا لیکن تقریر ختم کرتے ہی اپ استعفیٰ دینے یا بغاوت پر اترنے کی بجائے دوبارہ وزیراعظم ہاؤس رات گزارنے چلے جاتے تھے۔

ریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں، بلا سیاق و سباق قرآنی آیات کا ذاتی مفاد کا استعمال کرتے ہیں، قوم کا باپ بن کر اس کی تربیت کا دعویٰ کرتے ہیں پھر لعن اور طعن بن کر دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ جبکہ آپ خود اپنے بچوں کے لئے پورے پاکستان میں کوئی مناسب سکول یا تربیت کا اہتمام نہیں کر سکتے۔ آپ کئی بار مدینہ منورہ چلے گئے۔ ہما شما بھی جہازوں میں بھر کر لے گئے۔ لیکن کبھی سلیمان اور قاسم کو مدینہ کی گلیاں نہ دکھا سکیں۔

خانہ کعبہ کے طواف اور مسجد نبوی کی شب باشی اور درود و سلام کے مسحور کن محفل میں نہ بٹھا سکیں۔ جبکہ کرسمس اور ہانوکا مناتے ہوئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ کیا وہ کرسمس اور ہانوکا کی طرح عیدین اور عید میلاد النبی بھی مناتے ہیں؟ کیونکہ نہ آپ کو عوام کے ساتھ مسجد میں عید کی نماز پڑھتے اور عید مناتے دیکھا گیا نہ ایسا کرتے ہوئے ان کی کوئی تصویر نظر ائی۔

وقار کے ساتھ حکومت نہ کرسکے صرف لفاظی اور پروپیگنڈا کے زور پر وقت گزارہ جاتے جاتے باوقار رویہ اختیار کرتے۔ قوم پونے چار سال آٹا گھی تیل دوائیاں چینی بیروزگاری اور مہنگائی روتی رہی اور آپ معیشت گورننس سیاست سفارت پر بات کرنے کی بجائے چھکے چوکے اور باؤنسر کی پکی راگ الاپتے رہیں۔ آپ کو اتنا لاڈ ملا کہ آپ کی خاطر میڈیا مخالف سیاستدان رپورٹر یوٹیوبر اور تجزیہ نگاروں کو ”مثبت رپورٹنگ“ نہ کرنے کی پاداش میں جان کے لالے پڑے۔

آپ کی حکومت کا مقصد عوام کے لئے آسائشیں اور اور آسانیاں نہیں تھا، آپ نے صرف مخالفین کی پگڑیاں اچھالنی تھیں پاکستان کی سیاست بہت بری سہی لیکن اس میں مخالف کی بہو بیٹیوں کا تقدس برقرار رہا ہے آپ نے اس کا بھی لحاظ نہیں کیا تبھی تو کل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے زرداری جیسے دھیمے سیاستدان کو کہنا پڑا کہ ایک شخص کے علاوہ میں ہر مخالف سے گلے ملنے کو تیار ہوں۔

بائیس سال کی گرومنگ، سٹیٹ مشینری کے بے دریغ پش پناہی، سینکڑوں گھنٹے کی بلا تعطل میڈیا کوریج، اعلیٰ لیول کی عدالتی بے ایمانیوں، ہزاروں سرکاری سائبر سپورٹروں، دائیں بائیں موجود ہمہ وقت اے ٹی ایم مشینوں اور ان کے جہازوں، صابر شاکروں حسن نثاروں اور ارشاد بھٹیوں کی دن رات ایمان افروز کوششوں کے باوجود آپ سمپل میجارٹی پر مبنی ایک حکومت نہیں بنا سکے، اور اب جب زمین جلنے لگی ہے تو آپ بھی علی محمد خان کی طرح سمجھتے ہیں کہ آپ پھر آ جائیں گے اور وہ بھی ٹو تھرڈ میجارٹی سمیت۔ خیال رکھیں آپ بھٹو نہیں ہے اور بھٹو بننے کی کوشش بھی نہ کریں کیونکہ اس کی واپسی کی ڈر سے انہیں راولپنڈی سے رات کے اندھیرے گڑھی خدا بخش آخری سفر پر روانہ کیا گیا تھا، آپ کے لئے بہترین مثال نواز شریف ہیں، آپ ان کا راستہ اپنائیں لیکن وہ بھی کافی کٹھن ہے۔ آپ سے نہیں ہو سکے گا۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments