چہروں کے ’گل‘ ہزارہا ناچیں نگاہ میں ”۔ نامور شاعر اور عالم، مقصود گل کا 72 واں یوم پیدائش


 

آج سندھ کے منفرد مزاحمت نگار اور رومان نویس شاعر، عالم، دانشور، مترجم، حضرت سچل سرمست رحہ کے شارح، کالم نویس، بچوں کے ادیب اور اپنی ذات میں ادارہ ساز اور شخصیت ساز شیریں مزاج شخص، ’مقصود گل‘ ( 1950 ء۔ 2015 ء) کی سالگرہ کا دن ہے، جو آج سے 72 برس قبل، اس حسین سرزمین سندھ کے لاڑکانے ضلع کے خوبصورت شہر رتودیرو میں، اپنے دور کے منجھے ہوئے سندھی شاعر، استاد، تعلیم دان، صحافی اور سماجی کارکن، قاضی عبدالحی ”قائل“ سرشاری کے گھر، 15 اپریل 1950 ء کو سنیچر کے روز پیدا ہوئے، جو ہجری تقویم کے لحاظ سے 27 جمادی الثانی 1369 ہجری کی تاریخ تھی۔

جس روز ضلع لاڑکانے کے اس چھوٹے سے شہر رتودیرو میں مقصود گل کی ولادت ہوتی ہے، اس وقت پاکستان کو وجود میں آئے ابھی پورے 3 برس بھی نہیں ہوئے تھے اور ان کی پیدائش سے پورے 4 ماہ بعد اس ملک کو اپنی تین برس کی عمر کو پہنچنا تھا۔ یعنی عمر میں پاکستان، مقصود گل سے محض 2 سال، 8 ماہ بڑا تھا۔

اگرچہ برطانوی تسلط سے آزاد ہوئے بھارت کی عمر بھی اتنی ہی تھی، مگر پاکستان اور بھارت میں ایک فرق یہ تھا کہ بھارت کو مقصود صاحب کی پیدائش والے برس ایک نیا جنم ملا تھا۔ کیونکہ 1947 ء تا 1950 ء بھارت کی حیثیت، اس کی کئی ’راجائی ریاستوں‘ (پر نسلی اسٹیٹس) کے ہندوستان میں شامل ہونے یا نہ ہونے والے تذبذب کی وجہ سے، ابھی بھی ’ڈومینین آف انڈیا‘ (نیم مسلط شدہ اور نیم آزاد بھارت) والی رہی، جس کے تحت ہندوستان، برطانیہ سے ذاتی اتحاد میں ایک بادشاہت کی وفاقی ریاست والے ’نیم آزاد ملک‘ کی طرح رہا اور بھارت کی کئی ریاستوں کے علاقے سیاسی طور پر ’ہندوستانی یونین‘ میں ضم رہے اور کچھ اس سے الگ۔ البتہ 26 جنوری 1950 ء سے (جس دن کو اب تک ہر سال بھارت میں ’یوم جمہوریہ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے ) بھارت نے ایک مکمل جمہوری ریاست کی حیثیت میں اپنی خودمختار حیثیت حاصل کی۔

ادھر دیکھا جائے تو عالمی فضا سے ابھی دوسری جنگ عظیم کے بادلوں کی کالک بھی نہیں اتری تھی اور ابھی جنگ عظیم دوم کو پورے ہوئے آدھی دہائی بھی نہیں گزری تھی، کہ قاضی ’قائل‘ کے گھر اس مزاحمتی شاعر نے آنکھ کھولی تھی۔ 2 ستمبر 1945 ء کو ختم ہونے والی ’ورلڈ وار ٹو‘ کو اس دن پورے 4 سال، 7 ماہ اور 13 دن گزرے تھے، جس دن سندھ کے یہ حسین شاعر پیدا ہوئے۔

انسان پر اس کی جائے پیدائش کے خمیر اور اس دور کے عالمی معروضی حالات بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر انداز ضرور ہوتے ہوں گے ۔ اگر یہ قیاس سائنسی حوالے سے درست ہے، تو یہ حقیقت ہر عالمی ادب کے قاری پر آشکار ہے، کہ 1950 ء کی دہائی انگریزی ادب میں ’غصے کی دہائی‘ (اینگری ڈیکیڈ) کے طور پر گنی اور جانی جاتی ہے۔ انگریزی محقق اور نقاد ’گریگ بزویل‘ کی تحقیق کے مطابق یہ حقائق عالم آشکار ہیں، کہ 1950 ء کے عشرے میں کس طرح یہ غصہ، برطانوی شاعر اور ناول نویس ’فلپ لارکن‘ ( 1922 ء۔

1985 ء) اور انگریزی شاعر ’تھام گن‘ ( 1929 ء۔ 2004 ء) کی تحریک، شاعری سے انگریز ناول نویس، شاعر اور نقاد ’کنگسلے ایمیس‘ ( 1922 ء۔ 1995 ء) کے افسانوں اور نام نہاد ’اینگری ینگ مین‘ (ناراض نؤجوان) کے ڈراموں تک، نئے قسم کے ادب کو جنم دے رہا تھا۔ مغرب کے ادب میں اس غصے کی لہر کے آغاز والے سال پیدا ہونے والے مقصود گل کو بھی جیسے مزاحمت گھٹی میں ملی، جبھی تو اس لہجے کی تلخی، اس لمحے سے ٹھیک 3 عشرے بعد بھی محسوس کی گئی اور ان کا حرف حرف 80 ء والی آمریت کی آنکھوں میں آگ کا گولا بن کے چبھا۔

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد کے برسوں میں برطانیہ ایک بار پھر آگے بڑھ رہا تھا۔ انگلینڈ مجموعی شکستوں کے زخم پونچھ کر ایک پرجوش مستقبل کی جانب دیکھ رہا تھا۔ جنگ کے نقصانات کی وجہ سے ہونے والی تھکن دور ہو رہی تھی۔ جنگ کے گھاؤ بھر رہے تھے۔ امریکا کی جانب سے ملنے والی مالی امداد ملک کی تعمیر نؤ میں مدد کر رہی تھی۔ مگر فنون لطیفہ، بالخصوص وہاں کا ادب اور تھیٹر، ابھی زبوں حالی کا شکار تھا۔ جنگ سے پہلے والے دور میں لکھے آرام دہ ڈرائنگ روم ڈراموں نے اب اسٹیج پر غلبہ حاصل کر لیا تھا، اور 1954 ء میں ’دی آبزرور‘ میں شائع ہونے والے مضامین کے ایک سلسلے میں، ان دنوں یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ ’کیا ناول مر چکا ہے؟

‘ اسٹیج خواہ صفحات، دونوں پر لکھے جانے والے اور پیش ہونے والے انگریزی ناولوں پر برطانوی سامراجی ماضی نے اس قدر غلبہ حاصل کر لیا تھا کہ انگریزی ناول اس سے جان چھڑانے سے قاصر تھا۔ اس جمود کو توڑنے کے لئے ایک بنیاد پرست تحریک کی ضرورت تھی اور اس غصے کو روکنے کے لئے ادب کی ضرورت تھی، جو اس عشرے میں مغرب میں تخلیق ہوا، جس دہائی کے پہلے سال میں مقصود گل پیدا ہوئے۔ اور تب تک وہ ادب پروان چڑھا، جب تک مقصو دگل کا بچپن پروان چڑھا۔

اشتراکیت کے مارکسی نظریے کی راہ کے راہی، سندھ کے یہ منفرد انسان دوست مزاحمت نگار، اس نظریے کے بانی ’کارل مارکس‘ ( 1818 ء۔ 1883 ء) کی وفات کے 67 برس بعد اور ’ولادیمیر لینن‘ ( 1870 ء۔ 1924 ء) کی رحلت کے 26 برس بعد پیدا ہوئے، مگر ان کا سوشلسٹ نظریہ مقصود گل کے ساتھ ایسے ہمسفر رہا، جیسے گل کی تربیت انہی کی صحبت میں ہوئی ہو! مقصود گل کی غیر طبع شدہ تصانیف میں، سبط حسن کی اردو کتاب ’کارل مارکس‘ کا سندھی ترجمہ بھی شامل ہے، جس میں کارل مارکس کی مختصر سوانح اور ان کے کارناموں کا احوال درج ہے۔

مگر اس خطے کے صوفیاء کے سردار، صوفی شاہ عنایت شہید ( 1655 ء۔ 1718 ء) کی شہادت سے 232 برس بعد پیدا ہونے والے مقصود گل کو اس بات کا یقیناً اور مکمل ادراک تھا کہ اشتراکیت کی بانی، سرزمین سندھ ہی کی خاک ہے، جہاں پہلی مرتبہ ’جھوک کے شہید‘ نے، ’جو بوئے، وہی کھائے! ‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ جبھی تو نؤں دیرو (شہر) میں ادبی تحرک پیدا کرتے ہوئے، جب مقصود گل کو ادبی تنظیم کی صورت میں پلیٹ فارم کی ضرورت پڑی، تو انہوں نے ’شاہ عنایت ادبی سنگت‘ کے نام سے ایک ادبی تنظیم کی داگ بیل ڈالی۔

مقصود گل کی پیدائش کی ٹائم لائن پر نظر ڈالی جائے، تو ان کے پسندیدہ لیڈر، ذوالفقار علی بھٹو اس وقت 22 برس کے جواں عمر تھے اور انقلاب کی دنیا میں ان کی پسندیدہ شخصیت یاسر عرفات، اس وقت 21 برس کے جواں سال تھے، جب مقصود صاحب نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ 1950 ء، بھٹو صاحب کی زندگی میں اس لئے بھی ایک یادگار سال تھا، کہ اس برس انہوں نے ’یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے‘ (امریکا) سے ’پولیٹیکل سائنس‘ میں بی۔ اے۔ (آنرز) کی ڈگری حاصل کر کے، اپنے تعلیمی کیریئر کا ایک نیا اور اہم ’سنگ میل‘ عبور کیا تھا۔

کبھی کبھی مفہوم کے لحاظ سے مقصود گل کے نام پر غور کرتا ہوں، تو ان کے اسم یکتا کی گہرائی کی وجہ سے اس پر بہت پیار آتا ہے۔ کیونکہ ’مقصود گل‘ کے معٰنی اس پھول کے ہیں، جو مقصود/ مطلوب/ درکار ہو اور ظاہر ہے کہ ہر کسی کو وہی پھول مطلوب ہوتا ہے، جو سب پھولوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوشبودار ہو۔ جبھی تو سندھی کے قادر الکلام و نامور شاعر اور مقصود صاحب کے دوست، شمشیر الحیدری انہیں ان کے نام کے انگریزی ترجمے کے لحاظ سے ’وانٹیڈ فلاور‘ (مطلوب پھول) کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

شمشیر، بظاہر مزاح کے پردے میں دراصل اس حسین انسان کی ذات کی گہرائی کا اظہار و اقرار کر رہے ہوتے تھے اور جیسے ان کے نام کے اصل مفہوم سے آشنائی دے رہے ہوتے تھے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو مقصود صاحب کی پیدائش کا نام ’مقصود حیات‘ ہے۔ اگر اس نام کے مفہوم پر بھی غور کیا جائے تو یہ نام بھی انتہائی با مفہوم ہے۔ لفظ ’مقصود‘ کو زیر اضافت دے کر پڑھا جائے تو ان کے اس نام کا مفہوم ہو گا: ’مقصد حیات‘ یا ’زندگی کا مقصد‘ ، جو بھی اپنے معٰنی کے لحاظ سے ایک بھرپور لفظ ہے۔

اور پھر اگر ان دونوں ناموں سے ہٹ کر مقصود گل صاحب کو اپنے گھر کے افراد کی جانب سے پکارے جانے والے پیار والے نام (نک نیم) کے آئینے میں دیکھا جائے تو انہیں ان کے گھر کے افراد ’معشوق‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے اور وہ واقعی اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کے ہی نہیں، بلکہ اپنے جان پہچان والے ایک وسیع حلقے کے بھی معشوق بن کر ابھرے۔

حضرت سچل سرمست ( 1739 ء۔ 1827 ء) جیسے سرمستی صدا والے عظیم وحدت الوجودی شاعر کے وصال کے 123 برس بعد آنکھ کھولنے والے مقصود گل کے والدین کو یقیناً یہ اندازہ ہرگز نہ ہو گا کہ ان کا یہ معشوق فرزند، بڑا ہو کر اپنی شاعری، ترجمے خواہ تحقیق کے ہنر کے ذریعے سچل کو گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے، ان کا مترجم اور شارح بنے گا۔ اس برس یہ حسین اتفاق ہے کہ مقصود گل کی سالگرہ کا دن اسی دن وقوع پذیر ہو رہا ہے، جس دن خیرپور کے قریب دراز شریف میں سچل سائیں کا دو سو پہلا عرس مبارک شروع ہو رہا ہے۔ اس حسن اتفاق میں شاید کہیں نہ کہیں مقصود گل کا سچل کے ساتھ عشق اور محبت کا ناتا بھی شامل و پنہاں ہو!

آئیے ہم سندھ کو ’منصور ثانی‘ ، سچل سرمست کے میلے کے ساتھ ساتھ، مقصود گل صاحب کے 72 ویں یوم پیدائش کی بھی مبارکباد دیں!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments