پاکستان کی عدالتوں میں ناصر کاظمی کا مقدمہ


مرزا غالب کے اس مقدمے کا بہت ذکر ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی پنشن کے حصول کے لیے لڑا۔ جدید زمانے کے شاعر ناصر کاظمی کو بھی ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جس سے وہ اپنی زندگی کے آخری گیارہ برس نبرد آزما رہے اور جو ان کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ نے مزید اکیس برس جھیلا۔ اس نے ہمیں ملک کی تقریباً ہر عدالت دکھائی؛ سیٹلمنٹ کے بعد ہائی کورٹ کے سنگل اور ڈویژن بنچ اور پھر سپریم کورٹ کے سنگل اور سہ رکنی بنچ۔ اپنے حافظے، پاپا کی ڈائری، متعلقہ حکام کے احکامات اور فاضل جج صاحبان کے فیصلوں کی مدد سے یہ داستان بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ عدالتی معاملات میں دلچسپی نہ رکھنے والے احباب اس تحریر کے کچھ حصوں کو غیر دلچسپ پائیں گے لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو سب کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ میں نے مختلف حصوں کے عنوانات دے دیے ہیں تاکہ آپ انتخاب کر سکیں۔

نئے مکان میں منتقلی

پاپا کی ڈائری کے مطابق ہم مارچ 1957 میں اپنے پرانی انارکلی والے مکان سے کرشن نگر کے مکان میں منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت میں ساڑھے تین سال کا تھا۔ نئے گھر میں منتقل ہونا مجھے یاد ہے۔ دو ٹرنکوں، ایک نواڑی پلنگ اور بان کی ایک چارپائی سمیت ہمارا سارا سامان دو تانگوں میں آ گیا تھا۔ تانگے ایک بہت بڑے اور اونچے گھر کے آگے آ کے رکے تو سوچا کہ واہ، یہ ہوئی نا بات۔ لیکن دروازہ کھلا تو یہ کھلا کہ ہمیں صرف ایک کمرہ ملا تھا اور وہ بھی چھوٹا سا (پرانے مکان میں ہمارے پاس اس سے زیادہ بڑے بڑے دو کمرے تھے)۔ فرشی منزل کا باقی کا تمام حصہ کسی اور صاحب کے پاس تھا، پہلی منزل میں ایک خاندان اور دوسری میں کوئی اور خاندان رہائش پذیر تھا۔

صحن بہت وسیع و عریض تھا جس میں لمبی لمبی گھاس اور خود رو پودے اگے ہوئے تھے۔ ہم پانچ افراد تھے : پاپا، چچا عنصر، باجی (ہماری والدہ) ، میں اور میرا چھوٹا بھائی حسن۔ صحن میں اینٹیں جوڑ کے چولہا بنایا گیا جس میں لکڑیاں اور اپلے جلا کے کھانا پکایا گیا۔ دو چار روز اسی ایک کمرے میں گزارا کیا، پھر ساتھ کا بڑا کمرہ بھی ہمیں مل گیا۔ رفتہ رفتہ تقریباً دو تین سال میں سارا مکان ہمیں مل گیا۔ پتا چلا کہ مکان ہمیں ہی الاٹ ہوا تھا، باقی لوگ مقامی تھے جو عارضی طور پر وہاں مقیم تھے۔ تقسیم سے پہلے کا بنا ہوا یہ سہ منزلہ مکان گنجان علاقے سے ذرا دور نئی آبادی کا تقریباً آخری گھر تھا جس کے چاروں طرف کھیت تھے۔ پکی سڑکیں ختم ہو جانے کے بعد کچے راستے گھر تک لے جاتے تھے۔ ہماری چھت سے شمال مشرق کی جانب بادشاہی مسجد کے مینار اور مغرب میں دریائے راوی ایک سفید چمکتی ہوئی طویل پٹی کی طرح نظر آتا تھا۔

صحن کی نیلامی

ہمیں نئے گھر کی مکمل ملکیت حاصل کیے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک دن سہ پہر کے وقت اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے گلی میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے ہوں۔ ہم سب گھر میں تھے۔ بالائی منزل میں پاپا اپنے دوستوں شیخ صلاح الدین، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور انتظار حسین کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ پھر ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ چاچا نے دروازہ کھولا تو باہر متعدد باوردی پولیس والے نظر آئے۔ دو تین نے ہتھکڑیاں اٹھا رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے لوگوں کا ایک چھوٹا سا مجمع تھا۔

”یہ ناصر کاظمی کا گھر ہے نا؟“ ایک نے پوچھا۔
”جی۔“ چاچا نے جواب دیا۔

چاچا اور پولیس والوں میں مکالمہ جاری تھا کہ پاپا بھی آ گئے۔ بات تند و تیز جملوں کے تبادلے تک پہنچ گئی۔ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ہمارا صحن مکان کا حصہ نہیں تھا اور کسی اور کو مل گیا تھا اور پولیس انہیں قبضہ دلانے آئی تھی۔ پاپا نے کہا کہ انہیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور اس طرح بغیر اطلاع دیے اچانک کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ پولیس والے صحن کی طرف چلے گئے اور دو افراد دیوار پر سیڑھی لگا کے اینٹیں اکھاڑنے لگے۔ پاپا نے کہا کہ انہیں کچھ مہلت دی جائے تاکہ وہ متعلقہ محکمے سے تصدیق کر لیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور دیوار توڑ کے قبضہ مدعین کو دلا دیا گیا۔ انہوں نے اگلے روز دیوار تعمیر کر کے صحن کو گھر سے الگ کر دیا، اپنے عارضی قیام کے لیے ایک خیمہ نصب کیا اور اپنی بکریاں بھی لا کے باندھ دیں۔ ہمارے دو کمروں کے دروازے صحن میں کھلتے تھے۔ یہ دیوار ان کمروں سے پانچ چھ فٹ کے فاصلے پر تھی۔ چنانچہ جب ہم اپنے دروازے کھولتے تو بس ایک پتلی سی گلی ملتی جس کے ایک سرے پر اس کمرے کے ساتھ، جو ہمیں سب سے پہلے ملا تھا، باہر کھلنے والا دروازہ تھا۔

تقریباً ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ اس دوران میں پاپا اور چاچا کی گفتگووں میں مقدمہ، سیٹلمنٹ، کمشنر جیسے الفاظ اور چند لوگوں کے نام اکثر سننے کو ملتے۔ بالآخر ایک دن ایک حکم نامے کے نتیجے میں صحن ہمیں واپس مل گیا اور ہم نے گھر کو اس سے جدا کرنے والی دیوار گرا دی۔ لیکن مقدمہ چلتا رہا۔ تین چار برس بعد ایک دن پاپا نے بتایا کہ سیٹلمنٹ کمشنر صاحب معائنے کے لیے آ رہے تھے۔ پھر آسمانی رنگ کا سوٹ پہنے ایک صاحب آئے اور ہمارا گھر، صحن اور دیواریں وغیرہ دیکھ کر چلے گئے۔ اس کے چند روز بعد ہمیں یہ خوشخبری سنائی گئی کہ مقدمہ ہم نے جیت لیا تھا اور اب تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔

کچھ عرصے کے لیے تو ہم واقعی اس معاملے کی طرف سے بے فکر ہو گئے لیکن پھر یہ مقدمہ ہائی کورٹ کے سنگل اور ڈویژن بینچوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں جا کے ختم ہوا۔ بتیس برس پر محیط یہ روداد، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، پاپا کی ڈائری، متعلقہ حکام کے احکامات اور اور فاضل جج صاحبان کے فیصلوں کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ تمام دستاویزات اور جج صاحبان اور وکلا کے مابین ہونے والے مکالمے انگریزی میں تھے۔ میں نے ان کے ترجمے کو حتی الامکان اصل متن کے قریب رکھنے کی کوشش کی ہے۔

ڈپٹی اور ایڈیشنل سیٹلمنٹ کمشنروں کے حضور

نیا مکان پاپا اور چاچا کو ان کی موروثی جائیداد، جو وہ آزادی کے وقت انبالہ میں چھوڑ آئے تھے، کے عوض کلیم داخل کرنے پر ملا تھا۔ ہم اس میں مارچ 1957 میں منتقل ہوئے۔ اس کے تقریباً تین سال بعد ڈپٹی سیٹلمنٹ کمشنر کے آرڈر کے تحت اس کا باقاعدہ انتقال ان کے نام ہو گیا۔ حکم انتقال میں مکان کا نمبر (SW۔ III۔ 64۔ S۔ 30 ) یدھشٹر روڈ، کرشن نگر لاہور بتایا گیا تھا اور لکھا گیا تھا کہ ”یہ تین منزلہ مکان ہے جس کے ساتھ ایک صحن ہے جس کا اینٹوں کی پختہ دیواروں نے احاطہ کیا ہوا ہے ؛ اس میں دو پختہ لیٹرین ہیں ؛ مکان شہر کے کنارے پر ہے اور سیلاب سے متاثرہ ہے۔“ ہمارا گھر ایسا ہی تھا۔ دیوار کا مغربی حصہ شکستہ تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کی وجہ 1953 میں دریائے راوی میں آنے والے سیلاب کے پانی کا امڈ کر یہاں تک آ جانا تھا۔ مکان آزادی سے چند برس قبل لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ کی منظور شدہ سکیم میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ سکیم متعدد پلاٹوں پر مشتمل تھی۔ ہمارا مکان تین پلاٹوں، 48، 49، 50 پر بنا ہوا تھا۔ عمارت 50 نمبر پر تعمیر تھی۔ صحن اس پلاٹ کے کچھ حصے اور دیگر دو پلاٹوں پر مشتمل تھا۔ ایک پختہ دیوار نے تقریباً ڈیڑھ کنال پر مشتمل اس سارے رقبے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔

آبادکاری (سیٹلمنٹ) کا محکمہ اس علاقے میں رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے پلاٹ الاٹ یا فروخت کر رہا تھا۔ گھر کا ہمارے نام باقاعدہ انتقال ہونے کے چند ماہ بعد ، مئی 1960 میں، ہمارے صحن کے دونوں پلاٹ بھی نیلامی میں ڈال دیے گئے۔ پلاٹ 48 راحت حسین زیدی صاحب نے اور 49 سردار محمد اور گلزار محمد صاحبان نے خرید لیے۔ پھر نومبر میں انہوں نے پولیس کی مدد سے قبضہ حاصل کر لیا۔ ہم نے ایڈیشنل سیٹلمنٹ کمشنر ایس ایم اظہر کے پاس اپیل کی جس میں استدعا کی گئی کہ یہ نیلامی، جو غلطی سے کر دی گئی تھی، منسوخ کی جائے کیونکہ نیلام کیے گئے پلاٹ ہمارے مکان کا حصہ ہیں جن میں ہمارے لیٹرین بھی ہیں۔ اظہر صاحب نے معاملہ ڈپٹی سیٹلمنٹ کمشنر کو بھیج دیا، اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ پٹواری یا بحالیات کے انسپکٹر کو رپورٹ پیش کرنے کا کہیں اور پھر فریقین کو سننے کے بعد ضروری حکم جاری کریں۔

ڈپٹی سیٹلمنٹ کمشنر خان مقرب خان نے موقع کا معائنہ کرنے کے بعد جو حکم جاری کیا اس کے مطابق مکان کا رقبہ اٹھائیس مرلے تھا اور اس میں تعمیر شدہ رقبہ آٹھ مرلے تھا۔ لیکن مقرب خان صاحب نے یہ کہتے ہوئے کیس ایڈیشنل سیٹلمنٹ کمشنر اظہر صاحب کو بھجوا دیا کہ وہ کوئی عملی قدم اٹھانے سے قاصر تھے کیونکہ ان سے سینئر افسر نیلامی کی تصدیق کر چکے تھے۔ البتہ ان کے حکم کے نتیجے میں صحن کا قبضہ ہمیں واپس دلوا دیا گیا۔ اظہر صاحب نے ڈپٹی سیٹلمنٹ کمشنر کو دوبارہ ہدایت کی کہ وہ معاملے کو نمٹا دیں۔ اس مرتبہ کیس ڈپٹی سیٹلمنٹ کمشنر چوہدری غلام رسول کے پاس گیا جنہوں نے قرار دیا کہ نیلام کردہ پلاٹ مکان کا حصہ نہیں تھے۔ ہم دوبارہ اظہر صاحب کے پاس گئے لیکن انہوں نے ہماری استدعا غیر مجاز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments