فوربز کی فہرست میں شامل 30 سال سے کم عمر باصلاحیت پاکستانی نوجوان کون ہیں؟

محمد زبیر خان - صحافی


’ہم لوگوں کو دھمکیاں بھی ملیں۔ کئی مرتبہ ہمارا پیچھا کیا گیا۔ کبھی چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد اب کسی حد تک کچھ نہ کچھ مثبت تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔‘

فوربز بزنس میگزین کی جانب سے 2022 میں 30 سال سے کم عمر کے باصلاحیت نوجوانوں کی فہرست میں چار پاکستانی بھی شامل ہیں۔

ان میں سے ایک شوانہ شاہ ہیں جن کو خواجہ سراؤں اور خواتین کے حقوق کی بنا پر فہرست میں شامل کیا گیا۔ شوانہ کہتی ہیں کہ ’میری تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوئی جہاں ظلم اور زیادتی کے خلاف چپ نہیں رہا جاتا تھا۔‘

فوربز کی فہرست میں دنیا بھر سے تقریباً 300 نوجوانوں کو مختلف شعبہ جات میں کارکردگی کی بنیاد پر جگہ دی گئی۔ ان میں پاکستان سے شوانہ شاہ، زین احمد، در عزیز آمنہ اور محمد سعد شامل ہیں جو سوشل ورک اور انسانی حقوق، ادب اور کاروبار کے شعبوں میں اپنی محنت کے بل بوتے پر معاشرے میں مثبت تبدیلی لائے۔

فوربز کی فہرست میں شامل پاکستانی کون ہیں؟

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن شوانہ شاہ اس سے قبل محمد علی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ ان کو اقوام متحدہ کی جانب سے خواتین کی بیجنگ کانفرنس میں بھی شریک کیا گیا تھا۔

شوانہ شاہ دا حوا لر تنظیم کی شریک بانی بھی ہیں جن کو خواجہ سرائوں اور خواتین کے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کے علاوہ تعلیم کے میدان میں کام کرنے پر فوربز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

در عزیز آمنہ پاکستانی نثراد امریکی لکھاری ہیں جن کی تحریروں کا موضوع زیادہ تر جنوبی ایشیا اور امریکہ کی ثقافت، سیاحت اور ذاتی تجربات بنتے ہیں۔

در عزیز آمنہ مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی جرائد اور رسائل کے لیے بھی لکھتی ہیں۔

’امریکن فیور‘ نامی ان کا نیا ناول، جو جلد شائع ہونے والا ہے، پاکستان کے دیہی معاشرے کی ایک لڑکی کی کہانی بیان کرتا ہے۔

محمد سعد صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں برج لنکس کمپنی کے شریک بانی ہیں۔ انھوں نے مصنوعات کی محفوظ ترسیل کے لیے مال بردار گاڑیوں اور ایکسپورٹروں کے درمیان رابطے کے ذرائع مہیا کیے ہیں۔

اس منصوبے کے آغاز کے نو ماہ بعد ہی وہ ایک بین الاقوامی کمپنی کی مدد سے دس ملین ڈالر کی فنڈنگ اکھٹا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

زین احمد بھی رستا نامی کمپنی کے شریک بانی ہیں جنھوں نے گارمنٹس کے برانڈ متعارف کروائے ہیں۔ ان کے کپڑوں کے برانڈ بالی ووڈ کے مختلف اداکاروں نے بھی استعمال کیے ہیں۔

جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں

شوانہ شاہ زمانہ طلب علمی سے ہی انسانی حقوق کی فعال کارکن رہی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میری تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں ظلم اور زیادتی کے خلاف چپ نہیں رہا جاتا۔‘

شوانہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ خورشید بانو صوبہ خیبر پختونخواہ کی پہلی خاتون یونین لیڈر تھیں۔

’پڑھائی کے بعد میں نے باقاعدہ طور پر انسانی حقوق کا کام شروع کردیا تھا جس کے لیے دا حوا لر تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم میں ہمارا بنیادی مقصد خواتین اور خواجہ سراؤں کی تعلیم اور ان کے خلاف ہونی والی زیادتیوں پر عملی طور پر آواز اٹھانا تھا۔‘

’اکثر دور دراز علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیمی ادارے تک پہنچنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک سسٹم قائم کیا جس کے تحت ان لڑکیوں کے والدین کا یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوا اور بڑی تعداد میں طالبات کو تعلیمی اداروں میں جانے کا موقع ملا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جنسی ہراسگی کا شکار خواجہ سراؤں اور خواتین کو نہ صرف قانونی مدد فراہم کی بلکہ نفسیاتی طور پر ان مسائل سے نمٹنے کے لیئے مستقل بنیادوں پر مدد کی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری مہم کے نتیجے میں کئی قوانین پاس ہوئے۔ مقدمات کا اندراج ہوا، کئی ٹرائل ہوئے اور کئی ملزمان کو سزا بھی ہوئی۔‘

لیکن یہ سفر شوانہ کے لیے آسان نہیں تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے کام کی وجہ سے ہم لوگوں کو دھمکیاں ملیں۔ کئی بار ہمارا تعاقب کیا گیا۔ کئی مرتبہ ہمیں کچھ عرصے کے لیے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

امریکہ میں گزارا ایک سال جس نے در عزیز آمنہ کی زندگی بدل دی

فوربز کی فہرست میں شامل در عزیز آمنہ کے والد کا تعلق صوبہ پنجاب کے علاقے تلہ گنگ سے تھا جو راولپنڈی منتقل ہوئے۔

در عزیز آمنہ کہتی ہیں کہ ’میرا بچپن اسی طرح گزرا جس طرح ہزاروں، لاکھوں پاکستانی بچوں کا گزرتا ہے۔ بس فرق اتنا تھا کہ میری والدہ ایک استاد تھیں جنھوں نے ہمیں لائبریری جانے، کتابیں پڑھنے کی عادت ڈال دی تھی۔‘

اسی عادت کی بدولت بہت کم عمری ہی میں امریکہ کے ایک تبادلے کے پروگرام کے لیے منتخب ہوئی جہاں ایک دیہی علاقے میں میزبان جوڑے کے ساتھ ایک سال گزارنا تھا۔‘ اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔

در عزیز آمنہ کے لیے یہ ایک مختلف تجربہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں گھر میں مائیں کپڑے استری کر دیتی ہیں۔ کھانا پکا پکایا مل جاتا ہے۔‘

لیکن امریکہ میں یہ سہولت نہیں تھی۔

’مجھے اپنے کپڑے خود استری کرنا ہوتے تھے۔ اپنے کمرے اور باتھ روم کی صفائی کا خیال رکھنا ہوتا تھا۔ شروع میں تو عجیب اور مشکل لگا لیکن پھر عادت ہوگئی تھی۔ اپنے کام خود کرنے کی بدولت مجھ میں آزادی بھی آ گئی تھی۔‘

’جو کچھ اس ایک سال میں سیکھا وہ میرے بہت کام آیا اور یہ ہی ایک سال مجھے واپس امریکہ میں لے آیا تھا۔‘

ایک سال بعد وہ پاکستان لوٹیں تو ان کے مطابق وہ بدل چکی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہمارے بڑے یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ نئی نسل ’کاہل، کام چور یا کم ہمت‘ ہے؟

بڑا بنگلہ نہ اچھی نوکری، یہ بے چین نوجوان آخر چاہتے کیا ہیں؟

اگر دنیا کا نظام نوجوان چلائیں تو کیا یہ بہتر ہوگا؟

ڈیانا ایوارڈ جیتنے والے پانچ پاکستانی نوجوان

’امریکہ میں، میں کسی بھی وقت باہر جاسکتی تھی۔ راولپنڈی میں ایسا نہیں تھا۔ والدین شام کے وقت میکڈونلڈ جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہوتے تھے۔‘

اسی دوران انھوں نے امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے لیئے اپلائی کیا اور سکالر شپ حاصل کرنے کے بعد امریکہ واپس لوٹ گئیں جہاں پڑھائی کے ساتھ انھوں نے یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازمت بھی کی۔

’یونیورسٹی کے بعد میں نے مارکیٹنگ اور کچھ دوسری ملازمتیں کیں مگر یہ میرے مزاج کے خلاف تھا۔ میرا مزاج تو پڑھنے پڑھانے کا ہے۔ کتابوں کا جنون ہے۔ جس پر میں نے تخلیقی تحریر سیکھنے کے لیے داخلہ لیا اور مختلف بین الاقوامی اور پاکستانی اخبارات کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا۔‘

اس دوران ان کی شادی ہوگئی اور ’پھر میں ماں بھی بن گئی۔ ہم اس دوران پاکستان بھی آئے۔ اپنے والدہ کے شہر ملتان گئے جہاں ایک سکول، جس میں غریب بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، میں ہم نے ایک لائبریری بھی قائم کی تھی۔‘

در عزیز آّمنہ کا کہنا تھا کہ ’بچے کے ساتھ ناول امریکن فیور لکھنا شروع کیا۔ یہ بنیادی طور پر میری اپنے حالات زندگی پر تحریر تھی کہ کس طرح ایک دیہی بیک گراؤنڈ کی لڑکی امریکہ جاتی ہے۔ وہاں پر اسے کن کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کن لوگوں سے ملی اور کس طرح ایک کلچر سے دوسرے کلچر تک کا سفر کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ناول لکھنے کے بعد پبلشر کی تلاش کا مرحلہ بھی مشکل تھا۔

’اکثر پبلشرز کو مسودہ پسند نہیں آتا تھا۔ مگر پھر برطانیہ کے پبلشر سپیٹر اور امریکہ کے آرکیڈ کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا اور اب یہ ناول اس سال شائع ہو رہا ہے۔‘

در عزیز آمنہ اور ان کے پبلشر کو اس ناول سے کافی امیدیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس دوران فوربز کی نامزدگیوں کا سنا تو میں نے بھی اپلائی کر دیا۔ مجھے تو امید نہیں تھی مگر ان کے نظام نے مجھے اس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments