لٹتی ہوئی عزت اور روشندانوں کی گنتی


ہمارے ایک صحافی دوست، اب یہ معلوم نہیں کہ وہ ہمیں دوست سمجھتے بھی ہیں، یا ہماری یہ محبت حسب معمول یک طرفہ نوعیت کی ہی ہے، بہر حال ان کی زندہ دلی، اور نسلی پس منظر جس میں پٹھان مزاج اور پنجابی جانگلی مزاج کی بے فکری اور زندہ دلی کا بہترین امتزاج ہے، جس میں ان کے اکھڑ پٹھان مزاج کا سمبل ”زا مڑا“ ہے، لیکن ساتھ دیگر ایسی پٹھانوں کی مثبت خصوصیات جو کوہستانیوں میں نہیں پائی جاتیں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس سے زیادہ تعارف ابھی مناسب نہیں، کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔

موصوف انتہائی عرق ریزی اور محنت سے دنیا بھر کے ایسے میڈیا کی تلاش اور چھان بین فرماتے ہیں، جو یا تو عام پاکستانی قاری کی پہنچ اور عمومی دلچسپی سے اوجھل یا باہر ہے، اور اس قابل قدر مطالعے اور اس کے گہرائی سے کئیے تجزیے کے بعد وہ اپنے پاکستانی قارئین کے لیے اپنی وال پر یا کسی اخبار میں انتہائی قابل قدر اور قابل مطالعہ مواد اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں، دوسری طرف ہم کہ اگر کسی ویران جزیرے پر بھی ہوں، جہاں ہمارے علاوہ صرف ایک بھی آدمی اور موجود ہو، تو ہم وہاں بھی ”حزب اختلاف“ میں ہی ہوں گے، لہذا اپنے عزیز دوست کے تازہ مضمون پر راقم کا متجاوز قسم کا تبصرہ، باقی ماندہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

آپ کی تحقیق اور مطالعہ بہت، نایاب اور معلومات افزاء ہوتا ہے، لیکن آپ کا یہ گلہ کرنا کہ کچھ لوگ اسے صرف اپنے محدود دلچسپی، لگاؤ یا وابستگی کے پہلو ہی سے دیکھتے ہیں تو یہ بات درست بھی ہے ہم تو مستقبل قریب میں یا مستقبل بعید میں دنیا میں کہیں بھی رونما ہونے والے واقعات اور اقدامات جو ہم پر، یعنی ہمارے ملک پر کسی بھی طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں، یا ان کے وقوع پذیر ہونے میں ”ہمارے“ لیے کچھ سبق، عبرت یا ٹریننگ کا پہلو بھی ہو، ان میں ہی فطری طور پر زیادہ دلچسپی لیں گے، ظاہر ہے پاکستانی باشعور قارئین کی دلچسپی اس ہی بنیادی مقصد کے ارد گرد ہونی چاہیے، تو جلدی جلدی ذرا ذرا آس پاس پر ایک محتاط نظر دوڑا کر، نزدیک بھی نظر ڈال لیجئیے، کہ ٹھوکر ہمیشہ نزدیک پڑی چیزوں سے ہی لگا کرتی ہے۔

دو باتیں آپ کے تبصرہ اور تجزیہ کی متقاضی ہیں، ایک کہ شنید ہے کہ امریکہ سے پاکستان کے ”حالات“ کے پیش نظر ”مارشل لاء“ لگانے کی اجازت طلب کی جا رہی ہے، درخواست باضابطہ طور پر گزار دی گئی ہے، اب جواب کا انتظار ہے، ظاہر ہے اس پر پینٹاگان میں مختلف پہلووں اور زاویوں سے تجزیہ اور غور ہو رہا ہے، لیکن یہاں یہ بات دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ غور و فکر امریکہ کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے نہ کہ پاکستان کے، کیوں کہ دنیا کی قدیم ترین روایت اور حقیقت ہے، کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جب کسی جانور کی جان لی جاتی ہے تو شکار کرنے والا اپنا ہی نقطہ نظر، مفاد، ضرورت اور مقصد مدنظر رکھا کرتا ہے، نہ کہ شکار ہونے والے جانور کا۔

لہذا وہاں اسی نقطہ نظر اور اسی قدیم فطری قانون کے تحت ہی ان معاملات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، کہ یہ اقدام علاقے میں امریکہ کے قریب المدتی اور طویل المدتی منصوبوں اور مقاصد کے لیے کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں، یا نہیں ہو سکتے، یعنی اگر ایسا ہوتا ہے تو امریکی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین، بھارت، افغانستان، ایران بلکہ روس کے ساتھ تعلقات بھی کسی اور سمت میں، جو سمت امریکہ کے لیے بہتر ہو، جا سکتے ہیں، کیونکہ بادی النظر میں امریکہ کی علاقے میں فوری دلچسپی کے امور پاکستان کے تناظر میں ان ہی ملحقہ ممالک سے متعلق ممکن ہیں، اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی وہیں ہونا ہے کہ ہمیں سانس اور نبض چلتے رہنے دینے اور اس اقتصادی و معاشی نزع کے عالم کی حد پر برقرار رکھنے کے لیے کتنی اقتصادی امداد لائف سیونگ آکسیجن کی طرح دی جانی چاہیے، کیونکہ عام طور پر نزع کے عالم میں مریض فاسد، سفلی پیداواری قسم کے جنسی خیالات و حرکات کے قابل نہیں رہتے، بہ امر مجبوری باز رہتا ہے اور اسی نازک حد کا درست درست تعین امریکی اداروں میں ہماری بابت زیر غور ہے، اسی کے انتظار میں آئی ایم ایف ہاتھ تو ہم سے ملا رہا ہے لیکن نظر اس کی امریکی موڈ کی طرف ہے۔

دوسری خبر یہ کہ کسی بھی عوامی رد عمل، اور باہمی رابطوں کو روکنے کے لیے انارکی، سول وار، مہنگائی سے بڑھنے والے اور امکانی طور پر مزید بڑھنے والے عوامی رد عمل کا راستہ روکنا مقصد بتا کر پاکستان میں ہر قسم کے سوشل میڈیا پر مکمل پابندی پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے، یعنی بقول آنجہانی کے آر سہگل ”وہ تیرے پیار کا غم، اک بہانہ تھا صنم، یہ نہ ہوتا تو کوئی دوسرا غم ہونا تھا، میں تو وہ ہوں جسے ہر حال میں بس رونا تھا“ مسکراتے جو اگر، تو چھلک جاتی نظر، اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی، کہ دل ٹوٹ گیا ”۔

گویا پھر سے ”دوڑ پھر پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو“ والا یا بچوں کی زبان میں ”سانپ اور سیڑھی والا کھیل اس مملکت خداداد میں پھر سے کھیلنے کی تیاری کی جا رہی ہے، تاکہ عرصہ دراز سے بور ہوتے بچے اور نوجوان اس بور کر دینے والے“ خشک ”جمہوری ماحول سے نکل کر کچھ کھیل وغیرہ کھیل کر خون کو گرما سکیں چاہے وہ لوڈو کا سانپ اور سیڑھی والا کھیل یا شطرنج کی بساط ہی ہو۔ کھیل تو پھر کھیل ہی ہوتا ہے، جو لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے، باقی روایتی اور معیاری، معروف بہانوں کے ممکن یا محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے، آخر کسی جانور سے کھیلنے کو جی چاہے تو انسان کسی پیارے سے خرگوش یا معصوم اور بے ضرر ہرن سے کھیلنے کو ترجیح دے گا اب وہ پاگل تو نہیں کہ تیز دانتوں والے شیر، خطرناک پنجوں والے ریچھ یا خوفناک اجگر سے کھیلنے لگے۔

اسی ضمن میں ایک ”اچھی خبر“ بھی ہے کہ شنید ہے کہ ”ٹی ٹی پی“ کے ساتھ کچھ نہ کچھ، جو کچھ نہ ہونے سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے، کے تحت کچھ معاہدہ یا اس سے کمتر درجے کی ”مفاہمت“ ہو گئی ہے، اور کہا ایسا جا رہا ہے اور دستیاب شواہد سے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اس مفاہمت کے پیچھے افغانستان پر قابض طالبان کا سنجیدہ دباؤ موجود ہے، لیکن توقعات کے برعکس اس بارعب اور خشمگیں دباؤ کا نشانہ فریقین میں سے صرف ہم ہی تھے، کیونکہ ہم ان کو افغانستان کی حکومت اور ملک پر قبضہ دلانے میں مددگار اور سہولت کار بھی رہے تھے، اب بھی ان کی امداد کی بحالی کے لیے دنیا کے سامنے ہم ہی گڑگڑا رہے ہیں، لہذا ان کا ان فریقین میں سے ہم پر ہی دباؤ ڈال کر دوسرے فریق یعنی ”ٹی ٹی پی“ کی شرائط ہم سے من و عن تسلیم کروانا بنتا بھی ہے، کیونکہ ٹوٹے بازو کو بھی تو گلے سے لٹکانا ہی پڑتا ہے، شاید اسی وجہ سے اس معاہدے میں طے کی جانے والی شرائط قوم کے سامنے نہیں لائی جا سکیں، جیسے کچھ ہی عرصہ پہلے مفاہمت کا ماحول بنانے کے لیے اسی دہشت گرد تنظیم کے دو سو گرفتار شدہ دہشت گردوں کو رہا کر دیا گیا تھا اب ہم بے خبروں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ان دہشت گردوں کو دہشت گرد لکھنا ہے یا مجاہد کہنا ہے، ہم تو بیٹھی ہوئی مرغابیوں کی طرح قانون کے پابند امن پسند شہری ہیں بغیر رہنمائی بلکہ بغیر حکم کے یہ حساس فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ امریکہ، سعودیہ، اسرائیل، اور ہوتی قبائلیوں کے باہمی معاملات سے زیادہ پاکستان اور پاکستان کے عوام اور ان کے حال اور مستقبل پر انتہائی تباہ کن انداز میں اثر انداز ہونے کا منفی پوٹینشل یعنی صلاحیت رکھنے والے ان معاملات، واقعات اور اقدامات اور ان نزدیکی خبروں، رجحانات، شواہد کی اہمیت ہمارے لیے باقی بعید علاقوں کے وہاں سے متعلق معاملات کی بہ نسبت زیادہ اہم ہیں۔ جیسے ہماری دنیا کی طرف آہستگی سے بڑھتے کسی بہت بڑے شہاب ثاقب (ایسٹرائیڈ) کی اہمیت تو ضرور ہے، جس کو ہم تک پہنچنے میں دو نوری سال لگنے ہیں، اور ہم اپنے اگلے دن کے کھانے اور فوری سالمیت کے موضوع کو چھوڑ کر زمین کی طرف بڑھتے اس پتھر کے ٹکڑے پر غور اور فکر کریں، جو نہ تو ہمارے کنٹرول میں ہے اور پہنچنا بھی دو نوری سال بعد یعنی کم از کم ایک لاکھ سال کے بعد ہے۔

اسی کیفیت سے متعلق ایک لطیفہ بھی سن لیجئیے، ایک صفائی کرنے والی کی اس کا صاحب اپنے گھر میں اکیلے کام میں مصروف پا کر عزت لوٹ لیتا ہے، وہ خاتون اس پر عصمت دری کا مقدمہ دائر کر دیتی ہے، صاحب بڑا متمول اور امیر آدمی ہوتا ہے وہ ایک بہت بڑا وکیل کرتا ہے، یہ وکیل کئی کتابوں کا مصنف اور، اتنا وکیل ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر ایک سیاسی پارٹی کا دیرینہ رکن ہونے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر دوسری پارٹی کی اور طاقت کے اصل مراکز کی حمایت کرتا پایا جاتا ہے، اور اسے کوئی کچھ نہیں کہتا، شاید وکیل سمجھ کر، تو اب وہ بے چاری غریب عورت جو وکیل تک کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی، لہذا عدالت میں اپنے کیس کی پیروی وہ خود کرتی ہے، کہ میرا کیس تو واضح ہے ضرور انصاف مل جائے گا۔

وہ بڑا وکیل عدالت میں اس پر جرح شروع کرتا ہے، اور بہت سی غیر متعلق باتیں پوچھتا ہے، وہ عورت صبر سے جواب دیتی رہتی ہے، پھر وہ وکیل پوچھتا ہے کہ، جس کمرے میں بقول تمہارے عزت لوٹی گئی، وہ کون سا کمرہ تھا، وہ عورت جواب دیتی ہے کہ بیٹھک ( ڈرائنگ روم ) تھا۔ وکیل پھر پوچھتا ہے اس کمرے کے کتنے دروازے اور کھڑکیاں تھے، وہ جواب دیتی ہے تین دروازے اور دو بڑی کھڑکیاں تھے۔ وکیل پھر ڈانٹ کر پوچھتا ہے کہ بی بی صحیح صحیح بتاؤ اس کمرے میں روشندان کتنے تھے۔ اب اس عورت کا پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا ہے اور وہ کہتی ہے “ہائے اوئے وکیل، جب کوئی تیری عزت لوٹ رہا ہو، تو  تو عزت بچائے گا یا روشندان گنے گا؟”( یہاں دراصل اس عورت نے ”عزت“ کے بجائے ایک دوسرا زیادہ متعلق اور براہ راست لفظ استعمال کیا تھا، لیکن ازروئے تہذیب اس لفظ کے بجائے ”عزت“ کا لفظ لکھ دیا گیا ہے جو کہ حقیقتاً موصوف وکیل کی شخصیت کے ساتھ زیادہ متعلق نہیں ہے، متعلق زیادہ وہی لفظ تھا جو بوجوہ استعمال نہیں کیا گیا ) ۔ تو محترم قارئین ”حالات“ ایسے ہیں کہ قوم کی عزت لوٹی جا رہی ہے اور ہم روشندان گن رہے ہیں۔ دنیا کے غیر متعلق معاملات پر تحقیق میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments