ایک انسانیت پسند درویش کی کتھا



” درویش“ ۔

انگریزی زبان میں یہ لفظ اس سرخ سپورٹس کار کی لائسنس پلیٹ پر چمک رہا تھا جس کا مسافر کی سمت کا دروازہ کھلتے ہی بھائی ارشاد حسین اس کی عقبی نشست پر براجمان ہو گئے تھے اور ڈاکٹر خالد سہیل ایک مسکان کے ساتھ ڈرائیور کی نشست سنبھالتے ہوئے مجھے کہہ رہے تھے :

آپ یہاں بیٹھ جائیے میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر ۔ ”
”جی ضرور۔“ میں نے کہا تھا اور ان کے برابر والی نشست پر بیٹھ گیا تھا۔
”سیٹ بیلٹ لگا لیجیے۔“ خالد سہیل نے یاد دہانی کروائی۔ اور میں نے سیٹ بیلٹ لگا لی تھی۔

یہ 1999 کے موسم خزاں کا ذکر ہے۔ میں ابھی ابھی ٹورانٹو یعنی کینیڈا پہنچا تھا اور یہاں کی زندگی کے اطوار اور معمولات سے متعارف ہور ہا تھا۔ میں نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا کہ ریڈیو پاکستان لا ہور سے میرے دوست اور مہربان ارشاد بھائی کس حال میں ہیں تو وہ سپورٹس کار کی مختصر عقبی نشست میں بھی خوش دکھائی دیے۔

” آپ نے سیٹ بیلٹ نہیں لگائی، ارشاد بھائی؟“ میں نے مسکراتے ہوئے انھیں مخاطب کیا۔

”تم اپنی فکر کرو۔ اگلی نشست والوں کو ٹریفک ٹکٹ یا چالان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی میں یہاں بیٹھنے والا کب ہوں!“ ارشاد بھائی نے جواب دیا۔

”کیا مطلب؟“ میں حیران تھا۔
” بھائی، میں تو لیٹنے والا ہوں۔“ انھوں نے ہنستے ہوئے میری حیرت کا جواب دیا تھا۔

خالد سہیل بھی ان کی بات پر مسکرا دیے تھے۔ اور کار انھوں نے ڈان ملز روڈ کی طرف بڑھا دی تھی جہاں سے ہائی وے لے کر ہمیں شہر ہیملٹن جانا تھا ارشاد بھائی کو چھوڑ نے۔ آج بعد دو پہر جب ارشاد بھائی کا فون آیا تھا کہ وہ مجھ سے ملنے آرہے ہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ ڈاکٹر خالد سہیل بھی ہوں گے تو مجھے واقعی مسرت ہوئی تھی کہ اس شہر نا شناساں میں کسی اپنے سے ملاقات کی صورت بن جائے گی۔ میں خالد سہیل سے بالمشافہ تو کبھی ملا نہ تھا۔ ان سے تعارف ان کی تخلیقات کے وسیلہ ہی سے تھا جو اپنے طور پر بہت بھر پور تھا۔ یہ تعارف ایک دو روز سے نہیں بلکہ کئی عشروں پر محیط تھا۔ اور پھر پہلی ملاقات پر انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ”تلاش“ عطا کیا تو اس پر اپنے قلم سے یہ شعر بھی لکھ دیا تھا:

آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے
جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

یوں انفرادی اور اجتماعی رشتوں کے ہمہ وقت بدلتے تقاضوں اور نوعیت کے حوالہ سے ان کی احساساتی کیفیت مجھ پر کچھ کچھ آ شکار ہوئی۔ پھر ہم چائے پر کچھ سنجیدہ ادبی گفت گو کرتے رہے۔ میں نے ان کے تایا جان (جنھیں وہ چچا جان کہتے ہیں) پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کے ساتھ اپنے والد صاحب یزدانی جالندھری کی دوستی، بڑے بھائی خالد یزدانی کی شاگردی اور اپنے تعلق خاطر کا ذکر چھیڑ دیا کہ کس طرح ان سے حلقہ ارباب ذوق لا ہور اور حلقہ ادب کے ’گرما گرم‘ اجلاس میں بھی ملاقات رہتی اور شیزان ریستوران کے ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول میں بھی اور کبھی کبھی چشتیہ ہائی سکول سے متصل ان کے گھر پر بھی۔ خالد سہیل یہ سب سن کر مسکراتے رہے۔ وہ شاید اپنی یادوں کی وادی میں سرگرداں تھے جس میں چچا جان سے ملنے لاہور آنے، ان سے زندگی اور ادب پر سوالات پوچھنے اور جوابات پا کر کچھ اور حیران ہو جانے کے مناظر چل رہے ہوں گے۔

”بہت کم گنجائش ہوتی ہے سپورٹس کار میں“ ۔ میں نے ہائی وے پر دوڑتی تیز رفتار گاڑیوں سے نظر بناتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل کو مخاطب کیا تھا۔

” اس میں تو بمشکل دو بندے بیٹھ سکتے ہیں۔“

”دو بندے؟ کیا بات کر رہے ہیں آپ! میرے بے تکلف دوست تو کہتے ہیں کہ اس کار میں صرف ایک بندے اور ایک بندی کے بیٹھنے کی گنجائش ہے“ ۔ ایک بے اختیار مشترکہ قہقہے نے اجنبیت کی گاڑھی لکیر کو ذرا سا اور ہلکا کر دیا تھا۔ میرے استفسار پر بتانے لگے کہ وہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے ملک سے باہر چلے آئے تھے اور پھر مزید تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمت کا آغاز بھی کینیڈا میں کیا۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود انھوں نے شعر و ادب کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ پھر مجھ سے پو چھا کہ میرا تعلیمی اور منصبی پس منظر کیا ہے؟ میں نے اپنا وہی راگ الاپنا شروع کر دیا۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف اے اور بی اے کیا اور پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے سوشیالوجی۔ چند برس اسی مضمون میں لیکچرار شپ کی۔ ساتھ ساتھ اخبارات و جرائد میں جز وقتی ملازمتیں اور ریڈیو پاکستان لاہور میں بطور کمپیئر اور سکرپٹ رائٹر بھی کام کر تا رہا۔ جرمن زبان سے دل چسپی، ریڈیو کا عملی تجربہ اور دیرینہ دوست امجد علی کے توسط سے ریڈیو ڈوئچے ویلے کولون، دی وائس آف جرمنی کی اردو سروس کے کار پرداذان سے تعارف و رابطہ ہو گیا اور یوں پروڈیوسر ہو کر تین سال کے لیے جرمنی چلا گیا۔

”لیکن اس سارے تجربہ میں زیادہ دل چسپ کیا تھا آپ کے لیے؟“ انھوں نے پوچھا
”انٹرویو کرنا مجھے بہت دل چسپ لگا۔“ میں نے جواب دیا

”تو کس سے انٹرویو کر نے میں زیادہ محنت لگی؟“ خالد سہیل کا ر کا سٹیرنگ سنبھالے اب گویا میرا انٹرویو کرر ہے تھے۔

”قرۃ العین حیدر یعنی عینی آپا سے انٹرویو مشکل بھی تھا اور دل چسپ بھی۔ ویسے تو میں نے لاتعداد انٹر ویوز کیے ہیں۔ میں نے جوابا کہا۔

”ارے کس کا انٹرویو کر ر ہے ہو اب یہاں کار میں؟“ ارشاد بھائی کی آنکھ کھل گئی تھی۔ ”کیا آیا نہیں ہیملٹن ابھی تک؟“

” بس پہنچ ہی گئے ہیں، جناب۔ اس پہاڑی سے او پر جاناہے نا ہمیں؟“ ڈاکٹر خالد سہیل نے ان سے پو چھا تھا۔

”جی ہاں۔ اور پھر تیسری سڑک سے بائیں۔ آگے میں بتا دوں گا۔ اب جاگ گیا ہوں میں۔“ ارشاد بھائی نے کہا اور مستعد ہو کر بیٹھ گئے۔

ارشاد بھائی کو ان کے گھر اتارنے کے بعد ہم دونوں واپس ٹورانٹو روانہ ہوئے۔ اب رات ہو چکی تھی۔ ہائی وے پر ٹریفک بھی کم تھی۔ سپورٹس کار سرپٹ دوڑ رہی تھی دائیں بائیں لگے سائن بورڈز اور قمقموں کی جھلملاہٹ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے۔

”ڈاکٹر صاحب، کچھ اپنی نجی زندگی کے بارے میں بتائیے، اگر مناسب سمجھیں تو ۔“ اب انٹرویو کی باری میری تھی۔ سفر بھی تو کاٹنا تھا۔

”میری نجی زندگی سے اگر آپ کی مراد شادی اور بچے وغیرہ ہیں تو جواب بہت آسان اور سیدھا ہے کہ میں ان بندھنوں سے آزاد ہوں“ ۔ انھوں نے اطمینان اور اعتماد سے جواب دیا۔

”کوئی خاص وجہ اتنے بڑے فیصلہ کی؟“ میں نے جھجکتے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

”زندگی اس ڈھنگ پر گزری اور حقیقت قطعی فطری طور پر آشکار ہوئی کہ یہ بندھن میرے نظریہ حیات اور زندگی کی ترجیحات سے لگا نہیں کھاتے۔ میں آزادی سے رہتا ہوں۔ اپنے ڈھنگ سے جیتا ہوں اور بہت خوش ہوں اپنی زندگی سے۔ مجھے کبھی کوئی کمی نہیں محسوس ہوئی اپنے سیٹ اپ میں۔ کام ہے۔ دوست احباب ہیں جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں اور پھر تخلیقی سرگرمیاں۔ بھرپور ہے میری زندگی“ ۔ وہ کہتے چلے گئے۔

”تو کیا نجی انسانی ضروریات ان رشتوں، ان بندھنوں کے بغیر پورا کرنا ٹھیک لگتا ہے آپ کو ؟“ میں نے ایک سوال اور کیا۔

” بالکل، قطعی ٹھیک سمجھتا ہوں۔ بات تو انڈرسٹینڈنگ اور رضامندی کی ہے۔ اگر دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں۔ میرے خیال میں ان پر کوئی دباؤ ہونا بھی نہیں چاہیے۔“ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا۔

”لیکن یہ رشتہ مستقل بھی تو ہو سکتا ہے۔ “

”نہیں، میں ایسے طویل المدت اور رسمی رشتوں کی ضرورت پر یقین نہیں رکھتا اور اس ضمن میں مذہبی یا سماجی تحفظات کی بھی پروا نہیں کرتا۔ انسان آزاد ہے اپنی زندگی کے فیصلوں میں۔ بس اسے کسی پر ظلم و زیادتی یا جبر روا نہیں رکھنا چاہیے۔“

” کیا ایسے غیر مشروط اور غیر رسمی تعلقات کام یاب رہتے ہیں؟“

”بالکل کام یاب رہتے ہیں۔ یہ باتیں مشرقی روایات سے کچھ ہٹ کر ہیں اس لیے انھیں سمجھنے میں کچھ دشواری ضرور ہو سکتی ہے۔ لیکن میرے لیے اور مجھ سے کتنوں کے لیے کارآمد ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں کینیڈا میں جنسی گھٹن والی بات نہیں۔ ہمارے وہ احباب جو ان روایات کو پسند کرتے ہیں مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں۔ میں ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ یہاں ہم سب آزاد ہیں اور اپنی سی زندگی جی بھی سکتے ہیں تو کیوں نہ جئیں؟“

”لیکن جب آپ اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کے تاثرات کیا ہوتے ہیں؟ کیا آپ کو قبول کرتے ہیں؟“

” بہت سے تو کرتے ہیں۔ کچھ نہیں بھی کرتے ہوں گے۔ ان کا خیال ہو گا کہ میں تقریبات میں ان کی خواتین کو نام نہاد بے راہ روی کی طرف لانے کے لیے جا تا ہوں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ہاں، اگر کوئی خاتون مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے یا میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتی ہے تو کسی کا اعتراض کرنا بنتا نہیں۔ وہ بالغ ہے، آزاد ہے اور اپنا فیصلہ کرنے میں خود مختار۔“

” تو اس کار کی دوسری سیٹ پر کئی بندیاں بیٹھ چکی ہیں؟“ میں نے ایک بندہ اور ایک بندی والی بات کا حوالہ دیتے ہوئے شرارت سے کہا تھا۔ خالد سہیل اپنی داڑھی مونچھ کے اندر سے مسکرا دیے تھے۔

ادھر مجھے ان کے افسانوں کے کردار کچھ کچھ سمجھ آنے لگے اور ادھر میرا اپارٹمنٹ آ گیا۔ اگلی ملاقات طے کیے بغیر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اگلے ہی لمحے ان کی سرخ ’درویش‘ کار جس کا ذکر امجد اسلام امجد کے سفر نامہ میں پڑھ چکا تھا، بلڈنگ سے باہر سڑک پر موڑ مڑ گئی تھی۔ اس کے بعد ہماری براہ راست ملاقاتیں کم کم ہوئیں۔

2007 میں میں نے ولفرڈ لاریے یونی ورسٹی واٹر لو سے سوشل ورک میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی تو ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے۔ اس سے اگلے سال کینیڈا میں حلقہ ارباب ذوق ٹورانٹو قائم ہوا تو مجھے اس کا پہلا سیکرٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ طاہر اسلم گورا جائنٹ سکریٹری کے فرائض نبھانے پر راضی ہو گئے۔ یوں سال بھر حلقہ بڑی کام یابی سے چلا۔ ماہانہ تنقیدی نشستوں کا اہتمام ہونے لگا جن میں ملک اور بیرون ملک سے تخلیق کار شرکت کرنے گئے۔ ڈاکٹر خالد سہیل حلقہ کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے آتے اور پیش کی گئی تخلیقات پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کرتے۔ وہ شہر کی بعض دوسری تقریبات کے علاوہ ’فیملی آف دی ہارٹ‘ کے پروگراموں میں با قاعدہ شریک ہوتے تھے بلکہ ان کی انتظامی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے تھے۔

مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میرے پہلے شعری مجموعہ ’ابھی اک خواب رہتا ہے‘ کے دوسرے ایڈیشن میں خالد سہیل کا فلیپ بھی شامل ہے۔ اس دوسرے ایڈیشن کے ساتھ میرا دوسرا شعری مجموعہ ’گہری شام کی بیلیں‘ بھی اشاعت پذیر ہوا۔ یہ کتابیں دینے کے سلسلہ میں پھر ان سے ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں مسس سا گا میں واقع کیفے ٹم ہارٹن میں ملے اور کافی کے کپ پر دیر تک زندگی اور ادب پر باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے نئے پروگرام گر ین زون اور لوگوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے سائیکو تھیراپی کلینک کے بارے میں بھی مجھے بتایا۔ مجھے ان کی ان تعمیری سرگرمیوں کے بارے میں جان کر بے حد خوشی ہوئی۔

پھر سوشل میڈیا پر ان سے مسلسل رابطہ رہا۔ یعنی دوری کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ میں ان کی تحریریں پڑھتا رہا۔ مضامین، افسانے، کالم۔ سبھی کچھ۔ ابھی حال ہی میں ایک فعال، ترقی پسند ویب سائٹ ”ہم سب“ پر ان کا پانچ سواں کالم چھپا تو گویا کالم نویسی کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہو گیا۔ ان کے کالم متنوع موضوعات کے حامل ہیں جن میں جہاں وہ ادب و ثقافت کی بات کرتے ہیں وہاں سیاست اور نفسیات کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ میرا احساس یہ ہے کہ نفسیاتی الجھنوں کے حل کے حوالہ سے ان کے کالم بہت زیادہ پسند کیے گئے۔

اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ ان کی تحریر ان کے خیالات کی طرح شفاف اور واضح ہوتی ہے اور پھر وہ لگی لپٹی رکھے بغیر سائنسی حقائق کی روشنی میں معاملات کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ کسی موضوع کو بھی اظہار کے شجر ممنوعہ نہیں سمجھتے۔ مجھے تو خیر ان کے دیگر کالم اور تحریریں بھی بہت اچھی لگیں۔ حال ہی میں ان کی تحریر ’کامریڈ کا خواب‘ نظر سے گزری۔ بہت اچھی لگی۔ یہ تحریر افسانوی آہنگ میں تحریر کیے گئے حقائق کی آئینہ دار تھی۔

بیک وقت فکر انگیز بھی اور الم ناک بھی۔ اس میں مکالمہ کے دوران انقلاب بمقابلہ ارتقا، معاشی منزل بمقابلہ نفسیاتی مراحل یعنی اس تفریق کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اور انہی کے ذریعے کرداروں کی شخصیت کی ترجمانی کی گئی ہے۔ تاریخی حوالہ جات بھی برمحل اور موزوں تھے اور ان سب سے ہٹ کر بیان میں ایسی بے ساختگی اور شفافیت ہے جو گہری فکر، طویل ریاضت اور توجہ کا نتیجہ ہوتی ہے۔

اب اپنا افسانوں کا مجموعہ ’خالی بالٹی اور دوسرے افسانے‘ پیش کرنے کو ان سے ملا تو پھر سے خوب باتیں ہوئیں۔ زندگی پر ، ادب پر ، حالات پر ۔ انھوں نے میرے افسانوں کے مجموعے کی اشاعت پر خوش گوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے مبارک باد بھی دی اور اپنے چار مجموعے بھی عطا کیے۔ میں نے ’ڈی کیف‘ کافی اور دھنک رنگ ڈونٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ان سے کئی سوال پو چھے اور انھوں نے ان کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے سفر کے مختلف مراحل کو بھی واضح کیا کہ کس طرح ان کے والد پروفیسر عبدالباسط صاحب اور چچا ( تایا ) پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب نے ان کی ذہنی اور تخلیقی تربیت کی اور زندگی کے رویوں کو مثبت اور صحت مند انداز میں سمجھنے میں مدد کی۔

پروفیسر عبدالباسط صاحب نے انھیں ہر طرح کی تنگ نظری سے بچنے کی اور سب کا احترام کرنے کی تعلیم دی جبکہ پروفیسر عارف عبد المتین صاحب نے ان کی ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ وہ اپنے افسانوں کے بعض کرداروں کی طرح اپنی والدہ کو بہت محبت سے یاد کرتے ہیں مگر شادی کے حوالہ سے ان کی حکم عدولی پر بھی خوش ہیں کہ اس طرح وہ اپنے ڈھنگ کی زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ میرے بنگلہ دیشی شاعر ادیب دوست جامد الحق کی طرح وہ بھی اس رسمی بندھن کو تخلیق کار کے راستے کی رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کو فطری انداز میں رواں دواں رہنا چاہیے۔ ان کے نظریۂ زندگی سے اختلاف ممکن ہے تا ہم اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ ڈاکٹر خالد سہیل ایک

اوریجنل اور خالص تخلیق کار ہیں۔ ان کی تحریروں اور ان کی زندگی میں دیانت دارانہ مطابقت موجود ہے۔ ان کے پانچ سو کالم مکمل ہونے پر میں نے ’ہم سب‘ میں لکھا تھا کہ خالد سہیل میرے پسندیدہ تخلیق کار ہیں۔ میں نے ان کی نثر بھی پڑھی ہے اور شاعری بھی اور الیکٹرانک میڈ یا پران کے علمی پروگرام بھی دیکھے اور سنے۔ ان سے غائبانہ تعارف کئی عشرے پہلے ہوا تھا جب میں لاہور میں ابھی طالب علم تھا اور ادبی جرائد کے مطالعہ کا شوق رکھتا تھا۔

پاکستان اور جرمنی میں قیام تک کا غائبانہ تعلق یہاں کینیڈا میں بالمشافہ ملاقاتوں اور اور ایک پر احترام دوستی میں بدل گیا۔ خالد سہیل صاحب کی شخصیت اور تاثر سے بھر پور اردو اور انگریزی تخلیقات ان کے باطن کی شفافیت اور حقیقت پسندانہ طرز فکر کی عکاس اور ترجمان ہیں۔ میں ان کا ایک قدیم مداح ہوں اور اس بات پر نازاں ہوں۔

ان خیالات اور جذبات کا اظہار میں نے اپنی تازہ ترین ملاقات میں بھی کیا اور مجھے یہ جان کر خوشی اور طمانیت محسوس ہوئی کہ بظاہر کم ملاقاتوں کے باوجود ڈاکٹر خالد سہیل اپنے دوستوں کی آرا کی قدر کرتے ہیں اور انھیں مساوی احترام کا حق دار سمجھتے ہیں۔

باتیں کرتے کرتے ہم ’ٹم ہارٹن‘ سے باہر نکلے تو خدا حافظ کہتے ہوئے مجھے ان کے ساتھ 1999 کی پہلی ملاقات کا و داعیہ لمحہ یاد آ گیا۔ تا ہم اس بار ایک دو نہیں پوری تین باتیں مختلف ہوئیں۔ ایک تو جدا ہوتے ہوئے اگلی ملاقات کا طے ہوا کہ اب جب ہم ملیں گے تو صاحب طرز نظم نگار امیر حسین جعفری بھی ساتھ ہوں گے۔ دوسرے، باہر ان کی ’ایک بندے اور ایک بندی‘ والی سپورٹس کار کی جگہ ایک دوسری کار کھڑی تھی اور تیسرے یہ کہ ان کی کار کی لائسنس پلیٹ پر ”درویش“ کی جگہ ”ہیومنسٹ“ یعنی ”انسان دوست“ نے لے لی تھی۔

درویش اور انسان دوست میں آخر فرق ہی کیا ہوتا ہے؟
یہی کچھ سوچتے سوچتے میں اپنی کار کی طرف بڑھنے لگا تھا۔
۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments