پیوما ( 2 )


سوائے سعدی کے ہم سب پی رہے تھے۔ گیلانی نے ہم دونوں کے پاس آ کر سرگوشی کی کہ آپ کے مزاج پر گراں گزرے تو میری خاطر معاف کر دیجیے گا۔ میری بیگم کسی بیورو کریٹ کو گھر بلانے کی حامی نہ تھیں۔ وہ انہیں، تنگ نظر، پہلی جنریشن کا ڈگری یافتہ جاہل، شکستہ پس منظر اور تکبر کے سرکے میں سڑا ہوا لہسن سمجھتی ہیں۔ ممکن ہے وہ اول اول بدلحاظی کا ثبوت دیں۔ ویسے طبیعت کی بہت اعلی ہیں۔ ذوق جمالیات اور حس مزاح بھی بہت نفیس ہے۔ شروع میں تھوڑی سی آندھی طوفان کے بعد بہت ٹھنڈی پھوار پڑے گی۔

سعدی نے کہا اس کا تعلق ان کی بات اور ہمارے مزاج سے ہے۔ دیکھیں کیا ہو۔ اتنے میں نیلی شفون کی ساڑھی اور مختصر سے چولی بلاؤز میں ملبوس ایک سرو قد خاتون دروازے سے ڈرائینگ روم میں آئیں ہاتھ جوڑ کر ایک ادائے دلبری سے اپنے کچھ دیر غائب رہنے کی معافی مانگی۔ یہ پیوما تھی۔ انٹری ڈرامائی نہ تھی مگر انداز میں ایک خود اعتمادی اور رچاؤ تھا۔

معافی کے دوران ہی اس نے ہم دونوں کو ایک انداز تغافل سے دیکھا۔ سلام کرنا اس نے بھی ضروری نہ سمجھا اور ہم نے بھی۔ اس کے باوجود مجھے لگا کہ بڑی خاموش سی ایک واردات اس کے اور سعدی کے درمیاں ہو چلی ہے۔ دروازہ کھلنے پر دکھائی دینے والے کچن کی جانب مڑ کر اس نے حکم دیا تو آناً فاناً میز پر کھانا لگنا شروع ہو گیا۔ ملازمین باوردی تھے اس لیے یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئی کہ کیٹرنگ کا بندوبست باہر سے تھا۔

کھانے کی میز پر نشستوں کا اہتمام سابقہ جوڑیوں کی مناسبت سے خود بخود ہو گیا۔ میز کے ایک سرے پر شہود گیلانی نے تو دوسرے پر مسز گیلانی نے اپنی نشست جمالی۔ سعدی کو البتہ اس نے اشارہ کیا کہ وہ اس کے بائیں ہاتھ پر کونے والی کرسی پر بیٹھے۔ خاکسار نے سعدی کے عین مقابل اور مسز گیلانی کے دائیں ہاتھ پر کونے والی نشست سنبھال لی۔ کرسیوں کو آگے پیچھے کرنے کے دوران ہی سعدی نے زیر لب کہا کہ آیت اللہ وکٹ کیپنگ۔ یہ ہمارا مخصوص اشارہ تھا کہ اب جو کچھ بھی ہو میرا رول وکٹوں کے پیچھے ہو گا۔

سعدی کی پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے پیوما نے اپنی دم دار آواز میں نی تکومل سر (ہندوستانی موسیقی کا سب سے نچلا سر) میں سجا کر گفتگو کا آغاز سعدی سے کیا تو محفل میں ایک گوشہ ء تنہائی نکل آیا۔ ایسا لگا کہ جاپانی گھروں میں وہ جو نازک سے شوجی ( سرک جانے والے سرکنڈوں اور کاغذ کے پردے ) ہوتے ہیں، وہ ہم تینوں کے گرد تان دیے گئے ہوں، مجھے مصطفے زیدی کی نظم ”ائر ہوسٹس“ کا وہ شعر یاد آ گیا کہ

ہم سفر انجمنیں گرم کیے بیٹھے ہیں
تو میرا سب سے بڑا راز بنی جاتی ہے
کہنے لگی کہ ”گیلانی نے مجھے آپ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے“ ۔

اس پر سعدی نے بہت آہستہ سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”سب کچھ تو میں نے اپنے بارے میں خود کو بھی نہیں بتایا“ ۔ یہ سنتے ہی ایک گھٹی سی آہ پیوما کے لبوں سے بر آمد ہوئی۔ ہم دونوں نے تو اسے انگریزی والی واؤ سمجھا مگر بہت دن بعد خود پیوما نے سعدی کو بتایا کہ وہ واؤ نہ تھا بلکہ ایک اعتراف شکست والی سسکی ( orgasmic surrender) تھی۔

اس طرح پیوما دو اور مواقع پر بھی مچ مچائی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کم بخت سعدی کوئی شریر، مشاق پائلٹ ہے جو مسافروں کو زچ کرنے کے لیے طیارہ جان بوجھ کر ائر پاکٹ ( ہوا کی تھیلی ) میں لے جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ اس واؤ کے بعد پیوما نے خود کو سنبھالنے کے لیے سعدی کو کچھ دیر نظر انداز کیا اور میری مصروفیات کا پوچھنے لگی۔ مجھے اسے اپنے کاروبار زندگی کے حوالے سمجھانے میں پورے دس منٹ لگے۔ سعدی اس دوران اپنے ساتھ بیٹھے کسی مہمان سے باتیں کرتا رہا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ پیوما کی نگاہوں میں ایک اضطراب اور شکستگی کی بے چارگی واضح تھی۔ اسے لگا کہ سعدی اسے نظر انداز کر رہا ہے۔ اس نے خود کو سنبھالنے کے لیے سعدی کو نظر انداز کر کے غلطی کی تھی۔

ذہنی طور پر سنبھلنے کے بعد پیوما نے ایک آزمودہ حربہ اپنایا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہلکا سا مڑ کر اپنا رخ سعدی کی جانب کر کے گردن کے پیچھے بکھرے بالوں کی پونی ٹیل باندھنے کے لیے ہاتھ اونچے کیے تو ساڑھی کا پلو سینے سے پھسل کر اس کی گود میں گر پڑا۔ گردن کے نیچے دو گنبد ایک ادائے دلبری سے مچلے اور کاندھوں کے نیچے ملگجی اجالوں پر کچھ لمحات کے لیے خورشید جگمگانے لگے۔ ایک طوفان برپا ہوا۔ پیوما کا خیال تھا کہ سعدی کا اس پر وہی حال ہو گا جو کسی سوڈا والے کولڈ ڈرنک میں نمک ڈالنے سے ہوتا ہے مگر سعدی نے چہرے سے کسی تاثر کا اظہار نہ کیا۔ مجھے لگا کہ پیوما کی اسکول گرل والی یہ اداکاری جو اس نے پونی ٹیل بنا کر دکھائی، سعدی کو گھائل کر گئی۔

کچھ سنبھل کر جب اس نے سعدی سے پوچھا کہ سعدی کو کیا پسند ہے۔ اس نے انگریزی کا لفظ Like استعمال کیا تھا جو ایک طرح سے فعل (کار مصروفیت) یعنی Verb تھا۔ پیوما کا اشارہ غالباً غیر سرکاری دل چسپیوں سے تھا۔ مجھے لگا کہ وہ گیلانی کی معلومات کی روشنی میں اب ایک باقاعدہ مشن پر لگ گئی تھی کہ کسی طرح سعدی اس کے دام الفت میں گرفتار ہو جائے۔ شاید وہ اس میں بتدریج کامیاب بھی ہوتی چلی گئی۔ سعدی نے اس کے سوال کے جواب میں دوسرا شاٹ مارا کہ as in verb Like وہ مسکرا کر کہنے لگی Yes Smart Alec

سعدی نے جواب دیا کہ ”بطور کار مصروفیت اسے عورتیں اور مذہب بہت دل چسپ لگتے ہیں“ ۔

پیوما نے جواب سن کر ایک گھائل کرنے والی ادا سے اپنا ہاتھ سعدی کے ہاتھ پر اس طرح رکھا کہ شفون کی نیلی ساڑھی کے پلو کا پردہ دونوں ہاتھوں کو چھپا گیا۔ ویسے تو ہر عورت اپنے لباس کو برتنا خوب جانتی ہے مگر کچھ عورتیں لباس سے ویسے کھیلتی ہیں جیسے مشہور کھلاڑی رینالڈو یا میسی تفریحاً اپنے مداحین کی دل لگی کے لیے فٹ بال سے کھیلتے ہیں۔ اس دن اور اس کے بعد جب بھی میں نے پیوما کا جائزہ اس حوالے سے لیا کہ اس پر لباس کس طرح جچتا ہے اور وہ ایک عام سے لباس کو بھی کس طرح برتنا جانتی ہے اس کی مہارت کا تاثر مجھ پر پہلے سے بھی گہرا ہو گیا۔

اس دوران میں مجھے لگا کہ اس تعلق نے زمان و مکان کے مراحل کچھ غیر ضروری تیزی سے طے کر لیے ہیں۔

پیوما نے سعدی کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ادائے دلبری سے اپنا پلو گود میں اس طرح گرایا کہ دو ہی ابواب کی ایک کتاب دل گداز میں عریانی کا ایک نیا باب مکمل طور پر کھل گیا گویا۔ نیلے رنگ کے پتھر کا ایک لمبی چین والا پینڈنٹ اس کتاب کے وسط میں بے چینی سے بک مارک بنا کروٹ بدل رہا تھا۔ کھلکھلا کر کہنے لگی کہ غور سے دیکھو میں ایک عورت ہوں۔ آؤ مذہب پر بات کریں۔ مجھے یہ بتاؤ اسلام میں خودکشی کو کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟

میرا جگر گوشہ سعدی، مجھے لگا کہ پیوما کے حسن دلآویز کی دھج اور اس سازش نیم برہنگی کی وجہ سے ذرا دیر کو لڑکھڑایا اور پھر سنبھل کر بالر شعیب اختر والا وہ باؤنسر مارا کہ پیوما بھی راہول ڈریوڈ کی طرح پچ پر ڈھیر ہو گئی۔ کہنے لگا کہ میم آپ لفظ ”ابلیس“ کے معنی جانتی ہیں۔ عربی میں شدید مایوس فرد کو ابلیس کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مایوسی کو ابلیس کی علت مانا جاتا ہے۔ مومن کے لیے اسے کفر قرار دیا گیا ہے۔ اللہ نے جب انسان کو اپنا نائب اللہ فی الارض ٹھہرایا اور سب کو سجدے کا حکم دیا تو ابلیس نے جو ایک جن تھا، انکار کیا۔ اسے لگا کہ انسان کی تخلیق سے کائنات میں وہ اب لائق تعظیم نہیں رہا۔ وہ مایوس ہو گیا اور نافرمانی پر اتر آیا۔

خودکشی کو اسلام اس لیے حرام اور ابلیس کی تقلید قرار دیتا ہے کہ یہ اللہ کے خلاف عدم اعتمادی کا اظہار ہے۔ ہمارا اشرف المخلوقات ہونا اور اس زندگی کا عطا کیا جانا اللہ کا تحفہ ہے۔ ہم جب اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لیتے ہیں تو ہم ساری دنیا کے سامنے یہ بے ہودہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ جو ہر معاملے میں قادر مطلق ہے۔ جو ہر ظاہر اور غائب کا علم رکھنے والا اور مسبب الاسباب ہے بدیع العجائب ہے، کم از کم ہمارے معاملے میں فیل ہو گیا ہے۔ یہ اللہ کی عظیم ہستی کے خلاف ایک طرح کا ووٹ آف نان کانفیڈینس ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ مجھے ایک بہت قیمتی تحفہ دیں اور میں اسے حقارت اور بدتمیزی سے ٹھکرا کر آپ کو منہ پر دے ماروں۔

خاکسار جو اس ساری گفتگو کو پیوما اور سعدی پر نگاہیں جمائے انہماک سے سن رہا تھا اسے لگا کہ پیوما اس جواب کو سن کر سعدی کی اس توجیہ سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ دل میں یہ خیال بھی گزرا کہ اس سوال کے پوچھے جانے میں پیوما کیا اپنی موجودہ زندگی سے ناآسودگی کا ایک مخفی اظہار کر رہی ہے۔ گو طعام کے آغاز کو اب بیس منٹ سے اوپر ہو چلے تھے مگر گیلانی نے بجز پیوما کی آمد کے وقت اس کے بارے میں لیڈی آف دی ہاؤس کے تعارف کے نہ کچھ بات کی۔ آپس میں ہم کلام تو دور کی بات ہے دونوں نے ایک جانب کسی رغبت و ضرورت کے تحت بھی نہ دیکھا۔ ضرورت تو شاید تھی بھی نہیں مگر رغبت اور رجھاؤ کا دکھاوا تو تکلف یا راہ و رسم دنیا کے لیے بھی برتا جاسکتا تھا۔ ممکن ہے پیوما دل ہی دل میں اس دانشمندانہ توضیح کی تعریف و تحسین میں مصروف ہو کہ اس دوران سعدی نے ایک اور ایسا زبانی وار کیا کہ پیوما ہاتھ پیر چھوڑ کر ڈھیر ہو گئی۔ اب میں مڑ کر دیکھوں تو سعدی کا ایک جملہ ہی وہ آخری تنکا تھا جس سے اونٹ کی پشت مزاحمت ٹوٹ گئی۔

سعدی نے پیوما کے ”واؤ“ کے جواب میں کہا کہ کبھی آپ نے سوچا کہ ”یہ کیا بات ہوئی کہ میرا آپ پر تو مرنا جائز ہو اور خود پر مرنا حرام“ ۔ میں نے پیوما کی وارفتگی کا جائزہ لیا تو اس جملے کے بعد پہلی دفعہ اصغر گونڈوی کا وہ شعر ٹھیک سے سمجھ میں آیا

کیا کیا ہوا ہنگام جنوں، یہ نہیں معلوم
کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا۔

اختتام طعام کے بعد معاملہ کچھ یوں تھا کہ گیلانی میاں کی حالت غیر تھی، ڈرائیور بھی چوری کے دو تین پیگ ٹکا کر کہیں مدہوش پڑا تھا، کچھ مہمانوں کو محبت کا الاؤ بھڑکانے کے لیے آگ پارٹی سے ہی مل گئی تھی۔ اب مرحلہ یہ تھا کہ میں اور سعدی گھر کیسے جائیں۔ پیوما جو سعدی کی طرح مکمل ہوش و حواس میں تھی اس نے پیش کش کی کہ اوپر کی منزل میں سجے سجائے دو کمرے موجود ہیں۔ ہم چاہیں تو وہاں قیام الیل کر سکتے ہیں ورنہ وہ ہمیں چھوڑ کر آ سکتی ہے۔

کراچی ان دنوں دنوں بہت غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ ہر صبح ملنے والی بوری بند تشدد زدہ لاشیں محض ایک خبر سمجھی جاتی تھیں۔ ٹارگٹ کلرز اور اغوا کار دندناتے پھرتے تھے۔ دنیا کے سو ممالک سے بڑے اور شہروں میں بہ لحاظ آبادی و رقبہ دوسرے بڑے شہر کراچی پر ان کا راج تھا۔ لگتا تھا یہ طالبان سے پہلے کا افغانستان ہے جہاں علاقوں کی بنیاد پر وار لارڈز کی حکومت ہے۔

ہم دونوں کو پیوما کی اس جرات مندانہ پیش کش پر حیرت ہوئے۔ خیال آیا کہ رات میں ایک خاتون ہمیں اس لباس بے باک میں دو بجے گھر چھوڑ کر اکیلی کیسے آئے گی۔ گیلانی گر چہ مدہوش تھا مگر وہ گرد و پیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر نہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں قیام الیل سے زیادہ بہتر پیوما کا ہمیں چھوڑ کر آنا لگا۔ ہم نے بھی سوچا شاید یہ کوئی نئی واردات نہیں۔ اس کے ہاں یہ پارٹیاں اور مہمانوں کی اس طرح سے آوک جاوک معمول کی بات ہے۔ پیوما شاید گیٹ پر موجود گارڈز حفاظت کی خاطر ساتھ بٹھا لے گی۔ لیکن یہ ساڑھی اور اس سج دھج کا کیا ہو گا۔ پیوما ہم سے معذرت کر کے اندر چلی گئی۔ دس منٹ بعد وہ باہر آئی تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ جلوے لٹاتی یہ وہی بی بی ہے جو ہم سے ابھی کچھ دیر پہلے معذرت کر کے رخصت ہوئی تھی۔ فوجی رنگت کی ڈھیلی سی پتلون جسے کپری کہتے ہیں۔ دائیں سائیڈ سے جیب کچھ ڈھلکی ڈھلکی سی تھی۔ ایک مردانہ قسم کی چیک کی ڈھیلی قمیص۔ گلے میں وہ فلسطینیوں والا پھندنوں سے سجا کوفیہ، سر پر چی گویرا والی سرخ ٹوپی، چہرے پر چشمے جس کے بارے میں سعدی کا خیال تھا کہ اس کے شیشے بڑے دھوکے باز ہیں ان کی محض بیرونی رنگت سیاہ ہے جو رات کے اندھیرے میں دید بانی میں حائل نہیں ہوتی۔

ہم ابھی اس حقیقت منتظر کے لباس مجاز کے معاملات کا ٹھیک سے احاطہ بھی نہ کرپائے تھے کہ گیلانی نے پیوما کو جب Hit the road Honey یعنی امریکی محاورے میں چل پڑنے کی اجازت دی تو اس نے I have baby on board with extra nappies اسی محاورے میں کہا۔ (کار میں میرے ساتھ بچہ بھی ہو گا اور احتیاطاً میں نے کچھ پوتڑے بھی ساتھ رکھ لیے ہیں ) ۔ یہ امر ہمارے لیے اور بھی اچنبھے کا باعث تھا کہ پیوما کا کوئی بچہ بھی ہے۔ اس نے گیلانی کو گلے لگا کر چوما اور یہ کہہ کر کہ وہ واپسی پر خالا می کی طرف چلی جائے گی ہمیں پیچھے آنے کا اشارہ کر کے باہر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

پورچ میں کھڑی لمبی سیاہ رنگ کی کار میں وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سعدی کو اس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خاکسار پچھلی نشست پر براجمان ہو گیا۔ کوئی گارڈ ساتھ نہ تھا۔ میں نے پیوما کہ منہ سے دو الفاظ ضرور سنے کہ My baby اور the nappies

لیکن انجن کے شور اور سگریٹ سلگانے کے ہنگامے میں اور جس اسپیڈ سے اس نے کار گیٹ سے نکالی مجھے اس بیانیے کی وجہ معلوم نہ ہو پائی۔

وہ مجھے اور سعدی کو میرے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے باہر اتار کر چل دی۔ سعدی نے کہا بھی کہ وہ اوپر آئے مگر وہ Some other Time۔ Ciao کہہ کر فراٹے بھرتی ہوئی نکل گئی۔

سعدی نے سونے سے پہلے مجھے بتایا کہ بے بی سے پیوما کی مراد Ruger Mark IV کا پستول تھا جو اس نے کپری کی جیب سے نکال کر اپنی سیٹ پر ٹانگوں کے درمیاں تیار حالت میں رکھ لیا تھا اور nappies سے مراد پستول کی گولیوں کے ایکسٹرا میگزین تھے جو سائیڈ پر رکھے تھے۔ جب میں بیدار ہوا تو میری پڑوسن دوست زینب، ڈرائینگ روم میں صوفے پر مزے سے پیر پسارے ڈش پر مزے سے کوئی پروگرام دیکھ رہی تھی۔ کک منعم بھوئیاں نے بتایا کہ سعدی صاحب فجر کی نماز پڑھ کر دفتر کی گاڑی میں چلے گئے تھے۔

(جاری ہے )

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments