ٹورانٹو میں، مذہب سائنس اور نفسیات، کی تقریب رونمائی


ڈاکٹر سہیل زبیری اور ڈاکٹر خالد سہیل کی مشترکہ تصنیف، مذہب سائنس اور نفسیات، کی تقریب رونمائی کے لیے 6 اگست کو ہم جنگلی گلابوں کے دیس، کیلگری سے عظیم جھیل اونتاریو کے ساحل پر آباد ٹورانٹو پہنچے تو درجہ حرارت 30 ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔ ٹورانٹو میں ان دنوں خوب گرمی پڑ رہی ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ جس دن زیادہ گرمی پڑے اس سے اگلے روز بارش یا بادل آ کر موسمی توازن بحال کر دیتے ہیں۔ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ مقامی لوگ چند دن کے مہمان موسم گرما سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جس کے جان افزا مناظر یہاں کی تفریح گاہوں، سیر گاہوں اور جھیل اونتاریو کے ساحلوں پر نظر آتے ہیں۔

ہم نے مختصر سا سامان سفر وصول کر کے اپنے میزبان ڈاکٹر خالد سہیل کو اپنے پہنچنے کا اطلاعی پیغام بھیجا تو جواب پل بھر میں آ گیا : خوش آمدید حضور! ہم صدر دروازے پر چشم براہ ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل فیملی آف دی ہارٹ کینیڈا کے روح رواں ہیں۔ اگلے روز منعقد ہونے والی یہ تقریب بھی فیملی آف دی ہارٹ کے زیر اہتمام ہو رہی تھی۔ اس کتاب پر تبصرہ ہم سب پر راقم کے صفحہ پر شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر سہیل کے ساتھ ڈاکٹر سہیل زبیری بھی تھے۔

وہ اس کتاب کے شریک مصنف ہیں۔ مذہب سائنس اور نفسیات کے باہم رشتے پر ایک جدید اور دلچسپ تحقیق ہے۔ ایک دن قبل امریکہ سے کینیڈا تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اے اینڈ ایم یونیورسٹی ٹیکساس میں فزکس اور فلکیات کے پروفیسر اور نامور سائنسداں ہیں۔ دونوں ڈاکٹروں کی مشترکہ تخلیق رواں برس کے آغاز پر Religion Science and Psychology کے نام سے انگریزی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا ترجمہ راقم نے کیا ہے اور اردو عنوان: مذہب سائنس اور نفسیات، رکھا ہے۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں بطور مترجم اور مہمان خصوصی اس پر وقار تقریب میں مدعو تھا۔

اگلے روز یعنی 7 اگست کو دن بارہ بجے تقریب رونمائی ریکس ڈیل کمیونٹی سنٹر ٹورانٹو میں منعقد ہوئی۔ کینیڈا کی مصروف ترین زندگی کے باوجود 45 افراد اس محفل میں موجود تھے۔ تقریب کے انتظامات ڈاکٹر سہیل (میزبان) کے علاوہ امیر حسین جعفری، عظمٰی عزیز، رفیق سلطان اور پرویز صلاح الدین نے انجام دیے۔ کتاب پر بھرپور تبصرے ہوئے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے مبصرین کا تعارف بہت تفصیل اور دلچسپی سے کروایا۔ شاہد اختر، مرزا یٰسین، مس لارا، خالدہ نسیم اور سید حسین حیدر نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے کتاب پر، پر مغز اظہار خیال کیا۔ اس کے علاوہ کتاب کے مصنفین اور مترجم نے اپنے اپنے تجربات حاضرین محفل کے ساتھ شیئر کیے۔

شاہد اختر بنیادی طور پر ماہر قانون ہیں اور وکالت کے پیشے سے گزشتہ تیس برس سے منسلک ہیں۔ وہ ایک اثر انگیز مقرر بھی ہیں۔ انھوں نے، سیون سی، کے نام سے تنازعات کے حل کی ایک کار آمد کتاب بھی تصنیف کر رکھی ہے۔ اختر نے انگریزی زبان میں کتاب کا باب وار ایکسرے کیا اور حاضرین کو کتاب کی مقصدیت سے بھرپور آ گاہی دی۔

مرزا یسین بیگ ایک نامور مزاح نگار، مصنف اور ٹی وی اینکر ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی دو کتابیں، پارچے، اور، دیسی لائف ان کینیڈا، ہیں۔ وہ، کینیڈا ون، ٹیلیوژن چینل پر آج کل ایک ادبی و تفریحی پروگرام کی میزبانی بھی کر رہے ہیں۔ مرزا یسین بیگ نے اپنے مخصوص طنز و مزاح اور ادبی انداز میں زیر نظر کتاب پر تبصرہ کیا جس سے محفل یک بعد دیگرے قہقہوں سے گونجتی رہی۔

مس لارا انگریزی کی شاعرہ ہیں ہونے کے علاوہ شراب نوشی ترک کرنے میں معاونت کے حوالے سے شمالی امریکہ کی مشہور تنظیم، الکوحلک انانیمس، کی فعال رکن ہیں۔ لارا جو فیملی آف دی ہارٹ کی بھی رکن ہیں، نے ایک شاعرانہ انداز میں کتاب کی معنویت سے حاضرین محفل کو آگاہ کیا۔

ڈاکٹر خالدہ نسیم کا تعلق شعبہ طب سے ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ پتھالوجی ہے۔ مگر وہ پتھالوجسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔ خالدہ گزشتہ چند برسوں سے پشتو کے مشہور شاعر غنی خان کی شاعری کا ترجمہ پشتو سے انگریزی میں کر رہی ہیں۔ کتاب پر اپنے تبصرے میں انھوں نے بہت رسان سے بتایا کہ ان کا تعلق چونکہ پشاور سے ہے اور اس کتاب کے ذریعے جب معلوم پڑا کہ مصنفین کا بچپن پشاور میں گزرا تھا، تو انھیں بہت فخر محسوس ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے، مذہب، سائنس اور نفسیات، پر بطور طبیب اپنے خیالات سے حاضرین کو اگاہی دی اور کتاب کی افادیت بیان کی۔

سید حسین حیدر، ادیب اور مزاح نگار ہونے کے علاوہ ایک بے باک نقاد بھی ہیں۔ انھوں نے کتاب کا فکری اور تنقیدی جائزہ پیش کیا۔

اس کے بعد مترجم نے اپنے خطاب میں ترجمے کی معلوم تاریخ، تاریخی ادوار کے اعتبار سے بیان کرنے کے بعد اپنا ترجمے کا سفر اور تجربہ پیش کیا۔ مترجم نے یہ بھی بتایا کہ یہ ان کے ترجمے کی ساتویں کتاب ہے۔ اور فیملی آف دی ہارٹ سے دوسری ملاقات ہے اور ان کو بہت اچھا لگ رہا ہے۔

ڈاکٹر سہیل زبیری نے بہت دلچسپ انداز میں ایک سائنسی افسانہ بیان کیا جس سے اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے :

؎ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ہماری پر اسرار کائنات کے دلچسپ راز ہائے سر بستہ، زمان و مکاں کی ہیئت اور نظام شمسی میں زمین اور پھر انسان کی اہمیت پر اتنے دلکش انداز میں کیا کہ ان کو شاہد اختر نے مزید سننے کے لیے اپنے ہاں مدعو کر لیا۔ اس محفل میں راقم الحروف اور ڈاکٹر سہیل کے علاوہ خالدہ نسیم بھی مدعو تھیں۔ ہم ایک دفعہ پھر ڈاکٹر زبیری کی پر مغز اور دلچسپ گفتگو سے محظوظ ہونے لگے تھے۔ شاہد اختر کے ہاں یہ محفل رات گئے تک جاری رہی۔

تقریب میں موجود 45 افراد میں سے تقریباً تمام ہی صاحب کتاب تھے۔ تقریب کے بعد کتب کا تبادلہ اس طرح ہو رہا تھا جیسے بقول سہیل زبیری، جیسے مٹھائی تقسیم ہو رہی ہو۔

مقررین کا خیال تھا کہ، مذہب سائنس اور نفسیات، جیسی کتب کالج کی سطح پر نصاب کا حصہ ہونی چاہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں ایماذان پر موجود ہے جبکہ اردو زبان میں عنقریب انٹرنیٹ پر موجود ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments