پسند و ناپسند کے مابین


من پسند، مرغوب، پسندیدہ، قابل قبول، ناقابل قبول، ناپسندیدہ، غیر دلچسپ، مکروہ اور قابل نفرین، یہ سارے محض مختلف الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کے ساتھ درجہ بدرجہ احساس، رویہ اور رد عمل وابستہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک شے، ایک شخص یا ایک عمل مکروہ تو لگتا ہو لیکن کسی طرح بھی قابل نفرین محسوس نہ ہوتا ہو۔ اسی طرح کوئی شے، کوئی شخص یا کوئی عمل پسندیدہ تو ہو لیکن مرغوب اور من پسند نہ ہو۔ کسی شے، کسی شخص یا کسی عمل کو کلیت میں یکساں دیکھنا غیر منطقی، غیر عقلی اور غیر علمی یعنی غیر سائنسی انداز کہلائے گا۔ پھر کسی شے، شخص یا عمل کی جزئیات میں سے ایک جزو یا چند اجزاء کو سمجھ اور آنک کر اس کے پسندیدہ یا غیر پسندیدہ ہونے کے بارے میں طے کر لینا کوئی اتنا مناسب رویہ نہیں لگتا۔ اس طرح سے پسندیدگی اور ناپسندیدگی بارے طے کر کے اس پہ ڈٹ جانا قطعی نامناسب اور بچگانہ حرکت لگے گی۔

اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے بہت سے انداز، رویے اور وتیرے زندگی کے پہلے چند سالوں میں ہی طے ہوتے ہیں۔ ان کو طے کرنے میں ہمارے والدین، اردگرد کا ماحول، آسائشوں اور سہولتوں کی دستیابی یا ان سے محرومی غرض کہ ہر وہ شے، شخص اور عمل شامل ہوتا ہے جو ہماری بچپنے کی چھوٹی سی ذات کے گرد چھوٹے سے حلقے میں ہم سے بہت بڑے لوگوں اور چیزوں میں یا ان کے توسط سے ہوتا یا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ بعد کے سالوں میں ہم اپنے افعال وا عمال، عادات و خصائص، عیوب و نقائص کو اپنے علم، مشاہدے اور تجربے کی مدد سے چاہے جتنا بہتر بنا لیں لیکن پہلے چند سالوں میں سوچ کے پردوں پہ پڑی چھاپ باقی نقوش سے کہیں زیادہ گہری ہوا کرتی ہے، البتہ بالغ نظری اور روشن فکری اس گہری چھاپ کو بعد کے بہتر نقوش کے پردوں میں ہی پنہاں رکھنے کا نام ہے۔ اس سعی میں سب سے زیادہ صائب اور نیک کام برداشت، تحمل، رواداری اور عفو و درگزر ہے جس کا سبق اعلٰی ترین اساتذہ یعنی پیغمبران کرام سے لے کر فلسفی حضرات تک نے دیا ہے۔

مجھے سفاکی کی نفسیات کبھی سمجھ نہیں آئی باوجود اس کے کہ اس بارے میں پڑھا بھی بہت اور ان لوگوں سے جن کا کام یا تو اس رویے کا مطالعہ ہوتا ہے یا وہ اس سے کسی نہ کسی طور متعلق ہوتے ہیں جیسے ماہرین نفسیات، ماہرین جرائم اور پولیس کے اعلٰی افسروں کے ساتھ بھی اس بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

باقی باتیں اپنی جگہ لیکن ایک بات بہر حال ضرور سمجھ آئی کہ سفاکی کا تعلق بھی بچپن میں گڑے ان انتقامی جذبات سے بندھا ہوتا ہے جو بہت چھوٹا بچہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف شدید یا انتقامی ردعمل کیے جانے سے زبردستی روک دیے جانے پر محسوس کرتا ہے۔ ایسا ردعمل لامحالہ کسی محرومی سے منسلک ہوتا ہے مثلاً من پسند کھلونے کا نہ ملنا یا توڑ دیا جانا، پیاری ماں کے ساتھ طاقتور باپ کی بدسلوکی وغیرہ۔ جب وہ بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اسے جہاں زیادہ اختیار مل جاتا ہے اور یا جہاں وہ کسی کے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے کسی شے سے محروم کر رہا ہے تو اس کے بچپن کا جن دیہاڑ کر برآمد ہو جاتا ہے، تب اسے خود پر قابو نہیں رہتا۔

محروم کیے جانے یعنی استحصال کے بارے میں ہر ایک کا نکتہ نگاہ اپنا ہوتا ہے۔ حسن ناصر اور نذیر عباسی اسٹیبلشمنٹ کو استحصال کار اور محرومیوں کا موجب جانتے تھے جبکہ ان کے مارنے والوں کو یہ لگتا تھا کہ یہ لوگ انہیں یعنی ہئیت مقتدرہ سے وابستہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ یہی عالم بلوچستان اور ایسے دیگر مقامات پر ہے جہاں Xenophobia کی کوئی بھی شکل کسی بھی حوالے سے پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے میں بالعموم ہم زیادہ طاقتور اور زیادہ با اختیار لوگوں کو زیادہ قصوروار ٹھہراتے ہیں اور درست ٹھہراتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے اختیار اور طاقت پر قابو پانا چاہیے لیکن اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو سفاکی کے مکروہ اور قابل نفرین نمونے ہر دو طرف ہوتے ہیں۔

غیر متمدن معاشروں میں انتقامی قتل کی مثال لے لیتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہو بدلے میں اسی کو قتل کیا جائے بلکہ اس کا بھائی بھتیجا یا جو بھی رشتے دار ہتھے چڑھ جائے اسے نہ صرف قتل کر دیا جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات سفاکی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔ سفاکی کا جواز مخالف فریق کے دل میں اپنی دہشت بٹھانا ہوتا ہے۔ اب ذرا کمتر سطح بہ ذرا نرم مثال لے لیتے ہیں جیسے کلرکانہ ملازمانہ رویہ، جس کے تحت کلرک سائل کو تنگ کرتا ہے، ذہنی طور پر پریشان کرتا ہے۔ ایسا کیے جانے کی وجہ بھی وہ احساس محرومی ہوتا ہے جو اس میں افسروں کے ہاتھوں ذلیل ہونے اور کمتر محسوس کرنے کے باعث پیدا ہوتا ہے اسی لیے وہ جس پر اس کا بس چلتا ہے وہی حربے آزماتا ہے جو اس پر برتے جاتے ہیں۔

سفاکی اپنی اساس میں تشدد کی ایک شکل ہے۔ چونکہ ہمارے ملک جیسے ملکوں میں اشرافیہ کے علاوہ باقی سبھوں کی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی محرومیوں سے پٹی پڑی ہوتی ہیں، جن کا مداوا نہ تو ہم سے انفرادی طور پر ہو پاتا ہے اور نہ ہی ہم اجتماعی طور پر ان محرومیوں کا سدباب کر سکتے ہیں اس لے ہم خود کو اور اپنے اردگرد کی اشیاء، شخصیات اور اعمال کو استحصال زدہ سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ہمہ وقت کسی ہیرو کی تلاش میں ہوتے ہیں جو ہمیں ان آلام سے نجات دلا سکے۔

کلاسیکی طور پر جہاں ہیرو ہوتا ہے وہاں ولن بھی ہوتا ہے۔ جو جس کا ہیرو ہوتا ہے وہ اسے کلی طور پر نہیں دیکھتا اور نہ ہی کلی طور پر آنکتا ہے بلکہ کچھ اجزاء سے ہی طے کر لیتا ہے کہ یہ میرا ہیرو ہے، ہیرو کے حوالے سے جو بھی متضاد، منفی یا مخالفانہ انداز اور وتیرہ اختیار کرتا ہے، چاہے وہ باقاعدہ اصولوں کے مطابق ضرورت یا ضروری ہی کیوں نہ ہو، وہ ہیرو کے پجاری کے لیے گردن زدنی، شیطان، مطعون اور مجرم ٹھہرتا ہے۔

ہم اپنی پسند اور ناپسند میں اتنے ہی متشدد ہیں جتنا ایک کھلونے سے محروم کر دیا گیا بچہ، جس کا نہ کوئی مطالعہ ہوتا ہے نہ کوئی مشاہدہ اور نہ ہی کوئی تجربہ۔ ایسے ہی بچہ نما محروم بالغوں کی سفاکی کے نمونے ہم نے آٹھ برس پہلے سیالکوٹ میں ڈنڈے مار کر دو نوجوانوں کو جان سے مار دینے پھر ان کی لاشوں کو دشنام بکنے، سرعام الٹا لٹکانے والوں سے لے کر خان گڑھ میں محبت کرنے والے لڑکے کی جانب سے لڑکی کا رشتہ مانگنے کی خاطر آنے والی عورتوں کو برہنہ کر کے گلی میں گھمانے والوں تک کی شکل میں دیکھے تھے اور آج تک ایسے واقعات بارے سنتے یا انہیں میڈیا کے ذریعے دیکھتے رہتے ہیں۔

جہاں مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے وہاں پسند و ناپسند کے سلسلے نرم اور مبنی بر رواداری و برداشت ہوا کرتے ہیں۔ اگر افراد خود پر قابو نہ پائیں تو ایک ہیرو مہذب جرمن قوم کی اکثریت کو سفاک بنا دیتا ہے اور اگر برداشت اور رواداری مزاج میں راسخ کر دینے والی ہیرو شخصیت ہو تو باوجود شدید ترین عناد، استحصال اور زیادتیوں کے فتح مکہ کے موقع پر خون کی ایک بوند گرنا تو دور کی بات، مخالف اپنے بنتے نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments