دس روز باسفورس کے کنارے


پروگرام کچھ یوں ترتیب دیا گیا تھا کہ ہمارے استنبول کے ہوائی اڈے پہ اترنے کے ساتھ شکاگو سے آنے والے جہاز سے چھوٹی بیٹی کا گھرانا اترا اور سامان لینے والے ہال پہنچتے ہی وینکؤور سے آنے والے بڑی بیٹی اور داماد کے پہنچنے کی اطلاع آ گئی اس طرح سترہ افراد پر مشتمل میرا گھرانا ائر پورٹ کے بیرونی لاؤنج میں پہلے سے انتظام کردہ بس میں سوار ہو رہا تھا۔ پہلا سبق جو ملا وہ جوانی سے دہراتے محاورے، زبان یار ”بس“ ترکی و من ترکی نمی دانم، کا تھا۔

کہ انگریزی میں بھی یس، نو تک کر سکنے والا خال اور کچھ سمجھ سمجھا سکنے والا تو ڈھونڈنا پڑتا۔ ائر پورٹ پر ہی نواسے سے فون پر ٹیکسٹ کو ترکی میں ترجمہ کرنا سیکھا مگر ہائے ہائے جوانی کہ بس میں بیٹھنے تک بھول چکے تھے۔ ڈرائیور کا ایک ہاتھ سٹیئرنگ اور دوسرا سگریٹ اور ساتھ موبائل فون پہ تھا۔ پیچھے بچوں نے شادی کے گیتوں کی محفل سجا لی کہ ہم آئے ہی یہاں میرے بڑے نواسے کی شادی رچانے تھے۔ جدید شہر کی حدود میں داخل تھے اور قدیم کی جھلکیاں شروع تھیں۔

اونچی پہاڑیوں پر نیچے سے اوپر ایک جیسی چھوٹے دو تین منزلہ مکانوں کی قطاریں بڑے گنبد اور ایک مینار والی مساجد جنہیں ہم پہلے مقابر سمجھے مگر یاد آیا کہ ترک فن تعمیر ہے۔ مساجد میں بھی اور تاریخی عمارات میں بھی۔ اونچی چوٹی پر بے شمار گنبد و مینارے اس دور کی جھلکی تھے جب یہ قدیم شہر قسطنطنیہ تھا۔ بس دائیں بائیں اوپر نیچے تنگ یک دم چڑھائی اور تیز ڈھلوان سڑک گزرتی، اتنے چکر کھاتی کہ پلے نہ پڑ رہا تھا کہ جا کس طرف رہے ہیں گرینڈ حیات ہوٹل پہ اتار چکی تھی اور ہم دسویں منزل پر تین تین کمروں والے اپارٹمنٹس میں سامان رکھ شہر کا نظارہ کر رہے تھے۔

لڑکے فون گھماتے نزدیک ہی مشہور تقسیم سکوائر پہنچ ”کراچی دربار“ ڈھونڈ خاصہ لذیذ کھانا لاتے میرے لئے چھڑی بھی خرید لائے تھے، کہ میں گھر بھول آیا تھا اور یہاں عالم یہ تھا کہ ”کہ ہر سڑک گلی سخت چڑھائی و من چڑھائی نہ چڑھم“ ۔ اور شام حسب عادت ارد گرد کا علاقہ سونگھنے نکلے تو چوک میں دائیں بائیں جھانک نسبتاً کم ڈھلوان سڑک چننے کے باوجود دس منٹ بعد ”یہاں پیدل سیر بھول جانم“ کا فیصلہ کر چکا تھا۔

بس انتہائی تنگ سڑکوں گلیوں مڑتی گھومتی چڑھتی اترتی کہیں پرانے قلعوں کی ٹوٹی پھوٹی دیواروں کے ٹکڑے یا نہ جانے کس زمانے کے مکان دکھاتی آلیو گارڈن ریسٹورنٹ کے قریب چھوڑ جا چکی تھی اور بہت پرانی سی بلڈنگ کے اندر بنے چند مرلہ کے چاروں طرف لگے زیتون کے درختوں کے باغیچہ کے درمیان میزوں کی قطار پہ بیٹھے ہم اس ہوٹل کی شہرت باقی لذیذ کھانوں کے ساتھ چنیوٹی کنؔے کی طرح کے مٹی کے مٹکا نما مرتبان میں ”پاٹر کباب“ کے پکانے کے آخری مرحلہ، میوزک اور تالیوں اور کچھ کرتب، ڈانس کے ساتھ مرتبان کی گردن کٹتے اور یک دم اٹھتے شعلہ میں سے گزرتے ڈش میں الٹائے جانے کے منظر پہ تالیاں بجا محظوظ ہو رہے تھے۔

اور پر لطف کھانے کے بعد ٹرکش گٹار پہ ریسٹورنٹ کا مالک ٹرکش دھن سنا رہا تھا اور مینیجر ایک خالی مرتبان لا ہونے والے دلہا سے اس پر اپنا اور اپنی محبوب ہستی ( ماں ) کا نام موٹے مارکر سے لکھوا صحن کے وسط میں لگے پرانے زیتون کے درخت کے تنے کے ساتھ پہلے سے پڑے ایسے مرتبانوں کے اوپر سجا چکا تھا۔ میری نظر پچھلے کونے میں ایک تقریباً سارا زمین میں دھنسے نظر آتے کمرے پہ پڑی۔ استفسار پر بتایا کہ یہ پچھلا حصہ کوئی چھ صدی پرانا ہے اور باقی عمارت کوئی ساڑھے چار سو سالہ عمارت کی کچھ نو تعمیر مگر زیادہ تزئین شدہ عمارت ہے اور یہ کہ اس علاقے میں چند ہی نو تعمیر شدہ عمارتیں ہوں گی، زیادہ قدیم تزئین شدہ ہیں۔

بتایا کہ آیا صوفیہ اور دیگر بے شمار تاریخی عمارات پر مشتمل سلطان احمت ( احمد ) چوک صرف ایک کلو میٹر کے لگ بھگ ہے اور چڑھائی بھی زیادہ نہیں۔ اور آدھے گھنٹہ بعد یہ قافلہ رستے میں کسی بہت ہی قدیم قلعے کی موٹی لمبی نانک شاہی اینٹوں کی بند کردہ یا جنگلہ لگی روزنوں محرابوں یا کمروں پر مشتمل دیوار کے ساتھ کچھ وقت چلتا رعب دار شاندار محرابوں میناروں محلوں یادگاری میناروں والے دنیائے سیاحت کی مقبول ترین جگہوں میں سے ایک سلطان احمت چوک پہنچ چکا تھا اور میرا ذہن قیام پاکستان کے جلد بعد دیکھی لاہور شاہی قلعہ ( تزئین نو سے پہلے ) کی اندرون لاہور کی طرف کی دیوار اور محرابیں اور جنگلہ لگا اندر سے ڈراؤنے لگتے حجروں کی یاد تازہ کر چکا تھا۔

اگلے چند روز گھومتے پھرتے اچانک دائیں یا بائیں ایسی ہی فصیل نما دیواریں ابھر آتیں۔ کہیں صرف آٹھ دس میٹر کا ٹکڑا اور کہیں لمبی درمیان سے گر چکے یا گرائے گئے حصوں کی نشاندہی کرتے جہاں نئی تعمیرات ہو چکی یا ہو رہی تھیں۔ قسطنطنیہ کے وسیع قلعہ کی برباد شدہ بیرونی دیواریں تھیں یہ یا مضافاتی چھوٹے چھوٹے قلعے اور محرابیں گائڈ وضاحت نہ کر سکا۔ بعض جگہ ایسے آثار قدیمہ کی باقیات شہر کی ٹریفک وغیرہ کی ضروریات کے لئے جاری نئے منصوبوں کی زد میں ملیامیٹ کی جاتی بھی نظر آ جاتیں۔

پرائیویٹ ٹورسٹ بس میں ڈرائیور کے نزدیک پیچھے منہ کیے کھڑا گائڈ آدم لاؤڈ سپیکر ہاتھ میں پکڑتے رستے میں آتے قابل ذکر مقامات کا تعارف کراتا جا رہا تھا۔ اچانک بتانے لگا کہ اس کے آبا و اجداد تین صدیاں قبل انڈونیشیا سے نکل ہندوستان میں آباد ہوئے وہاں سے عراق آ بسے اور اب کوئی سو سال سے ترکی کے باسی ہیں۔ اور مجھے ”لنکا سے جو بھی نکلا، باون گز کا کی مثال“ یاد آ رہی تھی۔ صبح کے وقت ہی ہر سڑک پہ ٹریفک جام لگتی۔

اور ٹریفک اس طرح کی کہ کراچی والے کہہ اٹھیں کہ یہ تو ہم کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ کاروں کی نسبت ٹیکسی اور ٹورسٹ وین، ٹورسٹ بس بہت زیادہ۔ مڑی تڑی سڑکیں، بعض جگہ موڑنے کے لئے تھری پوائنٹ ٹرن، سرخ بتی پہ بائیں مڑنا منع کے بورڈ کے باوجود نہ صرف کار بلکہ بس کا بھی بائیں مڑتے چلتی ٹریفک اندر گھس کے یو ٹرن لینا، پہلے خوف اور پھر تفریح کا سامان بن چکا تھا۔ بار بار سمندر کنارے سے گزرے۔ انتہائی بلندی سے نیچے آتی سڑک پہ سامنے سمندر کا نظارہ دلکش لگتا۔

وہ بتاتا یہ فلاں اہم مقام تھا جہاں اب فلاں محکمہ ہے، یہ فلاں سلطان کا محل تھا جہاں اب یونیورسٹی ہے۔ یہ شاندار فن تعمیر کا نمونہ دروازہ و دیوار پیچھے باغ لئے ہے۔ بہت سی سلطانی دور کی عمارتیں مختلف جگہوں پر عجائب گھر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ کہیں بس رکتی، اتر کے یاد گاریں دیکھتے ان کی تاریخ بتاتا۔ اب وہ اشارہ کر رہا تھا کہ وہ دیکھیں سمندر کے کنارے کمال اتاترک کا مجسمہ ہے۔ کمال اتاترک، میرا دھیان کمال اتاترک کے متعلق بچپن میں پڑھی داستانیں گھومنے لگیں۔

جدید ترکی کا معمار۔ بیمار ترکی کا طبیب، مکمل مغربی طرز زندگی، طرز حکمرانی، ضابطۂ حیات و قوانین لاگو، خلافت و ملوکیت کا خاتمہ، نہ صرف عربی و مذہبی تہذیب سے نجات میں ہی ڈھالنے والا بلکہ عربوں اور عربی سے اتنا متنفر کہ عربی کی بجائے یورپی رسم الخط جاری کرتے تمام مذہبی رسومات بھی ترکی میں ادا کرتے اذان اور نماز اور قرآن مجید پبلک مقامات پر صرف ترکی زبان میں بدل ڈالا۔ اکثر تاریخی عمارتوں میں کندہ عربی عمارات کو مٹا کے نجات دہندہ ترکی کے باپ، اتا ترک، کا لقب پانے والا۔ آج کی بین الاقوامی سیاست کے عجوبے دیکھنے والے شاید اس وقت اسے بھی کس کس لقب سے پکارتے یا شاید پکارا بھی ہو۔ بہر حال انیس سو پینتیس تک ترکی مرد بیمار سے ترقی کی راہوں پہ نکل چکا تھا۔

بس ہمیں ایک تنگ موڑ پہ چھوڑ جا چکی تھی اور ہم رات محض سرسری چکر لگا کر واپس چلے جانے کے بعد دوبارہ اسی تاریخی احمت سکوائر پہنچ چکے تھے۔ گائڈ رستے میں آتی بارہ دری اور لمبے اونچے ستون دکھاتے ایک ستون کا بتا رہا تھا کہ قبل از مسیح میں زمین پر لیٹی صورت میں بنایا گیا یہ ستون کوئی چھ سو برس اپنے نصب کیے جانے والے کنویں کے پاس مکمل ہو لیٹا رہا اور ماہرین حیران ہیں کہ نہ جانے کس ٹیکنالوجی سے اسے کھڑا کیا گیا ہو گا۔

ہر جگہ سر ہی سر تھے۔ ہر ملک و ملت کے۔ کہیں کوئی پاکستانی گھرانا بھی نظر آ رہا تھا جگہ جگہ کوئی آدمی ہاتھ میں اونچا کوئی جھنڈا یا بانس پہ غبارے کوئی اور چیز لٹکائے چل رہا ہوتا یا کھڑا ہوتا اور پیچھے پیچھے بیس تیس سیاح آرہے ہوتے یا گرد کھڑے ہوتے یہ گائڈ کی نشانی اور اس کے گروپ سے رابطہ میں رہنے کا ذریعہ تھا۔ سالانہ ساڑھے تین کروڑ سے زائد سیاح صرف استنبول کا رخ کرتے ہیں اور پورا ترکی کئی ارب سالانہ سیاحوں کی میزبانی سے معیشت سنبھالتا ہے۔

ایک قطار میں بنی بہت سی دکانوں پر سیاحوں کی دلچسپی کے سامان کے ساتھ بے شمار قسم، کوالٹی اور سائز کے چھوٹے بڑے دوپٹے رومال یا، ڈاکٹروں کی طرح کے اوورآل تھے۔ گائڈ کہنے لگا ان مساجد اور نوادرات نبوی کے زیارت گاہ میوزیم میں خواتین کا بغیر سر ڈھانکے اور مناسب، کم از کم گھٹنوں کے نیچے تک لباس جانا منع ہے۔ لہذا خوب رش تھا۔ گائڈ مختلف تاریخی عمارتوں کی تاریخ اور اہمیت بتاتا اور چند کو اندر سے دکھانے کے بعد ایک تنگ بازار میں واقع قدیمی محراب دار دروازے سے گزار کر نیلے گنبد کی مناسبت سے نیلی مسجد کہلاتی سلطان احمد مسجد کے احاطے سے گزار آثار کی اہمیت و تاریخ بتاتے آدھے گھنٹے میں اندر سے دیکھ آنے کا کہہ باہر ملنے کی جگہ کا بتا چکا تھا۔

اس کے ساتھ ہی سلطان کے مقبرہ اور مدرسہ کی جانب بھی اشارہ تھا۔ فن تعمیر اور رعب و دبدبہ کے مشاہدہ کرتے اور ایک بڑے حصہ کو برائے مرمت ڈھکا ہوا پاتے باہر آ دوسری چھوٹی یاد گاروں کو دکھاتے اب وہ عجائب گھر میں تبدیل شدہ محل کی طرف لے جا رہا تھا۔ جہاں زیارت اشیائے متعلقہ حیات رسول اللہ ﷺ بھی تھی۔ دل ناداں کی پچیس سنٹی گریڈ سے اوپر برداشت نہ کر سکنے کی مجبوری کہ اس وقت پینتیس کے لگ بھگ اور تیز گرم دھوپ بھی تھی، لمبی قطار میں لگے میری طبیعت اچانک بہت بگڑ رہی تھی لہذا معذرت کرتے کچھ فاصلے پہ ایک ریسٹورنٹ کے باہر درختوں کے سایہ میں پڑی کرسی پر جہان کافی ہوا تھی، آ پناہ لی اور کوئی نصف گھنٹہ بعد طبیعت سنبھلنا شروع ہوتے ادھر ادھر توجہ پھرنے لگی۔

سامنے بظاہر کسی مسجد کے داخلی محراب پر کام جاری تھا غور کیا تو یہ مٹے ہوئے نقش و نگار اور آیات قرآنیہ کے احیاء کا کام ہو رہا تھا۔ اوہ تو یہ پچھلی چند دہائیوں سے ترکی میں احیائے اسلام کی تحریکوں کے نتیجے میں عربی سے سرکاری نفرت کے ختم ہوتے دوبارہ اصل تہذیب کی طرف لوٹا جا رہا تھا۔ یاد آیا کہ بہت سی یادگاروں پر یہ نقش کاری و سابقہ عربی عبارات و آیات قرآنیہ کا احیاء اسی کی کڑی تھی اور نیلی مسجد میں بھی پہلے حصہ کی تزئین کے بعد باقی جگہ اسی لئے ( ساتھ ستونوں کی مضبوطی ) ڈھانکا گیا تھا۔

ہاں اب تو مساجد کے لاؤڈ سپیکرز سے اونچی آواز میں اذان بھی سنائی دیتی تھی۔ کچھ ایسا لگا جیسے ہر مسجد سے ایک ہی دل موہ لینے والی آواز میں ریکارڈ شدہ آواز ہر مسجد سے اور ایک ہی وقت میں نکلتی ہے۔ تصدیق نہ کر سکا۔ ایک گھنٹہ بعد عجائب گھر کے نوادرات زیارات مقدسہ کے دیدار کا موقع ملنے پر احساس تشکر سے بھر پور یہ گھرانا گائڈ کے بیان سنتے چوٹی کے اوپر واقع ریسٹورنٹ کی چاروں طرف سے کھلی اوپر والی منزل پہ کھانے کے لئے براجمان تھا اور میں سنبھل چکی طبیعت کے ساتھ چاروں طرف کے دلکش نظارے کیمرہ میں محفوظ کر رہا تھا۔ کھانے کے دوران مینیجر کو کئی مرتبہ ہمارے ساتھ کھانا کھاتے گائڈ کی طرف خصوصی توجہ دیتے دیکھا تھا اور کھانے کے بعد وہ علیحدہ لے جا اسی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے چپکے سے اس کی جیب میں ہاتھ ڈالتے نظر آیا تھا۔

میں پاکستان پہنچ کر مختلف شہروں کے درمیان بسوں کے سفر کی طرف جا چکا تھا۔ کھانے کے وقت اچانک بس ڈرائیور کسی سڑک کنارے اچھے کھانے والے اپنے پسندیدہ ہوٹل پہ بس کھڑی کرتا۔ مسافر میز کرسی پہ بیٹھے کھانا کھاتے اور ڈرائیور کنڈکٹر کچھ دور بہت بڑی چارپائی پر بیٹھے سب سے الگ سب سے بہترین کھانا اڑا رہے ہوتے۔ یہ اس ہوٹل پہ گاہک لانے کی خدمت ہوتی اور آج چونکہ ہم نے گائڈ کو اصرار کر کے ساتھ بٹھایا تھا لہذا اس کے ”لیڑے“ میں ترکش ”لیرے“ پہنچائے گئے تھے۔

اب گائڈ ہمیں ایک دو چھوٹی یادگاروں سے گزار آیا صوفیہ یا حاگیہ صوفیہ، کہ دنیا کی معروف ترین عمارتوں میں سے ہے، کی تاریخ بتا رہا تھا قبل از مسیح بھی مختلف مذاہب کی عبادت گاہ رہتے عیسوی دور میں موجودہ شکل میں تعمیر شدہ یہ عمارت ہر حاکمیت کے مطابق معبد، گرجا، مسجد، عجائب گھر سے ہوتی اب پھر مسجد کی صورت میں تزئین پا چکی تھی۔ نزدیک ہی عیسائیت کے عروج کی نشانی صلیب کندہ ہوئے سیاہ پتھر کے ستون تھے اور گائڈ اشارہ کر رہا تھا کہ وہ شاہی حرم اور وہ شاہی حمام کے باقیات ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments