کیا آپ سائیں سچا کی تخلیقات اور نظریات سے واقف ہیں؟


 

سائیں سچا ایک ایسے ادیب ’شاعر اور دانشور ہیں جو نوجوانی میں ہی پاکستان سے انگلستان اور پھر انگلستان سے سویڈن ہجرت کر گئے۔ وہ نصف صدی سے مغربی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بیک وقت اردو‘ پنجابی ’انگریزی اور سویڈش چار زبانوں میں نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ ترجمے بھی کرتے ہیں۔ وہ چونکہ شہرت سے بے نیاز خاموشی سے اپنا سچ کاغذ پر رقم کرتے رہتے ہیں اس لیے انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔

سائیں سچا سے میری پہلی ملاقات 1985 میں ہوئی جب ہم دونوں ترقی پسند ادیبوں کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر لندن گئے تھے۔ اس ملاقات کے بعد سائیں سچا نے 1989 میں سویڈن میں ایک ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں شمالی امریکہ اور یورپ کے وہ مہاجر ادیب جمع ہوئے جو مشرق میں پیدا ہوئے تھے لیکن مغرب میں جا بسے تھے۔ اس کانفرنس میں پیش کی گئی تخلیقات اور زیر بحث لائے گئے خیالات و نظریات پر مبنی ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام SEARCH FOR IDENTITY رکھا گیا۔

سائیں اور درویش کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ہم نے مل کر بھی ایک کتاب انگریزی میں چھاپی جس کا نام
WORDS , WORDS AND WORDS
رکھا گیا۔
اس کتاب میں سائیں اور درویش کی نظموں ’افسانوں اور مقالوں کا انتخاب شامل ہے۔

سائیں سچا کا حال میں نظموں کا مجموعہ۔ ہاتھ تو کھولو۔ اور افسانوں کا مجموعہ۔ بری نظر۔ منظر عام پر آئے ہیں۔ یہ تخلیقات بیک وقت اردو ’انگریزی‘ پنجابی اور سویڈش زبانوں میں رقم کی گئی ہیں۔

سائیں سچا ایک ہمہ جہت انسان ہیں۔ ان کے نظریات میں بغاوت اور شخصیت میں شرافت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ ایک حق گو انسان اور لکھاری ہیں اور انہوں نے اپنے سچ کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔

مجھے سائیں سچا کی دوستی پر فخر ہے۔ میں نے کئی سال پیشتر انگریزی میں ان کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ میں اس انٹرویو کی تلخیص اور ترجمہ۔ ہم سب۔ کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انٹرویو سے پہلے ان کی مختصر ترین نظم ملاحظہ ہو

۔ ۔
میری چاہ
ہر دن میں تیری آنکھوں میں آنسو دیکھوں
خوشی کے آنسو
۔ ۔

خالد سہیل: سائیں جی! میں آپ سے آپ کے ادبی سفر اور نظریاتی ارتقا کے حوالے سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اجازت ہے۔

سائیں سچا: ضرور پوچھیے
سہیل: آپ کے ادبی سفر کا آغاز کب ہوا؟

سائیں : میں نوجوانی میں لاہور کی ایک ادبی انجمن کا سیکرٹری ہوا کرتا تھا۔ یہ 1955 کی بات ہے۔ میں نے اگلے پانچ سالوں میں نو افسانے لکھے۔ اس کے بعد میں لندن چلا گیا اور کافی عرصے تک کچھ نہیں لکھا۔

سہیل: آپ نے پہلا افسانہ کس عمر میں لکھا؟
سائیں : 1955 میں جب میری عمر صرف چودہ برس تھی۔
سہیل: جن دنوں میں آپ نے نو افسانے لکھے ان دنوں میں کن حالات نے آپ کو مثبت یا منفی طور پر متاثر کیا؟

سائیں : ان دنوں مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لیے میں شہر کی آنہ لائبریریوں سے کتابیں لا کر بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ ان کتابوں میں شاعری بھی تھی افسانے بھی تھے اور ناول بھی۔

سہیل: آپ کے ابتدائی افسانے کس زبان میں تھے؟

سائیں : وہ افسانے اردو میں تھے لیکن ان میں سے کئی کرداروں کے ڈائیلاگ پنجابی میں تھے جس پر بہت سے لوگوں نے بہت سے اعتراضات کیے لیکن میں اپنی پسند اور اپنی طرز کی کہانیاں لکھتا رہا۔

سہیل: آپ نے نوجوانی میں کس طرح یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جانا چاہیے اور یہ فیصلہ کیسے کیا کہ کس ملک ہجرت کرنی چاہیے؟

سائیں :جب میں نے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے گھر کے حالات اچھے نہ تھے۔ میرے والدین کے رشتے میں تناؤ تھا اور انہوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ میرے بھی اپنے والد سے تعلقات اچھے نہ تھے کیونکہ وہ ایک آمرانہ مزاج کے انسان تھے اور میں ایک باغی انسان تھا۔ میں غیر منصفانہ روایات کے حوالے سے سوال کیا کرتا تھا اور چبھتے ہوئے سوال انہیں پسند نہ تھے۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ بہت سے لوگ پاکستان سے دوسرے ممالک ہجرت کر رہے ہیں۔

میں نے سوچا میں بھی ہجرت کر جاؤں۔ میں نے اپنی والدہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں ہجرت کرنا چاہتا ہوں تو وہ میری ٹکٹ کا بندوبست کر دیں گی۔ چنانچہ میں انگلستان چلا آیا۔ میں جب لندن کے ائرپورٹ پر پہنچا تو میری جیب میں صرف پانچ پونڈ تھے۔ میں نے ائرپورٹ پر فون کی ڈائرکٹری دیکھی اور ایک پاکستانی اجنبی کو فون کیا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔

سہیل: لندن میں پہلے چند ماہ کیسے گزرے؟

سائیں : بہت سخت بہت تھکا دینے والے۔ مجھے لندن ائرپورٹ کے قریب کام تو مل گیا لیکن ائرپورٹ میری رہائش سے کئی میل دور تھا۔ میں ہر روز کئی میل بھاگ کر کام پرجاتا اور پھر بھاگ کر گھر پہنچتا۔ میرے پاس بس یا ٹرین کی ٹکٹ کے بھی پیسے نہ تھے۔ میں پہلے دو ہفتے کئی بار بھوکا سویا کیونکہ میرے پاس کھانے کے بھی پیسے نہ تھے۔ پہلی تنخواہ ملنے کے بعد حالات بہتر ہونے شروع ہوئے۔

سہیل:آپ نے انگلستان سے سویڈن جانے کا فیصلہ کیسے کیا؟

سائیں : لندن میں میں ایک بین الاقوامی کلب کا ممبر تھا جس میں ساٹھ ممالک کے لوگ شامل تھے۔ اس کلب میں بہت سی خواتین کا تعلق سکنڈینیوین ممالک سے تھا جن سے میری دوستی ہو گئی۔ میری پہلی گرل فرینڈ ڈینش تھی۔ اس کی بہت سی سہیلیاں سویڈن کی تھیں۔ ان خواتین نے مجھے سکنڈینیوین معاشرت کے بارے میں بہت کچھ بتایا جو مجھے بہت بھایا۔ آخر ایک دن میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنا سب کچھ دوستوں کو دے دیا اور ایک سوٹ کیس اور ٹیپ ریکارڈر لے کر سویڈن چلا آیا۔

سہیل : آپ نے ایک دفعہ مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ آپ کینیڈا آنا چاہتے تھے؟

سائیں : ہاں میں نے کینیڈا میں ایک ملازمت کی درخواست دی تھی اور مجھے ونکوور میں ایک ریسرچ کیمسٹ کی جوب مل بھی گئی تھی۔ کینیڈا کے ویزے کے لیے مجھے تین دن کے لیے سٹاک ہوم جانا پڑا اور سٹاک ہوم اتنا پسند آیا کہ وہیں کا ہو گیا۔ میں پہلی نظر میں سویڈن کی زلف کا اسیر کا ہو گیا۔

سہیل: یہ کس سال کی بات ہے؟
سائیں : 1965 کی
سہیل: اب میں آپ کی ادبی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ آپ کی پہلی کتاب
ROOTS OF MISERY THEایک متنازعہ فیہہ کتاب ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

سائیں : جب میں نے سماجی اور سیاسی شعور حاصل کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں جس ماحول میں پلا بڑھا تھا وہ ایک منافق معاشرہ تھا سماجی طور پر بھی سیاسی طور پر بھی اور جنسی طور پر بھی۔ وہ ایک جابرانہ آمرانہ اور ظالمانہ معاشرہ تھا۔ میں نے معاشرے کے ظلم اور منافقت کے خلاف لکھا اور بڑی شدت سے لکھا جو کئی لوگوں کو پسند نہ آیا۔

میں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جبر دو طرح کا ہوتا ہے۔
خارجی جبر اور داخلی جبر

اور ہمیں اپنے حالات کو بدلنے کے لیے دونوں طرح کے جبر کو سمجھنا ہو گا تا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کر سکیں اور ایک بہتر معاشرہ تخلیق کر سکیں۔

سہیل: آپ نے اپنی تخلیقات میں کن موضوعات پر قلم اٹھایا؟

سائیں : میں نے جب کالج اور یونیورسٹی میں سوشل انتھروپولوجی کی تعلیم حاصل کی تو میں بہت سے سماجی مسائل پر لکھنا شروع کیا۔

سہیل: میں نے جب آپ کی کتاب پڑھی تو میں جن باتوں سے متاثر ہوا ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ اگرچہ پاکستان کے چار صوبوں میں رہنے والوں کی مادری زبانیں پنجابی پشتو سندھی اور بلوچی ہیں لیکن سماج میں جب گفتگو سنجیدہ ہونے لگتی ہے تو وہ اردو میں مکالمہ کرنے لگتے ہیں اور جب زندگی کے اہم فیصلوں کا وقت آتا ہے تو وہ فیصلے یا انگریزی میں ہوتے ہیں یا عربی میں۔ عدالتوں میں انگریزی میں اور مسجدوں میں عربی میں فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔

سائیں : سیاسی اور مذہبی لیڈر وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو عوام کی مادری زبان نہیں ہے یہ حقیقت پاکستان میں ایک سماجی اور سیاسی جبر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ضیا الحق کے دور میں عربی کی بہت پذیرائی کی گئی۔

سہیل:کیا آپ عربی زبان کے حق میں نہیں ہیں؟

سائیں : میں سب زبانوں کے حق میں ہوں۔ عربی اور انگریزی بھی باقی زبانوں کی طرح ہیں۔ میں کسی زبان کو مذہبی اور روحانی زبان نہیں سمجھتا اور میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ اسے عوام کے استحصال کے لیے استعمال کیا جائے۔ میرا یہ موقف ہے کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینی چاہیے اور دفتروں اور عدالتوں میں عوام کے کام ان کی مادری زبان میں ہونے چاہیے۔

سہیل: کیا آپ لوگوں کی اپنی مادری زبان میں عبادت کرنے کے حق میں ہیں؟
سائیں : بالکل حق میں ہوں۔
سہیل: اب میں موضوع بدلتا ہوں۔ پاکستان اور ہندوستان میں اتنی دشمنی کیوں ہے اگرچہ دونوں ہمسائے ہیں؟

سائیں : بہت سے پاکستانی مسلم یہ نہیں سوچتے کہ ان کے آبا و اجداد ہندو تھے۔ وہ ہندو چند نسلوں پہلے مسلمان ہو گئے۔ میری نگاہ میں ہم سب کو ایک دوسرے سے محبت پیار سے مل جل کر رہنا چاہیے۔ ہندوؤں میں ذات پات کا فرق تھا جو اب مسلمانوں میں در آیا ہے۔ دونوں ممالک میں عوام کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا گیا ہے۔ بہت سے مسلمان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کا تعلق سعودی عرب سے ہے ہندوستان سے نہیں۔

سہیل:آپ چار زبانوں میں لکھتے بھی ہیں اور ترجمے بھی کرتے ہیں۔ اس ادبی زرخیزی کا کیا راز ہے؟

سائیں : میرا موقف یہ ہے کہ انسانی جذبات اور خیالات کسی ایک زبان کے پابند نہیں۔ میں چونکہ چار زبانیں جانتا ہوں اس لیے خوش قسمت ہوں کہ ان چار زبانوں میں تخلیقی اظہار کر سکتا ہوں۔

سہیل: جب آپ ایک کہانی مکمل کر لیتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
سائیں : مجھے ایک مسرت ہوتی ہے ایک خوشی ملتی ہے ایک سکون ملتا ہے۔
سہیل: اور جب آپ دوسروں سے اپنی تخلیقات شیر کرتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟

سائیں۔ مجھے شیر کرنے سے بھی بہت خوشی ملتی ہے۔ میرے ادبی دوست میری تخلیقی زندگی اور ادبی سفر کا حصہ ہیں۔ انہوں نے میری ایک بہتر ادیب بننے میں مدد کی۔ میں ادبی دوستوں کے مل بیٹھنے اور ایک دوسرے سے ادبی مکالمہ کرنے کو پسند کرتا ہوں کیونکہ اس طرح ہم سب ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔

سہیل: سویڈش لکھاریوں کے بارے میں کچھ بتائیں؟

سائیں : سویڈن ایک چھوٹا سا ملک ہے اس کی آبادی آٹھ ملین ہے۔ یہاں کے لوگ پرسکون لوگ ہیں اور یہاں کے لکھاری پرامید لکھاری ہیں۔ سولینتونا میں ’جہاں میں رہتا ہوں‘ لکھاریوں کا ایک گروپ ہے جو ہر ماہ ملتا ہے میں ان کی محفلوں میں شریک ہوتا ہوں اور ان کے ساتھ مل کر کتابیں لکھتا ہوں۔

سہیل: آپ کی پاکستان کے سیاسی حالات کے بارے میں کیا رائے ہے؟

سائیں : یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔

سہیل: جب آپ اپنے طویل ادبی سفر کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟

سائیں : وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم میں سے ہر انسان کا ایک اپنا سچ ہے اور ہمیں دوسرے انسان پر اپنا سچ مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں جیو اور جینے دو کے فلسفے پر عمل کرنا چاہیے۔

سہیل: میرے سوالوں کے جواب دینے کا شکریہ۔
سائیں :میں امید کرتا ہوں کہ یہ جواب اوروں کے لیے بھی سودمند ثابت ہوں گے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments