وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا


نئے سال کے آتے ہی امجد صاحب رخصت ہوئے۔ امجد اسلام امجد ادب کے بے تاج بادشاہ تھے۔ وہ اب کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں رہے تھے۔ پوری دنیا میں اردو پنجابی پڑھنے اور بولنے والے ان کے نام اور کام سے واقف ہیں۔ موت سے کسی کو مفر نہیں، وہ تو بر حق ہے اسے آ کے رہنا ہے مگر کچھ لوگ مر کے واقعی ہی مر ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی زندگی میں بھی روشن ستارے کی مانند ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی امر ہو جاتے ہیں انہیں میں سے ایک امجد اسلام امجد بھی ہیں۔

امجد اسلام امجد ہمہ جہت شخصیت تھے اور ہر دل عزیز بھی۔ وہ جتنے مقبول تھے اتنے حلیم الطبع بھی تھے۔ مورخہ دس فروری دو ہزار تئیس کی صبح جب ادبی دنیا کے پروانوں نے آنکھ کھولی تو ان میں سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج امجد اسلام امجد کا دنیا سے رخصتی کا دن ہو گا۔ ہوتے ہوتے خبر سوشل میڈیا تک گئی تو ادب کے متوالوں کو خبر پڑھتے ہی جیسے چپ سی لگ گئی۔ چشم فلک نے دیکھا ہر طرف امجد صاحب کی تصاویر اور اس کے ساتھ ان کی سدا بہار شاعری چل رہی تھی اس کے علاوہ ٹی وی چینل کھلے تو ان پر بھی ہر طرف امجد اسلام امجد کی ناگہانی موت کے قصے، ان کی شاعری، ان کے ڈرامے اور ادبی خدمات کی کہانیاں سننے کو ملیں۔

میں ایک اور حوالے سے اس شخصیت کو دیکھ رہی تھی کہ بلا مبالغہ امجد صاحب نے اپنی ساری زندگی ادب کی آبیاری کرتے بسر کی مگر ایک رومانوی شاعر یا ادیب کے طور پر امجد اسلام امجد کی ساری زندگی صاف نگاہی سے گزری۔ وہ عمر کے آخری حصے میں بھی یکساں مقبول تھے مگر کوئی منفی بات ان کی ذات سے نہ جڑ سکی۔ ان کا بہت سا کلام نئی نسل کو ازبر ہوتا۔ وہ کسی محفل میں اپنی نظم یا غزل سناتے تو طلبہ اکثر ساتھ ساتھ دہراتے اور گھنٹوں ان سے فرمائش کر کے سنتے۔

ان کا سارا کلام ریختہ پر موجود ہے ان کی سیکڑوں ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ امجد اسلام امجد نے چھے سات دہائیوں راج کیا۔ اکیسویں صدی ان کی صدی رہی ہے اگر چہ ان کی نظم زیادہ سنی گئی مگر ان سے غزلوں کی بھی فرمائش کی جاتی تھی۔ ان کی لمبی ردیفوں والی غزلیں بہت مقبول ہوئیں جیسے مندرجہ ذیل غزل دیکھیے وہ کہتے ہیں :

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں، مرے ساتھ آ اسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا

کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا

امجد اسلام امجد نام کے لحاظ سے بھی منفرد تھے، کام کے اعتبار سے بھی الگ تھلگ اور اپنے عہد کا ایک مکمل عہد بھی تھے۔ آپ کا عملی میدان شاعری، کالم نگاری، ڈرامہ نگاری اور روایات کی پاسداری تھا۔ آپ ایک نقاد، تخلیق کار اور معلم تھے۔ امجد اسلام امجد 4 اگست انیس سو چوالیس میں پیدا ہونے والے قوم کے ہونہار فرد نے انیس سو چونسٹھ کو پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ایم اے اردو کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد امجد اسلام امجد انیس سو اڑسٹھ سے 1975 تک ایم اے او کالج لاہور میں اردو کے استاد کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔

اس کے بعد اگست انیس سو پچھتر میں پنجاب آرٹ کونسل میں چلے گئے وہاں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔ ڈیپوٹیشن کے بعد نوے کی دہائی میں دوبارہ اپنے ایم اے او کالج میں واپس آ گئے پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد چلڈرن کمپلیکس لاہور کے ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا کچھ عرصہ اردو سائنس بورڈ لاہور میں چئیر مین بورڈ کے طور پر بھی گزارا۔ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا کئی شعری مجموعے تخلیق کیے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بے شمار معیاری ڈرامے لکھے اور اس کے ساتھ حالات حاضرہ پر اخبار میں کالم نگاری بھی جاری رکھی۔ ابھی تک ان کی تقریباً چالیس کے قریب تصانیف منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ آپ نے اردو ڈرامے اور شاعری کو پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر بھی متعارف کرایا۔ انہوں نے تنقید تحقیق کے علاوہ سفر نامے لکھے اور تراجم بھی کیے۔ انہوں نے پوری دنیا گھوم کر دیکھ لی مگر ہمیشہ پاکستان کو ترجیح دی۔

انہوں نے راہ و رسم اور رشتوں کی عزت کو کبھی مجروح نہ ہونے دیا۔ امجد اسلام امجد نے اپنی زندگی کا بہت سا وقت شوبز کے بیچ بیٹھ کر گزارا مگر انہوں نے اپنی زندگی میں ایک ہی شادی کی۔ فردوس صاحبہ ان کی چچا زاد تھیں جنہیں وہ اکثر پروگراموں اور فیملی فنکشنز میں اپنے ساتھ رکھتے اور اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس بندھن کو نبھایا۔ حال ہی میں وہ عمرے کی سعادت سے واپس آئے تھے۔ امجد اسلام امجد کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ اخلاقی اعتبار سے اتنے مضبوط آدمی تھے کہ کبھی کسی پر غلط نگاہ نہ ڈالی۔

انہوں نے ہمیشہ غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی اس کے باوجود بھی کچھ لوگوں نے اپنے طور پر انھیں کسی خانے میں بانٹنے کوشش بھی کی تو انھیں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے کہ امجد اسلام امجد نہ منافق تھے اور نہ ہی انھوں نے اپنے گرد پھرنے والی دائیں یا بائیں بازو کی منڈلیوں سے مفادات حاصل کیے۔ وہ ایک ادیب پیدا ہوئے تھے اور بڑے اعزاز کے طور پر سر تا پا ادیب ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ امجد اسلام امجد نے خالد احمد اور نجیب احمد کی طرح بھر پور مجلسی زندگی گزاری۔

وہ نہایت ملنسار اور دوستوں کے دوست تھے۔ وہ دوستیاں بنانا اور نبھانا جانتے تھے۔ انور مسعود کے ساتھ، پہلے ان کی ادبی اور پھر رشتہ داری کی مد میں مثالی دوستی قابل رشک تھی کہ جہاں بھی مدعو ہوتے وہاں عموماً دونوں ہی مدعو ہوتے۔ وجہ اس کی جو بھی ہو مگر دوستی مثالی تھی اور لوگ اس مثالی جوڑی کی مثال دیتے نہیں تھکتے تھے۔ امجد اسلام امجد پچھلے کچھ سالوں سے ذرا نحیف ہو گئے تھے۔ شوگر تو ان کو شاید جوانی سے لاحق تھی مگر جب سے ان کو کرونا ہوا بلکہ بار دگر ہوا تب سے ذرا کمزوری کے آثار ان کے چہرے سے نمایاں تھے۔ وہ ایک ہنس مکھ شخصیت تھے۔ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے۔ وہ کہتے ہیں :

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے تو
یہ جان لینا، وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے۔

مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے!
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کہ لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمھیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمھیں ملوں گا
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں
نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمھیں ملوں گا
کہیں بھی روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
اگر کبھی میری یاد آئے

ادبی سرکل میں رہتے ہوئے وہ گھر میں کم اور گھر سے باہر زیادہ رہے ہیں۔ وہ دنیا بھر کے ادیبوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ان گنت ادبی کانفرنسوں، فسٹیولوں، اجتماعات اور لیکچروں میں شرکت کی۔ وہ اپنے جونیئرز کو کھل کر داد دیتے۔ وہ اپنے سینئر احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی کو احترام سے یاد کرتے۔ انہوں نے ایک فعال زندگی گزاری ہے۔ حتیٰ کہ اپنی وفات والے دن بھی الحمرا میں پی ایل ایف کے میلے میں مدعو تھے۔

ان کا خلا پر کرنے کے لیے اسٹیج پر، ان کی کرسی پر ان کی تصویر رکھ کر ان کی موجودگی محسوس کی گئی اور حاضرین نے انتظامیہ کے اس عمل کو خوب سراہا۔ آپ ایک محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ شاید ہی کوئی فرد ہو گا جس کو امجد اسلام امجد سے شکایت ہو گی۔ انہوں نے ہر طرف چاہت، رواداری اور خلوص ہی بانٹا ہے۔ وہ اہل سخن کے لیے قابل فخر سرمایہ تھے۔ وہ نرمی، شائستگی اور تمیز کا استعارہ سمجھے جاتے تھے۔ جملہ اور مزاح ان کو سجتا تھا۔

گداز جذبوں کی شاعری ان کی اوائل عمری میں ہی ان کے عروج کا باعث بنی۔ انہوں نے جتنے بھی ڈرامے لکھے اس میں سماج کی بھلائی اور تہذیب کا ہی سبق نمایاں ہے۔ یہاں تک کہ ان کا معروف زمانہ ڈراما ’وارث‘ جاگیردار کی نفسیات اور رہتل کا عکاس ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کے ادبی و علمی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور بہت سے دیگر اعزازات سے نواز رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ ملک خدا داد کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔

وہ پاکستان میں بھی بہت مقبول تھے اور پاکستان کے باہر بھی پاکستانی ادب کی شناخت تھے۔ معروف مزاح نگار اردو اور پنجابی کے شاعر انور مسعود کے ساتھ ان کی گہری دوستی بھی تھی اور رشتے داری بھی۔ امجد اسلام امجد کا ادبی سفر عطاء الحق قاسمی صاحب کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ دونوں ادیبوں نے بھر پور عزت احترام کی زندگی بسر کی ہے۔ عطا صاحب سے بھی امجد صاحب کی دوستی تقریباً آدھی سے زیادہ صدی پر محیط رہی ہے بلکہ دونوں ایم او کالج میں مدرس ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کے کولیگ اور دوست تھے۔

ان دونوں نے بہت سے ملکی اور غیر ملکی مشاعرے بھی اکٹھے پڑھے۔ بیرون ملک ان کے دوست بھی مشترکہ ہوا کرتے۔ انہیں وہ مدعو کرتے تو یہ ان دونوں کا اکٹھے سفر اور قیام گزرتا اور یوں پورے برصغیر تو کیا پوری دنیا میں ان کو جانا جانے لگا۔ دونوں ہی زود سخن تھے۔ دونوں ڈرامہ نویس بنے۔ لکھنے کی عادت پختہ ہوتی گئی تو پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے لازمی حصہ ہو گئے۔ ایک بار امجد اسلام امجد نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جن دنوں وہ نویں جماعت میں تھے جب وہ تاریخی ڈراما رقم کر چکے تھے۔

انہوں نے 78 سال کی طویل عمر میں مسلسل سخن کاری کا رزق حلال کمایا۔ وہ بہ یک وقت نظم اور نثر کا توانا حوالہ تھے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے صرف ایک فرد کا انتقال نہیں ہوا بلکہ اب وہ اعلیٰ تخیل اور عمدہ فکر صفحۂ قرطاس پر کہاں سے اترے گا جو ایک میچور ذہن سے میسر آتا تھا۔ جب وہ کسی مشاعرے میں اپنا کلام پڑھنا شروع کرتے تو سامعین بصد شوق ان سے فرمائشیں کرتے۔ انہوں نے سامعین کا کبھی دل نہ توڑا۔ وہ عموماً مشاعروں میں صدرِ محفل یا مہمان خاص کی طور پر بلائے جاتے تھے۔

مشاعرے کے آخر میں ان سے کلام سنا جاتا۔ ان دونوں ادیبوں کا نام پوری دنیا میں عزت احترام سے لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ عطا الحق قاسمی، افتخار عارف، انور مسعود اور ان کے علاوہ جتنے بھی سینئرز ہیں انہیں سلامتی سے لمبی عمر مرحمت فرمائے۔ امجد اسلام امجد دس فروری 2023 کی صبح اس دار فانی سے دارالبقا میں تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی اگلی منزلیں آسان کریں اور انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ آخر میں ان کا ایک اور معروفِ زمانہ شاہکار فن پارہ دیکھیے :

تیرے ارد گرد وہ جو شور تھا، مری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا، مری بات بیچ میں رہ گئی

میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کر گیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مری بات بیچ میں رہ گئی

ترے شہر میں مرے ہم سفر، وہ دکھوں کا جمِ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا، مری بات بیچ میں رہ گئی

وہ جو خواب تھے مرے سامنے، جو سراب تھے مرے سامنے
میں انہیں میں ایسے الجھ گیا، مری بات بیچ میں رہ گئی

عجب ایک چپ سی لگی مجھے، اسی ایک پل کے حصار میں
ہوا جس گھڑی ترا سامنا، مری بات بیچ میں رہ گئی

کہیں بے کنار تھیں خواہشیں، کہیں بے شمار تھیں الجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا، مری بات بیچ میں رہ گئی

تھا جو شور میری صداؤں کا، مری نیم شب کی دعاؤں کا
ہوا ملتفت جو مرا خدا، مری بات بیچ میں رہ گئی

مری زندگی میں جو لوگ تھے، مرے آس پاس سے اٹھ گئے
میں تو رہ گیا انہیں روکتا، مری بات بیچ میں رہ گئی

تری بے رخی کے حصار میں، غمِ زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا، مری بات بیچ میں رہ گئی

مجھے وہم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے کی زباں مری
سو حقیقتاً بھی وہی ہوا، مری بات بیچ میں رہ گئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments