ادب کے فروغ میں ریڈیو کا کردار


برصغیر میں ریڈیو دوسری جنگ عظیم سے قبل آیا۔ لیکن امریکہ میں اس کا استعمال 1920 میں شروع ہو گیا تھا۔ نشریات سننے کے لیے کرسٹل ریڈیو بنایا گیا جو بیٹری یا کسی دوسری طاقت کے بغیر کام کرتا تھا۔ اس ریڈیو سیٹ میں اسپیکر نہیں تھا اور سننے والوں کو ایر فون لگانا پڑتا تھا۔ اس عشرے کے وسط میں سائنسدانوں نے ایسا ریڈیو تیار کر لیا جو بجلی کی قوت سے چلتا تھا۔

ریڈیو ایک ایسی ایجاد ہے جس نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ آج ہم ٹیلی کمیونیکیشن کے حوالے سے عقل کو حیران کر دینے والی جو ترقی دیکھتے ہیں وہ ریڈیو کی ایجاد سے ہی ممکن ہو سکی۔ جس زمانے میں ریڈیو اپنی ابتدائی شکل میں تھا اسے لوگ بہت حد تک جادوگری خیال کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے اس نظریے میں اتنے زیادہ غلط بھی نہ تھے۔ چونکہ ہم نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے آپ کو ان گنت حیران کن اشیا کے درمیان پایا ہے اس لیے ہمیں ان کی موجودگی پر زیادہ حیرت نہیں ہوتی۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ جن لوگوں کی زندگی میں کبھی بغیر تار کے کوئی چیز رہی ہی نہ ہو ان کی زندگی میں ریڈیو نے کیسا انقلاب برپا کیا ہو گا۔

عہد حاضر میں ریڈیو کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ذریعہ ابلاغ کا اپنا حلقہ یا دائرہ ہوتا ہے۔ تمام ذرائع میں ریڈیو کا حلقہ سب سے وسیع ہے۔ یہ دیگر ذرائع ابلاغ سے زیادہ اہم اور موثر اس لیے ٹھہرتا ہے کہ تعلیم، اطلاع اور تفریح اس انداز سے بہم پہنچائی جاتی ہے کہ سننے والے کہیں بھی ہوں اور کسی بھی حال میں ہوں مستفید ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پرنٹ میڈیا سے استفادہ کرنے کے لیے پڑھا لکھا ہونا شرط ہے۔ جبکہ ریڈیو سے ان پڑھ اشخاص بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی لیے دیہاتوں اور دور دراز کے علاقوں میں جہاں تعلیم انتہائی کم ہے ریڈیو ہی سب سے مقبول ذریعہ ابلاغ ہے۔

ریڈیو کی دنیا میں اس کا سب سے خوبصورت نام بھارت نے رکھا۔ اس نے اپنے سرکاری ریڈیو کو ”آکاش وانی“ کا نام دیا۔ جس کا مطلب ”آسمان سے نازل ہونے والا پیغام“ یا ”صدائے غیب“ ہے۔ دہلی سے علمی و ادبی نوعیت کے متعدد پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔ جن میں تقاریر، مباحثے، میوزیکل فیچر اور ڈرامے وغیرہ شامل تھے۔ علمی موضوعات پر مبنی تقاریر بھی نشر کی جاتی تھیں۔ لیکن اس بات کی نگرانی انگریز سرکار کرتی تھی کہ کہیں آزادی کے موضوع پر کوئی بات نشر نہ ہو جائے۔ تقاریر کے لیے اپنے وقت کے ممتاز دانشوروں اور ادبیوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ جن میں ڈاکٹر انصاری، خواجہ حسن نظامی، منشی پریم چند، رشید احمد صدیقی اور شاہد احمد دہلوی وغیرہ شامل تھے۔ دلی سے حفیظ جاوید ایک پروگرام کرتے تھے جس کا نام تھا ”خطا کیا ہے؟“ اس پروگرام کی بڑی دھوم تھی۔

نشریات کے آغاز کے لحاظ سے ممبئی ریڈیو اسٹیشن ہندوستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن تھا۔ اس میں ”دو بدو“ کے عنوان سے تقریروں کا ایک پروگرام نشر ہوتا تھا۔ لاہور ریڈیو اسٹیشن 1937 میں قائم ہوا۔ یہاں دیگر زبانوں کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی مختلف پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ ادبی پروگرام بھی پیش کیے جاتے تھے۔ کلکتہ ریڈیو اسٹیشن سے رابندر ناتھ ٹیگور کا کلام نشر ہوتا تھا۔

ریڈیو پاکستان کراچی نے علم و ادب کے فروغ کے لیے مختلف پروگرام پیش کیے۔ جن میں تقاریر، فیچر، مباحثے، مذاکرات اور دیگر پروگرام شامل تھے۔ کراچی ریڈیو اسٹیشن سے سیماب اکبر آبادی کا مشہور پروگرام بہ عنوان ”اردو کے مصادر“ نشر ہوتا تھا۔ ”اقبال کا ایک شعر“ کے عنوان سے بھی ایک پروگرام نشر ہوتا تھا۔ وہ ایک شعر ڈاکٹر محمد اسلم فرخی پڑھتے تھے اور پھر اس کی عام فہم تشریح کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں ”دانش کدہ“ کے عنوان سے ایک ہفتہ وار پروگرام نشر ہوتا تھا۔

علم و ادب کے فروغ میں ریڈیو پاکستان نے جو پروگرام پیش کیے ان میں ادبی مباحثے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ریڈیو پاکستان نے اپنی نشریات کے ابتدائی ساڑھے چھ ماہ میں ”بزم سخن“ کے عنوان سے چھ مباحثے نشر کیے۔ پہلے مباحثے میں علامہ اقبال اور اکبر الہ آبادی پر گفتگو کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک مباحثہ با عنوان ”کیا افسانہ نگاری قدرتی عطیہ ہے“ پیش ہوتا رہا۔ اور انگریزی زبان میں ایک مباحثہ با عنوان ”ادب“ بھی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔

مباحثہ کو پہلے مناظر کہا گیا اور 1936 میں ریڈیو سے نشر ہونے والے مناظر کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ”روحانیت“ کے عنوان سے نشر ہونے والے اس مناظرے میں خواجہ حسن نظامی اور خواجہ محمد شفیع نے شرکت کی۔ ایسا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مناظرے جو ابتدائی دور میں نشر ہوئے ان کی اسکرپٹ تیار کرائی جاتی تھی۔ رسالہ ”آواز“ کے ابتدائی شماروں میں چند مباحثے تحریری شکل میں ملتے ہیں۔ ادبی مناظرہ کا ایک سلسلہ 1945 میں آل انڈیا ریڈیو کے لاہور سینٹر سے شروع کیا گیا تھا۔

جولائی 1943 میں دہلی ریڈیو سے ایک مباحثہ با عنوان ”علامہ اقبال کا شکواہ جواب شکواہ“ پیش کیا گیا۔ جس کے شرکا فراق گورکھپوری، عبدالماجد دریا آبادی، سعید انصاری اور پنڈت برج موہن تھے۔ 1945 میں لاہور ریڈیو سے ایک مباحثہ پیش ہوا جس کا عنوان تھا ”پریم چند کے ناول اور افسانے“ ، اس مباحثے کے شرکا میں آغا عبدالمجید اور فیض احمد فیض شامل تھے۔ اسی طرح دہلی ریڈیو سے 1955 میں ایک منظوم مباحثہ ”بہشت اور دنیا“ کے عنوان سے پیش ہوا۔

علمی مباحثوں کی طرح ریڈیو سے تبصرہ کتب پر بھی پروگرام بھی نشر ہوتا تھا۔ یہ پروگرام ادبی پروگراموں میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ پروگرام نئی کتابوں کے بارے میں ہوتا تھا۔ جس میں شرکا کتب کے بارے میں بے لاگ تبصرے کرتے تھے۔ اہم تبصرہ نگاروں میں اے حمید، سید وقار عظیم، ممتاز حسن اور ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان وغیرہ شامل تھے۔ ڈاکٹر جی ایم مہکری اور ڈاکٹر کرار حسین نے انگریزی کتب پر تبصرہ کیا۔ تبصرہ کتب کے پروگراموں میں تبصرہ نگاروں کے ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے بھی ریڈیو نے اپنے وقت کے نامور ادیبوں اور دانشوروں کی خدمات حاصل کیں۔

ریڈیو پاکستان کراچی میں پہلا تبصرہ ڈاکٹر شائستہ اختر سہروردی نے کیا۔ کتب پر تبصرہ کے پروگراموں کو کوئی باقاعدہ اور جامع نام دینے کے بجائے اسے مختلف نام دیے گئے۔ آغاز میں اسے ”تنقید اور تبصرہ“ کا نام دیا گیا۔ بعد میں اسے ”ورق گردانی“ ، ”نئی کتابیں“ اور ”میری لائبریری“ جیسے نام بھی دیے گئے۔ یہ ریڈیو کی خوش قسمتی تھی کہ بے شمار ادیب، شاعر اور دانشور جو کراچی میں مقیم تھے سب نے اپنی خدمات ریڈیو کو پیش کر دی تھیں۔ آئے دن کتب شائع ہو کر علم و ادب کے ذخیرہ میں اضافہ کا موجب بنتی ہیں۔ ایسی کتب کو عوام الناس میں متعارف کروانے کے لیے ریڈیو پاکستان نے کتابوں پر تبصرے کا اہتمام ہر دور میں کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی طور جاری ہے۔

ریڈیو نے مشاعروں کا اہتمام بھی کیا۔ مشاعرہ خاص طور پر ہماری ثقافت سے تعلق رکھتا ہے۔ برصغیر دنیا میں غالباً واحد ایسا خطہ ہے جہاں اس نوعیت کے شعری و ادبی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ مشاعروں کو ریڈیو کے پروگراموں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1949 میں روزنامہ ”ڈان“ کے زیر اہتمام ایک کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اور اسی سال ”بزم مشاعرہ“ کے عنوان سے ہر ہفتے ایک محفل مشاعرہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے کی چودہ محافل نشر کی گئیں۔ ان محافل میں جن شعرا نے شرکت کی ان میں سیماب اکبر آبادی، ضیا اکبر آبادی، جمیل الدین عالی، مجید لاہوری اور رئیس امروہوی وغیرہ شامل ہیں۔

ان ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان نے مشاعروں کے انعقاد کے سلسلے میں ملک کے نامور شعرا کرام سے رجوع کیا تاکہ ان کے کلام سے عوام الناس استفادہ کر سکیں۔ یہ ادب کی بھرپور خدمت تھی۔ ان شعرا کا کلام ہوا کے دوش پہ ملک کے عوام سنتے تھے اور محظوظ ہو کر ادبی ذوق کو تسکین بہم پہنچاتے تھے۔ شعرا کا جو کلام پیش کیا گیا اس میں سے ایک انتخاب دیکھیں :

کہتے ہیں لوگ آپ کو مجھ سے ہے اک لگاؤ
یہ واقعہ بھی خوب ہے تہمت بھی خوب ہے
جلتا ہے آندھیوں کے تھپیڑوں میں اک چراغ
اس سے رضا امید محبت بھی خوب ہے

ریڈیو پاکستان کے تحت غزل پروگرام بھی منعقد ہوتے تھے۔ جس میں شعرا اپنا کلام خود سنایا کرتے تھے۔ اس سلسلے کا ایک پروگرام ”دیوان“ کے عنوان سے پیش ہوتا تھا۔ یہ پروگرام سامع اور شاعر کے درمیان رابطے کی ایک اچھی کوشش تھی۔ فن کے ساتھ فنکار کی شخصیت بھی اہم ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی قاری اور سامع کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ فن پارے کے ساتھ ساتھ اس کے خالق سے بھی ملے۔ اس طرح فنکار کی شخصیت کے پس منظر میں فن پارے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ قاری یا سامع فنکار سے مل کر اس کی شخصیت کے کئی گوشوں سے آشنائی حاصل کر لیتا ہے اور یہ چیز فن پارے کے سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی خیال کے تحت ریڈیو نے مختلف مواقع پر شاعروں کو سٹوڈیو میں بلا کر ان سے کلام پڑھوایا۔ اس پروگرام میں معروف ترین شعرا اپنا کلام سنایا کرتے تھے۔

ریڈیو پر ڈرامے بھی پیش کیے گئے۔ چونکہ ریڈیو کا تعلق صرف آواز سے ہے لہذا ڈرامہ سنتے وقت سامع کی صرف ایک حس یعنی سماعت کام کرتی ہے۔ اس لیے ریڈیو ڈرامے میں ایسے مناظر کی گنجائش نہیں ہوتی جو صرف آواز کے ذریعے آسانی سے پیش نہ کیے جا سکیں۔ ریڈیو پاکستان نے اپنے وقت کے ممتاز ادیبوں کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ ڈرامے کا معیار بلند رہے۔ ان میں ممتاز مفتی کا نام بھی شامل ہے۔ جن کا ڈرامہ ”اندھا اور ذلیل“ نشر ہوتا رہا۔

ڈرامے کے فروغ میں ریڈیو کا کردار نمایاں ہے۔ ریڈیو ڈرامہ اب بھی عوام میں کسی حد تک مقبول ہے۔ آج بھی لوگوں کو یاد ہے کہ ”اسٹوڈیو نمبر 9“ کے عنوان سے جس رات ڈرامہ نشر ہوتا تھا اس رات کراچی شہر کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ اکثر ڈراموں کے نام کسی مشہور شعر کے مصرعے سے لیے جاتے تھے۔ مثلاً: ”تم کو خبر ہونے تک“ ، ”درد لا دوا“ ، ”ایسی جنت کا کیا کرے کوئی“ اور ”سحر ہونے تک“ ۔ اس صنف کو مقبول بنانے میں ریڈیو کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ ان مختلف ذرائع سے ریڈیو نے ادب کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

عہد حاضر میں ڈش، کیبل، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کی ایجاد نے ریڈیو کی شہرت کو بظاہر کم کر دیا ہے۔ لیکن اس کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ ریڈیو کو عالمی سطح پر ایک طاقتور اور اب سے بیس پچیس برس قبل تک واحد انتہائی موثر اور طاقتور ذریعہ ابلاغ شمار کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ٹی وی نے اس کی مقبولیت پر اثر ڈالا ہے۔ تاہم دور دراز علاقوں میں ریڈیو ہی واحد ذرائع ابلاغ ہے۔ اور اب بھی اس کی اہمیت اور مقبولیت برقرار ہے۔ ادب کے فروغ میں ریڈیو نے جو نمایاں کردار ادا کیا اس سے صرف نظر کرنا زیادتی کے مترادف ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments