سندھ کا ملامتی صوفی۔ فقیر جانن چن


سب سے پہلے تو مجھے اپنی بے خبری اور لاعلمی کا اعتراف کرنے دیجئے، رمضان میمن کی کتاب ’حلقۂ زنجیر میں زباں‘ پڑھنے سے پہلے میں فقیر جانن چن کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ کتاب پڑھنے کے بعد میں نے انہیں انٹر نیٹ پر تلاش کیا تو یو ٹیوب ان کے صوفیانہ کلام اور ان کے بارے میں معلومات سے بھری ملی اور میں سوچتی رہ گئی، کاش فقیر کی زندگی میں ہی ان سے ملاقات ہو جاتی۔ وہ تو 1995 میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور مجھے اب 2023 میں ان کے بارے میں پتہ چلا۔

وہ اور ان کے دیگر فقیر جام ساقی یعنی کمیونسٹوں کے 1991 امن مارچ میں شریک رہے اور یوں یہ مارچ صوفیانہ رنگ اختیار کر گیا۔ اور تب ہی لوگوں کو عوامی ٓواز میں شائع ہونے والے جانن چن کے انٹرویو سے صوفی فلسفے کے بارے میں پتہ چلا۔ فقیر نے کہا تھا کہ مولوی انسانوں کو صرف اللہ سے ڈراتے ہیں جب کہ ہم صوفی اللہ کی انسان سے محبت اور انسان کو اللہ اور انسان سے عشق کرنا سکھاتے ہیں۔

فقیر جانن چن کھپرو کے قریب ایک گاؤں میں 1895 میں پیدا ہوئے، جانن چن بیسویں صدی کے صوفی مرشد تھے جنہوں نے تصوف میں اپنا راستہ خود بنایا تھا۔ ڈاکٹر ساغر ابرو اپنے مقالے میں بتاتے ہیں کہ ”سندھ میں صوفیوں کے پرانے مکاتب کے لئے بھی یہ ایک حیران کن بات تھی۔ ان کا مقابلہ جھوک کے شاہ عنایت سے تو شاید نہ کیا جا سکے لیکن ٹیکنالوجی کے اس دور میں وہ ایک مثالی صوفی تھے۔ ان کی شخصیت کلاسیکل اور نئے صوفی ازم کا امتزاج تھی۔

انہوں نے روایات کو اپناتے ہوئے بہت سی اختراعات کیں جن کا مقصد عہد حاضر میں صوفی ازم کے سماجی اور سیاسی کردار پر زور دینا تھا۔ وہ گدی نشیں یا کسی درگاہ کے متولی نہیں تھے لیکن ان کا پیغام، تحریک اور کرشمہ لوگوں کو جوق در جوق اپنی طرف کھینچ لایا تھا۔ ان میں نا خواندہ لوگ، صاحبان علم، کمیونسٹ ٹریڈ یونین کے کارکن، مساجد و مدارس کے طلبہ اور علما سب ہی شامل تھے۔ انہوں نے اس بات کو صحیح ثابت کیا کہ صوفی ازم ایک بہتا ہوا دھارا ہے جو کہیں سے بھی بہنا شروع کر سکتا ہے۔

ان کے والد ایک مذہبی عالم تھے جو عشق حقیقی میں ڈوب کر کہیں روپوش ہو گئے تھے۔ فقیر جانن کو بچپن سے ہی صوفی ازم کا علم تھا اور انہوں نے حقیقت تک پہنچنے کے لئے اپنا راستہ تراشنے کی کوشش کی۔ وہ بچپن میں ایک گڈریے تھے اور مویشیوں کے ساتھ جنگل میں جا کے گیت گایا کرتے تھے۔ انہیں ایک مذہبی مدرسے میں داخل کیا گیا لیکن مدرسے والوں نے یہ بہانہ کر کے انہیں نکال دیا کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے، تب ہی فقیر جانن نے شاعری شروع کر دی۔

1919۔ 1924 میں انہوں نے علی برادران کی خلافت تحریک میں شمولیت اختیار کی اور لاڑکانہ اور گردونواح میں تحریک کے ترجمان بن گئے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کے نظمیں گایا کرتے تھے۔ وہ سماجی زندگی میں متحرک تھے اور کسی رہنما کی تلاش میں ہر صوفی مرشد سے ملنے جاتے تھے۔ سر اور سنگیت ان کے لئے ابلاغ کا ذریعہ بھی تھا اور ان کا شوق اور جذبہ بھی تھا۔ وہ مضبوط تن و توش کے مالک تھے اور کبھی تو چوروں کی ٹولیوں کے ساتھ بھی گھومتے نظر آتے تھے۔ ان کے طریقۂ واردات کے بارے میں جاننے کے بعد وہ اسے تشبیہات اور استعارات کے طور پر اپنی شاعری میں استعمال کرتے تھے۔ وہ جس عورت سے محبت کرتے تھے، اسے اغوا کر کے لے گئے لیکن اس کی اجازت کا انتظار کرتے رہے اور شادی سے پہلے اسے چھوا تک نہیں۔ وہ عشق حقیقی اور مجازی دونوں سے سرشار رہے۔

جب سندھ میں ہاری تحریک شروع ہوئی تو وہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کے ساتھ شامل ہو گئے اور یوں انہیں اپنے انسانیت نواز صوفیانہ اور جاگیردار دشمن خیالات کے پرچار کے لئے ایک وسیع تر پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ کسانوں کے اجتماعات میں شرکت کے لئے وہ ہر جگہ پہنچتے۔ بالآخر جاگیر داروں نے ان پر ایک جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا۔ انہوں نے خود ہی اپنا ناکردہ جرم قبول کر لیا اور جیل چلے گئے۔ وہ دس ماہ تک سنٹرل جیل سکھر میں رہے۔ اور جیل میں ہی پیر و مرشد کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ ان کے ابتدائی مرید قیدی ہی تھے۔ یوں سکھر جیل میں سندھ کے ایک ملامتی صوفی کا ظہور ہوا۔

وہ ایک بہادر اور شعلہ بیان خطیب تھے۔ ایک مرتبہ وہ جنرل ایوب خان سے بھی ملے اور اس کے سامنے ایک گیت گایا جس میں انہوں نے خود کو پاکستان قرار دیا اور ایوب خان سے ملک کا خیال رکھنے کو کہا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت وزیر خارجہ تھے، فقیر نے ان سے بھی ملاقات کی اور گھار کینال کے بارے میں کسانوں کی تکلیف سے آگاہ کیا۔ ان کی شکایت کے نتیجے میں نہر کی کھدائی کی گئی اور اسے چوڑا کیا گیا۔ اسی طرح انہوں نے پیچھر کینال کو بھی بحال کرایا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی ان سے ملاقات کی تھی اور پوچھا تھا کہ وہ ان کے لئے کیا کر سکتی ہیں لیکن فقیر کو صرف عام لوگوں کی بھلائی درکار تھی۔ ایوب خان اور بھٹو دونوں نے انہیں زمینیں الاٹ کیں لیکن انہوں نے وہ غریب کسانوں کو دے دیں اور خود بنجارہ بن کر اپنے گیتوں کے ذریعے محبت اور تصوف کا پیغام پھیلاتے رہے۔

ان کی عمر نوے سال سے زائد تھی جب انہوں نے جام ساقی کے لانگ امن مارچ میں حصہ لیا۔ اور اپنی شاعری اور گیتوں سے شرکا دل گرماتے رہے۔ 1991 میں جانن چن اور ان کے پیروؤں پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ ایک قدامت پرست ملا اور صوفی ازم کے مخالفین نے ان کے بارے میں من گھڑت باتیں پھیلائیں۔ ہوا یوں تھا کہ حیدرآباد کے ایک مولوی صاحب کا بیٹا فقیر کا مرید اور شاگرد بن گیا تھا۔ مولوی صاحب نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر فقیر کے خلاف توہین مذہب کی باقاعدہ شکایت درج کروا دی اور یوں ملک بھر میں اخبارات کے ذریعے لوگوں کو فقیر کے بارے میں پتہ چلا اور ان کی شخصیت متنازعہ قرار پائی۔

فقیر نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری پیش کر دی اور چھیانوے سال کی عمر میں انہیں اپنے بہت سے حواریوں کے ساتھ نارا جیل حیدرآباد میں ڈال دیا گیا۔ مختلف مذہبی مکاتب کے علما ان کے خلاف متحد ہو گئے لیکن کبھی فقیر کے خلاف عدالت میں پیش نہیں ہوئے چنانچہ مقدمہ خارج کر دیا گیا۔ صوفی ازم کے بارے میں ان کا پیغام بہت واضح تھا جس کی طاقت سے متاثر ہو کر سوویت یونین کے انہدام کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے بہت سے کارکن ان سے آ ملے تھے۔ وہ دنیاوی مال و متاع سے بے نیاز خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارتے رہے۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments