لتا منگیشکر۔ حصہ دوم


لتا جی کے آخری دور کے گانوں میں سے ایک میں نے جان بوجھ کر یہاں کے لئے چھوڑا تھا۔ 2010، 82 واں سال لگ چکا سب اصول ساتھ، بڑھتی عمر ساتھ، سب تنازعات ساتھ مگر اچھی دھن، مختلف موضوع اور لتا جی کافی حد تک کلسٹر۔ سی شخصیت کی مالک ہوتے ہوئے بھی عصمت چغتائی جیسا کام کر گئیں۔ ہم جنس پرستی پر متنازع ترین فلموں میں شمار ہونے والی اس فلم کے ہیرو کے والدین نے اسے سرکاری طور پر عاق کر دیا تھا۔ لتا جی نے 2010 میں 82 سال کی عمر میں 9 منٹ 32 سیکنڈ کا ٹائٹل سونگ گا کر کئی مفروضے غلط ثابت کیے۔

وہ بولڈ گانے نہیں گاتی، وہ نئی فلموں اور موضوعات سے کتراتی ہیں، وہ پرانی ہو گئی ہیں اور نئی نسل کے موسیقار ان سے اور وہ موسیقاروں سے میل نہیں کھاتیں۔ برصغیر کے ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی لوگوں کو 1942 میں عصمت چغتائی کے لحاف اور 2010 کی اس فلم اور لتا جی کے گانے سے بظاہر نارمل لوگوں سے گلے کچھ تو کم ہونے چاہئیں۔ پل میں جو اپنے سے لگتے ہیں، پل میں وہ سپنے سے لگتے ہیں، کچھ بھی نہ بس میں رہتا ہے، ڈونٹ نو وائی، نجانے کیوں ایسا زندگی میں ہوتا ہے۔

کینیڈا کے خوش نصیب لوگوں نے لتا منگیشکر کو سٹیج پر لائیو انگریزی گانا گاتے بھی سنا اور اس کو فی البدیہہ گانا کہا جائے تو بہتر ہے کہ پہلے سے اس کی کوئی تیاری نہ تھی۔ مذہب، کلچر، ساز، آواز، لفظ مل کر جو معجزات تخلیق کرتے ہیں ان کی کیمسٹری بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ میں یہاں لتا جی کے ام کلشوم سے متاثر ہونے اور بارہا اس کا اظہار کرنے کی تفصیل نہیں لکھوں گا۔ 1960 کی مغل اعظم کی نعت ہو یا اکیسویں صدی کے بھجن۔ لتا جی ہر مذہب میں عیاں ایک ہی فلسفہ بخوبی بیان کرتی ہیں۔

ایسا وردان دے دو ہمیں ماں، سکھ میں اچھلیں نہ ہم دکھ میں ڈولیں، اپنے اندر ہی خود جھانک کر ہم غلطیاں اپنی ٹٹولیں۔ لتا جی کی عزیز ترین سہیلی سائیکاٹرسٹ تھیں اور شاید وہ آنجہانی خاتون واحد سائیکاٹرسٹ ہیں جن سے میں شدید حسد کرتا ہوں کہ میں بطور سائیکاٹرسٹ سب کچھ حاصل کر سکتا ہوں مگر لتا جی کی دوستی نہیں۔ مگر لتا جی میری سب سے اچھی دوست تھیں۔ اپنے بھتیجے کو کہتی ہیں کہ لوگوں کی یادداشت بہت مختصر ہوتی، سب بھول جاتے ہیں۔ آپ کو کیسے بھولیں، آپ کی بہن کہتی ہیں کہ آپ گیت گاتے ہوئے خود گیت تھیں، اس صلاحیت کی حامل کو کوئی بھول سکتا۔ آپ نے بڑے غلام علی خاں کی وفات پہ کہا تھا کہ موسیقی مر گئی۔ ہم یہ نہ کہیں گے۔ آپ بھی زندہ ہیں اور آپ کی موسیقی بھی۔

عام طور پر یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ گیت سنگیت ہندو، دھرم اور سماج کا حصہ ہے اور ہر فرد اور خاندان اس کو اچھا سمجھتا ہے۔ اس بات پر اعتقاد پختہ ہوتا ہے پچھلے 15 سال میں موسیقی کے مقابلے دیکھ کر جو ہر چینل پر بے شمار ہوئے ہیں۔ اس بات کی نفی پہلی مرتبہ عینی بی بی نے کی کہ ہندو سماج میں بالعموم اور ان کی مستورات میں بالخصوص گانے بجانے کو کیرئیر بنانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دوسری نفی مغنیہ اعظم کے بھائی کے اپنے والد کے بارے میں بیان نے کی کہ وہ لتا منگیشکر کو کمرشل ہندی سینما کے لئے گاتا دیکھ کر کبھی خوش نہ ہوتے۔

اگر یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔ یہ قیاس خارج البحث ہے۔ نیم مراٹھن، نیم گجراتن لتا منگیشکر نے وہ کر دکھایا سنگیت کے فن کی چار دیواری میں رہتے ہوئے جو بے مثال ہے۔ دنیا جہان کی دولت امبانی خاندان کے پاس مگر لتا جی کے پرستار، 90 سال سے زائد کی عمر میں انبانیوں دختر کے لئے بھجن کا تحفہ بھیجا۔ دنیا کی کسی شادی میں کسی دلہن کو اس سے قیمتی تحفہ نہ ملا ہو گا۔ کینیڈا شو کے لئے جہاز رن وے پر اترتا ہے۔ میئر بذات خود فرش راہ ہے۔

چہار سو یہ بات پھیلی کی ترقی پذیر ملک کی گلوکارہ ترقی یافتہ قوم کی مدد کو آ پہنچی۔ جنوبی امریکہ کی ریاست گیانا پہنچیں۔ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، سرکاری تعطیل کا اعلان ہو گیا کہ اتنی عظمت والا فنکار پہلی دفعہ اس دھرتی پر اترا تھا۔ دینا ناتھ منگیشکر ناخوش ہوتے اس کامیابی پر۔ مڈل ایسٹ کے کامیاب عوامی شوز کے بعد خواص کی محفل کے لئے مستقل دباؤ اور بے تحاشا دولت کی آفر مگر اپنے دھمیے اور مستقل انداز سے انکار۔

بالی وڈ جیسی بے مثال صنعت، لاکھوں لوگ وابستہ، اربوں روپے کا کھیل مگر ایک صحافی نے کہا کہ ”لتا کو چھینک آتی ہے تو پوری انڈسٹری کو زکام ہو جاتا ہے۔“ اس سب کے باوجود کوئی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ اپنی سے آدھی عمر بلکہ آدھی سے آدھی عمر کے لوگوں کو بھی آپ صاحب کہہ کہ مخاطب کرتی تھیں۔ بلکہ اس کی سب سے بڑی گواہ تو میری اپنی سماعت ہے۔ ”اوسامہ صاحب“ آج بھی ان لمحوں کی شیرینی ذہن پر ثبت ہے۔

لتا جی گانے کی مشین ہیں، سرسوتی دیوی ہیں یا ہماری طرح عام انسان۔ شوخئی تحریر اور فرط جذبات کچھ بھی ظاہر کریں، وہ گوشت پوست کی انسان تھیں۔ تمام جذبات جو ہر انسان میں ہوتے ہیں، کم یا زیادہ ان میں بھی ہوں گے ۔ نورجہاں کے بعد جس گلوکارہ سے ان کا سب سے زیادہ موازنہ گیا بلکہ تمام عمر اکھاڑے میں رکھا گیا وہ تھی جس نے اسی ماں کی کوکھ سے جنم لیا جس سے لتا جی نے لیا۔ جس نے زندگی کا بیشتر حصہ اسی گھر میں گزارا جس میں لتا جی سانس لیتی تھیں۔

صرف ایک دروازے کا فاصلہ، جو زیادہ تر کھلا ہی رہتا تھا۔ ہمعصروں سے مقابلے کا جذبہ ایک نارمل بات ہے، وہ موجود تھا۔ سوانح نگار لتا اور آشا کو دیویاں ثابت کرتے ہیں یا لتا کو ظالم اور آشا کو مظلوم۔ لکھنے والے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ یا تو فنی رشتے اور رقابت کو سرے سے ختم کر دیں جو ناممکن ہے یا پھر ذاتی سطح پر لا کر کیچڑ اچھالیں جو ایک علیحدہ انتہا ہے۔ دونوں بہنوں نے فنی رقابت یا معاملات کو ذاتی سطح پر کم و بیش وقار سے ہی نپٹایا۔

آشاجی، چھوٹی بہن ہو کر احترام کی آڑ لیتی رہیں۔ جبکہ لتا جی مختلف سٹائل کا کہہ کر معاملات نپٹاتی رہیں۔ لتا جی کو عمومی طور پر دیوتا بنا دینا آشا جی کا ڈیفینس تھا کہ کبھی فن کی باریکیاں زیر بحث لائی ہی نہیں۔ آشا جی کو مختلف کہہ کر اپنے سٹائل میں بہترین کہ دینا لتا جی کا ڈیفینس۔ خیام صاحب کی موسیقی میں امراؤ جان ادا کی غزلیں لتا کے ذہن و دل کے تار شاید ہلا سکیں ہوں مگر زباں کے قفل نہ توڑ سکیں۔ لتا جی انسان تھیں اور ہمعصروں کے ساتھ اس کشمکش میں مبتلا رہتی تھیں جس میں سب فنکار رہتے ہیں۔

میری پیدائش سے بھی بہت پہلے شیکھر سمن اور ریکھا کی بولڈ فلم کا دوگانہ ”من کیوں بہکا“ ان دونوں بہنوں کی فنی عظمت کا ثبوت ہے۔ 90 کی دہائی میں آئینہ فلم میں ہدایت کار نے اس وقت کی دنیا کی حسین ترین خاتون جوہی چاؤلہ کو بدصورت بنا ڈالا۔ فلمسازوں کو فینٹسی کے نام پر کیا کیا کرنے کی چھوٹ ہوتی ہے۔ دو بہنوں کی پردے پر کشمکش کو دو بہنوں نے پس پردہ ایسا گایا کہ کمال کر دیا۔ آئینہ ہے میرا چہرہ، اپنی تقدیر تو دیکھ لے۔

لتا جی کے بغیر جس دنیا میں جینا پڑ رہا ہے۔ اس میں ایک ذخیرہ ان کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے غیر فلمی گیتوں کا بھی ہے۔ اردو زبان کے بولنے والے میر و غالب کے پیروکار، کلاسیکی موسیقی سے زیادہ غزل کے دلدادہ رہتے ہیں۔ ارشد محمود نے سرحد کے اس پار تو حسین دھنوں میں نظموں اور آزاد نظموں تک کو گائے جانے کی صنف بنا ڈالا۔ ان سے پہلے بھی اقبال بانو فیض کی نظمیں گا رہی تھیں۔ سو غیر فلمی موسیقی میں غزل گائیکی انتہائی اہم صنف ٹھہری اور معراج پر پہنچائی سرحد کے اس طرف کے فنکاروں نے۔

انتہائی اوسط درجے کے گیت کاروں نے بھی کئی بہترین غزلوں کی موسیقی دی۔ روشن آراء بیگم سے لے کر ٹینا ثانی تک اک لڑی سی چلتی آئی۔ بیگم اختر کا فن فریدہ خانم اور اقبال بانو نے اوج کمال تک پہنچا دیا۔ مہدی حسن، غلام علی، امانت علی خان کے پائے کے غزل گائیک کہیں اور جنم نہ لے سکے۔ میڈم نور جہاں، مہناز، نیرہ نور اور ناہید اختر جیسی ہارڈ کور پلے بیک گلوکاراؤں نے بھی جب خلیل احمد، ماسٹر عبداللہ اور دوسرے گیت نگاروں کی غزلیں گائیں تو وہ کسی طور خواص و عوام نے مسترد نہ کیں۔ ”ترنم“ میں میڈم نے تو 3 سے 5 منٹ میں غالب و داغ سے لے کر فیض و فراز تک کی غزلوں میں ایسا سماں باندھا کہ غزل گائیکی کے اندر ایک نئی صنف اور سمت کا تعین کر دیا۔ یہاں لتا جی نقصان میں رہیں۔ پنچھی، پون، ندیا کے برعکس سروں کی یہ قسم سرحد پار نہ کر سکی۔

ہماری ذات کی طرح غزل گائیکی کے رموز بھی بارڈر کے اس طرف ہاتھ ملتے کھڑے رہ گئے اور اس پار نہ جا سکے یہاں تک کہ لتا جی افق کے اس پار کا طلسم کھوجنے چل دیں۔ سوائے مدن موہن کی کچھ دھنوں کے، فلمی یا غیر فلمی غزل صنف کے طور پر بھارت میں ہرگز پنپ نہ سکی۔ 20 ستمبر کی وہ کال، سلام کے فوراً بعد میں نے کہا ”لتا جی پلیز سال میں ایک البم تو دے دیا کریں، غزلوں کا، جاوید اختر کے ساتھ، ہمیں بہت انتظار رہتا ہے۔“ نوجوانی کے اس دور میں مجھے اس سوال کا جواب معلوم نہ تھا اور نہ تسلی بخش جواب لتا جی نے دیا مگر وقت اور تجربے نے مجھے بتا دیا۔

لتا جی نے ایک انٹرویو میں بھی کہا کہ ”سجدہ“ اور ”سادگی“ میں 17 سال کا وقفہ اس لئے ہے کہ اس دوران اچھا غزل میوزک بن نہیں رہا تھا۔ ”سجدہ“ اور ”سادگی“ اور ”سرحدیں“ اور ”اٹل بہاری واجپائی“ کی البم بھی غزل موسیقی کی دنیا میں لتا جی کے قد کو اور بڑھاتی نظر نہیں آتیں۔ بلکہ لتا جی کا ان سے منسلک ہونا شاید ان کی قبولیت کی واحد وجہ ہے۔ ہردے ناتھ کے ساتھ غالب کا تجربہ قابل قبول رہا۔ جگجیت سنگھ ایک مناسب گلوکار تھے اور مناسب سی دھنوں میں لتاجی سے سجدہ کروایا اور مناسب سی پروڈکٹ منظر عام پر آئی۔

صرف لتا جی کی آواز کی چاہت میں غم کا خزانہ، دل میں اب درد محبت، دھواں بنا کے فضا میں وغیرہ مناسب ٹائم پاس ہے۔ میری فرمائش کے سال میں ایک البم تو دے دیا کریں، پر وہ یہ جواب کیسے دیتی کہ میں مہدی حسن کے گلے میں بھگوان ڈھونڈتی ہوں، نورجہاں سے لفظ کی ادائیگی سیکھتی ہوں، فریدہ خانم کی غزل پسند کرتی ہوں تو ان غزل موسیقی سے نابلد لوگوں کی دھنوں پر ہر سال شاہکار کہاں سے لاؤں۔

ان کے بھجن البمز کے متعلق میری جہالت مجھے قلم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی مگر واجپائی صاحب کی نظموں کو عام دھنوں کے باوجود لتا جی کی آواز نے چار چاند لگائے ہیں۔ آؤ من کی گانٹھیں کھولیں تو ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی اور میرے سائیکاٹرسٹ کے طور پر کام کا ٹائٹل بھی۔ موت سے ٹھن گئی تو لتا جی کی آپ بیتی لگی۔ یوں لگا زندگی سے بڑی ہو گئی۔ 92 سال موت سے ٹھنی رہی اور بالآخر جیت کر لتا جی امر ہو گئیں۔

آخری دس سالوں کا بیشتر نان فلمی میوزک خاص کر غزل البمز مایوریش پائی نے کمپوز کیں۔ ”سادگی“ میں سوائے جو اتنے قریب ہیں اس دل کے کوئی غزل دھن اوسط درجے سے اوپر کی نہیں۔ صرف اس غزل کی شاعری اور دھن میں لتا جی اپنے ہی فن سے انصاف کا مارجن پاتی ہیں۔ ”سرحدیں“ کا ذکر بھی فون کال میں رہا۔ ”مہدی حسن“ کی عقیدت میں کئی جملے ادا کر کے مجھ سے پوچھتی ہیں کہ ”آپ کو کیسا لگا“ ، میرے جواب کے الفاظ سے زیادہ میرا لہجہ اہم ہے جو صرف سنا جا سکتا ہے لکھا نہیں۔ تیرا ملنا کے علاوہ غم کی رت لے کر آئی میں بھی لتا جی زندہ ہیں۔ ”گیت کب سرحدیں مانتے ہیں“ بھی قبول سماعت ٹریک ہے۔ خوبصورت الاپ۔ آؤ باردو کے شور کو ہم میٹھے مدہم سروں میں ڈبو دیں۔

آخری پانچ سال، عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے۔ 70 سال سے اوپر کا فنی سفر، 86 سال سے اوپر کی زندگی۔ دنیا بھر کے سفر، دنیا بھر کے گیت، موسیقاروں، شاعروں، اداکاروں، ہدایت کاروں اور سب سے بڑھ کر مداحوں کی تین تین نسلوں کی محبت۔ لتا جی آپ نے ہمیں بہت دیا، ہم وہ نہیں دے سکتے تھے مگر جو دے سکتے تھے ہم نے اس میں کی نہ کی۔ آپ کی تکلیفیں آپ جانیں مگر صرف 6 سال کا مشکل دور اور پھر آپ لتا منگیشکر تھیں۔ آپ کی چھینک ساری انڈسٹری کا زکام، ہماری آپ کے مداحوں کی وجہ سے آپ کو عزت، دولت، شہرت، محبت سب ملا اور بے تماشا ملا، برصغیر ہو یا کینیڈا، یورپ ہو یا افریقہ۔

آپ کے کانسرٹس کی داستان ناقابل بیان ہے۔ اتنی محبت پا کر کون جانا چاہے گا۔ آگے کا کس کو پتا۔ مگر دنیا کی ریت یہی ہے، آپ کا آخری گیت یہی ہے۔ بحیثیت سائیکاٹرسٹ میں روز یہ سوچتا ہوں کہ آپ زندگی کے آخری سالوں میں کیا سوچتی ہوں گی۔ وہ بہن بھائی جن کے لئے زندگی تیاگ دی، ان کے بچے، آپ کے مداح، ہم لوگ۔ یہاں سے جانے کا سوچ کر آپ کیا محسوس کرتی ہوں گی۔ مائی، بابا، ماسٹر غلام حیدر، سہیلی نورجہاں، نوشاد صاحب، مدن اور مکیش بھیا۔ یش جی اور دلیپ صاحب وغیرہ سے ملنے کی خوشی ہم سے بچھڑنے سے بڑی تو نہیں ہو گی۔ مگر اس آخری پانچ سال میں بھی چار چیزیں ہمیں دان کر گیں آپ۔ دو بنگلہ گیت، ایک ملی گیت اور ڈیڑھ منٹ کا بھجن اور ان چاروں گیتوں میں لتا جی موجود ہیں الوداع کرتی ہوئی، خود سے دور جاتے ہوئے محسوس ہوتی ہوئی۔

خواب تو کانچ سے بھی نازک ہیں۔ ایک خواب دینا ناتھ نے دیکھا، ایک خواب لتا جی نے دیکھا (نسرین منی کبیر کی کتاب صفحہ 177 ) ، کچھ خواب ہمیں دکھائے اس مدھر آواز نے، لوری کی عمر سے لے کر قبر کے سفر تک، ٹوٹنے سے بچانے کا رول کیا۔ 2014 کا سن 85 سال کی عمر، اپنے بھتیجے کی دھن، اور لتا جی حاضر ایک صوفی گانے کے ساتھ۔ حضرت شاہ حسین کا کلام، 85 سال کا تجربہ، زندگی کی ٹمٹماتی لو۔ ربا میرے حال دا محرم تو، کہے حسین فقیر سائیں دا۔ گلے کی طبیعاتی عمر سروں کو پکڑنے میں حائل ہے مگر پانچ منٹ کے گیت میں تین جگہ بھی لتا منگیشکر مل جائے تو پیسے پورے۔

شاہ حسین کا کلام 85 سال کی عمر میں کہیں سفر کے انجام کا استعارہ تو نہیں۔ میرا مقصد ہر گز لتا انسان اور لتا گلوکارہ کو صوفی ثابت کرنا نہیں۔ بہن بھائیوں کے لئے زندگی تیاگنا، تمام عمر چپل اتا کر موسیقی کو اوڑھنا بنانے رکھنا (گو اس کے عزت، دولت اور شہرت بھی کمائی ) ، معجزاتی طور پر 90 سال کی عمر تک گانا اور سب سے بڑھ کر وہ نور کا حالہ جو لائیو شوز اور تصاویر میں بے حد واضح ہے۔ لتاجی کے پاس وہ چہرہ، شخصیت اور انداز ہر گز نہ تھا جو میڈم نور جہاں کے پاس تھا مگر گانے کی مشین، گانے میں گم، چہرے پہ ہلکا سا تاثر اور پاکیزگی۔ ربا میرے حال وا محرم توں۔ 2015۔

چھوٹی سی ویڈیو، آڈیو کال، تصاویر اور باقاعدہ سوشل میڈیا پر موجودگی ہمارے لئے بہت تھی۔ لتا جی اسی کرۂ ارض پر کہیں سانس تو لے رہی ہیں۔ 2022 کا سورج طلوع ہونا تھا۔ کورونا کی تباہیاں جاری تھیں۔ لتا جی کے پیغام بھی آتے رہے وبا کے دوران۔ جنوری میں نمونیہ ہوا، ہسپتال داخل، پیرانہ سالی، بیماری، اس پار والوں کا بھرپور بلاوا، جانا تو ٹھہر گیا تھا۔ آخری تصاویر اور ویڈیوز۔ ان ڈاکٹروں اور نرس اور آیا اور سٹاف نے تو جنت پکی کر لی۔

گانے کی مشین کے بال رنگے ہوئے نہیں۔ لباس ساڑھی نہیں، چہرے کے آگے مائیک نہیں، سانس اور خوراک کی نالی ہے مگر حوصلے سے باپ کو بھیجنے والی، بہن بھائیوں کو پالنے والی، دنیا کو گیتوں سے رجھانے والی حوصلے سے چلی گئی۔ ان کی علالت کے آخری دنوں میں وینٹیلیٹر اور آئی سی یو کی خبریں سن کر روز یہی خیال آتا کہ مائیکرو فون کی عادی لتا نے وینٹیلیٹر کو بھی شاید اے آر رحمن کی موسیقی کا نیا آلہ سمجھا ہو اور بس چپلیں اتار کر اس نئے چیلنج کو بھی قبول کر لیا ہو۔

آخری رسومات پر ایک علیحدہ مضمون ہو سکتا ہے مگر دل جلتا گیا، میر کے سوز کے علاوہ کون اس لمحے کو بیان کرے۔ وہ دھواں لتا کی چتا کا تھا کہ ان کے اور موسیقی کے چاہنے والوں کے ارمانوں کا۔ اب کوئی گیت اس آواز میں نہ آئے گا۔ روح تو فوراً پرواز کر گئی، جسم کو بھی راکھ کر ڈالا۔ وہ تو گانے مشین تھی۔ مشین پرانی ہو جائے تو جلاتے نہیں، میوزیم میں رکھتے ہیں۔ مصری ممیاں حنوط شدہ موجود، لینن کا جسم محفوظ، لتا جی کا بھی کر لیتے۔ مگر وہ اس کی محتاج نہیں تھیں اور پھر وہ دھواں، وہ راکھ کے ذرے کیا پتا سرحد پار کر آئے ہوں، ہماری سانسوں کے ساتھ ہمارے وجود کا حصہ بن گئے ہوں۔ لتا جی کا سنگیت غیر مادہ ہو کر ہمارے وجود کا حصہ ہے تو مادہ دھواں اور ذرے کیوں نہیں۔

”وہ (نورجہاں ) بہت بڑی سنگر تھیں، میں ان کے سامنے کیا ہوں، کچھ بھی نہیں۔“ ”نہیں، نہیں، نہیں، آپ ہم سے پوچھیں، اپنے فین سے جو ہر وقت دعا کرتے ہیں کہ اللہ میاں آپ کو صحت دے اور ہنستا، مسکراتا اور گاتا رکھے۔“ میں اب بھی اپنی 20.9.2012 کی اس بات پر جو بقلم خود ان سے کہی تھی، قائم ہوں اور قائم رہوں گا۔ جب تک جنت میں ملاقات نہیں ہوتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments