کسی ریاست میں سیکولر ازم کی روایت کے کیا معنی ہیں؟


ڈیئر ڈاکٹر خالد سہیل صاحب،

جی ڈاکٹر آپ نے اپنے پچھلے خط میں درست فرمایا، میں پاکستان میں نوجوانوں کے ساتھ سماجی، نفسیاتی اور کسی حد تک مذہبی حوالے سے تربیتی ورکشاپس کرتا ہوں۔ کچھ تربیتیں مختلف لائف سکلز کے حوالے سے بھی ہوتی ہیں جیسے کہ لیڈرشپ اور کمیونیکیشن کا ہنر وغیرہ۔ ان ورکشاپس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے ساتھ ون۔ آن۔ ون کونسلنگ بھی کرتا ہوں۔ ان کونسلنگ سیشنز میں جنسی معاملات سمیت بہت سارے مسائل پر بات ہوتی ہے۔

نوجوانوں کے ساتھ، گروپس میں اور اکیلے، اس طرح کی ان گنت ورکشاپس اور میٹنگ میں ایک چیز بہت واضح طور پر نکل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی ایک بھاری اکثریت میں تنقیدی سوچ کی صلاحیت بہت ہی کم رہ گئی ہے۔ وہ ہر طرح کی فیک کہانیوں اور سازشی تھیوریز کا شکار ہیں اور انہیں وہ من و عن سچ سمجھتے ہے۔ ان کے رویے انہی من گھڑت کہانیوں سے مل کر بنے ہیں اس لیے وہ بالکل عام سوالوں پر بھی سوچنے سے عاری ہے۔ وہ شدید مغالطوں کا شکار ہیں۔ میں اس خط میں دو ورکشاپس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان دونوں واقعات کا تعلق اس فرقہ وارانہ سوچ سے ہے جس کا ہم بری طرح شکار ہیں۔ میں ان دونوں کا تعلق تنقیدی سوچ کے غائب ہونے سے بھی بہت گہرا ہے۔

پاکستانی نوجوان کسی بھی ذی شعور شخص کی طرح فرقہ واریت کے خلاف تو ضرور ہے اور اسے ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھتا ہے لیکن وہ اس معاملے پر بنیادی سوالات اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ یہ 2020 کی بات ہے کہ میں پنجاب کے ایک ضلعی شہر میں نوجوانوں کے ساتھ ایک تربیتی ورکشاپ کر رہا تھا۔ شرکاء پچیس نوجوان خواتین و حضرات تھے۔ یہ سب مختلف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے۔ یونیورسٹی ڈگری اس ورکشاپ کی بنیادی شرط تھی۔ ورکشاپ میں نوجوانوں نے فرقہ واریت کو پاکستان کا ایک اہم مسئلہ بتایا۔

فرقہ واریت کے معاملے پر جب بحث کو مزید بڑھایا گیا اور اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی تو اکثریت کا خیال یہ تھا کہ ہمیں خود قرآن حدیث کو پڑھ کر دین سیکھنا چاہیے پھر فرقہ واریت ختم ہو گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے مذہب کے بارے میں ہمارا علم کم ہے اس لیے ہم مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ فرقہ واریت کے مسئلے کے اس حل کے بارے میں وہ بہت پراعتماد تھے۔ اس پر سب متفق تھے۔

اگلا ٹاسک یہ تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی لسٹ تیار کریں جنہوں نے ان کے خیال میں قرآن اور احادیث کا بہت سارا علم حاصل کر لیا ہے۔ تیار شدہ لسٹ میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے معروف علماء کے نام شامل تھے اور بس۔

اگلا سوال یہ تھا کہ کون سا مسلمان عالم ہے جو پہلے تو کسی ایک فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور بہت سارا مذہبی علم حاصل کرنے کے بعد اپنے فرقے کے عقائد کو غلط کہہ کر کسی اور فرقے میں شامل ہو گیا یا پھر تمام فرقوں کو چھوڑ کر مذہب کی ایک ایسی ورژن سامنے لے آیا ہے جس کے سب قائل ہو گئے ہیں۔ اس سوال نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا۔

اس سے اگلا اور آخری سوال یہ تھا کہ ان تمام علماء نے مذہب کا اتنا علم حاصل کرنے کے علاوہ اور کیا کیا ہے؟ تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان علمائے کرام نے تو ساری زندگی یہی کچھ کیا ہے۔ جیسے ایک ڈاکٹر طب کی ڈگری لیتا ہے تو پھر یہی کچھ کرتا ہے، ایک انجینئر بھی اپنے شعبے کی ڈگری لیتا ہے اور پھر ساری زندگی یہی کچھ کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مذہبی عالم بھی اپنے فرقے کے مدرسے سے ڈگری لیتا ہے اور پھر ساری زندگی اسی کی پریکٹس کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ اس بحث سے انہیں دو باتوں کا اندازہ ہوا۔ ایک یہ کہ سارا پاکستان عالم دین نہیں بن سکتا اور دوسرا یہ کہ جو عالم دین بنے ہیں وہ بھی فرقہ واریت ختم کرنے کے لیے نہ تو کچھ کر سکے ہیں نہ ہی کر سکیں گے۔ مطلب جو حل وہ ہمیشہ سے سنتے آئے تھے اور اس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا تھا وہ اصل میں بہت کمزور نکلا۔

فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے اپنے سوچے گئے حل کا یہ حال دیکھ کر وہ حیران تھے۔ اور انہیں حیران دیکھ کر میں خوش تھا۔ پھر انہوں نے مجھ سے حل پوچھا اور میں نے کہا ”سیکولر ازم“ ۔

دوسری جو روداد میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں وہ ایک بڑے شہر کی بڑی یونیورسٹی کی ہے۔ یہ بھی کوئی تیس لوگوں کا گروپ تھا۔ جو ماسٹر ڈگری کے طلبا و طالبات تھے۔ یہ ورکشاپ 28 مئی 2010 منعقد کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان دہشت گردی کی زد میں تھا۔ آئے روز یا یوں کہیں کہ ہر روز دہشت گردی کے واقعات یعنی کہ بم دھماکے ہو رہے تھے۔ اس دن لاہور میں احمدی کمیونٹی کی دو عبادت گاہوں پر حملے ہوئے تھے اور کوئی سو کے لگ بھگ بندے مارے گئے تھے۔ یہ ایک دکھی اور شرم ناک دن تھا کہ پاکستان میں رہنے والی ایک بے ضرر اقلیتی کمیونٹی کے خلاف اتنا بڑا حملہ کیا گیا تھا اور بہت جانی نقصان ہوا تھا۔

یہ ورکشاپ تو پہلے سے طے تھی۔ ورکشاپ میں دہشت گردی اور فرقہ واریت پر بات ہوئی، حالانکہ ورکشاپ کا موضوع کچھ اور تھا۔ طلبا اور طالبات کے تبصرے سن کر میں بہت حیران ہوا تو میں نے وہیں وائیٹ بورڈ پر ایک سروے کر لیا۔ تمام شرکاء کے سامنے

تین آپشنز رکھی گئیں۔
ایک: احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر اٹیک افسوس ناک ہے
دو: احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر اٹیک بالکل بھی افسوس ناک نہیں ہے
تین: میں اس معاملے میں نیوٹرل ہوں

ساٹھ فیصد لوگوں نے کہا کہ یہ اٹیک اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قتل بالکل جائز ہیں۔ وہ اسی کے حق دار ہیں۔ بیس فیصد لوگوں نے کہا کہ یہ اٹیک افسوس ناک ہیں اور باقی بیس فیصد نے کہا کہ وہ اس معاملے میں نیوٹرل ہیں۔ اب ان نتائج پر تبصرہ کرنا تو بنتا ہی نہیں۔ یہ ہمارے وہ نوجوان ہیں جو ایک سرکاری یونیورسٹی میں ایم اے کر رہے ہیں۔

اور بھی بہت سارے تجربات ہیں۔ جیسے کہ موت اور شہادت، مذہبیت، سیاست اور سماج، محبت، جنس اور شادی اور یوتھ کلچر جیسے موضوعات پر بہت دلچسپ مباحثے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کے خط میں اتنا کافی ہے۔

آپ یہ بتائیں کہ کینیڈا کے نوجوان کیا سوچتے ہیں۔ ان کی تنقیدی سوچ کی صلاحیت کہاں کھڑی ہے۔ اور اگر یہ سوچ پاکستانی نوجوانوں سے مختلف ہے تو پھر اس کی وجہ کیا ہے۔

خوش رہیں۔ آپ کا دوست۔ سلیم ملک

خالد سہیل کا جواب

***          ***

محترمی و معظمی سلیم ملک صاحب!

آپ کا خط پڑھ کر مجھے کینیڈا کے صوبے البرٹا کے ہائی سکول کا ایک طالب علم یاد آ گیا جو سیکولر سوچ اور تنقیدی شعور کا مالک تھا۔

اس نے جب عیسائیت کی کلاس میں داخلہ لیا اور استاد نے سب طلبا و طالبات کو عیسیٰ کی عقیدت میں کھڑے ہونے کو کہا تو اس نے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔ استاد نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا

میں عیسیٰ کو ایک ریفارمر تو مانتا ہوں لیکن انہیں خدا کا بیٹا یا پیغمبر نہیں مانتا۔ میں یہاں عیسائیت کی تاریخ سیکھنے کی خواہش میں نہ کہ عیسیٰ کی عقیدت میں آیا ہوں۔ استاد نے اسے بے ادب اور گستاخ کہہ کر کلاس سے نکال دیا۔

طالب علم نے جب یہ کہانی اپنے والدین کو بتائی تو انہوں نے اپنے بیٹے کا ساتھ دیا کیونکہ وہ بھی سیکولر سوچ کے مالک تھے۔ انہوں نے پرنسپل سے شکایت کی اور جب پرنسپل نے کہانی سنی تو اعتراف کیا کہ طالب علم سے زیادتی ہوئی ہے۔ پرنسپل نے معافی بھی مانگی اور اس طالب علم کے ٹیچر سے کہا کہ وہ اس کو واپس کلاس میں شرکت کی دعوت دیں۔

میں نے یہ کہانی کینیڈا کے نیشنل ٹی وی۔ سی بی سی۔ پر دیکھی اور سنی۔
اس ایک کہانی سے آپ کو کینیڈا کے سکول اور معاشرے کی نفسیات اور سیاست کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔
کینیڈا میں ہم سیکولر ازم کے نظریے کو تین حوالوں سے دیکھتے ہیں۔
سیکولر ازم کا پہلا حوالہ سیاسی حوالہ ہے۔ سیکولر ازم میں سیاست اور مذہب کو جدا جدا رکھا جاتا ہے۔
SEPARATION OF CHURCH AND STATE
کینیڈا میں قوانین انسانی حقوق کے حوالے سے بنائے جاتے ہیں۔

کینیڈا میں رنگ نسل زبان صنف اور مذہب سے بالاتر ہو کر سب شہریوں کو برابر کے حقوق اور مراعات دی جاتی ہیں۔

سیکولر ازم کا دوسرا حوالہ مذہبی حوالہ ہے۔

کینیڈا میں ہر شہری کو مذہبی آزادی ہے جو جس مذہب اور جس مسلک کو چاہے اپنائے اور اس پر عمل کرے۔ ہم اسے

FREEDOM OF RELIGION کی روایت کہتے ہیں

سیکولر ازم کا تیسرا حوالہ لامذہبی حوالہ ہے۔ کینیڈا میں ہر شہری کو یہ بھی آزادی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب اور مسلک کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے ضمیر کی پیروی کرے۔ ہم اسے FREEDOM FROM RELIGION کی روایت کہتے ہیں۔
آئیں میں آپ کی خدمت میں ریاست کی سیکولر ازم کی روایت کی عملی مثال پیش کروں۔
کئی سال پیشتر مجھے اپنی ایک مریضہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت جانا پڑا۔
گواہی دینے سے پہلے جج نے کہا
ڈاکٹر سہیل آپ مقدس بائبل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ آپ عدالت میں پورا سچ بولیں گے

میں نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ میں ایک سیکولر ہیومنسٹ ہوں اور کسی کتاب کو مقدس کتاب نہیں سمجھتا

جج مسکرایا اور بولا ڈاکٹر آپ کس چیز کو مقدس سمجھتے ہیں
میں نے کہا اپنے ضمیر کو

جج نے کہا آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے سینے کے بائیں طرف دل کے اوپر رکھ کر کہیں کہ آپ عدالت میں پورا سچ بولیں گے

میں نے ایسا ہی کیا اور اپنا بیان دیا۔
عدالت کی کارروائی کے اختتام پر جج نے میری مریضہ کے حق میں فیصلہ سنایا۔
سلیم ملک صاحب!

ان مثالوں سے آپ کو کینیڈا کی ریاست کے طالب علموں ’والدین‘ اساتذہ ’پرنسپل‘ جج اور میڈیا کی سیکولر روایت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔

جمہوری اور سیکولر ممالک میں اختلاف الرائے کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور مکالمے کو فروغ دیا جاتا ہے کیونکہ مکالمہ جمہوریت اور سیکولر ازم کے لیے ایک بنیادی قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔

فطرت نے ہمیں دو کان اور ایک زبان دی ہے تا کہ ہم جتنا بولیں اس سے دگنا سنیں۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کو سکھانا ہو گا کہ
دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان
اور
اختلاف الرائے اور دشمنی میں بڑا فرق ہے۔
مجھے تنقیدی فکر ’کینیڈین تعلیم اور سیکولر ازم پر اپنے خیالات کے اظہار کی تحریک دینے کا شکریہ۔
آپ کا دوست
خالد سہیل

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 364 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments