کیا آپ کو نانی اور دادی بننے کا شوق ہے؟
مصنف: خالد سہیل / حامد یزدانی
۔
خالد سہیل کا خط
محترمی و معظمی حامد یزدانی صاحب
کووڈ کی وبا کے دوران ہماری گروپ میٹنگز زوم پر ہوتی تھیں لیکن جب سے کووڈ کی وبا ختم ہوئی ہے اب گروپ میٹنگز کلینک میں ہوتی ہیں۔ ان میٹنگز میں ہمارے مریض اپنے نفسیاتی ’ازدواجی اور خاندانی مسائل پر تبادلہ خیال کر کے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ آج کی میٹنگ میں ایک دلچسپ موضوع پر تبادلہ خیال ہوا۔ میں نے سوچا میں اس موضوع پر آپ کی رائے بھی لوں۔
(نوٹ: اس خط میں سب مریضوں کے نام فرضی ہیں )
میری مریضہ ننینسی نے گروپ کو بتایا کہ پچھلے ہفتے اس کے شوہر ڈیوڈ نے اس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی۔ ایک خصوصی ڈنر کا انتظام و اہتمام کیا۔ اس ڈنر میں ڈیوڈ نے دونوں جوان بیٹیوں کو بھی بلایا جو اپنی ماما کے لیے خوبصورت تحفے لے کر آئیں۔
نینسی نے کہا کہ برتھ ڈے کا کیک کاٹتے وقت وہ بہت خوش تھیں لیکن اس کے بعد وہ اداس ہو گئیں۔ اداسی کی وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے اپنی جوان بیٹیوں سے کہا کہ وہ نانی بننا چاہتی ہیں تو ان کی بیٹیوں نے ’جن کی عمر چونتیس اور سینتیس برس ہے‘ کہا کہ ان کا ماں بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دونوں بیٹیاں فنکار ہیں۔ ایک بیٹی موسیقار اور دوسری پینٹر ہے۔ دونوں بیٹیوں نے ماں سے کہا کہ وہ اپنی غیر روایتی زندگی سے بہت خوش ہیں اور ان کا خاندان بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
نینسی نے گروپ سے کہا کہ اب وہ ستر برس کی ہو گئی ہیں وہ نجانے کتنے برس اور زندہ رہیں۔ انہیں یہ دکھ ہے کہ وہ نانی بنے بغیر اور کسی نواسی یا نواسے کو گود میں کھلائے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گی۔ نینسی کو یہ بھی دکھ تھا کہ ان کی بیٹیوں کو ان کے دکھ کا کوئی احساس نہیں تھا۔ وہ اپنی زندگی اور اپنی دنیا میں مگن تھیں۔
اس گروپ کی دوسری مریضہ سنتھیا نے گروپ کو بتایا کہ ان کا مسئلہ نینسی کے مسئلے سے زیادہ گمبھیر تھا۔ سنتھیا کا ایک بیٹا ہے۔ وہ بیٹا سیم جب بیس سال کا ہوا تو اس نے ایک دن ڈنر کی میز پر والدین کو بتایا کہ وہ گے ہے اور اس کا ایک بوائے فرینڈ بھی ہے۔ سنتھیا نے کہا کہ یہ خبر سننے کے بعد اس کے دادی بننے کے خوابوں کے شیش محل چکنا چور ہو گئے۔
سنتھیا نے تو چند ماہ میں حالات سے سمجھوتا کر لیا اور اپنے بیٹے کے بوائے فرینڈ کو اپنے گھر ڈنر پر بلا لیا لیکن ان کے بیٹے کے بوائے فرینڈ کے والدین بہت مذہبی اور روایتی ہیں انہوں نے اپنے بیٹے کے گے ہونے کو نہ صرف قبول نہیں کیا بلکہ بیٹے کے بوائے فرینڈ کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دی۔
سنتھیا کے بعد جوئین نے گروپ کو بتایا کہ جب ان کی بیٹی سنڈی پندرہ سال کی تھیں تو ایک شام فلم دیکھتے ہوئے انہوں نے فلم کو روکا اور اپنی ماں سے کہا
ماما اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں آپ کو تین باتیں بتانا چاہتی ہوں
بتاؤ بٹیا
پہلی بات میں نے شادی نہیں کرنی
دوسری بات میں نے بچے پیدا نہیں کرنے
تیسری بات میں خدا کو نہیں مانتی
اب ہم فلم دیکھ سکتے ہیں
جوئین نے کہا کہ تین بم پھٹنے کے بعد کیا وہ خاک فلم دیکھتیں۔
جوئین کے بعد چوتھی مریضہ سوزن نے پہلی مریضہ نینسی سے کہا کہ میری بیٹی نے شادی بھی کی ہے اس کے دو بچے بھی ہیں میں نانی بھی بن چکی ہوں لیکن اب میں نانی بننے سے تنگ آ چکی ہوں۔ میری بیٹی ہر روز کام پر جانے سے پہلے مجھے اپنے دونوں بچے جو ایک سال اور تین سال کے ہیں، دے جاتی ہے۔ وہ شام کو دیر سے آتی ہے اور میں سارا دن ان دونوں بچوں کا خیال رکھتی ہوں۔
جس دن میری بیٹی نے کہا
ماما میری بیٹی کی تیسری سالگرہ کا انتظام و اہتمام آپ کریں تو میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا، کیا تمہیں اندازہ نہیں کہ میری بھی کوئی زندگی ہے۔ میری بھی سہیلیاں ہیں۔ میری بھی مصروفیات ہیں۔ میرے بھی مشاغل ہیں۔ میری بیٹی اور نواسیوں نے میری آزادی چھین لی ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آزاد ہیں۔
میری پہلی مریضہ نینسی نے کہا
میں نے تو ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
میں نے نینسی سے کہا
آپ کی بیٹیاں آپ کی عزت کرتی ہیں آپ کا احترام کرتی ہیں آپ سے پیار کرتی ہیں۔ آپ کو اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ وہ خوش ہیں۔ آپ انہیں اجازت دینے کی کوشش کریں کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزاریں۔
حامد یزدانی صاحب
آپ کی ان روایتی ماؤں کے بارے میں کیا رائے ہے جو اپنے غیر روایتی بچوں سے روایتی توقعات وابستہ کرتی ہیں؟
آپ کے خیال میں کیا نانی دادی بننے کی خواہش صرف عورتوں میں ہوتی ہے یا مرد بھی اپنی بیویوں کی طرح نانا دادا بننے کا شوق اپنے دل میں پالتے رہتے ہیں؟
کیا آپ کو اندازہ تھا کہ جب ہم نے چلڈرن ایڈز سوسائٹی اور بچوں کے بارے میں تبادلہ خیال شروع کیا تھا تو ایک دن
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
آپ کا مداح
خالد سہیل
۔
حامد یزدانی کا جواب
محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
آپ کا مکتوب نظر نواز ہوا۔
بات بچوں کی نگہداشت سے باپ بننے کے تجربہ تک پہنچی اور پھر وہاں سے ہوتی ہوئی اب نانا، نانی اور دادا، دادی بننے تک جا پہنچی ہے۔ گویا ہمارے مکالمہ کی مخاطب اب دو نہیں بلکہ تین انسانی نسلیں ہیں جس نے ہمارے مکالمے کے دائرے کو جہاں ایک طرف وسعت عطا کی ہے وہیں دوسری جانب اسے قدرے پیچیدہ بھی بنا دیا ہے۔
اس موضوع پر سوچتے ہی، دیکھیے، کیسے کیسے منسلکہ موضوعات ہمارے ہلکے پھلکے تبادلہ خیال میں در آنے کو پر تولنے لگے ہیں۔
اپنی اولاد کی اولاد کو دیکھنے کی خواہش اور خوشی، دادی، دادا سے یا نانی، نانا سے پوتیوں پوتوں یا نواسیوں اور نواسوں کے تعلقات کی نوعیت اور ان تعلقات کی قوت، افادیت و اثرات اور پھر اس ضمن میں سماجی توقعات اور ثقافتی پس منظر، اقتصادی پہلو اور جانے کیا کیا۔ سوشیالوجی اور سوشل ورک کے
طالب علم کے طور پر ”خاندان“ میری دل چسپی کے موضوعات میں ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔
ستر کی دہائی کے اواخر میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا اور پروفیسر مرزا محمد احمد صاحب کی سوشیالوجی کی اولین کلاس میں گیا تبھی میرا تعارف امریکی سوشیالوجسٹ اور فردا نگار (فیوچرسٹ) ایلون ٹافلر کی کتاب ”فیوچر شاک“ سے ہو گیا تھا۔ تب اس کتاب کو شائع ہوئے زیادہ مدت نہ ہوئی تھی۔ اردو دنیا کو ایلون ٹافلر کی تحریروں سے ممتاز شاعر و ادیب شہزاد احمد نے پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور ڈاکٹر وزیر آغا کی ترغیب پر بہت سال بعد متعارف کروایا۔ ان کی ترجمہ کردہ چند تحریریں مجھے حلقہ ارباب ذوق لاہور کے اجلاسوں میں سننے کا موقع ملا۔ خیر، عرض یہ کر رہا تھا کہ “فیملی” کے مطالعہ کا باب جو تعلیمی طور پر تب کھلا تھا پھر کبھی بند نہیں ہوا۔ وہ ایم اے سوشیالوجی ہو یا ماسٹر آف سوشل ورک، میرے تعلیمی پراجیکٹس میں یہ موضوع کسی نہ کسی انداز میں مستقلاً شامل رہا اور پھر بعد میں مختلف حیثیتوں میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے ہوئے بھی یہ بنیادی سماجی ادارہ میری عملی زندگی کا حصہ رہا اور اب بھی ہے۔
جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ روایتی مائیں اپنے غیر روایتی بچوں سے روایتی توقعات کیوں وابستہ کرتی ہیں تو میرے نزدیک تو اس کی وجہ یہی پنجابی محاورہ بیان کر سکتا ہے
اصل نالوں سود پیارا (اصل سے سود پیارا)
دیکھیے، ڈاکٹر صاحب۔ یہ محاورہ لکھ کر نہ تو میں بچوں کے حوالہ سے نئی نسل کی ترجیحات کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی ”روایت پسند“ ماؤں کی دل آزاری اور نہ ہی ”سودی“ نظام کی حمایت وغیرہ۔ (مسکان)
میں تو بس اس جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ بچوں کا تصور خاندان کے ساتھ نامعلوم زمانے سے جڑا ہوا ہے۔ ثقافتی بشریات ( کلچرل انتھروپالوجی) کے بعض ماہرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ قدیم خانہ بدوش طرز حیات کو مستقل بستیوں کا روپ بھی ایک بچے کی پیدائش ہی نے دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ
ہمہ وقت سفر آمادہ ان انسانی قبائل میں سے ایک قبیلہ کی عورت جب ماں بننے والی تھی مگر قبیلہ بوجوہ رکنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا تو اس نے اس حاملہ کو وہیں بے آب و گیاہ ویرانے میں چھوڑ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اب اس عورت کو وہیں رہتے ہوئے اپنی اور اپنے ہونے والے بچے کی زندگی کو یقینی بنانا تھا۔ زیادہ کچھ وہاں کرنے کو تھا نہیں۔ سو، اس نے قدرت کے نظام اور موسموں کی آمد رفت کا مشاہدہ قریب سے کیا۔ زمیں کا پانی اور روشنی سے رشتہ اور ان کے ملاپ سے بیج کا پھوٹنا اور پودے کی صورت میں پھولنا پھلنا اور اناج میں ڈھل کر کارآمد بننا۔ اور پھر دست یاب مقامی وسائل سے سر چھپانے کی جگہ بنانا تاکہ ٹک کر کہیں رہا جا سکے۔
کچھ عرصہ بعد جب اسی قبیلے کا ادھر سے گزر ہوا تو اس کے افراد اس عورت کو زندہ دیکھ کر ہی نہیں بلکہ وہاں مسکراتی اور لہلہاتی زندگی کو دیکھ کر بھی حیران ہوئے۔ عورت نے نہ صرف اپنے بچے کو جنم دے کر پالا تھا بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال لیا تھا اور موسمی فصلوں کے حصول کا طریق کار اور نظام بھی ابتدائی طور پر جان لیا تھا۔ اس تجربے کی کام یابی نے اس قبیلے کے کئی افراد کو سفر کے بجائے قیام کے طرز بودوباش کا قائل کر لیا۔ یوں ننھی ننھی بستیاں وجود میں آنے لگیں۔ جو رفتہ رفتہ دیہات، قصبات اور شہروں کے رنگ میں صورت پذیر ہوتی گئیں۔
تو اس ماں کی اپنے بچے سے محبت اور پھر اس بچے کے بچوں سے دل بستگی کیا فطری سی نہیں لگتی؟ جس نے اپنی بقا اور اپنے بچے کی محبت میں ایک نئی تہذیب، ایک نئے تمدن کو جنم دے دیا۔ جس نے امتیازی اور ناروا سلوک کے باوجود محبت اور ہمت کا مثالی مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے سفر کو نئے معنی دے دیے۔
ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
طوالت کے اندیشہ کے پیش نظر یہاں میں مذہبی یا تاریخی روایات اور لوک داستانوں کے حوالوں سے اجتناب کرتے ہوئے آپ ہی کی تازہ تر انگریزی تصنیف ”ایک اور ایک گیارہ“ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ تصنیف کے آغاز میں جس دل کش اور جذباتی انداز میں آپ نے اپنی نانی جان کو یاد کیا ہے وہ واقعی لائق مطالعہ ہے۔ انگریزی میں لکھی آپ کی شاعرانہ نثر کے ایک ایک جملے میں گویا آپ کا دل دھڑک رہا ہے۔ آپ کی یہ تحریر پڑھ کر مجھے جہاں آپ کی پروقار نانی جان کی شخصیت سے شناسائی کا شرف حاصل ہوا وہاں اپنا پرانا محلہ مزنگ بھی یاد آ گیا جس کی گلیوں میں میرا سارا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کا
عرصہ گزرا اور جہاں آپ اپنی نانی جان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ آپ کی نانی جان کی سوچ اور طرز فکر قابل رشک اور لائق اتباع ہے اور وہ ایک عمدہ اور مثالی کردار کی مالک تھیں۔
آپ کی اس دل نواز تحریر نے میری سوچ کا رخ ان سنہری یادوں کی طرف بھی موڑ دیا جو میری نانی جان اور نانا جان کی پر شفقت باتوں اور پرخلوص جذبات سے جگمگاتی ہیں۔
میں نے بچپن میں نانا نانی کو ہمیں پیار کرتے ہوئے دیکھا۔ نانا جان گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ہی ہمیں لائل پور (فیصل آباد) آنے کی دعوت دے دیتے تھے۔ نانا جان ایک طویل سفر کر کے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ بس کے اڈے پر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی آ جاتے اور تانگہ میں انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی ان کا چہرہ جس انداز میں کھل اٹھتا تھا اس کا سبب پوری طرح جاننا اور بیان کرنا الفاظ کے بس میں نہیں۔
لائل پور میں خوب خاطر مدارات ہوتیں اور واپسی پر نئے نئے لباس کے تحائف اور میٹھے پکوان ساتھ لے جانے کو بھی ملتے۔
اماں جی یعنی میری نانی جان مجھے بہت دعائیں بھی دیتی تھیں اور محبت بھری نصیحتیں بھی کرتی تھیں۔ میرے اردو اور پنجابی دونوں مجموعوں میں ان کے لیے نظم موجود ہے۔ اردو نظم کے چند مصرعے آپ بھی دیکھیے
اماں جی کے نام
۔
دہکتی دوپہر میں
جون کے بے رحم سورج کے تلے
لاہور کی سڑکوں کی حدت
اور ایسے میں کوئی بادل کا ٹکڑا میرے سر پر ۔
چھاؤں تانے تو
مہکی ہوئی، بھیگی دعائیں یاد آتی ہیں۔
۔
(حامد یزدانی)
…………….
اور پھر اپنے بھائیوں خالد، ساجد اور راشد کے بچوں اور بچیوں سے اپنے والدین کی اور ہمارے بچوں کے ساتھ ان کے ننھیال کی والہانہ محبت اور شفقت دیکھ کر بھی میں اس رشتے کی انوکھی مہک کو بس محسوس ہی کر سکا تھا اور وہ بھی کسی حد تک۔ مگر جب ہمارے بیٹے زرناب کی شادی ہوئی اور پھر اس کے ہاں ”ٹنگو“ اور ”منگو“ یعنی ایان اور عزیر کی ولادت ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ رشتے واقعتاً ان مول ہیں۔ میری بیگم طاہرہ اس ضمن میں زیادہ واضح اور پر از جذبات تھیں اور ہیں۔ وہ اسے ایک روحانی اور فطری احساس کہتی ہیں اور اسے انسانی رشتوں کی اساس قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کسی بھی شے کا ذائقہ ہم قدرت بیان اور معراج فہم کے باوجود اس وقت تک پورے طور پر نہیں جان سکتے جب تک اسے چکھ نہیں لیتے۔ اسی طرح رشتوں میں گندھے احساسات کے لطف کو بھی ماں یا دادی بنے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔
ڈاکٹر صاحب
اب آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ اس ضمن میں میرا احساس و تجربہ کیا ہے؟ تو میں تو آپ ہی کے گزشتہ خط کی جانب لوٹ جاؤں گا جس میں آپ نے اپنے باپ بننے کے منفرد تجربے کا دل نشیں اقرار و اظہار کرتے ہوئے وردہ اور ایڈرئینا سے اپنی پدرانہ شفقت کو انتہائی متاثر کن انداز میں تحریر کیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ احساس کے رشتے خون کے رشتوں کو اور بھی معنویت اور پائداری عطا کر دیتے ہیں۔
ہاں، ادھر کینیڈا میں بعض بچوں والے جوڑے اپنے وطن یعنی پاکستان اور ہندوستان سے اپنے والدین کو اس غرض سے بلوا لیتے ہیں کہ جب وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں تو نانی جان ”نینی“ بن کر ان کے بچوں کی نگہداشت اور نگرانی کریں۔ کئی نانا نانی اور دادا دادی اپنے اس کردار پر بھی خوش دکھائی دیتے ہیں کہ چلو اس بہانے اگلی نسل کو کچھ نہ کچھ اپنی روایات اور زبان وغیرہ ہی سے آشنا کر سکیں گے مگر کئی بزرگ خواتین و حضرات اس صورت حال سے ناخوش اور نالاں بھی دکھائی دیتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کی خودغرضی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب
جیسا کہ آپ کے خط سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کینیڈا اور دوسرے ترقی یافتہ ترقی یافتہ معاشروں میں شادی کے روایتی بندھن سے آزاد خاندان کا تصور بھی مقبول ہو رہا ہے مگر اب بھی کینیڈا کی حد تک تو پینسٹھ فی صد خاندان روایتی شادی اور بچوں کے قائل ہیں اور اس ضمن میں جس تیز رفتار یا شاکنگ تبدیلی کی جانب ایلون ٹافلر نے اشارہ کیا تھا وہ بھی اس سرعت سے وقوع پذیر نہیں ہو رہی۔ یہ بہر صورت حال کی بات ہے۔ سوشل میڈیا کے فروغ، معاشی ضروریات کی نوعیت اور سماجی، ثقافتی تغیر کے عوامل مستقبل کے خاندان کو کس حد تک تبدیل کر پاتے ہیں اس کی حقیقی تصویر تو آنے والے وقت ہی میں واضح ہو سکے گی۔
ڈاکٹر صاحب
میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ کے خط کی بدولت میں اپنے بے ترتیب خیالات اور مشاہدات کو کچھ نہ کچھ ترتیب دے کر پیش کر سکا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے ہوں گے۔
نیک تمناؤں کے ساتھ
آپ کا دوست
حامد یزدانی
- کچھ اقبال ساجد کے بارے میں - 03/09/2024
- ڈاکٹر خالد سہیل اور حامد یزدانی: آپ کی ادبی شناخت کیا ہے؟ - 24/08/2024
- سفر تو آغاز ہو چکا ہے: ایک پہر نجیب احمد کی شاعری کے ساتھ - 18/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).