عسکری اور سیاسی قیادت میں علیحدگی کیوں ضروری ہے؟


ایک گواہی اس پر خالد حسن سے بھی لے لیں۔ خالد حسن بھٹو صاحب کے پریس سیکریٹری تھے۔ ایچ کے برکی پاکستان ٹائمز کے معروف صحافی تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں جنرل یحییٰ، لیفٹیننٹ جنرل حمید خان اور دوسرے جرنیلوں کی ان غلطیوں سے پردہ اٹھانا مقصود تھا جن کے نتیجے میں پاکستان کا خانہ خراب ہوا۔ انگریزی زبان ایچ کے برکی کی انگلیوں پر ناچتی تھی۔ انہوں نے 1970 ء والی فوجی جنتا کے لیے وہ اصطلاح استعمال کی جو ہٹلر کے جرنیلوں کے لیے برتی گئی تھی۔ ”Fat and flabby generals“ اس کا اردو ترجمہ مشکل ہے۔ ’عسکری سالاروں کی موٹی تھل تھل کرتی راسیں‘ شاید کام دے جائے۔ بھٹو کوئٹہ سٹاف کالج کے دورے پر گئے تو فوجی افسروں نے ایچ کے برکی کے لب و لہجے کی شکایت کی۔ بھٹو صاحب نے خالد حسن سے کہا کہ برکی صاحب کو فون کر کے استدعا کرو کہ ’ہاتھ ہلکا رکھیں‘ ۔

پاکستان ٹیلی ویژن 16 دسمبر 1971 ء کو رمنا ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی فلم ایک ہی بار نشر کر سکا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ تیس برس بعد 2002 ء میں جزوی طور پر جاری کی جا سکی۔ جنرل گل حسن نے اپنی خود نوشست یادداشتوں کا عنوان ”آخری کمانڈرانچیف“ رکھا۔ اس میں یہ التزام تھا کہ تیس دسمبر 1971 ء کو جب گل حسن فوج کے سربراہ بنے تو پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس قانونی نکتے کا سہارا لے کر گل حسن خود کو متحدہ پاکستان کا ’آخری کمانڈرانچیف‘ قرا ر دیتے تھے اور شخصی انا کی تسکین پاتے تھے۔ 2 مارچ 1972 ء کو بھٹو صاحب نے جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم خان کو فوج سے برطرف کیا۔ گل حسن کی یادداشتوں میں اس کی تلخی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب ایک ایسے سربراہ مملکت تھے جو فوج پر سیاسی قوتوں کی بالادستی کی ضمانت دے سکتا تھا۔ یہ تاثر درست نہیں۔ جسٹس جاوید اقبال ان دنوں ہائی کورٹ کے جج تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ جسٹس شمیم حسین قادری نے لاہور ہائی کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران بطور فریق پیش ہونے والے ایک حاضر سروس کرنل کو ڈانٹ دیا۔ اس کی شکایت جنرل ٹکا خان کے ذریعے بھٹو صاحب سے کی گئی۔ بھٹو صاحب نے جسٹس شمیم حسین قادری کو پیغام بھیجا کہ وہ احتیاط سے کام لیں۔ بھٹو صاحب کے لفظوں میں ”ابھی ہم جنگل سے باہر نہیں نکلے“ ۔ بھٹو صاحب اس جنگل سے کبھی نہیں نکل سکے۔

پروفیسر غفور احمد اور کوثر نیازی کی یادداشتوں میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے مابین 1977 ء کے مذاکرات میں بلوچستان بغاوت کے حوالے سے فوجی حکام کو بھی شریک کیا گیا۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل چشتی بریفنگ میں شریک ہوئے۔ جنرل چشتی نے سیاسی قیادت کو قومی سلامتی پر لیکچر پلانا شروع کر دیا جس پر نواب زادہ نصر اللہ کو انہیں یاد دلانا پڑا کہ ان کا منصب فوجی امور کی دیکھ بھال ہے، قوم کا سیاسی نصب العین طے کرنا نہیں۔ 5 جولائی 1977 ء کے بعد جنرل ضیا الحق کے عہد میں جو کچھ ہوا، اس پر ایک سے زیادہ روایات سامنے آ چکی ہیں۔ جنرل چشتی کا نقطہ نظر بھی شائع ہو چکا ہے اور جنرل کے ایم عارف کا زاویہ نگاہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن سب سے مستند روایت تو خود جنرل ضیا الحق کے اقوال زریں ہیں۔

جنرل ضیا نے ایران کے اخبار کیہان انٹرنیشنل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے متفقہ آئین کو بارہ صفحات کا کتابچہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ جب چاہیں، آئین کے پرزے اڑا سکتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق سیاست دانوں کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ جب چاہیں گے، سیاست دان کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے ان کے پاس پہنچیں گے۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان پر بدترین فوجی آمریت مسلط کی۔ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑے مارے، آئینی وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا، اخبارات پر کڑی سنسر شپ نافذ کی۔ دانشوروں پر پاکستان کی چاندنی، پانی اور ہوا حرام کرنے کی بشارت دی۔ لیکن جنرل ضیا الحق کو صوبہ سندھ کے موضع سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو نے واضح سیاسی اور جمہوری اختیار نہ ہونے کے باوجود تگنی کا ناچ نچا دیا۔ اوجڑی کیمپ پر تحقیقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد 29 مئی 1988 ء کو محمد خان جونیجو باوقار انداز میں سندھڑی واپس چلے گئے لیکن ضیا الحق کو ضلع لودھراں کی بستی لال کمال کا ٹکٹ تھما گئے۔

فوج نے 1988 ء میں ضیا الحق کی موت کے بعد انتقال اقتدار کے بجائے شراکت اقتدار کا فیصلہ کیا تھا۔ گویا منصوبہ یہ تھا کہ بظاہر سیاست دانوں کو اقتدار دیا جائے لیکن پس پردہ اصل اختیارات فیصلہ سازی اور مالی منفعت کا نظام قائم رکھا جائے۔ آئی ایس آئی کے (تب) ڈائریکٹر جنرل حمید گل کھلے عام اقرار کرتے تھے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے چودہ کروڑ روپے صرف کر کے آئی جے آئی تشکیل دی تھی۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی آئی جے آئی کی 54 نشستوں کے مقابلے میں 94 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ سودے بازی کا ڈول ڈالا گیا۔ فیصلہ یہ تھا کہ جمہوری حکومت خارجہ پالیسی خصوصاً افغان پالیسی اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں دخل نہیں دے گی، دفاعی امور میں جمہوری حکومت کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہو گی، ایٹمی پالیسی پر وزیرا عظم کے بجائے فوج کے سربراہ اور صدر کو اختیار ہو گا، حکومت میں فیصلہ کن مناصب مثلاً وزارت خارجہ اور دوسرے عہدوں پر فوج کے تجویز کنندہ افراد فائز کیے جائیں گے اور صدر کے پاس آئین کی دفعہ 58 ( 2 ) بی کے تحت حکومت توڑنے کا اختیار موجود ہو گا۔ اس پرطرہ یہ کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئی جے آئی کی حکومت قائم کر دی گئی جہاں میاں نواز شریف ہیئت مقتدرہ اور ذرائع ابلاغ میں خود کاشتہ محب وطن عناصر کی مدد سے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ گویا بے نظیر بھٹو کو ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک بے پتوار تختے پر طوفانی سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا گیا تھا۔

اس امر کی اہمیت 1988 ء میں پیش آنے والے کچھ واقعات کی روشنی میں سمجھی جا سکتی ہے۔ نومبر 1988 ء میں بینظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو فوج کی کمان جنرل اسلم بیگ کر رہے تھے جب کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل تھے۔ اس موقع پر فوجی قیادت نے نو منتخب وزیر اعظم کو بریفنگ دینے کے لیے یہ کہہ کر ایوان وزیر اعظم جانے سے انکار کر دیا تھا کہ بریفنگ میں استعمال ہونے والے حساس نوعیت کے نقشہ جات وزیر اعظم ہاؤس نہیں لے جائے جا سکتے۔ مجبوراً بے نظیر بھٹو کو جی ایچ کیو جا کر فوجی قیادت سے بریفنگ لینا پڑی تھی۔ اس کے دو ہی مطلب لیے جا سکتے تھے۔ برخود غلط عسکری قیادت سیاسی قیادت پر اپنی برتری جتانا چاہتی تھی یا یہ کہ ملک کی منتخب وزیر اعظم کو قومی سلامتی کے حساس معاملات پر اعتماد کے قابل نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ اس کا انجام سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کتاب ”چاہ یوسف سے صدا“ میں ملاحظہ کریں :

”انیس سو نوے میں بے نظیر بھٹو نے اپنی رہائش گا ہ پر کور کمانڈروں کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ انہوں نے ہر کور کمانڈر کے ساتھ اپنا ایک وزیر بٹھا دیا۔ مجھے وزیر اعظم کی طرف سے چٹ موصول ہوئی کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل سے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں دریافت کروں۔ حمید گل نے کہا کہ آپ کی حکومت پر بد عنوانی کے کئی الزامات ہیں اور آپ کے برے دن آنے والے ہیں۔ اسی سال 6 اگست کو پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کر دی گئی“ ۔

سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ کیسے معلوم تھا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت رکھنے والی بے نظیر بھٹو کو برطرف کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر کو برطرف کرنے کے بعد نئے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا جن میں جنرل اسد درانی کے مطابق آئی جے آئی کے رہنماؤں میں خفیہ فنڈ سے کروڑوں روپے تقسیم کیے گئے تھے۔ (اس اعتراف کے بارے میں ائر مارشل اصغر خان کی آئینی درخواست 1996 ء سے سپریم کورٹ میں انصاف کی منتظر تھی۔ 2010 ء میں بالآخر اس مقدمے کا نامکمل فیصلہ سامنے آیا تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔

اتنے ارمانوں سے نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے بعد بھی یہ گتھی سلجھ نہیں سکی۔ واقعہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور پیوستہ مفادات کی حامل ہیئت مقتدرہ کا تضاد شخصی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ آئین میں فوج کے کسی سیاسی کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ فوجی اہلکاروں کے لیے سیاست میں دخل اندازی کی کڑی ممانعت ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کو صدر مملکت پر ادارہ جاتی بالا دستی حاصل ہے۔ جب آئین کے اس منشا کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سیاسی بحران جنم لیتے ہیں۔ سیاسی خربوزے اورعسکری چھری کے ٹکراؤ میں خربوزے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ الزام بھی خربوزے ہی پر دھرا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments