معاصر روسی افسانہ


الیکساندر سیپکن 28 ستمبر 1975 میں سینٹ پیٹرزبرگ جو تب لینن گراد کہلاتا تھا، میں پیدا ہوئے۔ 2015 میں اپنی افسانوں کی کتاب ”بڑھاپے سے پہلے کی عمر کی عورتیں اور دوسری بے اصول کہانیاں“ سے معروف ہوئے۔ وہ اب روس کے طنزیہ افسانہ نگاروں میں مقبول ترین ادیبوں میں سے ایک ہیں اور ان کی لکھی کہانیاں روس اور امریکا دونوں ہی ملکوں کی محفلوں میں ثقہ اداکار و صدا کار پڑھ کے سناتے ہیں۔ وہ تزویراتی تعلقات عامہ کے ماہر، مضمون نگار اور طنزیہ کہانیوں کے مصنف ہیں۔ علاوہ ازیں سینکڑوں سیاست، سماج، ثقافت، سائنس اور سپورٹس سے وابستہ شخصیات کے انٹرویو کرچکے ہیں۔

نئے سال کا تحفہ

اس روز سیوا عورتوں کے بارے میں سب کچھ سمجھ گیا اور ڈر گیا تھا۔ پہلی بار۔
30 دسمبر کو ویرا ( ارد گرد کے سبھی لوگ اسے اسی نام سے پکارتے تھے ) نے اپنے پوتے سے درخواست کی تھی کہ ان کے طالب علمی کے دور کے دوست چچا یورا کو نئے سال کا تحفہ پہنچانے میں ان کا ساتھ دے۔ پوتا متعجب ہوا تھا کہ اس سے پہلے تو اس نے اس نام کے کسی چچا کے بارے میں نہیں سنا تھا۔

” دادی ایسی بات نہیں کہ میں تمہاری زندگی میں آئے مردوں کا سراغ لگانا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں نے چچا یورا کا نام کبھی نہیں سنا۔“

” مجھے خود بھی یاد نہیں رہا تھا تا وقتیکہ ریتا کلیمووا نے فون کر کے نہیں بتایا تھا کہ ہماری جوانی کے زمانے کا دوست، اچھے حالات میں نہیں رہ رہا۔ اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں، بوڑھا شخص اکیلا رہ رہا ہے اور کسی حد تک نادار ہے۔ تو دادی کے ساتھ سامان اٹھا کے لے چلنا۔ میری ایک درخواست ہے کہ دادا سے کچھ نہ کہنا، میں جب بھی کسی کو ذاتی طور پہ کچھ دیتی ہوں، وہ ہمیشہ ہی بڑبڑاتا ہے۔ بس چلیں گے، کھانے پینے کا سامان تم اٹھا لینا، باقی تحفہ میں اس کے لیے تیار کر لوں گی۔ اور بس۔“

” مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ چاہتی ہو تو سرمائی دادا ( سانتا کلاز کا روسی متبادل ) کا لبادہ بھی اوڑھ لوں گا۔ جا کے کہوں گا، رضاکار کام کرنے پہنچا ہے۔ دادا تمہارے مزاج کے ہیں ہی نہیں، میں نے گاڑی دھونے والے لڑکے کو سو روبل کیا دیے کہ دادا ہزار بار میرا دماغ کھا گئے۔

” تو اور کیا، وہ تو ہمیشہ سے ایسا ہے۔ میں کہیں تین بجے تمہارے پاس پہنچوں گی۔“

ویرا ستر برس کی تھی لیکن اس نے اس کے کام کرنے میں خلل نہیں ڈالا تھا۔ اور سب سے حیران کن امر یہ تھا کہ پورے کنبے میں سے وہی کام کرتی تھی۔

سیوا نے ہدایات پہ عمل کیا تھا۔ وہ کوئی چار بجے کے قریب یورا کے کوارٹر میں پہنچے تھے۔

چاہے جتنا بھی کہیں کہ پیسے میں سے بو نہیں آتی لیکن غربت کو ہم ہمیشہ بو سے ہی پہچانتے ہیں۔ سیوا کی ناک پہ عجیب سی بوؤں کا حملہ ہوا تھا جن میں سیلن، دیواروں پہ تھپے غلاظت کے دھبوں اور کھانے پینے کی سستی چیزوں کی بو شامل تھی۔

” یورچکا، سلام، میرے پیارے۔ اور یہ ہے سیوا۔“

ویرا کے لہجہ میں وہ حدت تھی جس کا سیوا کو خود بھی زیادہ بار احساس نہیں ہو سکا تھا۔ لیکن دادی تو ہمیشہ ہی مصلحتی رویے رکھتی تھی اور حالات و موقع کی مناسبت سے جذبات کا اظہار کر سکتی تھی۔

چچا یورا کوئی عجیب سی قمیص پہنے ہوئے تھا اور پاجامہ سلوٹوں بھرا تھا جو لگتا تھا سیوا کی پیدائش سے بھی پہلے کے تھے۔ نوجوان کی توجہ اس کے پاؤں میں چپلوں نے لی تھی جو کوارٹر میں سب سے مہنگے لگتے تھے۔

” سلام صحت سیوا، ایک عرصے سے تم سے متعارف ہونا چاہتا تھا۔ کمرے میں آ جاؤ۔ کچن میں مدعو نہیں کروں گا۔ وہاں مناسب نہیں۔

” دن مہربان رہے۔ آنے والے سال کی مبارک ہو۔“

سیوا جی ہی جی میں ہنسا تھا کہ مناسب تو یہاں کہیں بھی نہیں ہے۔ چچا یورا مشکل سے چلتا تھا۔ ہر وقت نگاہیں، سہارے کے لیے کسی چیز کی تلاش میں لگتی تھیں۔ سیوا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دادی سے بس پانچ برس بڑا ہے۔

ویرا نے بے اطمینانی سے کہا تھا:
” یور! تو کیا صفائی کرنے والی اس ہفتے نہیں آئی؟“
” و یرچکا، وہ یہاں آ نہیں سکی۔ خود ہی کوشش کرتا ہوں صفائی کرنے کی۔ بس کر نہیں پایا ہوں۔
” کیا مطلب ہے، نہیں آ سکی؟“
لہجہ سے مہر تمام ہوا اور سیوا نے وہی حکم دینے کا انداز سنا:

” میں اسے دیکھ لوں گی۔ سب چیزیں دیکھنی ہوں گی۔ تم کم از کم مجھے فون ہی کر دیتے۔ خیر۔ یہ رہا تمہارے نئے سال کے پکوانوں کے لیے سودا سلف اور یہ رہا تمہارا نئے سال کا تحفہ۔ اور ہاں، سچ میں نے پوچھا نہیں کہ کیا تمہارے لیے نئے سال کا درخت بھی لانا چاہیے تھا؟“

” چھوڑو، نہیں چاہیے۔ ویسے ہی تہوار یاد رہے گا چاہے درخت نہ بھی ہو۔“
” لیکن۔ خوش بختی سے تمہارے نہ چاہتے ہوئے بھی ہے اس لیے یہ ڈبہ کھولو۔“
” پھر سے چپلیاں؟“ لہجہ نرم تھا مگراس میں ظریفانہ طنز تھا۔
چچا یورا ڈبے کی پیکنگ اور ڈبہ کھولنے میں کوشاں تھا مگر انگلیاں بے یقینی سے کام کرتی لگتی تھیں۔
” یور، تمہارے ہاتھوں کو کیا ہوا؟“
” وہی جو پاؤں کو ۔ جوڑ۔ ڈاکٹر جانتا ہے اس لیے مجھ پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔“

” دینی چاہیے، یقیناً ۔ کیا دمتری پاولووچ کو تمہارے پاس بھیجوں۔ میں انتظام کرلوں گی۔ سال نو کی تقریب کے بعد ، اچھا؟

” چھوڑو رہنے دو ۔ مجھے اگر ڈاکٹر کو دکھائیں تو وہ فوری طور پر توبہ کر لیں۔ میں تو خاص نمونہ ہوں۔ ان سب سے تو مجھے بہت پہلے مر جانا چاہیے اور میں بلاوجہ قدرت کی ہوا پھانک کے ضائع کر رہا ہوں۔ سیوا، تم بتاؤ کہ کیا کرتے ہو؟ ذرا تفصیل سے یہ بھی بتاؤ کہ ڈکٹیٹر دادی سے کیسے نمٹتے ہو؟“ بوڑھا یہ کہتے ہوئے ہنسا اور بولا، ”کامیابی کے ساتھ؟“

” لو جی! اسی کا انتظار تھا،“ ویرا کسمسائی اور بولی، ”میرے پوتے کو مت اکساؤ، آپ لوگوں نے ڈکٹیٹر دیکھے ہی نہیں! “

” ہماری دادی جمہوری رویے اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ بوڑھی ہو رہی ہیں چنانچہ میرے لیے تو ٹھیک ہیں۔“
” ہاں تو ، جواب مل گیا؟“ ویرا نے اپنی خجالت یہ کہہ کے کم کی۔

” میں پڑھ رہا ہوں،“ سیوا نے بتانا شروع کیا، ”ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں مارکیٹنگ کے لیے کام بھی کرتا ہوں۔ “

” سیوا، میرا خیال ہے، چچا یورا کو وضاحت کرو کہ مارکیٹنگ کا کام کیا ہوتا ہے؟“

ویرا اپنی سماعت کے دائرے میں آنے والی کوئی بات سنے اور اس کا جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن چچا یورا کے ہاں یورا کی وہ تندی نہ تھی اور یورا کی باتوں میں سیوا نے مبنی بر مزاح طنز بلکہ کچھ تحقیر ہی سنی۔

” نہیں چاہیے وضاحت۔ میری رگیں وریدیں اور جوڑ کام نہیں کرتے اور نہ ہی مغز کام کرتا ہے۔ میرا معمر پن دنیا میں جو کچھ نیا ہو رہا ہے، اس میں مخل نہیں ہو سکتا۔ تمہیں البتہ لیکچر دے سکتا ہوں کہ تم اور تمہارا پوتا بہتر ہے ایک ہی زبان میں بات کریں۔“

” ہاں، میں ہی اکثر بھولتی رہتی ہوں۔ تم ہم میں سے نابغہ ہو اور مجھ سے مختلف۔“
” اور تجھ میں تو بڑھی ہوئی تاجرانہ صلاحیت تھی۔ یہ بھی تو کچھ ہوتی ہے۔“

” لگتا ہے چچا یورا کو برا لگا ہے۔ وہ دادی کے تحائف کی کچھ زیادہ قدر نہیں کرتا۔“ سیوا نے سوچا تھا، پھر طے کیا کہ دخل نہیں دے گا۔ ویسے بھی نادار کسی پر مہربان نہیں ہوتے۔

آخرکار ویرا نے ڈبے سے میڈیا پلیئر نکال لیا:
” یہ اس لیے تاکہ تم مغربی سیریل دیکھ سکو، نہ کہ ٹی وی۔ سیوا ابھی تمہارے لیے اس کو پلگ کر دے گا۔“
” دادی، کم ازکم پہلے ہی بتا دیتیں۔ میں۔ “
” سیوا، تم کر لو گے۔ یا میں خود کروں؟ مجھے مزید دادی نہ کہنا اب!“

” ویرا میں جانتا ہوں کہ اسے کیسے جوڑنا ہے۔ سیوا، تم بس ہاتھوں کی مدد کرنا۔ ابھی معلوم ہو جائے گا کہ اسے ٹیلیویژن سے کیسے جوڑنا ہے۔ اور تم، میں دیکھ رہا ہوں، نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میرا ساری دنیا سے ارتباط کروا کر رہو گی۔ تشکر!“

وہ چچا یورا کے ہاں مزید تیس منٹ بیٹھے رہے تھے۔ سیوا کے لیے دلچسپی یہ تھی کہ جانے یہاں کیا چل رہا ہے اور شمالی بحری راستے پہ کام کرنے کا قصہ تو ویسے بھی تازہ تھا۔ چچا یورا نے وہاں پانچ سال بتائے تھے اور شمال میں ہی اپنی صحت برباد کی تھی۔ سیوا کو سفر کے قصے سننا پسند تھے اس لیے وہاں مہمان ہو کے نکلتے ہوئے اسے تسکین ہوئی تھی۔

دروازے سے نکلتے ہی دادی حاکم بن گئی تھی۔ چچا یورا کے ہاں اس کی یہ صفت کوئی بہتر طور پر کام نہیں کر پائی تھی۔ سیوا بلکہ حیران ہوا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا دادی کسی کی سنتی ہی نہیں۔

” سیوا، کبھی کبھار یہاں ہو جایا کرو۔ دیکھ جایا کرو کہ وہ کیسا ہے۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ باقی سرکاری کام میں دیکھ لوں گی۔ اپنے دادا کو ایک لفظ نہ کہنا، سمجھ گئے؟“

” محبت تھی؟“

” کیا؟“ ویرا نے سیوا کے سوال پر جلد ردعمل دیا تھا مگر جو غیر متوقع وار ہوا تھا، اس نے لحظہ بھر کا توقف تو دے ہی دیا تھا۔

” تمہیں اس سے پیار تھا، ہیں نا۔“ سیوا نے استفسار محسوسات جاننے کی خاطر نہیں بلکہ اس لیے کیا تھا کہ اس نے سراغرساں کا کردار ادا کرنا چاہا تھا۔

دادی مڑی تھی۔ نچلے ہونٹ کو چبایا تھا۔

” ویرا، بتاؤ نا، میں کوئی احمق تو ہوں نہیں۔ تم مجھے یونہی تو یہاں نہیں لائیں۔ بس جھوٹ نہ کہنا۔ میں سب سمجھتا ہوں۔“

ویرا نے خود کو سنبھالا تھا:

” ہاں، تھی ایک کہانی۔ لیکن۔ بس تقریباً سکول تمام کرنے کے فوری بعد ہمارا بیاہ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ یونیورسٹی کے تیسرے کورس میں، ممکنہ طور پر ۔ اور پھر۔ پھر۔ اس نے میری سہیلی سے دوستی کر لی تھی۔“

” عام طور پر ایسے ہی ہوتا ہے۔ “

” یہ اس سے کہیں تکلیف دہ تھا، جتنا تم سمجھے ہو۔ لگتا تھا کوئی نیا ڈرامہ تھا مگر عام سا۔ بہترین سہیلی تھی۔“

” ایک ہی تھی، ہوا کیا تھا، رشک کرتی تھی کیا؟“
ویرا کے چہرے پہ جیسے سیاہ ناگ لپٹ گیا ہو۔ نہیں، بلکہ وہ تو پہلے ہی بیاہتا تھی۔
سیوا نے آخرکار فون سے نگاہیں ہٹائی۔ اوہو، جذبات بھڑکے ہوئے۔ اور شوہر کا کیا بنا؟ شوہر اس کا کیا کرتا جبکہ اس کا شوہر۔ ویرا نے توقف کیا تھا، پھر جیسے طے کر لیا:
اس کا شوہر یورا کا بہترین دوست تھا۔“سیوا نے بالآخر فیصلہ کن طور پر کہا تھا۔
یہ بات، ٹھہرو۔ تو چچا یورا نے تمہیں چھوڑ دیا اور اپنے دوست کی بیوی سے بیاہ کر لیا؟
ہاں۔
” اور تم اب اس کی مدد کرتی ہو؟
ویرا جیسے اپنی کمزوری پہ شرما گئی تھی۔

” میں اس پہ کوئی تبصرہ نہ کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم دادا کو کچھ کیوں نہیں بتاتی۔ وہ تمہیں اس طرح کے فلاحی کام کرنے پہ جان سے مار ڈالے گا۔“

دادی نے پوتے کا ہاتھ تھاما اور کسی نوع کی توقع کے ساتھ کہ پوتا خود سب سمجھتا ہے، کہا :
” وہ اس بات پہ نہ مارتا۔“
” تو کس بات پر ؟“
دادی نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ سیوا یقین نہیں کرنا چاہ رہا تھا:
” صرف نہیں۔ صرف نہ کہنا۔ کہ۔ “

” ہاں سیوا، ہم دونوں نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں۔ ہم دونوں اتنے ڈرے ہوئے تھے۔ ہم دونوں تنہا تھے۔ ہم ہر وقت ایک دوسرے کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور لو ہو گئے سکون سے، کہ آخر کار تیرا پاپا پیدا ہو گیا تھا۔ سیوا، میں تیری منت کرتی ہوں اگر تم میرے ساتھ ہو تو صرف دھیان رکھو کہ چچا یورا ناداری اور درد میں نہ رہے۔ تم سمجھتے ہو۔“

” کیا کہہ رہی ہو، کیا تمہیں اس سے ابھی تک پیار ہے؟“
ویرا نے کوئی وقفہ لیے بغیر جھٹ سے کہا:
” نہیں، سچی بات ہے نہیں۔“
” پھر یہ سب کس لیے؟ میں سب کروں گا۔ صرف جاننا چاہتا ہوں۔“

” جب کرو گے تم سمجھ جاؤ گے۔ میں خود بھی نہیں جانتی۔ ممکن ہے قرض چکانے کا احساس ہو۔ لیکن، درحقیقت میں سمجھتی ہوں کہ میں اس کے بعد بھی جیوں گی، چنانچہ سب خود کرتی رہوں گی۔ میں یہ بوجھ تم پہ نہیں ڈالوں گی۔ میں اب بھی تم سے زیادہ مضبوط ہوں۔“

” اگر ایسی بات ہے تو میں تمہیں اس کی تدفین پہ نہیں جانے دوں گا۔“
” وہ بھلا کیوں؟“
” تاکہ بری کہانی نہ بن پائے۔ وہ دونوں لمبی اور بدنصیب زندگی جیے مگر مرے ایک ہی دن۔“

” تم میرے احساسات کا قبل از وقت اندازہ لگا رہے ہو۔“ ویرا نے ایک منٹ کے لیے اپنی توجہ ہٹاتے ہوئے دیانتداری سے جواب دیا۔ سرد مہر اور کھلا۔

اور جیسے سیوا سب سمجھ گیا۔ خاص طور پر اس کہانی میں اپنا کردار۔ اس نے پہلی بار دادی کو عورت کی شکل میں دیکھا تھا۔ اس نے استعجاب اور ڈرتے ہوئے پوچھا:

” اچھا تو تم نے اس کے لیے، نئے سال کا تحفہ تو دل سے تیار کیا تھا۔“
” وہ میڈیا پلیئر؟ چند پیسے تو قیمت ہے اس کی۔“

آخری بار سیوا کو ایسی حیرت ناک صورت حال سیریل Usual Suspect میں دیکھنے کو ملی تھی۔ اس نے جیسے دادی کے عکس کو سکرین پہ دیکھا نہ کہ اصل میں اور کہا:

” نہیں دادی۔ میں اس کے بارے میں بات نہیں کر رہا۔ دیانتداری سے بتانا، لگتا ہے تم عرصہ سے اس کی مدد کر رہی ہو؟“

ویرا کو غصہ آ گیا۔ اس کو اچھا نہیں لگا تھا کہ کوئی، بلکہ لڑکا نا خوشگوار اور بہدف سوال کر رہا ہو۔ پھر بھی اس نے آواز میں صحرا کی سی خشکی کے ساتھ جواب دیا تھا، پانچ سالوں سے۔

سیوا نرم پڑ گیا تھا۔ ہنسا تھا، مذاق کیا تھا جیسے ان پانچ منٹوں میں وہ بڑا ہو گیا ہو اور ان دونوں کے بارے میں کہا تھا :

” بہت اچھے طریقے سے اس پہ حاوی ہو۔ لڑتے بھی نہیں ہو۔ ایک عرصہ ہو گیا نا بدن پہ آخری گولی سہے ہوئے۔ “

” تم اپنے لفظوں پہ قابو پاؤ، اچھا؟“

ویرا کے اندر طیش اور ارتعاش کھول رہا تھا کہ کہیں اس حقیقت کو الفاظ نہ مل جائیں، جن پہ وہ خود بھی یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ہمارے لیے ظالمانہ اعمال کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل یہ جاننا ہے کہ ہماری مہربانانہ روح میں کہیں سفاک تصورات پوشیدہ ہیں۔

سیوا اپنے مزاج میں کبھی کبھار دادی جیسا ہوتا۔
” ویر، معاف کرنا، مجھے لگتا ہے کہ ہمارے تعلقات ہمیشہ دیانتدارانہ رہے تھے، کہنا وہی جو سوچنا۔“
ویرا کو جیسے یاد آ گیا تھا کہ وہ تفتیش کار نہیں بلکہ پوتا ہے، دھیرج سے بولی :
” اچھا، معاف کرنا۔ شاید میں سمجھ نہ پائی ہوں کہ تم کتنے بڑے ہو چکے ہو۔“
” پھر ایک اور سوال کر لوں؟“
” ہاں، کرو۔“
” میں اس کا پوتا تو نہیں ہوں؟“
حیرت میں غرق ویرا سے جواب بن نہیں پڑ رہا تھا۔ جواب عاقلانہ اور بلا کم و کاست تھا :
” نہیں، یقیناً ۔ اگر تم اس کے پوتے ہوتے تو تم اس سے کبھی نہ مل پاتے۔ اور کیا۔“

تدفین پہ ویرا نہیں پہنچی تھی۔ ادائیگی ساری اس نے کی تھی لیکن آئی نہیں۔ سیوا صرف یہ سوچتا رہا کہ دادی نے بدلہ کس بات کا لیا، اپنی یورا کے بغیر زندگی کا یا اپنی زندگی دادا کے ساتھ گزارنے کا ؟ پھر اس نے طے کیا کہ نہیں پوچھے گا۔

اور دادا تدفین پہ پہنچا تھا اور سیوا سے کہا تھا کہ قبر بنانے کی نگرانی کرنا۔ صرف ویرا کو اس بارے میں کچھ مت بتانا۔ پوچھا یہ بات اتنی رازدارانہ کیوں؟ جس کے جواب میں دادا نے کہا کہ پھر کبھی بتاؤں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments