صحیح راستہ کیا ہے؟
ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ صحیح راستے پر سفر کیا جائے، خاص طور پر دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات میں۔ یہ لین دین یا تو انفرادی سطح پر ہو سکتا ہے یا پھر خاندان، برادری یا قوم کی سطح پر۔
سوال یہ ہے کہ صحیح راستہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے منزل کی بات کرتے ہیں۔
ایک صالح زندگی کے مقاصد کیا ہونے چاہئیں؟
ایک مثالی معاشرے کے ہمارے خواب کیا ہیں؟
ایک مثالی معاشرہ انصاف، احترام، مساوات اور مواقع پر مبنی ہے۔
انصاف امن لاتا ہے،
احترام نظم و ضبط لاتا ہے،
مساوات استحکام لاتی ہے،
اور مواقع لوگوں کی زندگیوں میں خوشی اور مسرت لاتے ہیں۔
تین بڑے ذرائع ہیں جو ہماری اقدار اور طرز عمل کی وضاحت کرتے ہیں۔
پہلا اور سب سے اہم مذہب ہے۔ زیادہ تر لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب وہ قوانین فراہم کرتا ہے جن کو اعلیٰ ترین اتھارٹی، یعنی خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ ایک مفروضہ ہے کہ انسان خود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور اس طور ان کے نزدیک خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو اخلاقی زندگی کا سرچشمہ ہونا چاہیے۔ خدائی قوانین ہمیں صحیح راستہ دکھاتے ہیں۔ لیکن کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، یہ تو انسان کی جبلت کا حصہ ہے۔ ہر انسان فطری طور پر جانتا ہے کہ چوری کرنا، جھوٹ بولنا اور دوسروں کو دھوکہ دینا برا ہے اور صدقہ، دیانت اور مہربانی مثبت خوبیاں ہیں۔ مذہبی لوگوں کے لیے یہ خوبیاں فطری کے بجائے مذہبی بن جاتی ہیں۔ اگر بات یہاں تک محدود ہوتی اور مذاہب صرف اخلاقی اقدار تک محدود ہوتے تو سب کچھ ٹھیک ہوتا۔ یہ وہ اقدار ہیں جن پر تمام مذاہب متفق ہیں۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً تمام مذاہب خاص طور پر عقائد کے نظام کے بارے میں خود راست بازی کا شدید احساس رکھتے ہیں۔ یہ عقائد، جیسا کہ مسیحیوں کے نزدیک مسیح خدا کا بیٹا ہے، اخلاقی اقدار پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتے، لیکن نفرت، تنازعات، اور بعض اوقات جنگ اور اس سے وابستہ مصائب کا باعث بنتے ہیں۔ مذاہب نے اپنے قیام کے وقت بہت سے معاملات میں لچکدار رویے کا حکم دیا ہو گا۔ تاہم، وقت کے ساتھ، زیادہ تر مذاہب اپنے نقطہ نظر میں کافی سخت ہوتے گئے۔ چند مذاہب نے جنت اور جہنم کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ ان لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہے جو مذہبی عقائد کو نہیں مانتے۔
جو لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ مذہب کے بغیر اخلاقی معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے، یہ کہنا مناسب لگتا ہے کہ ایک اخلاقی ڈھانچہ فوری طور پر ان دانشمندانہ الفاظ سے بنتا ہے : دوسروں کے ساتھ وہ نہ کرو جو آپ نہیں چاہتے کہ وہ آپ کے ساتھ کریں اور دوسروں کے ساتھ وہ کریں جو آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کریں۔ یہ چند الفاظ صحت مند معاشرے کی طرف جانے والے ہر فرد کے لیے صحیح راستے کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد شاید ہی کسی اور چیز کی ضرورت ہو۔
جس راستے پر چلنا ہے اس کے بارے میں رہنمائی کا اگلا ذریعہ معاشرہ ہے۔ ہماری ثقافتی روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ روایات، مذہب کی طرح، ہماری زندگی کے بیشتر پہلوؤں کو سمیٹ سکتی ہیں۔ تاہم، مذہب کے برعکس، روایات میں بہت زیادہ لچک ہوتی ہے، اور وہ وقت کے ساتھ تیار ہوتی ہیں۔ بلاشبہ، ثقافتی روایات کی تشکیل میں مذہب ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تقریباً ساٹھ سال پہلے زیادہ تر مسلم معاشروں میں خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنا لازمی تھا۔ اس کی تاویل یہ دی جاتی تھی کہ خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنا مذہبی روایت کا حصہ اور خدا کا حکم ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ تبدیلی آئی اور خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنا ضروری نہ رہا۔ یہاں تک کہ بہت سے مذہبی رہنماؤں کے گھر کی خواتین بھی پردہ دار نہیں رہیں۔
اس مثال سے ایک بہت اہم چیز واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ معاشرے میں موجود مذہب کے نام پر اپنائے جانے والے سماجی رویوں کے ایک بہت بڑے حصے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جن رویوں اور اقدار کو آج مذہب سے جوڑا جاتا ہے، وہ صرف ثقافتی روایات ہوتی ہیں جو معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ خود ارتقاء پذیر ہوتی ہیں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ معاشرے کی بہت سی روایات کی مذہبی بنیاد انتہائی کمزور ہوتی ہے۔
ہم نے بیسویں صدی کے آغاز سے تقریباً تمام معاشروں میں ثقافتی روایات میں بہت بڑی تبدیلی دیکھی ہے۔ ان تبدیلیوں کی بنیادی وجہ مواصلاتی ذرائع میں انقلابی پیشرفت ہے۔ پچھلے صدی میں برپا ہونے والے ٹیکنالوجی کے اس انقلاب کے نتیجے میں دوسرے معاشرے کے لوگوں کو دیکھنے، ان کے عقائد جاننے، اور ان کی ثقافتی اقدار سے بہرہ ور ہونا آسان ہو گیا ہے۔ ہوائی سفر، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دوسری ثقافتوں کو براہ راست دیکھنا ممکن بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے نقطہ نظر، رویے اور اقدار میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ قومی سرحدوں کی موجودگی میں سرحد کے پار دوسرے عقائد، قبیلوں اور قوموں کے لوگوں کو شیطان تصور کرنا آسان تھا۔ تاہم سفر اور مواصلات کے دیگر ذرائع کی موجودگی میں دوسرے مذہبوں، تہذیبوں اور قوموں سے رابطے یہ احساس دلاتے ہیں کہ تمام انسان بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں۔ ان سب کی جبلتیں اور جذبات یکساں ہیں۔ وہ سب محبت میں سکون پاتے ہیں، وہ سب اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے پرجوش ہیں۔ ان کے اندر ایک طرف نفرت، حسد اور انتقام کے جذبات اور دوسری طرف قربانی، خیرات اور مہربانی کے جذبات ہو سکتے ہیں۔
آخر میں، کسی ملک کے قوانین اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس چیز کی اجازت نہیں ہے۔ جب ان قوانین کو توڑا جاتا ہے تو ہماری آزادی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ریاست کے قوانین کی خلاف ورزی کی جائے تو جرمانہ یا جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سرگرمی کے لیے ریاست کے قوانین مختلف ریاستوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے مسلم ممالک میں شراب پینا قابل سزا جرم ہے، جبکہ مغربی دنیا میں اس کی اجازت ہے اور عام ہے۔ قومی قوانین، ثقافتی روایات کی طرح اکثریت کے مذہب سے متاثر ہوتے ہیں۔ ملکی قوانین بھی سیاسی ضروریات کے مطابق وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔
تو زندگی میں کون سا راستہ ہے جس پر ایک فرد کو چلنا چاہیے؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ملک میں ہم رہائش پذیر ہوں، اس ملک کے قوانین کی پیروی کی جائے، جب تک کہ کوئی اپنی آزادی کھونے کے لیے تیار نہ ہو۔ اگر کوئی خاص قانون غیر منصفانہ بھی ہو تو قانون پر عمل کرنے یا قوانین میں تبدیلی کے لیے تحریک چلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کسی بھی تحریک کا آغاز ان لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے ممکن نہیں ہے جو پرسکون اور پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ تاہم کسی ملک کے قوانین عام طور پر ایک محدود حد تک لاگو ہوتے ہیں جس میں معاشرے کا کچھ اتفاق رائے بھی شامل ہوتا ہے۔ بادشاہی نظام اور ڈکٹیٹر شپ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
ہمارے طرز عمل کا تعین کرنے میں مذہب، ثقافت اور ملک کے کردار پر بات کرنے کے بعد ہم اب ایسے حالات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں باہر سے کسی دباؤ کے بغیر انفرادی فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے شک، کوئی بھی جس معاشرے میں رہ رہا ہے اس کے ثقافتی اور مذہبی اصولوں سے سو فیصد محفوظ نہیں ہے، ایسے فیصلے ہوتے ہیں جو ذاتی پسند کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔
اس طرح کے فیصلے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلے کا تعلق صرف فرد سے ہوتا ہے اور عام طور پر کسی اور سے نہیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس نوکری کی دو پیشکشیں ہیں، تو کون سی قبول کرے۔ یہ فیصلہ فرد کے مزاج اور تقاضوں کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ یہاں کوئی اخلاقی مخمصہ نہیں ہے۔
دوسری قسم کے فیصلے شاید سب سے مشکل ہیں۔ اس طرح کے فیصلوں میں اپنے اندر تنازعات شامل ہو سکتے ہیں، اور کوئی شخص مختلف سمتوں میں کھینچا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ اس کی مثال کسی ایسے شخص کی ہے جو گہرے مذہبی گھرانے سے آتا ہے لیکن الحاد پر یقین رکھتا ہے۔ کیا اسے اپنی بیمار ماں کے لیے دکھ پہنچانے کے خطرے کے باوجود اپنے مذہبی خیالات کا اظہار کرنا چاہیے؟ اس طرح کے مسائل سے نمٹنا مشکل ہے۔ میری اپنی سوچ تو یہ ہے کہ کوئی معروضی سچائی نہیں ہوتی اور انسانی رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ تاہم یہاں ایسے معاملات پر ایک ممکنہ عمومی مشورہ ہے۔ میری رائے میں، صحیح راستہ تلاش کرنے اور اخلاقی رویے کی سچائی جاننے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے اعمال کو عام کرنے میں پوری طرح مطمئن محسوس کرتا ہو تو اس عمل کو درست سمجھا جانا چاہیے۔ سب سے اہم انسان کا ضمیر ہے۔ اگر کسی کام سے ضمیر پوری طرح مطمئن ہو تو جان لینا چاہیے کہ یہ صحیح راستہ ہے۔
جب میری بیٹی تعلیم کے حصول کے لیے ہم سے بہت دور امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں جا رہی تھیں تو میں نے کسی دوسرے باپ کی طرح انہیں ہمیشہ صحیح راستے پر رہنے کی تلقین کی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ صحیح راستہ کیا ہے، خاص طور پر جب نئے معاشرے کی اقدار اس معاشرے سے بہت مختلف تھیں جہاں پورا بچپن گزارا تھا۔ میں نے اپنی بیٹی کو رائے دی کہ ہر وہ بات جو وہ بے دھڑک مجھ سے یا اپنی امی سے شیئر کر سکے وہ ہی صحیح راستہ ہے۔
اگر انسانی ضمیر کا فیصلہ سماجی اور مذہبی اقدار کے بر عکس بھی ہو تو ضمیر کا فیصلہ صحیح ماننا ہو گا۔
جن لوگوں کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے اور جو اپنے خیالات اور اعمال کو سب کے سامنے عام کرنے میں آرام دہ محسوس کرتے ہوں وہ مخلص اور دیانت دار ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر کوئی اپنے ساتھ ایماندار ہے تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی ایماندار اور دیانتدار ہو گا۔
- پرانی یادیں: ایوب خان کا زوال اور مارشل لا - 06/07/2025
- پرانی یادیں : بھارت کے خلاف 1965 کی جنگ - 30/06/2025
- پرانی یادیں: ایوب خان بمقابلہ فاطمہ جناح - 23/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).