معاشرے میں مرد کا استحصال اور جنسی گھٹن


Loading

عمومی طور پر اس معاشرے کو ”مرد کا معاشرہ“ کہا جاتا ہے اور یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ عورت ایک انتہائی مظلوم مخلوق ہے جو مرد کی زیادتیوں اور اس کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ اس پدر سری سماج نے عورت کے حقوق غصب کر لیے ہیں اور اسے محض خدمت کرنے اور بچے پیدا کرنے کی مشین بنا دیا گیا ہے۔ عورت پر ظلم و ستم کی داستانیں کچھ اس انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ مرد ایک عفریت نظر آتا ہے اور عورت ایک صبر و ایثار کی دیوی۔ میں اس حقیقت سے انکاری بھی نہیں کہ معاشرے میں اکثر جگہوں پر ایسا ہوتا بھی ہے لیکن سارا سچ یہی نہیں بلکہ مرد بھی استحصال کا شکار ہوتا ہے لیکن اس طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔

مرد کا استحصال مختلف حیثیتوں میں کیا جاتا ہے۔ کبھی بحیثیت باپ کبھی بیٹا۔ کبھی بھائی اور کبھی شوہر وہ صرف ”فرائض“ ہی ادا کرتا رہتا ہے۔ جوان ہوتے ہی اس بیچارے پر ذمہ داریوں کا بوجھ اس قدر ڈال دیا جاتا ہے اور اس سے اتنی توقعات باندھ لی جاتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کبھی نہیں جی پاتا اور جہد مسلسل میں مستقل پستا رہتا ہے۔ جوان ہوتے ہی مان باپ اور خاندان کی ذمہ داریاں۔ پھر شادی کے بعد بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد اور مشقت۔ بیچارہ مرد عجیب سی کشمکش میں جیتا ہے وہ اگر والدین کا خیال رکھے تو بیگم صاحبہ ناراض اور ”ماما بوائے“ کہلائے اگر بیوی کی مانے تو ”زن مرید“ کے طعنے سنے۔

میں نے ایسے متعدد مرد المعروف شوہر دیکھے ہیں جو زبان سے اف نہیں کر پاتے اور اپنے سارے خونی رشتے اور فرائض چھوڑ کر بیوی کے سامنے بے دام غلام کی طرح جھکے رہتے۔ وہ کبھی دونوں فریقین کو مطمئن نہیں کر پاتا۔ اب مرد شکایت کرے تو کس کی وہ ہر رشتے کا مان رکھنے کی کوشش میں خود کو مٹاتا رہتا ہے۔ گھٹتا رہتا ہے اور دھیرے دھیرے مر جاتا ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے اور سماج نے مرد کو بحیثیت باپ بھی وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ مستحق ہے اور اولاد اپنی ساری محبت اور تعظیم ماں ہی کے قدموں پر نچھاور کر دیتی ہے۔ جبکہ مذہب میں باپ کا مقام بھی اتنا ہی بلند ہے جتنا ماں کا ہے۔ قرآن میں کہیں بھی صرف ماں کی تعظیم کا نہیں بلکہ ”والدین“ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں باپ جو ساری زندگی محنت و مشقت سے گھر چلاتا اور خاندان کی پرورش کرتا ہے۔ اپنی ضروریات اور خواہشات کو بیوی بچوں پر قربان کر دیتا ہے ایک خاص عمر یا ریٹائرمنٹ کے بعد گھر کا ناکارہ ترین انسان سمجھ کر سائڈ لائن کر دیا جاتا ہے اور وہ بیوی جو کبھی اس پر جان چھڑکتی تھی بچوں کے جوان ہونے کے بعد اپنے شوہر کے خلاف محاذ بنا لیتی ہے۔ وہ شوہر جو کبھی اس کے سر کا تاج تھا اس کے قدموں میں آ جاتا ہے۔ ماں بچوں کے سامنے اپنے نصیب کو کوستی اور شوہر اور اس کے گھر والوں کی شکایت ہی کرتی نظر آتی ہے عام طور سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ارے ان کو چھوڑو یہ تو ہر وقت بے تکی بولا کرتے ہیں۔ انہوں نے تو ساری زندگی یہی کیا میں ہی جانتی ہوں کہ میں نے کس طرع ان کے ساتھ گزارا کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہ نہ بھولیں کے اگر گھر اور خاندان کے سب سے مضبوط ستون کو عزت نہیں دی جائے گی اور اس کے فیصلوں کی اہمیت نہیں ہوگی تو وہ گھر ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔

میں عورت، بیوی، بیٹی یا ماں کے رتبے یا ان کی اہمیت کا قطعی منکر نہیں لیکن مرد کی اہمیت کم نہیں کی جا سکتی اور یہی قانون قدرت بھی ہے۔

یہ نہ بھولیں کہ سورج گرم ضرور ہوتا ہے لیکن زندگی اسی کے دم سے ہوتی ہے۔

مرد کا جنسی استحصال ہمیشہ ہی سے ہوتا آیا ہے۔ زمانہ قدیم میں کمسن لڑکوں کو جبری طور پر خصی کر کے انہیں مردانہ خصوصیت سے محروم کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ بادشاہوں اور امرا کے محلوں میں بطور خواجہ سرا مقرر کئیے جا سکیں۔ اس سے بڑا ظلم کسی مرد پر اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی مردانگی اور شناخت ہی مٹا دی جائے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج بھی اگر کوئی بچہ کسی خاندان میں ایسا غیر معمولی پیدا ہو جائے تو خود اس کے والدین، عزیز اقارب اور معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں وہ بچہ یا تو خواجہ سراؤں کی پناہ میں چلا جاتا ہے اور سیکس ورکر بن جاتا ہے یا پھر سڑکوں پر بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی انہیں کوئی رعایت نہیں دی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔

اب ایک نظر معاشرے میں مرد کی جنسی محرومیاں پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ کبھی کسی نے کوشش کی کہ مرد سے بھی پوچھے کہ وہ کیسے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتا ہے۔ ہماری عورتیں خاص طور سے بیویاں نجانے کون سا ”پیار“ کرتی ہیں کہ کبھی اس کا اظہار شوہر سے نہیں کرتیں۔ کبھی شوہر کی تعریف اس کے منہ پر نہیں کریں گی نہ ہی کبھی اس کے لیے کوئی تعریفی جملہ کہیں گی البتہ ٹوہ میں لگ جائیں گی کہ اتنا تیار ہو کے کیوں اور کہاں جا رہا ہے۔ مرد کی پرسنل زندگی، پرانے دوست یار حتیٰ کہ والدین اور بھائی بہنوں سے بھی ملنے پر بھی بیگم کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ کیا بیوی کا سارا پیار دن بھر چولھے میں گھسے رہنا اور بچے پالنا ہی ہے۔ سارے دن کے بعد شوہر گھر تھکا ماندہ آتا ہے تو ایک بدمزاج اور چڑچڑی عورت جس کے پاس سے لہسن پیاز کی بو ملتی ہے۔ وہ کبھی مرد کو ہنس کر خوش آمدید تو نہیں کہتی لیکن سارے دن کے دکھڑے۔ ساس نند کی برائیاں فوراً گوش گزار کر دینا ضروری سمجھتی ہے۔ وہ شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کو معیوب سمجھتی ہے لیکن اگر کہیں باہر جانا ہو تو سنگھار بھی ہو گا اور خوبصورت لباس بھی پہن لیا جائے گا۔ کیا اپنے شوہر کو لبھانا اور اسے خوشی دینا اہم نہیں۔

سارے دن کی مشقت کے بعد جب مرد بستر پر آتا ہے اسے ایک ایسی عورت ملتی ہے جس میں نہ تو کوئی جاذبیت ہوتی ہے اور نہ ہی خود سپردگی۔ اسے مرد کی ضرورت اور احساسات کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے اور اس بے حسی کو ”شرم و حیا“ کے پردے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔

زمانہ قدیم میں رگ وید اور سنسکرت کے شاستروں میں بھی جنسی عمل کی باقاعدہ تعلیم دی گئی ہے۔ کاما سوترا اور کوک شاسترا کو تو ایک آرٹ کی حیثیت حاصل ہے۔ اجنتا الورا کے قدیمی گپھاؤں میں پتھروں پر کھدے مرد اور عورت کے جنسی ملاپ کو مختلف آسن، گوپی اور اپسرا کے مجسمے بتاتے ہیں کہ مرد اور عورت کا ملاپ دیوی دیوتاؤں کا شیوہ ہے۔ اسی ہزاروں سال پہلے قدیم تہذیبوں اور مذاہب میں بھی سیکس کی تربیت دی جاتی تھی یہاں تک کہ جنسی اعضاء کی پوجا کی جاتی تھی۔ میسوپوٹیما اور قدیم مصر کی تہذیب میں بھی مرد اور عورت کے ملاپ کو اہمیت حاصل تھی اور اس کی تعلیم دی جاتی تھی۔

تخلیق کائنات کے بعد خدا نے آدم کی تنہائی دور کرنے کے لیے حوا کی تخلیق کی اور یہی ملاپ نسل آنسانی کی بنیاد بنا۔

دین اسلام میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت ہے اور عورت مرد کے ملاپ کو نکاح کی آسان شرائط سے ممکن بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پرانے وقتوں میں کنیز، لونڈیاں اور مملوکاؤں سے تعلقات بھی رائج تھے۔ یہ اصول عین فطرت پر مبنی تھا کہ چرند ہوں یا پرند نر کی تعداد بنسبت مادہ کم ہوتی ہے کہ نر کے اسپرم زیادہ سے زیادہ پھیلیں جو افزائش نسل کے لیے بھی ضروری ہے۔

یہ ایک المیہ ہے ہمارے سماج میں شرم و حیا کی آڑ میں جذبات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ عورت کی طرف سے جنسی عمل میں رغبت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ شاید اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیکس کو ایک ٹابو Tabu سمجھا جاتا ہے اور جنسی عمل کو مثل گناہ یا بے حیائی تصور کیا جاتا ہے۔ اکثر خواتین یہ عمل بہت ناگواری اور بے رغبتی کے ساتھ ایک نا پسندیدہ فعل سمجھ کر بھگتاتی ہیں۔ بیوی کی سیکس سے بیزاری اور اسے ایک ناپسندیدہ عمل سمجھنے کی وجہ سے وہ اس عمل کو ایک جبر کی طرح بھگتاتی ہے اگر مرد دوران سیکس لگے بندھے طریقوں سے ہٹ کر کچھ چاہے تو پھر وہی شرم و حیا آڑے آتی ہے اور مرد کی جنسی تسکین نہیں ہوتی۔ ایسے میں مرد کی نگاہیں بھٹکتی ہیں اور وہ اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لیے دوسری شادی یا کسی سے آشنائی کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اکثر مرد اسی کو مقدر سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں کچھ خود کو مذہب کی آڑ میں چھپا لیتے ہیں اور اپنی جنسی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اسی جنسی ناآسودگی اور فرسٹریشن کی وجہ سے کچھ شوقین مزاج وہ ”سب کچھ“ جو انہیں اپنے گھر میں نہیں ملتا باہر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدرتی جبلتوں سے فرار تو ممکن نہیں اگر اس کی تسکین نہ ہو تو اس کے حصول کے لیے اکثر مرد غیر فطری راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ جو یقیناً غلط ہے اور معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں۔

جنسی عمل میں جب تک دونوں فریقین میں گرم جوشی نہیں ہوگی تو وہ ایک بے کیف اور اکتا دینی والی ایکسرسائز سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر یہی عمل بیزاری سے جاری رہے تو رفتہ رفتہ اس سے رغبت بھی ختم ہو جاتی ہے اور پھر زندگی ایک بنجر صحرا بن کر رہ جاتی ہے۔

اور وہ افراد جو ”مذہبی“ ہو جاتے ہیں اور خود کو ”ملکوتی صفات“ کا حامل سمجھتے ہیں وہ اس جنسی تشنگی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ عام آدمی کے مقابلے میں اس کے پاس جنس مخالف سے ملنے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور جنسی تشدد معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اکثر والدین غربت سے تنگ آ کر اپنے کمسن بچوں کو مدارس میں ڈال دیتے ہیں جہاں جسمانی اذیت کے علاوہ ان پر جنسی تشدد بھی ہوتا ہے اور پھر شاید وہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اپنی محرومیوں اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہوتا ہے اس کے انتقام کے طور پر وہی عمل اپنے سے چھوٹے بچوں پر دہراتے ہیں۔ نوجوانی کی عمر تک پہنچنے پر ان معصوموں پر زہد و تقویٰ کا لبادہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن فطری جبلت سے گریز ممکن نہیں اور وہ بالآخر رنگ دکھاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ مدارس اور دوسری عبادت گاہوں میں آئے دن کمسن بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ ریپ اور غیر فطری جنسی واقعات کی ایک بڑی وجہ بھی شاید یہی گھٹن اور نا آسودگی بوتی ہے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ جنسی ناآسودگی شہری مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس میں زیادہ عام ہے جبکہ ہائی کلاس اور دیہی اور پسماندہ طبقوں میں یہ ڈائیلیما کم ہے شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ ہائی سوسائٹی کی طرح پسماندہ طبقے اور دیہی معاشرے میں مرد اور عورت کا اختلاط نسبتاً آسان ہے جبکہ شہری مڈل کلاس اپنی طے شدہ روایات کی پاسداری میں اس قدر آگے نکل جاتی ہے کہ وہ خود پر ہر خوشی حرام کر لیتی ہے۔ ”لوگ کیا کہیں گے“ یا پھر محدود وسائل اور دوسری مجبوریوں کی بنا پر بر وقت شادی نہ ہونا اور معاشرتی قیود کے باعث اگر وہ خود پر جبر بھی کر لیں تو ذہنی طور پر جنسی بھوک کا شکار ضرور ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈوپامین ایفیکٹ اور سیکس ہارمونز کا بہاؤ انہیں بے چین رکھتا ہے جس کے باعث وہ خود لذتی اور کسی دوسرے طریقے سے اپنی اٹھتی جوانی کو تسکین دیتے ہیں جس سے ان کی تعلیم، صحت اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

اس موضوع پر ماہر نفسیات اور سیکسولوجسٹ نے بہت کچھ لکھا خاص طور پر سگمنڈ فرائیڈ نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

چند ماہ ہوئے کینیڈا سے ٹی وی ون سے نشر ہونے والے ایک پروگرام نفسیات ٹی وی ون پر ڈاکٹر بلند اقبال اور ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل نے اس موضوع پر بہت اچھی گفتگو کی تھی۔ امید ہے اس موضوع پر مزید بات ہو گی تاکہ شعور آور آگہی کا سفر جاری رہے۔

آج کے دور میں ضروری ہے کہ نوجوانوں کو صحتمند تفریح کے ساتھ سیکس ایجوکیشن بھی دی جائے اور اسے شجر ممنوعہ سمجھنے کے بجائے بات کی جائے۔ جنسی عمل قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے جو باہمی پیار، مسرت اور نسل انسانی کے لیے ضروری ہے۔ ایک جنسی طور پر مطمئن فرد ہی ایک صحتمند معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔

جنسی جذبہ ہر جاندار حتیٰ کہ پھول پودوں میں بھی پایا جاتا ہے اور یہی عین فطرت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صحتمند تفریح کے ساتھ سیکس ایجوکیشن بھی دی جائے اور اسے شجر ممنوعہ سمجھنے کے بجائے اس پر بات کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments