خواتین میں‌ برتھ کنٹرول کے طریقے


جب ہم لوگ کراچی میں‌ رہتے تھے تو میری عمر نو سال تھی اس لیے آج کل کے کراچی کے بارے میں زیادہ پریکٹیکل انفارمیشن نہیں‌ ہے۔ آج کل کراچی کے ایک میڈیکل کالج کی تازہ گریجوئیٹ جو میرے ساتھ رہ رہی ہے اس سے کچھ باتیں‌ پتا چلیں اور کچھ میڈیکل الفاظ کا آج کل استعمال ہونے والا ترجمہ بھی معلوم ہوا۔ اس نے ایک اصلی واقعہ بتایا۔ کہتی ہے کہ جب میں‌ میڈیکل کالج کے تیسرے سال میں‌ تھی تو ہم مریضوں‌ کی ہسٹری اور فزیکل کررہے تھے۔ ایک مریض آئے اور انہوں‌ نے کہا کہ میرے چھ بچے ہیں‌ اور میں نہیں چاہتا ہوں‌ کہ مزید ہوں، حفاظتی اقدام بھی کررہا ہوں‌ لیکن کچھ فائدہ نہیں‌ ہو رہا۔ آپ کیا استعمال کررہے ہیں؟ میڈیکل اسٹوڈنٹ نے سوال کیا۔

تو وہ پہلے جھجھکے پھر بولے کہ غبارہ استعمال کرتا ہوں۔ وہ کس طرح‌؟ وہ بولے کہ بیوی سے ملنے سے پہلے اس کو پورے پندرہ منٹ چباتا ہوں! یہ سن کر میڈیکل اسٹوڈنٹ نے کہا کہ دو منٹ ٹھہریے، پھر وہ کمرے سے باہر گئی اور بہت ہنسی۔ اس کے بعد واپس آکر سپاٹ چہرے کے ساتھ کچھ خود بھی سمجھانے کی کوشش کی اور پھر اٹینڈنگ ڈاکٹر کو بھی بتایا تو انہوں‌ نے مریض کو کچھ بہتر طرح‌ سے تعلیم دی۔ ہماری قوم کو تعلیم دینے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور وہ کون کرے گا؟

لاڑکانہ میں‌ میڈیکل کالج کے دوران شیخ زائد ہسپتال میں‌ اوبی گائنی میں‌ روٹیشن کرنے کا موقع ملا جس میں ملک کی خوفناک صورتحال میرے سامنے کافی واضح ہوگئی۔ جو بھی پاکستان میں‌ خواتین کے ہسپتال میں‌ کام کرلے گا اس کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ دنیا میں‌ سے 100 ملین خواتین کیوں غائب ہیں؟ ان بدسلوکی کی وجہ سے مرجانے والی خواتین کی زیادہ تعداد ساؤتھ ایشیا، ایسٹ ایشیا اور افریقہ میں‌ ہے۔ حالات بہت خراب ہیں اور آنکھوں‌ پر پٹی باند کر زندگی نہیں‌ گذاری جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر سہیل سے بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ انہوں‌ نے بھی پشاور میں خواتین کے ہسپتال میں کام کرنے کے دوران ایسے ہی سارے کیسز دیکھے تھے جو میں نے لاڑکانہ میں دیکھے تھے۔

جس طرح‌ قانون دان طرح‌ طرح‌ کے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح‌ ڈاکٹرز بھی مختلف طرح کے ہیں۔ میں‌ ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ چونکہ میں‌ نے پٹسبرگ پینسلوانیا کے مرسی ہسپتال میں‌ ریذیڈنسی کی تھی، برتھ کنٹرول کے بارے میں‌ زیادہ نہیں‌ سکھایا گیا تھا کیونکہ وہ ایک کیتھولک ہسپتال ہے اور کیتھولک برتھ کنٹرول کے خلاف ہیں۔ جب اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ میں‌ وزن گھٹانے کی نئی دوائیں نکلیں تو چونکہ وہ حمل کے دوران ممنوع ہیں، اس لیے خواتین کا پریگننسی ٹیسٹ کرنا اور ان کو برتھ کنٹرول پر رکھنا ضروری ہے، اس طرح‌ میرا تجربہ کچھ بہتر ہوگیا۔ پھر بھی اس مضمون کو مکملل نہ سمجھا جائے بلکہ اس موضوع پر پڑھائی جاری رکھیں اور لوکل ڈاکٹرز سے رجوع کریں۔

سب سے پہلے تو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ساؤتھ ایشین سوسائٹی شادیوں کے گرد گھومتی ہے۔ شادی کرنے سے پہلے سب سے اہم سوچنے کی بات شادی ہال، کپڑے، زیور یا کھانا نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے بچوں‌ کی صحت اور زندگی ہے۔ جو خواتین یہ مضمون پڑھ رہی ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس کے پیٹ میں‌ پھنس کر دونوں‌ ماں اور بچہ مر جاتے ہیں ان معاملات میں انہی کی مرضی ہونی چاہیے۔ میری اپنی نانی سے پہلے جو نانا کی بیوی تھیں وہ بھی پہلے بچے کی پیدائش میں‌ ایسے ہی مر گئی تھیں۔ میری نانی بریسٹ کینسر سے مر گئیں اور میری امی کے ڈھیر سارے بچے ہوئے، ان کا وزن حد سے بڑھ گیا اور ان کو ذیابیطس ہوگئی۔ ہمیں اس خوفناک دائرے سے خود کو نکالنا ہے اور اپنی بیٹیوں کو بھی۔ آپ کو خود پتا ہونا چاہیے کہ اپنی زندگی اور صحت کے لیے آپ کو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک خلیے کے جاندار امیبا کے گرد بھی سیل وال ہوتی ہے حالانکہ وہ اتنا چھوٹا ہے کہ بغیر خوردبین کے دکھائی بھی نہیں‌ دیتا، آپ ایک انسان ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان میں بچے کی پیدائش کے دوران ماؤں کی موت کی شرح‌ بقایا دنیا سے زیادہ ہے اور ان کے بچوں‌ میں‌ موت کی شرح‌ بھی باقی دنیا سے زیادہ ہے۔ امید ہے کہ لوگ سمجھیں‌ گے کہ یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ شادی کرتے ہی بچے پیدا کرنا شروع کریں‌ تو اس کے کچھ سماجی مسائل بھی ہیں۔ چونکہ ساؤتھ ایشیا میں اب بھی زیادہ تر شادیاں ارینجڈ ہوتی ہیں کافی لوگ بچے ہونے کی وجہ سے ناخوش شادی میں‌ جڑے رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب کسی دیسی بھانجی کی شادی کی دعوت ملے تو لبنیٰ آنٹی تحفے میں‌ برتھ کنٹرول کی گولیاں‌ اور امتحان کی فیس بھیجتی ہیں۔ وہی میری ویلیوز ہیں۔ بچے کم پیدا کرو، اپنی صحت کا خیال کرو، پڑھائی کرو، خود کو سنبھالو اور اپنے اردگرد کی دنیا کو بھی۔ دس لاکھ بچے جو کراچی کی سڑکوں‌ میں‌ اپنے جسم بیچ رہے ہیں اور گوند سونگھ کر مر جاتے ہیں وہ کہاں‌ سے آئے؟ وہ ہمارے ہی بچے ہیں۔

فیملی پلاننگ یا بچوں‌ کے درمیان وقفہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

1۔ برتھ کنٹرول گولیاں

امریکہ میں برتھ کنٹرول کی گولیاں‌ باقی طریقوں سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ بنیادی طور پر برتھ کنٹرول گولیاں اووری میں سے اووم نکلنے سے روکتی ہیں۔ یہ مستقل طریقہ نہیں‌ ہے اور جب گولیاں‌ کھانا بند کردیا جائے تو حمل ہوسکتا ہے۔ برتھ کنڑول کی گولیاں‌ کھانا روزانہ یاد رکھنا ضروری ہے اور وقت پر ری فل لینا بھی۔ جو لوگ زیادہ ڈسپلن کے پابند نہ ہوں‌ اور باقاعدگی سے گولیاں‌ نہ کھائیں تو ان کو یہ طریقہ فائدہ نہیں‌ دے گا۔

2۔ برتھ کنٹرول امپلانٹ

برتھ کنٹرول کے لیے 2011 میں‌ امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے نیکسپلنان کی فروخت کی اجازت دی۔ یہ ایک دھات کی چھوٹی سی راڈ ہے جس کو جلد کے نیچے لگا دیتے ہیں۔ اس پروسیجر میں‌ صرف ایک منٹ لگتا ہے۔ یہ تین سال کے لیے فائدہ مند ہے۔ تین سال سے پہلے بھی نکلوا سکتے ہیں لیکن ہر تین سال کے بعد نیا لگوانا ہوگا۔ اس طریقے میں‌ ناکامی کا چانس ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک محفوظ طریقہ ہے۔ جن مریضوں‌ نے سائڈ افیکٹ کی شکایت کی ان میں‌ سے زیادہ تر کو یا تو سر میں درد کی شکایت ہوئی یا پھر حیض مختلف دورانیے سے ہوئے۔ جو خواتین سگریٹ نوشی کریں‌، ان میں‌ خون جمنے کا چانس بڑھ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ حمل اور بچے کی پیدائش سے صحت اور جسم پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ سائڈ افیکٹ ان کے مقابلے میں‌ بہت معمولی مسائل ہیں۔

3۔ برتھ کنٹرول انجیکشن

ڈیپو پروویرا ہر تین مہینے میں‌ ایک دفعہ لگوانا ہوتا ہے۔ اگر انجیکشن لگنے میں‌ دو ہفتے دیر ہوجائے تو اگلا انجیکشن لگوانے سے پہلے حمل کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہوگا۔ ڈیپو انجیکشن بھی مؤثر ہے۔ اس کا استعمال کرنے والی خواتین میں‌ حمل کا چانس صرف تین فیصد ہے۔

4۔ آئی یو ڈی

آئی یو ڈی یعنی کہ انٹرا یوٹرین ڈیوائس جس کو کراچی میں‌ چھلا کہتے ہیں، کاپر دھات کا بھی ہوتا ہے اور ہارمون والا بھی۔ اس کو بچہ دانی میں‌ لگا دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک مفید طریقہ ہے جو کہ کئی سال کے لیے کام کرتا ہے۔ آئی یو ڈی مستقل نہیں ہے اور جب بھی نکال دیں‌ تو بچے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس میں بھی کامیابی کا چانس 99 فیصد تک ہے۔

5۔ ٹیوبل لائگیشن

جن خواتین کے دو یا تین بچے ہو چکے ہوں‌، ٹیوب بند کروادینا ایک انتہائی مفید طریقہ ہے جس کے بعد مستقل طور پر بچے پیدا کرنے بند کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد کسی اور علاج یعنی کہ گولیاں یا سوئیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

6۔ کیلنڈر میتھڈ

یہ بہت زیادہ کامیاب طریقہ نہیں‌ ہے لیکن مفت ہے۔ ہر خاتون کا حیض کا سائکل مختلف ہے جو کہ عموماً 28 دن کا ہوتا ہے۔ چودھویں دن اوویولیشن ہوتی ہے یعنی اووم اووری سے نکلتا ہے۔ اس وقت ہی حمل ٹھہرنے کا چانس ہوتا ہے۔ اگر کیلینڈر پر دھیان دیا جائے اور جنسی ملاپ سے پرہیز کیا جائے تو اس طریقے سے بچوں‌ کی پیدائش میں‌ وقفہ کرسکتے ہیں۔ مدر ٹریسا انڈیا میں‌ خواتین کو کیلنڈر میتھڈ سکھاتی تھیں جو کہ ان کے کیتھولک اصولوں کے خلاف نہیں‌ تھا۔ یہاں‌ پر مجھے مدر ٹریسا سے اختلاف ہے کیونکہ انہوں‌ نے ساؤتھ ایشیا کے ایک بہت بڑے مسئلے کو نظر انداز کردیا۔ ساؤتھ ایشیا میں‌ ایک خاتون کی اپنی کوئی شخصیت یا مرضی کا کانسپٹ ابھی اتنا سمجھا نہیں‌ جاتا جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں‌ ہے۔ آج بھی وہ ملکیت ہیں۔ ابھی تبدیلی آنے میں‌ کچھ وقت لگے گا۔ خواتین سمجھیں کہ طاقت کبھی دی نہیں جاتی، طاقت لی جاتی ہے۔

برتھ کنٹرول کے موضوع پر مجھے کیتھولک چرچ سے اختلاف ہے۔ ان کو خواتین اور بچوں‌ کی صحت سے زیادہ اپنے آپ کو طاقت ور بنانے میں‌ دلچسپی ہے حالانکہ خود کو طاقت ور بنانے کا یہ درست طریقہ بھی نہیں ہے۔ جہاں‌ خواتین کی صحت خراب ہو اور وہ تعلیم یافتہ نہ ہوں‌ تو ان کی وجہ سے ان کے بچوں اور گھر پر بھی منفی اثر ہوتا ہے۔ وہ کمزور گھروں کے کمزور افراد ہوتے ہیں جن کو طاقت ور لوگ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے جو روز بروز ہاتھ سے باہر ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے غریبی اور بدحالی میں‌ اضافہ ہوا ہے۔ اس مضمون میں آسان زبان میں‌ کچھ بنیادی انفارمیشن دینے کی کوشش کی ہے اور امید ہے کہ اس سے کچھ لوگوں‌ کو فائدہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).