ہم جنس پرستی کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟


جدید دنیا میں ہم جنس پرستی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بیشتر مغربی ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو تشدد اور امتیازی سلوک سے بچانے کیلئے باقاعدہ قانون سازی بھی ہے۔ کئی ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں ہم جنس پرست کو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ خواہ کتنا ہی اچھا ملازم ہو۔ ہم جنس پرستوں کو کرایہ پر مکان کے حصول اور ریستورانٹس میں کھانے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بعض مسلم ملکوں میں اس قبیح فعل کے عادی افراد کو جیل میں ڈالا جاتا ہے جبکہ ان کو موت کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 197 9کے بعد سے ایران میں تقریبا 4000 ہم جنس پرستوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ برطانیہ میں بھی پہلے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن آج انھیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس قانون کے مطابق بالغوں کے بیچ جنسی تعلقات جرم نہیں ہے۔ یہاں ہم جنس پرست مرد اور خواتین آپس میں شادی تو نہیں کرسکتے، لیکن ان کے درمیان شہری شراکت داری ہوسکتی ہے جس کے تحت شادی سے متعلق کچھ حقوق اور فوائد حاصل ہوسکتے ہیں. ہم جنس پرست مرد فوج میں ملازمت حاصل کرسکتے ہیں.وغیرہ۔۔

اقوام متحدہ تمام اداروں رکن ملکوں کو ہم جنس پسندوں کے حقوق کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی سختی سے کارروائی کی جائے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے۔

کچھ ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے کی اجازت ہے۔ ان ملکوں میں ہالینڈ، ناروے، بیلجیم، اسپین، جنوبی افریقہ، سویڈن اور کینیڈا شامل ہے۔ ہالینڈ میں سب سے پہلے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت ملی۔ ہالینڈ میں یہ قانون 2001 میں منظور ہوا تھا۔ اسپین میں 2005 میں اسے قانونی حیثیت عطا کی گئی۔ سب سے آخری میں کینیڈا نے ان شادیوں یعنی ’’گیے میریج‘‘ کو تسلیم کیا۔ سویڈن کے اسٹاک ہوم جیسے مغربی تہذیب کے مراکزمیں ہم جنسی پرستی کی شادیوں کا رواج کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2009ء میں حکومت نے اسے قانونی حیثیت دی۔ مصر میں ہم جنس پرستی پر قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں لیکن معاشرے میں اس کو اب بھی برا سمجھا جاتا ہے۔

ایران میں ہم جنس پرست مردوں یا خواتین کو اپنی جنس تبدیل کروانے پر مجبور کرنا سرکار کی پالیسی نہیں لیکن ان لوگوں پر شدید دباؤ ہوتا ہے۔ 80 کی دہائی میں ایران کے آیت اللہ خمینی نے لوگوں کو اپنی جنس بدلوانے کی اجازت دینے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ حکومت کی پالیسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مخنث ایرانیوں کو اپنی زندگی کو پوری طرح جینے میں مدد دی جا رہی ہے اور انھیں دوسرے ممالک سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو بھی جنس کی تبدیلی کی سرجری کی طرف مائل کیا جا رہا ہے جو مخنث نہیں، بلکہ ہم جنس پرست ہیں۔ سال 2006 میں 170 سرجریز کی گئی تھیں جو 2010 میں 370 ہو گئیں۔ ایک ایرانی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ صرف وہ ہر سال کم از کم 200 آپریشن کرتے ہیں۔

1970  کے بعد سے behavioral۔ social sciences اور صحت اور ذہنی صحت کے پروفیشنلس نے عالمی سطح پر اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ہم جنس پرستی انسانی جنسی رجحان کی ایک عام تبدیلی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اسے ڈس‌ آرڈر سمجھتے ہیں آج بھی اپنے خیالات پر قائم ہیں۔ 1973 میںAmerican Psychiatric Association  نے ہم جنس پرستی کو ایک ذہنی خرابیmental disorder  کی درجہ بندی سے خارج کر دیا ہے۔ اس کے بعد American Psychological Association Council کے نمائندوں نے 1975 میں اور دیگر دماغی صحت کے تنظیموں سمیت 1990 میں عالمی ادارہ صحت نے بھی آخرکار اسے declassified کر دیا تھا۔ جبکہ American Psychiatric Association اور American Psychological Association  کا ماننا ہے کہ حالیہ ریسرچ اور کلنیکل لٹریچر واضح کرتے ہیں کہ ہم جنس پرستی۔ ہم جنس کی طرف رومانی طورپر راغب ہونا ،احساسات ہونا انسانی جنسیات کے نارمل اورمثبت تنوع ہے۔

ہم جنس پرستی سے متعلق سگمنڈ فرائیڈ کے خیالات پیچیدہ تھے۔ انھوں نے ہم جنس پرستی کے فروغ اور وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سب سے پہلے bisexuality کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کا کہنا کہ دوجنسیت پرستی دراصل جنسی طلب کا ایک عام حصہ ہے۔ ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ سگمنڈ فرائیڈ کا ماننا ہے کہ تمام انسان پیدائشی طور پر دوجنسیت پرست ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ libido شہوت یا جنسی لیاقت میں ہم جنس پرستی ہم جنس پسندی اور مخالف جنس پرستی heterosexual کی خواہیش ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک دوسرے پر جیت کا course of development ہے۔ وہ قدرتی bisexuality کیلئے بنیادی حیاتیاتی وضاحت پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے مطابق انسان حیاتیاتی طور پر دونوں اقسام کے سکیس کیلئے پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے وہ وضاحت کرتا ہے کہ ہم جنس پرستی عوام کو دستیاب مختلف جنسی متبادلات میں سے ایک ہے۔

فرائیڈ نے تجویز پیش کی کہ انسانی موروثیت bisexuality کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسی رہنمائی کی وجہ سے افراد بالآخر منتخب کرتے ہیں کہ جنس پرستی کا کونسا طریقہ زیادہ تسکین بخش ہے۔ لیکن ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے لواطت پرستی کے جذبات بہت سے لوگوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ فرائیڈ کے مطابق اگر کوئی پابندیاں نہ ہو تو عوام اس طریقہ کار کا انتخاب کریں گے جسے وہ زیادہ تسکین بخش سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وہ پوری زندگی گذار دیں گے۔ کبھی ہم جنس پرست تو کبھی مخالف جنس پرست بن کر۔

ہم جنس پرستی کے دیگر اسباب میں وہ معکوس لاشعوری پیچیدگی (Oedipus complex) کو بھی شامل کرتا ہے جس کے تحت ایک لڑکا خود اپنی ماں اور لڑکی اپنے باپ کے ساتھ جنسی تعلقات کے خواہیش مند ہوتے ہیں۔ اس خواہیش کو خودپرستی کہا جاتا ہے۔ فرائیڈ کا خیال تھا کہ جن میں خودپرستی کی خاصیت زیادہ ہوتی ہے ان میں ہم جنس پرستی کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جنس سے محبت خودپرستی کی توسیع ہے۔

ہم جنس پرستوں کا دعوی ہے کہ انسان کے جسم و دماغ میں کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جن کے باعث اس کا فطری میلان صنف مخالف کی بجائے اپنی ہی صنف کی طرف ہو جاتا ہے۔ یہ میلان ان کے ڈی این اے میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انحراف اختیاری نہیں ہوتا اس لیے معاشرے کو ہم جنس پرستوں کو قبول کر لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3