باصرسلطان کاظمی کی غزلیں


اپنے پہلے شعری مجموعے ”موج خیال“ کا انتساب باصر سلطان کاظمی نے اپنے والد ناصر کاظمی کے نام کرتے ہوئے یہ مصرع لکھا ہے : ”تونے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی“۔  یہ بات بھی درست ہے کہ والد کی زندگی ہی میں ان کی شعر گوئی کا آغاز ہوچکا تھا۔ ناصر نے کتنا سکھایا یا باصر نے کتنا سیکھا، اس کا فیصلہ آسان نہیں مگر اتنا اندازہ مشکل نہیں کہ ناصر کاظمی کے اثرات باصر سلطان کاظمی کی شاعری پر دور تک نظرآتے ہیں۔  خاص طور سے شعر کی فضا بندی میں ان کا ایک عکس ضرور ابھرتا ہے۔

یہ دھندلا مگر دل پذیر عکس باصر سلطان کاظمی کے ہر دور کی شاعری میں نظر آتا ہے۔  ناصر کاظمی کی شاعری کے یہ اثرات 1960 ءکے بعد کے پچاسوں شعرا کے یہاں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ اس عہد کی شاعری اپنے رنگ و آہنگ کے اعتبار سے جن شعرا کی وجہ سے مختلف ہوئی، ان میں سب سے اہم شاید ناصر کاظمی ہی ہیں۔  اس لیے باصر پر ان کے اثرات نہ ہوتے، تب ہمیں تعجب ہوتا۔

باصر سلطان کاظمی نے اپنے کلیات ”شجر ہونے تک“ میں غزلوں، نظموں کے ساتھ منظوم تراجم اور ڈراموں کو بھی شامل کیا ہے۔  ”موج خیال“ ( 1997ء)، ”چمن کوئی بھی ہو“ ( 2009 )، ”ہواے طرب“ ( 2015 ء) اور ”چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں“ ( 2015 ء) میں محفوظ سرماے کو ایک سلسلے سے پڑھتے ہوئے کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔  باصر نے اپنے مجموعے میں سب سے پہلا کلام 1968 ء کا شامل کیا ہے۔  اس اعتبار سے اب ان کی مشق سخن نصف صدی کا قصہ ہے۔

یہ بھی خوب کہ وقفے وقفے سے شعر گوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ اب اگر کوئی شاعر پچاس برسوں سے شعر کہہ رہا ہو اور اس کے چار منتخب مجموعے شایع ہو چکے ہوں، مجموعوں کی متعدد اشاعتیں بھی عمل میں آئی ہوں، دوسری زبان میں اس کے تراجم بھی سامنے آچکے ہوں ؛ ایسی صورت میں ہم کیا اسے صرف اسی چوکھٹے میں دیکھتے رہیں جو ناصر کاظمی نے تیار کیا تھا یا ہمارا یہ بھی کوئی فرض ہے کہ اسے آزادانہ طور پر غور و فکر کا حصہ بنائیں اور اس کے ذاتی اکتساب شعر کو پہچاننے کی مشقت کریں۔  یوں بھی اتنی طویل مدت تک کوئی بھی فن کار کسی دوسرے شاعر کی پرچھائیں میں نہیں بیٹھ سکتا!

اردو شاعری کے ہم عصر منظرنامے پر باصر سلطان کاظمی کا اختصاص شعر کیا ہے، اسے سمجھنا قدرے مشکل اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ کسی آزمائے ہوئے راستے کے مسافر معلوم نہیں ہوتے۔  ناصر کاظمی کے شعری تجربات و موضوعات کے حوالے سے بھی پرکھنے کی کوشش کی جائے تو باصر سلطان کاظمی کے ادبی سرماے کا ایک بڑا حصہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔ اردو کی ادبی روایت میں آخر انھیں کن کن حوالوں کے ساتھ پہچانا جاسکتا ہے؟ زبان کے اعتبار سے انھیں ان کے والد کی طرح میر، نظیر اور فراق کے ساتھ ساتھ خود ناصر کاظمی کی روایت سے وابستہ سمجھا جاسکتا ہے مگر نفس مضمون کے لیے سودا، مصحفی، آتش، یگانہ اور شاد عارفی جیسے شعرا کو سامنے رکھنا چاہیے کیوں کہ ان کے یہاں موجود خود اختیار کردہ ظریفانہ خو اور ایک سلیقہ مند رکھڑاپن ایسے اوصاف شعر ہیں جنھیں اردو غزل کی روایت میں تھوڑا بہت انھی بزرگوں کے طفیل قبول کیا گیا تھا۔ مگر باصرسلطان کاظمی سے پہلے اردو شاعری میں شاید ہی کسی فن کار کو ایسا حوصلہ ملا ہو کہ وہ مذکورہ دو متضاد اور متخالف روایات شعر گوئی کو ایک ساتھ آزماکر ایک نئے انداز کا شعری پیکر وضع کر سکے۔

غزل کی روایت کا جبر اتنا مستحکم ہے کہ ہر نئے تجربے اور انداز کے لیے شاعر کو قدم قدم پر مختلف طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  ہر بار روایت پہاڑ کی طرح آکر ہمیں نئے راستوں پر چلنے سے روکتی ہے کیوں کہ اس صنف کی اپنی ایک تنومند دنیاآباد ہے اور شاعر اگر چاہے تو اسی کی سیر کرکے بڑا کارنامہ پیش کرسکتا ہے۔  مگر ہر بڑا شاعرپہاڑ کاٹتے ہوئے اپنے لیے ایک مختلف راستہ بناتا ہے کیوں کہ بنے بنائے راستوں پر چلنے والے عہد ساز تو نہیں ہوسکتے!

ہمارے بزرگوں نے غزل کے مزاج کو بار بار بدلا اور اس بدلے ہوئے انداز کو بعد والوں نے غزل کی روایت میں شامل کرکے آیندہ کا سفر طے کیا۔ یہی اس بڑی صنف کی تاریخ اور روایت ہے۔  اسی لیے باصر سلطان کاظمی نے غزل کی نرم، سادہ اور غیر فارسی آمیز زبان میں ہلکا سا طنزیہ اور ظریفانہ لہجہ اظہار کی بے تکلفی کے ساتھ پیش کرکے جو شعری سرمایہ تیار کیا ہے، وہ بلاشبہ اردو شاعری کا نیا، انوکھا اور قابل توجہ حصہ ہے۔  یہ مکھی پر مکھی بٹھانے والی شاعری نہیں، دوسروں کے بنے بنائے راستوں کی ہم سفری نہیں بلکہ اس شاعری کی ایک ایک سانس اور دھڑکن باصر سلطان کاظمی کی اپنی ہے ؛ اس اسلوب شعر کی کامیابیاں ناکامیاں بھی شاعر کی بالکل نجی اور ذاتی طور پر خلق کردہ ہیں۔

باصر سلطان کاظمی کے شعری مزاج میں روایت غزل سے خود اختیار کردہ مراجعتیں کیوں اساسی حیثیات حاصل کرتی چلی گئیں، اس کی گتھیاں سلجھانی ضروری ہیں۔  کیا انھیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کی شاعری کے بڑے حصے پر خط تنسیخ کھینچ دی جائے گی اور اسے ’ادب باہر‘ یا کم از کم ’غزل باہر‘ قرار دے دیا جائے گا؟ باصر نے سوچ سمجھ کر اپنا اسلوب شعر بنایا۔ اسی لیے اس میں ر وایت اور جدت کے عمومی امتزاج کے بجاے اپنے عہد کے نئے تہذیبی رویوں کو کچھ اس طرح سے شامل کرنے کی کوشش ہوئی جہاں یکسر نئی زبان، نئے انداز اور موضوع کی آمیزش سے ایک ایسی شاعری سامنے آئی جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے : ’نہ کہا ہوا، نہ سنا ہوا‘ ۔

باصر کے یہاں مختلف رنگ شعر وضع کرنے میں جو اعتماد نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی تجربوں سے غزل کی وہ نئی زبان تیار کی ہے جہاں نہ کسی کی تقلید ہے اور نہ ہی کسی کی پیروی میں کوشش کی گئی ہے۔  بنی بنائی ڈگر کے مقابلے اپنی کوششوں سے ایک نئی شعری زبان تیار کرنا اور اسے طویل مدت تک آزما کر پایہ ¿ استناد تک پہنچانا باصر سلطان کاظمی کا واقعتا اہم کارنامہ ہے۔

باصر گذشتہ تین دہائیوں سے برطانیہ میں مستقل طور پر مقیم ہیں اور درس و تدریس کے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ شاعری اور ڈراما نویسی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔  اس سے پہلے کی تین دہائیاں انھوں نے اپنے وطن پاکستان میں گزاریں۔  میر کی طرح ہی باصر کی ادبی ہجرت کو دیکھنا چاہیے۔  اس دہلوی شاعر نے تقریباً آخری تین دہائیاں لکھنو میں گزاریں اور چار دواوین مکمل کیے۔  ادبی اعتبار سے میر کے لیے وہ عہد بہار کا تھا۔ باصر سلطان نے اپنی ادبی زندگی کے سب سے اچھے دور برطانیہ میں پائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10