باصرسلطان کاظمی کی غزلیں


باصر سلطان کاظمی کے یہاں زندگی کے ایسے محزوں نغمے کم نہیں ہیں۔  ضبط کی دیواریں غم کے ایوان بناتی چلتی ہیں اور انسان نڈھال ہوکر اس کیفیت کو اپنی جان کا حصہ بنائے رکھتا ہے۔  میر صاحب پہلے ہی بتا چکے ہیں : لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا۔ باصر کے ایسے اشعار قیمتی اثاثہ ہیں جہاں وہ صرف عاشقانہ شکست و ریخت سے دوچار نہیں ہوتے بلکہ اس جان کے زیاں کو بیت المال کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں۔  ذیل کے اشعار ملاحظہ کریں جہاں زندگی کا یہ مشکل اور گاڑھا رنگ ہماری توجہ کا حصہ بنتا ہے :

آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصر

کون سا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے

ہے وہی لاحاصلی، دست ہنر کی منتظر

آخرش سر پھوڑنا ہے، کوہکن کوئی بھی ہو

چہکتی بولتی دھڑکن ہوئی ویران کیوں کر

کوئی پوچھے کبھی آکر مرے بیمار دل سے

بچھڑنے والے اپنے ساتھ کیا کیا لے گئے باصر

یہ دنیا دل نشیں اتنی نہیں اب، جتنی پہلے تھی

یوں تو کبھی کم آب نہ تھا آنکھوں کا دریا

سیلاب وہ آیا ہے کہ بے بس ہیں کنارے

آج بارش ہوئی تو کیا باصر

جب زمیں جل رہی تھی، تب نہ ہوئی

کیوں ہے چہرا ترا اترا اترا

آنکھ بھی تھوڑی سی نم دیکھتے ہیں

باصرسلطان کا ظمی اس سوز دروں کے قیدی بن کر میر کی طرح یا بہت حد تک اپنے والد ناصر کاظمی کی طرح نڈھال ہوکر جینے پرقانع نہیں۔  زندگی کی ایک لے اگر غم انگیز ہے تو شاعر کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس صارفی سماج میں دردو سوزو جستجو و آرزو کی قیمت کون سمجھنے والا ہے۔  زندگی نئے مسئلوں کی دہلیز تک کچھ اس انداز سے چلی آئی ہے کہ اب آمنے سامنے کا مقا بلہ ہے۔  باصر سلطان کاظمی اپنے عہد کے اس بدلتے انداز و اطوار سے پورے طور پر با خبر ہیں۔

بر صغیرسے جاکر وہ برطانیہ میں ضرور مقیم ہوئے مگر براہ راست انھوں نے درجنوں ممالک کے ادبی اسفار کیے ہیں جہاں یورپ، ایشیا، امریکہ جیسے بڑے بر اعظم شامل ہیں۔  وہ ہم عصر زندگی کو صر ف ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا ہو کر نہیں دیکھتے بلکہ اس سے آگے نکلتے ہیں اور عصر حاضر کی ہر سانس اور دھڑکن کو بہ غور سمجھنا چاہتے ہیں۔  ان کی جہاں دیدنی نے ہی ایسے مواقع عطا کیے ہیں کہ وہ زندگی کو بنانے کی جگہ بگاڑنے والے نظام کا بھی ایک تنقیدی جائزہ لیں۔

اس مرحلے میں ان کے یہاں ایک مخصوص طنز یہ اسلوب پیدا ہوتا ہے۔  باصر کی شاعری میں ایک جگہ خالص ظریفانہ رنگ بھی موجود ہے مگر ا ن کی ایسی شاعری جہاں اپنے عہد کے مختلف انداز کے نظام اور طریقہ ہاے کار کا جائزہ لینا ہوتو اپنے آپ ایک طنزیہ رنگ سامنے آجاتا ہے۔  دنیا کوجس اطمینان اور قرار سے چلنا چاہیے، دنیا اس ا نداز سے نہیں چل رہی ہے۔  باصر سلطان کاظمی اسے گہرائی سے اپنے شعر کا موضوع بناتے ہیں۔  اپنے عہد کے معاملات و مسائل کے احتساب میں باصر سلطان کاظمی کا تجزیاتی ذہن انھیں جن نتائج تک پہنچاتا ہے، اس کے مظاہر ذیل کے اشعار میں واضح طور پر نظر آتے ہیں :

شہروں میں اپنے گویا قیامت ہی آ گئی

اڑ کر مکاں کہیں گئے باصر مکیں کہیں

دوستو محفوظ مت سمجھو تم اپنے آپ کو

ایک گھر کی آگ سے لگ جائے گی ہر گھر کو آگ

اب تو ہم بن گئے ہیں ایک مشین

اب ہمارا ہے نام آٹھ سے پانچ

مثل سیارگاں بنی آدم

اپنے اپنے مدار میں مصروف

چند چھینٹے پڑے تھے بارش کے

شہر میں ہر طرف ہوا کیچڑ

زندگی تو اسی طرح سے ہے

کبھی آسان اور کبھی مشکل

عصر حاضرکے مختلف امور پر غور و فکر کرتے ہوئے حقیقت نگاری کے بہت سارے رنگوں کو ابھارنے میں باصر کامیاب ہوتے ہیں۔  جس زندگی کو وہ بہ نظر غائردیکھتے ہیں، وہاں انسانیت کی شکست اور عام لوگوں کا نقصان ہی نظر آتا ہے۔  آخر یہ زندگی ہمیں ایسی کیوں ملی؟ باصر زندگی اور کائنات کے تجزیے کے مرحلے میں ایسے حقائق کی تلاش اور پیش کش میں مصروف نظر آتے ہیں جہاں زندگی صرف مشکل نہیں نظر آتی بلکہ حالات اتنے دگر گوں ہو گئے ہیں کہ انھیں سنبھالنا مشکل ہے۔  باصر کے یہاں موجودہ عہد کی ایسی ہی ہیبت ناک تصویریں جگہ جگہ نظر آتی ہیں © ©:

یہ بھی اب کے بھری بہار میں دیکھ

باغ میں کوئی گل شگفتہ نہیں

یہاں نہ جینے کاوہ لطف ہے نہ مرنے کا

کہا تھا کس نے کہ آکر رہو پرائی جگہ

معلق ہو گئے باصر فضا میں

زمیں چھوٹی تو روٹھا آسماں بھی

اب ہم ہی کریں گے صاف یہ شہر

ہم نے ہی اسے کیا ہے گندا

ہیں سارے کے سارے آدم خور

شہروں میں جو شیر چیتے ہیں

سر بلندی کی آرزو کے ساتھ

دل میں کچھ خوف انہدام بھی ہے

زندگی جب ایسی مشکل رہے گی تو چارو ناچار اپنے آپ ایک طنز یہ اسلوب پیدا ہوگا۔ اس کے بغیر باتیں وہاں تک نہیں پہنچ پائیں گی جہاں تک شاعر کو پہنچاناہے۔  باصر سلطان کاظمی زندگی کے دردو سوز کو بیان کے مرحلے میں طنز کے لہجے میں تبدیل کر تے ہوئے اپنے غم و غصے کو واضح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔  گفتار کے اسلوب پر قابو کے باوجود کہیں کہیں بیان میں برہنگی بھی نظر آتی ہے جو ہمارے عہد کا ایک لازمی حصہ ہے۔  طنز نگار جب اپنی باتیں کرے گا تو اس میں کچھ نہ کچھ غزل کے عمومی مزاج اور آزمائی ہوئی زبان کی توسیع کرتے ہوئے اپنا نیا کلام بھی اسے پیش کرناہوتاہے۔  باصر سلطان کاظمی کے یہ اشعار ملاحظہ کریں جہاں ان کا طنزیہ اسلوب اپنی واضح شکل اختیار کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے :

میں اکثر سوچتا رہتا ہوں باصر

یہ کیا دنیا بنائی ہے خدا نے

ایسے پڑے ہوئے ہیں لبوں پر ہمارے قفل

ہم بھول ہی گئے ہیں کہ منہ میں زبان ہے

جہالت ہی سے بچ جاؤ تو جانیں

بہت مشکل ہے باصر آگہی تو

ابھی زمین پہ جنت نہیں بنی یارو!

جہاں کے قصے سناتے ہو، ہم وہاں بھی رہے

باتیں تو بڑی بڑی کریں گے

میدان میں طفل سے ڈریں گے

ہوئی کسی کی توجہ نہ جس عمارت پر

اسی کے ملبے میں بکھری ہیں جا بہ جا خبریں

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10