اس ذہین نوجوان کو لڑکیوں سے نفرت تھی


لڑکیاں ان سے بہت ڈرتی تھیں۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں پہلی دفعہ اپنے ماموں کو دکھانے کے لیے ان کے پاس لے گیا۔ انہوں نے بہت توجہ سے مریض کو دیکھا پھر جا کر وارڈ میں موجود ایسوسی ایٹ پروفیسر سے باتیں کیں پھر مجھے دوائیں لکھ کر دیں اور ماموں کو ہر بات بڑی اچھے طریقے سے سمجھائی اور اس سمجھانے کے دوران ہی اتفاق سے ایسا ہوا کہ وارڈ میں موجود ایک نئی نرس کسی کام سے اس کمرے میں دوبار آئی۔ دوسری دفعہ جب آئی تو سلیم بھائی جھنجھلا گئے، کیا مذاق بنایا ہوا ہے، کیوں بار بار آرہی ہو اورپھر انہوں نے دو چار مغلظات اسے سنادیں۔ میں دھک سے رہ گیا اور وہ نرس وہاں سے روتے ہوئے بھاگ گئی۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو بہت مختلف تھا۔

اگلے ماہ ہمارے بیج کی پوسٹنگ بھی ان کے ہی وارڈ میں ہوگئی۔ پہلا ہفتہ خوب گزرا۔ مریضوں کی ہسٹری ڈسکشن اورامراض کی تشخیص کے طریقے۔ ایک شام کو سلیم بھائی نے ہم لوگوں کی کلاس لی۔ وہ شام اب بھی ایک بدمزہ شام کی طرح مجھے یاد ہے۔ کلاس تو خوب تھی اور انہوں نے اپنے مخصوص طریقے سے ہم سب کو پڑھایا بھی بہت اچھا مگر پوری کلاس کے دوران انہوں نے ہر ہر طریقے سے لڑکیوں سے بدتمیزی کی۔ مجھے یاد ہے انہوں نے ہمارے گروپ کی سب سے تیز لڑکی کے میک اپ، اس کے جین اور کرتے کا اس طرح سے مذاق اڑایا کہ وہ روہانسی ہوکر کمرے سے چلی گئی۔ ہم لوگوں کی آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کلاس یکایک ختم ہوگئی تھی۔

میں شام کو انہیں ملا تو وہ بہت بے چین تھے، بہت شرمندہ۔ ”نجانے مجھے کیا ہوگیا تھا، کیوں کہی میں نے ایسی بات نہ جانے مجھے کیا ہوجاتا ہے ان عورتوں لڑکیوں کو دیکھ کر۔ “ وہ پھر غصے میں بھرگئے اور بے اختیار چیخ کر بولے، ”کیوں آتی ہیں یہ لڑکیاں یہ عورتیں میری کلاس میں؟ کیوں دیکھتی ہیں مجھے؟ مجھے کچھ نہیں چاہیے ان سے؟ کیا رکھا ہے ان میں؟ یار! ان سے کہو دور رہا کریں مجھ سے، نہ دیکھا کریں مجھے، مجھے کوئی مطلب نہیں ان سے۔ “ اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہے بے تکان، بار بار۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ان کی وجہ ناراضگی کیا ہے۔ کیوں وہ ناراض ہورہے ہیں؟ کیا ہے ان کے دل میں جوبار بار انہیں بے تاب کردیتا ہے۔

چوتھے سال کا امتحان بھی ہوا اور ہم لوگ پاس ہوکر فائنل ایئر میں چلے گئے۔ سلیم بھائی کا اسی وارڈ میں تقرر ہوگیا۔ مگر تھوڑے دنوں بعد ہی انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی لندن کے ایک ہسپتال میں نوکری ہوگئی ہے اور وہاں جا رہے ہیں۔ لندن میں ان کا آگے پڑھنے کا ارادہ تھا۔

میرا بھی امتحان ہوگیا۔ ہاؤس جاب ختم ہوئی۔ روپے پیسے جوڑ کر لندن کا ٹکٹ خریدا گیا اورجتنے بھی پیسے ہوسکے وہ لے کر میں لندن پہنچ گیا۔ لندن ایئرپورٹ پر سلیم بھائی مجھے لینے آگئے۔ میں ایک بار پھر ان کا روم میٹ ہوگیا۔ اپنے ہسپتال کے فلیٹ میں چھوٹا کمرہ انہوں نے میرے حوالے کردیا تھا۔

لندن میں سلیم بھائی کی بالکل نئی شخصیت میرے سامنے آئی۔ وہ انتہائی قابل اورمحنتی ڈاکٹر تھے۔ صبح جلدی جانا اور رات گئے تک ہسپتال میں کام کرتے رہنا ان کا معمول تھا۔ نماز وہ نہیں پڑھتے مگر سؤر بھی نہیں کھاتے۔ گوشت کھانا ہے مگر حلال چاہیے۔ چھٹی والے دن خود بھی بیئر پیتے اور دوستوں کو بھی پلاتے۔ نرسوں یا لڑکیوں سے دوستی نہیں تھی ان کی۔ میں نے انہیں کبھی کسی لڑکی سے متاثر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ خوب صورت سے خوب صورت اوراچھی سے اچھی لڑکی بھی ان کی نظر میں اس قابل نہیں تھی کہ اس پہ کسی قسم کا اعتبار، بھروسا، اعتماد کیا جاتا۔

ان کے ساتھ جتنا وقت گزرا اچھا گزرا۔ انہوں نے پیسے بھی نہیں خرچ ہونے دیے، امتحان کی تیاری بھی کرائی اور امتحان پاس ہونے کے بعد نوکری حاصل کرنے مدد بھی کی۔

جب مجھے برسٹل میں نوکری مل گئی اور میں ان سے جدا ہونے لگا تو ایک رات پہلے مجھے بہت اچھے چائنیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھلایا انہوں نے اوربڑی دلجمعی سے سمجھاتے رہے کہ کبھی لڑکیوں کے چکر میں نہیں پڑنا۔ ان لوگوں کا کوئی بھروسا نہیں ہے لندن کے موسم کا تو پھر بھی کوئی بھروسا ہے مگر لڑکیوں کا کوئی بھروسا نہیں ہے۔

اس دن ہم دونوں ہی کھانے کے ساتھ اٹلی کی بہترین سرخ وائن بھی پیتے رہے جس کا ہلکا ہلکا سرور سا تھا۔ اسی کیفیت میں، میں ان سے پوچھ بیٹھا کہ آخر لڑکیوں، عورتوں سے اتنی نفرت کی کیا ضرورت ہے؟ وہ ہنس دیے تھے۔

”یار! نفرت نہیں ہے مجھے، مجھے ان سے کیا لینا دینا ہے۔ یہ اپنے کام سے کام رکھیں، مجھے اپنے کام سے کام رکھنے دیں۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ پاگل کی بچیاں پیچھے پڑجاتی ہیں اورجب پیچھے پڑتی ہیں تو جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مجھے ماں اور ایک بہن کے علاوہ کبھی کوئی عورت لڑکی اچھی ہی نہیں لگی۔ وہ دونوں بھی اس لیے اچھی تھیں کہ ان کی محبت میں کوئی غرض، مقصد، مطلب، مفاد نہیں تھا۔ وہ دونوں ہمیشہ لائن کے اس طرف تھیں جہاں صرف دینا ہوتا ہے، انہیں مجھ سے کچھ لینا نہی تھا۔ مگر دوسری لڑکیاں عورتیں ان کا بس چلے تو پتا نہیں کیا کر گزریں۔ یار! یہ وائن زبردست ہے، ایک گلاس اور سہی۔ “ یہ کہہ کر انہوں نے میرا گلاس بھردیا۔

”بہت اچھی بوتل ہے سلیم بھائی، ایک بوتل اور سہی۔ “ میں نے بیرے کو اشارہ کیا تھا۔ واقعی یہ وائن بہت اچھی تھی ہلکی سی ترش، دھیمی سی میٹھی۔ منہ میں آتے ہی جیسے ٹھنڈے انگارے دوبارہ سلگ جاتے ہوں۔ حلق سے اترتی ہوئی، کھاتے ہوئے کھانوں کو بھگوتی ہوئی، گلے سے گز کر نیچے پہنچتی ہوئی، ایسا لگتا کہ جیسے ہر جگہ حلول کرگئی ہے۔ ہلکا ہلکا نشہ مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔ ایسا سرور ہوتا ہے کہ بری بات میں بھی کوئی اچھا پہلو نکل آتا ہے۔

”لیکن سلیم بھائی! آپ اسمارٹ آدمی ہیں، خوب صورت شخصیت۔ اگر لڑکیاں آپ کو پسند کرتی ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور؟ آپ زیادہ سے زیادہ شکریہ کہہ کر الگ ہوجائیں، غصے کی کیا ضرورت ہے؟ “

”نہیں غصے کی ضرورت نہیں ہے مگر جان کوآجاتی ہیں۔ یار! میں کوئی عمران خان تھوڑی ہوں، تھوڑے دن مستی کرلی پھر الگ ہوگئے۔ بات یہ ہے کہ مجھے ان میں دلچسپی ہی نہیں توان کوآگے بڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ گھر میں بھی یہی حال تھا، ایک خالہ کی بیٹی ایک پھوپھی کی بیٹی۔ وہ دونوں اور دونوں کی مائیں چاہتی تھیں کہ ان سے شادی کرلوں۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ میرے ساتھ انہیں بھگا دیں۔ ایک بار میں نے اپنی ماں کوبول دیا کہ نہیں شادی کرنی ہے ان سے، پھر میری ماں نے کبھی نہیں بولا مجھے۔ میرا باپ ناراض ہوا۔ بڑی خواہش تھی ان کی کہ پھوپھی کی بیٹی سے میری شادی ہوجائے مگر میں گھر جاتا ہی نہیں تھا۔ ماں سے ملتا تھا یا وہ خود ہی پیسے بھیج دیتی تھی پھر ہاسٹل سے ہی لندن پہنچ گیا، ان سب سے بچ کر۔ رنڈیاں سالی۔ “ انہوں نے جھومتے ہوئے کہا تھا۔
میں نے بھی ہاں میں ہائی ملائی تھی رنڈیاں سالی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4