اس ذہین نوجوان کو لڑکیوں سے نفرت تھی


”ہاں یار! کالج میں بھی وہ تھی ایک میری کلاس میں، لمبے بالوں والی گل بانو، اچھی سی لڑکی۔ تیسرے سال میں میرے گروپ میں ہی تھی۔ تم لوگ اس وقت نئے نئے آئے تھے کالج میں۔ خوامخواہ ہی عاشق ہوگئی۔ ہوگی بڑے باپ کی بیٹی۔ پیسے تو میرے باپ کے پاس بھی بہت تھے۔ اگرشادی ان کی مرضی سے کرتا تو ہسپتال کھڑا کردیتے ابو اور پھوپھی مل کر۔ مجھے کیا کرنا تھا پیچھے ہی پڑگئی میرے۔ “ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے ہی تھے کہ میں نے بات پوری کردی، ”رنڈی سالی۔ “

”یہاں بھی یہی ہے۔ سارا شہر پڑا ہے، یہ میرے پیچھے پڑجاتی ہیں۔ اب ان سے بدتمیزی نہ کرے آدمی توکیا کرے۔ مگر یہاں اچھا ہے کہ جلدی سمجھ جاتی ہیں، دیر نہیں لگاتی سمجھنے میں۔ سب کی سب رنڈیاں سالی۔ “ وہ زور سے ہنسے تھے۔

مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم دونوں کو ٹھیک ٹھاک نشہ ہوگیا ہے۔ اب مناسب یہی ہے کہ ٹیکسی پکڑ کر ہسپتال کا رخ کیا جائے۔ انہوں نے میرے اصرار کے باوجود پیسے دیے اورہم دونوں واپس آگئے تھے۔ زور زور سے بات کرتے ہوئے، جھوم جھوم کر گاتے ہوئے، لڑھکتے قدموں اور بہکی ہوئی باتوں کے ساتھ۔

نئے کام میں مصروف تو ہوا مگر سلیم بھائی سے مستقل رابطہ رہا۔ بہت سے ہسپتال کے معمولات میں ان سے ہی پوچھتا۔ وہ ایک گائیڈ کی طرح تھے۔ برسٹل سے میں نیوکاسل چلا گیا جہاں مجھے ایک سال کی نوکری مل گئی تھی۔ سلیم بھائی لندن میں ہی رہے جہاں سے انہوں نے میڈیسن میں ممبر شپ کا امتحان پاس کیا پھر ایک دفعہ ملاقات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ وہ امریکا کے وی کیو ای کا بھی امتحان دے رہے ہیں۔ ان کے حالات وہی تھے، پونڈوں کی فراوانی تھی۔ حلال گوشت کھاتے، مہنگی شراب پیتے، اچھے کپڑے پہنتے اور لڑکیوں سے اتنا ہی دور رہتے جتنا میں چھوڑ کر گیا تھا۔ میں نے انہیں نہیں بتایا کہ نیوکاسل میں، میں نے ایک گرل فرینڈ بنالی تھی۔

پھر میں ایڈنبرا چلا گیا۔ تھوڑے دنوں تک نیوکاسل کی گرل فرینڈ سے ٹیلی فون پر محبت کرتا رہا۔ وہ ایک دفعہ ایڈنبرا بھی آئی مگر ایڈنبرا کی لڑکیوں کی محبتوں کی گرمی نے مجھے زیادہ بے چین کیا اور اس سے میرے تعلقات ختم ہوگئے۔ یہیں مجھے خبر ملی کہ سلیم بھائی نے کسی نرس کو تھپڑ ماردیا ہے۔

انگلستان میں نرس کو تھپڑ مارنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان تو ہے نہیں جہاں تھپڑ تو بہت معمولی بات ہے، نرسوں کو اغوا بھی کیا جاسکتا ہے، ان کی عصمت دری بھی کی جاسکتی ہے پھر انہیں ہی بدکرداری کی بنیاد پر ہسپتال سے فارغ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سماج میں ان کا مقام کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر سے لے کر ہسپتال کا ہر عملہ سمجھتا ہی نہیں ہے کہ نرسوں کا کیا مقام ہے اور کیا مقام ہونا چاہیے؟ ہسپتال بغیر ڈاکٹر تو چل سکتے ہیں مگربغیر نرس کے نہیں چل سکتے، نہ کوئی سمجھتا ہے نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی ہیلتھ کے نظام میں ان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ ان کی بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی پروفیسر کی مگر پاکستان کا اپنا نظام ہے اور اپنے اصول۔ مجھے پتا تھا کہ اب سلیم بھائی کو انگلستان سے نکلنا ہوگا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے انہیں فون کیا تھا۔

بڑی دیر تک باتیں کرتے رہے وہ۔ انہوں نے بتایا، ”ایک نرس پھر میری جان کو آگئی تھی سالی۔ جب نہیں مانی تو وارڈ میں ہی میں نے اسے تھپڑ ماردیا اور کیا کرتا یار جان تو چھڑانی تھی۔ ہسپتال میں انکوائری ہوگئی ہے۔ میرے باس کی مرضی کے خلاف ہیلتھ اتھارٹی نے فارغ کردیا ہے مجھے۔ موج ہے پیارے فراغت ہی فراغت ہے دیکھو کیا ہوتا ہے۔ “

مجھے افسوس بھی ہوا اورغصہ بھی آیا مگر میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔ دس دن کے بعد ان کا فون آیا کہ وہ امریکا جارہے ہیں۔ انہیں امریکا میں ایک پروگرام میں جگہ مل گئی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں ان سے ملنے لندن گیا تھا۔ ہفتہ اور اتوار کے دن ان کے ساتھ ہی گزارے۔ ان کا سامان پیک کیا، فالتو سامان بانٹا، ان کی گاڑی میں نے اپنی گرل فرینڈ کے لیے لے لی اور انہیں ہیتھرو ایئرپورٹ سے امریکا کے لیے رخصت کردیا۔

جانے کے بعد بہت دنوں تک فون پر ہمارا رابطہ رہا پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ میں نے روزیٹا سے شادی کرلی اور اسکاٹ لینڈ میں ہی ایک اچھی جگہ پر نوکری ہونے کے بعد مستقل آباد ہوگیا۔

پاکستان سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا اور نہ ہی وہاں کوئی خاص آنا جانا ہوا۔ سال چھ مہینے میں بھائی سے باتیں ہوتیں تو پتا لگتا کہ ہمارا خاندان بھی زیادہ تر امریکا کینیڈا چلا گیا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر پڑھا لکھا آدمی ملک چھوڑ کر جارہا ہے یا چلا گیا ہے۔ رہ گئے ہیں وہی لوگ جو دو نمبر کے ہیں۔ دو نمبر کے ڈاکٹر، دو نمبر کے وکیل، دو نمبر کے ٹیچر، سب ملک چلارہے ہیں، دو نمبر کا ملک۔ میں دل ہی دل میں شکر کرتا تھا کہ خواہ مخواہ جذباتی ہوکر پاکستان آنے کا فیصلہ نہیں کیا اگر چلا جاتا تو خوار ہی ہوتا۔

نجانے کتنے سالوں کے بعد میں ایک میٹنگ میں شکاگو گیا تو وہاں ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی، اس سے پتا لگا کہ سلیم بھائی کنساس شہر میں کام کررہے ہیں۔ اس نے مجھے ان کا نمبر بھی دیا۔

سالوں بعد ان سے بات ہوئی۔ انہوں نے حکم سا دیا کہ ان سے کنساس ضرور آکر ملوں۔ میں نے بھی سوچا کہ چلو اتنے سالوں کے بعد ملاقات کرنے میں مزہ آئے گا۔ لندن کی وہ شام اوراٹلی کی وہ وائن مجھے یاد آگئی تھی۔

کنساس ایئرپورٹ پر وہ مجھے لینے آئے جہاں سے اپنے گھرلے کر آئے۔ جھیل کے کنارے بڑا سا خوب صورت سا بنگلہ، بڑا سا لان، تہہ خانہ اور دو منزلوں کے ساتھ۔ چار بیڈ روم کا کشادہ مکان۔ بڑا سا باورچی خانہ، ڈرائنگ روم، اسٹڈی، لائبریری، کمپیوٹر اور ایک کمرہ جہاں سینما ہال کی طرح فلمیں دیکھی جاسکتی تھیں۔ سب کچھ تھا اس گھر میں۔ اس کا اندازہ ہوگیا کہ سلیم بھائی بہت اچھا کما رہے ہیں اور بہت اچھا کررہے ہیں۔

گھر پر ہی میری ملاقات سیاہ فام مارٹن سے ہوئی۔ سلیم بھائی نے ہی ملایا تھا مجھے، ”مارٹن بچوں کا ڈاکٹر ہے۔ ہم ساتھ ہی کام کرتے ہیں، ساتھ ہی رہتے ہیں۔ پارٹنر ہیں دونوں، لائف پارٹنر۔ آئی لویو مارٹن! “ انہوں نے بڑے پیار سے کہا تھا ”آئی لو یو ڈارلنگ! “ مارٹن نے جواب دیا۔ اس کے سیاہ فام چہرے پہ بڑی بڑی آنکھوں میں غضب کا پیار تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4