سنگِ سیاہ: بلوغت میں داخل ہوتے نوجوانوں کے لیے خصوصی تحریر


ایک تو ویسے ہی وہ شادیوں پہ جانے سے گھبراتی بھی تھی ایک وجہ اس کی رنگت اور دوسری یہ کہ اس کی باقی کزنز سے زیادہ بات چیت نہیں تھی۔ اسے لگتاتھا کہ اس کی رنگت کی وجہ سے سب اس سے کتراتی ہیں، اور یہ ایک اور وجہ تھی اس کوشش کی کہ وہ گوری لگے پھر تو وہ خود آئیں گی تعریف کرنے اور دوستی کی کوشش بھی کریں گی۔ اس کی دو تین کزنز سے دوستی تھی مگر جب وہ تیار ہوجاتیں تو اسے لگتا کہ وہ اور یہ دو الگ سیارے کی مخلوق ہیں اور اسے، ان سے دور ہی رہنا چاہیے۔ اس کی سب سے بڑی پھپھو کی دو بیٹیاں تھیں جو بہت گوری تھیں اور باقی کزنز ان کے پیچھے پیچھے گھومتی تھیں۔  شادیوں پہ جیسے کپڑے وہ سلواتیں باقی سب بھی ویسے ہی سلواتیں۔  مگر اسے شادی پہ آکر پتا چلتا کہ سب نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے ایک جیسے کپڑے بنوائے ہیں۔  ایک آدھ دفع اس نے شکایت بھی کی کہ مجھے پہلے سے بتا دیتے۔  مگر پھپھو کی بڑی بیٹی نے کہا دیا کہ یار ہم نے سوچا تمہارا فضول خرچہ ہوجائے گا اور ماموں مامی کو پروبلم ہوگا اس لیے نہیں بتایا۔ وہ بس سر ہلا کے رہ گئی واقعی اسے پتا چل بھی جاتا تو پہننا تو اسے وہی تھا جو امی لا کر دیتیں۔  کبھی کبھی اسے بہت الجھن اور غصہ آتا تھا کہ ضروری تھا کہ امی ابو دونوں ہی سانولے ہوتے۔  کوئی ایک تھوڑا گورا ہوتا تو شاید وہ بھی اتنی سانولی نا ہوتی۔

اللہ اللہ کر کے شادی کے دن بھی قریب آہی گئے۔  اور اتنے دن وہ مسلسل کسی نا کسی پلاننگ میں ہی رہی۔ مایوں والے دن کے لیے اسے انوکھا آئیڈیا یہ آیا کہ کیوں نا کالا اسکارف پہن لے۔  کالے رنگ میں تو رنگ صاف لگے گا ہی۔ اور تجربہ کامیاب رہا تو شادی پہ بھی اسکارف باندھ لے گی۔ ورنہ بس جیسے گلے میں دوپٹہ لیتی ہے ایسے ہی لے گی۔

مایوں والے دن وہ اسکارف پہن ہی رہی تھی جب بڑی تائی آگئیں۔  ”ارے انیسہ اچھے خاصے کپڑوں پہ یہ کالا اسکارف کیوں پہن لیا۔ چلو اتارو اتنا عجیب لگ رہا ہے۔ “ باقی کزنز نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ تائی کی بیٹی مہک باجی نے آگے بڑھ کے اسکارف لے لیا۔

 ”بس یہ پردے وردے بعد میں کبھی کرنا۔ ابھی اچھی طرح تیار ہوجاؤ۔ بس اللہ تمہارے نصیب بھی اچھے کرے۔ “

 ”ہاں بھئی میں تو نماز میں خاص طور سے تمہارے لیے دعا کرتی ہوں کہ اللہ ذاکر بھائی کی بیٹی کو بس شریف لڑکا مل جائے۔  سنو مہک وہ باجی رخسانہ نے اپنی شہلا کو جو وظیفہ بتایا تھا وہ اس سے پوچھ کر انیسہ کو بھی بتانا۔ “ تائی دوبارہ انیسہ سے مخاطب ہوئیں۔

 ” میری بھاوج کی بہن کی بیٹی ہے، اس کا بھی رنگ بس ایسا سا ہی ہے۔  باجی رخسانہ نے ایسا کار گر وظیفہ بتایا ماشاء اللہ چھ مہینے میں ایسا اچھا رشتہ آگیا۔ میں کل تک تمہیں پوچھ کے بتاتی ہوں۔  روز کرنا یہ وظیفہ۔ “ تائی تو اپنی نرالی محبت جتا کر تیاری میں لگ گئیں۔  مگر انیسہ کا موڈ خراب ہوگیا۔ اس نے اسکارف بیگ میں ٹھونس دیا اور ایسے ہی تیار ہوگئی۔

ساری شادی میں وہ سب سے الگ گھوم رہی تھی۔ کہنے کو ساتھ ہی تھی مگر جہاں سب لڑکیوں کا ہجوم ہوتا وہ ان میں سب سے پیچھے ہوتی۔ وہ سب آپس میں ایک دوسرے کے کپڑوں پہ تبصرے کر رہی تھیں۔  ایک دوسرے کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہی تھی۔ مگر انیسہ کی کوشش تھی کہ وہ کسی پہ تبصرہ نا کرے کیوں کہ جواب میں پھر اس کے کپڑوں پہ تبصرہ ہوتا۔ وہ تصویروں سے بھی بچ رہی تھی اسے پتا تھا کہ سب سے پھیکی وہی لگے گی۔ ایک آدھ بار سجاوٹ کے لیے لگے آئینے میں بھی خود کو دیکھا۔ شروع شروع میں جو فیس پاوڈر اچھی طرح پورے منہ کو ایک جیسا سفید کیے ہوئے تھا آہستہ آہستہ دھبوں کی صورت میں اترنے لگا تھا۔ اسے اپنا آپ چتکبری چھپکلی جیسا لگنے لگا۔ اس کا موڈ اور خراب ہوگیا۔

کھانا لگنے ہی والا تھا جب امی نے آواز دے کر اسے اپنی ٹیبل پہ بلوا لیا جہاں وہ کچھ اجنبی عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔

 ”یہ میری انیسہ ہے۔  گریجویشن کر رہی ہے۔  گھر کے بھی سب ہی کام کر لیتی ہے۔ “ اس نے کچھ کنفیوز ہو کر امی کے ساتھ بیٹھی خواتین کو سلام کیا۔ اسے کچھ لمحوں بعد اندازہ ہوا کہ امی نے یہ تعارف کیوں کروایا۔

 ”اچھا اچھا گریجویشن کر رہی ہے۔  ماشا اللہ۔ ویسے بھی آج کل تو لڑکیاں بھی ڈگریوں پہ ڈگریاں لے رہی ہیں۔  تعلیم بھی اچھی بات ہے مگر بس لوگوں کو لگتا ہے کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہوگی یا پھر رشتے نہیں آرہے ہوں گے۔  اور بھئی لڑکی پڑھی لکھی ہو مگر فرمانبردار ہو تو اعتراض کی کیا وجہ۔ مگر آج کل کی لڑکیاں ڈگریاں لے کر ماں باپ کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں۔  اب نا شکل ہو نا سلیقہ تو ڈگری سے گھر تھوڑی چلتے ہیں۔  بتاؤ باجی تسنیم میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔ “ ان خاتون نے ساتھ والی خاتون کو مخاطب کیا۔ انیسہ بہانہ کر کے وہاں سے ہٹ گئی۔ اسے ایسے میں امی پہ غصہ آتا تھا کہ کیا ضرورت ہے ایسی خواتین سے کہنے کی کہ ہماری بیٹی کے لیے رشتہ دیکھیں۔  یا اپنے بیٹے کے لیے لڑکی دیکھیں تو ہماری انیسہ کو ذہن میں رکھیے گا۔ کسی کو کرنی ہوگی تو خود کہے گا۔ پھر سوچتی کہ ایسی رنگت پہ کوئی خود کیوں کہے گا۔ شاید ایسے ہی کوئی کوشش کرنی پڑے۔  کبھی کبھی اسے دوسری کالی یا بدصورت شادی شدہ خواتین کو دیکھ کے حیرت بھی ہوتی تھی کہ ان کی شادی کیسے ہوئی ہوگی؟

ہمیشہ کی طرح یہ شادی بھی پھیکی ہی گزر گئی۔ واپس آکر وہی روٹین شروع ہوگئی۔ اگلا سال بھی بہت تیزی سے بغیر کسی خاص واقعے کے گزر گیا نا کسی اور کی شادی ہوئی نا اس کی۔

پڑھائی وہ ویسے بھی توجہ سے ہی کرتی تھی۔ لہذا ذاتی طور پہ اسے شادی نا ہونے کا زیادہ دکھ نہیں تھا۔ بس الجھن ہوتی تھی تو دوسروں کے تبصروں سے، جنہیں سن کے لگتا تھا کہ وہ شاید دنیا کے بدصورت ترین اور بڈھی ترین لڑکی ہے کہ کوئی رشتہ نہیں بھی ہے تو گھر والوں کو شادی کردینی چاہیے لڑکا بعد میں مل ہی جائے گا۔ گریجویشن مکمل ہونے تک اس نے تقاریب میں جانا بہت کم کر دیا۔ کسی بہت قریبی رشتے دار کے گھر کسی جنازے پہ یا شادی میں ہو آتی تھی وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے۔  کبھی امی لے جانے کے لیے زبردستی کرتیں تھیں کبھی اس کے منع کرنے پہ خاموشی سے خود ہی چلی جاتیں۔  اس کا آگے پڑھنے کا ارادہ تھا مگر گھر کے حالات سازگار نہیں تھے۔  ساتھ ہی آنے والی خواتین کی باتوں سے لگتا تھا جیسے لڑکیوں کی پڑھائی شاید دور دراز ممالک سے برآمد کرنی پڑتی ہے اور اس پہ خرچہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے نا کروائی جائے تو بہتر ہے۔

بھائی کا ماسٹرز کا پہلا سال ختم ہونے والا تھا۔ انجینئیرنگ یا ایم بی بی ایس کے لیے تو پیسا نا ابو کے پاس تھا نا بھائی ٹیوشن یا پارٹ ٹائم جاب سے اس کا خرچہ نکال سکتا تھا لہذا ایک سستے سے انسٹیٹیوٹ سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کررہا تھا۔ جس کا ایک ایک سمسٹر دس دس مہینوں سے زیادہ کا ہوتا تھا۔ اس لیے ایک سال گزرنے کے بعد بھی اس کا ابھی دوسرا ہی سیمسٹر شروع ہوا تھا۔ اب اس کی روٹین میں یہ تبدیلی آئی تھی کہ صبح جاب پہ جاتا تھا اور شام میں انسٹیٹیوٹ پھر اس کے بعد دو ٹیوشن پڑھا کے جب گھر آتا تو تھکن سے اس کا حال برا ہورہاہوتا تھا۔ انیسہ کو بھائی کی یہ مصروفیت بھی بہت کھل رہی تھی کیونکہ ایک اسی سے اس کی بات چیت تھی۔ ورنہ امی ابو سے فارغ وقت کے مشغلے کے طور پہ یا تو ڈانٹ سننے کو ملتی یا نصیحت۔ دو الگ نسلوں کے لوگ تھے وہ، جن کی دلچسپیاں بھی بالکل الگ تھیں۔  ایک دن وہ اتنا چڑ گئی کہ بھائی کے آتے ہی اس سے بلاوجہ الجھ گئی۔

دروازہ کھولتے ہی پوچھ لیا۔

 ”بھائی تمہیں پانچ دن سے ایک رسالہ لانے کو کہا ہوا ہے۔  کب لا کے دو گے؟ “ اس نے ابتدا ہی گولا باری سے کی۔

 ”اندر تو آنے دو۔ امی سے ڈانٹ پڑی ہے کیا جو سڑا ہوا منہ بنایا ہوا ہے؟ “

 ”تم ہی کرتے ہو ایسی حرکتیں جس پہ ڈانٹیں پڑیں۔  باہر گھومتے رہتے ہو گھر والوں کا کوئی کام نہیں کر کے دے سکتے۔ “

بھائی کے چہرے سے لگا کہ انہیں اس بات پہ شدید غصہ آیا ہے۔

 ”میں باہر گھومنے جاتا ہوں؟ خود جاؤ نا باہر تو پتا چلے۔  آرام سے گھر میں بیٹھی ہو اس لیے میری خواری تمہیں تفریح لگ رہی ہے۔  ایک تو اس ڈگری نے الگ پاگل کیا ہوا ہے۔  مجھے پہلے پتا ہوتا کہ کسی سوشل سائنس کے سبجیکٹ میں ماسٹرز زیادہ سستا اور آسانی سے ہوجاتا ہے تو کبھی خود کو نا پھنساتا۔ “ پتا نہیں کب سے بھائی بھی اپنی ڈگری پہ چڑا ہوا تھا یا شاید اپنے روٹین سے۔

 ”سوشل سائنس سستا ہے کیا بہت؟ “ انیسہ اپنا غصہ بھول بھال کے کچھ سوچنے میں لگ گئی۔

 ”ہاں کم از کم ڈاکٹر، انجینئیر یا ایم بی اے کی ڈگری سے تو کافی سستا ہے اور آرٹس کے شعبے کے مقابلے میں ڈگری کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔  بندہ پرائیویٹ بھی کر لے گھر بیٹھ کر۔ تمہیں کرنا ہے کیا؟ “ بھائی کو بھی بات کرتے کرتے اندازہ ہوگیا کہ وہ کیوں پوچھ رہی ہو گی۔

 ” آئیڈیا تو اچھا ہے مگر خرچہ کتنا آئے گا۔ “

 ”بہت زیادہ نہیں بس اتنا کہ مجھے یا ابو کو ایک چنی منی سی جاب اور کرنی پڑے گی۔ کیونکہ خرچہ جتنا بھی ہو ہماری آمدنی محدود ہے یہ تمہیں پتا ہے۔ “ بھائی نے جتایا نہیں تھا بس حقیقت بتائی تھی۔

 ” اگر چنی منی سی جاب ہی کرنی ہے تو میں ہی کرلیتی ہوں بس تم امی ابو کو راضی کرنے میں تھوڑی سی مدد کردو۔ بھائی نہیں ہو پیارے والے“

آپس میں صلاح مشورہ کرکے انہوں نے بہت ساری دلیلیں جمع کر لیں کہ والدین سے بات کر کے کیسے منوایا جاسکتا ہے جس میں انیسہ نے شاکر کو سب سے پہلے یہ دلیل دینے کا کہا کہ اگر وہ شادی کے لیے پریشان ہیں تو وہ بس شادی تک ہی جاب کرے گی۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے چڑچڑی ہورہی ہے۔

بہت ڈرتے ڈرتے رات کے کھانے کے بعد انیسہ نے بات شروع کی اور ابو نے آدھی بات میں ہی یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ میں اور تمہاری امی مشورہ کر کے تمہیں صبح بتا دیں گے۔  انیسہ کا دل بالکل ڈوب گیا کیونکہ اس بار ابو نے بہت نپی تلی بات کی تھی۔ اسے لگا کہ اب اگر منع ہوا تو آئیندہ اس موضوع پہ بات کرنے کی بھی گنجائش نہیں رہے گی۔

اگلی صبح غیر متوقع طور پہ امی نے اسے اجازت دے دی۔ مگر امی ابو دونوں کے چہرے سے کھنچاؤ اور پریشانی جھلک رہی تھی۔

اجازت ملتے ہی انیسہ کو لگا کہ یہ پیشکش محدود مدت کے لیے نا ہو اسی لیے بس جلدی سے کوئی جاب مل جائے۔  وہ روز امی کو لے کر اردگرد کے اسکولوں میں جاب ڈھونڈنے نکل جاتی۔ دو دو، تین تین کمروں کے بنے ہوئے اسکولوں میں انٹرپاس لڑکیاں پانچ پانچ، چھ چھ ہزار پہ جاب کر رہی تھیں۔  اس کی شکل دیکھ کر وہ اسے 4 ہزار کی آفر کرتے وہ بھی ایسے جیسے ترس کھا رہے ہوں۔  روز شام میں ہر جگہ کے بارے میں بھائی سے طویل بحث ہوتی اور طے یہ پاتا کہ اتنی سی تنخواہ کے لیے اتنی خواری عقلمندی نہیں۔  چند ذرا بڑے اسکولوں میں پرنسپل اس کی شکل دیکھ کر ہی منع کر دیتے کہ ہمارے پاس ابھی ویکینسی نہیں ہے۔  اس کی ’سی وی‘ تک لینے کی زحمت نہیں کرتے اس کی آگے بڑھائی ہوئی ’سی وی‘ ہوا میں لہرا کے رہ جاتی اور وہ اسی طرح اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیتی۔

آہستہ آہستہ وہ مایوس ہوتی جارہی تھی۔ زیادہ مایوسی اس لیے ہوتی تھی کیونکہ اپنے ساتھ پڑھی ہوئی کئی لڑکیاں اردگرد کے اسکولوں میں ہی جاب کر رہی تھیں جن کے بارے میں اسے پتا تھا کہ وہ پڑھائی میں کم از کم ان سے کہیں بہتر رہی ہے۔  مگر فرق بس یہ تھا کہ وہ ”پیاری“ تھیں۔

ایک دن ایک اسکول میں باہر ’اساتذہ کی ضرورت ہے‘ کا بورڈ دیکھ کر اندر جانے کی کوشش کی تاکہ انٹرویو دے سکے تو گارڈ نے وہیں روک لیا۔

 ”بی بی کدھر؟ “

 ”بھائی صاحب میں ٹیچنگ کے لیے انٹرویو دینے آئی ہوں۔ “

 ”ایسے ہر کسی کواندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ “

 ”تو پھر کیسے جانے کی اجازت ہے؟ آپ کم از کم پرنسپل کو بتائیں تو کہ میں کیوں آئی ہوں۔ “ کچھ دیر بحث کے بعد وہ اسے اور امی کو اندر گیٹ کے پاس ہی کھڑا کر کے پرنسپل آفس میں چلا گیا۔ پرنسپل آفس کی بڑی سی شیشے کی کھڑکی سے پرنسپل صاحب بیٹھے صاف نظر آرہے تھے۔  جو ایک گہرے سانولے رنگ کے عام سے شکل و صورت والے ادھیڑ عمر شخص تھے۔  انہوں نے گارڈ کی بات سنتے سنتے ایک نظر باہر کھڑی انیسہ پہ ڈالی۔ ان کی بھوئیں تن گئیں۔  اور سر ہلا کر منع کردیا۔ اس وقت پتا نہیں کیوں انیسہ کو ایک دم شدید غصہ آیا اس نے گارڈ کے واپس آنے کا انتظار کیے بغیر ہی اندر قدم بڑھا دیے۔  امی پیچھے آوازیں دیتی رہ گئیں۔  وہ بہت تیز قدم اٹھا کر پرنسپل کے آفس میں گھس گئی۔ تب اسے پتا چلا کہ وہاں کچھ مرد اساتذہ بھی بیٹھے تھے۔  اس نے گہری سانس لے کر اپنا لہجہ ممکن حد تک نرم اور مودبانہ رکھا۔

 ”سر آپ کو ٹیچرز کی ضرورت ہے؟ میں انٹرویو دینے آئی ہوں۔ “

پرنسپل صاحب جو گارڈ کو منع کر چکے تھے انیسہ کو صاف منع نہیں کرپائے کیونکہ بہرحال باہر بورڈ پہ اشتہار لگا ہوا تھا وہ اسے جھٹلا نہیں سکتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments