انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


”بدبخت زندگی! “ وہ شکایتی لہجے میں بڑبڑانے لگا۔ ”اور اس زندگی کو جو چیز اتنی تلخ اور اذیت ناک بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا خاتمہ برداشت کی جانے والی تکلیف کے کسی ہرجانے کی شکل میں نہیں، دیوتا بنا دیے جانے کی شکل میں ہوگا۔ اسپتال کے دو خدمت گار آئیں گے، ایک ہاتھوں کو پکڑ لے گا اور دوسرا پیروں کو اور لاش کو تہہ خانے میں پہنچا دیں گے۔ ہونہہ! خیر کوئی بات نہیں۔ ہمارے دن دوسری دنیا میں پھریں گے۔ میرا بھوت یہاں آ کر ان سوروں پر ہول طاری کر دے گا۔ میں ان سب کا جینا عذاب کر دوں گا۔ “

اتنے ہی میں موئے سیئکا واپس لوٹا اور ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اس کے آگے ہاتھ پھیلا دیا:

”ایک کو پک دو نا! “

اندریئی یفمیچ نے کھڑکی کے پاس جا کے باہر کھیت پر نظریں دوڑائیں۔ کافی اندھیرا ہوچکا تھا اور دائیں جانب سرد ارغوانی چاند ابھر رہا تھا۔ اسپتال کے جنگلے سے قریب ہی یہی کوئی سات سو فٹ کے فاصلے پر پتھروں کی چار دیواری کے اندر ایک بلند اور سفید عمارت کھڑی تھی۔ یہ تھا قید خانہ۔

”تو یہ ہے حقیقت! “ اس نے سوچا اور ڈر کے مارے کانپ اٹھا۔

ہر شے ڈراؤنی معلوم ہو رہی تھی: چاند بھی، قید خانہ بھی جنگلے کے بالکل اوپر الٹی لگی ہوئی کیلوں کی ابھری ابھری نوکیں بھی اور بہت دور اینٹوں سے ابھرتے ہوئے شعلے بھی۔ اتنے میں اس کے پیچھے کسی نے ٹھنڈی سانس لی۔ اندریئی یفمیچ مڑا تو اس نے ایک شخص کوکھڑے دیکھا جس کے سینے پر تمغے چمک رہے تھے اور جو مسکرا مسکرا کر شرارت سے آنکھ مار رہا تھا۔ یہ سماں بھی ڈراؤنا تھا۔

اندریئی یفمیچ نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نہ چاند میں کوئی غیر معمولی بات ہے نہ قید خانے کی عمارت میں رہے تمغے تو جن کا دماغ ٹھیک ہوتا ہے وہ انہیں لگاتے ہی ہیں اور یہ کہ وقت آنے پر ہر شے کو گل سڑ کے خاک میں مل جانا ہے لیکن اچانک مایوسی نے اس پر غلبہ پا لیا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑ کے انہیں ہلانے کی کوشش کی۔ سلاخوں کا جنگلا بہت مضبوط تھا اور اس میں خفیف سی جنبش بھی نہ پیدا ہوئی۔

تب وہ اپنے خوف سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ایوان دمیترچ کے پلنگ کے پاس پہنچا اور اس کے کنارے پر بیٹھ گیا۔

”میری ہمت جواب دے گئی عزیز دوست“ اس نے تھر تھر کانپتے اور پیشانی کا ٹھنڈا پسینہ پونچھے ہوئے کہا۔ جواب دے گئی۔

”تو فلسفہ بگھارنے کی کوشش کیجئے نا“ ایوان دمیترچ نے مذاق اڑایا۔ ”اوہ میرے خدا! ۔ جی ہاں۔ ایک بار آپ نے کہا تھا کہ روس میں فلسفے کا تو وجود بھی نہیں لیکن ہر شخص حتیٰ کہ گنوار تک فلسفی بنے پھرتے ہیں۔ آخر گنواروں کے فلسفے سے کسی کو نقصان کیا پہنچتا ہے؟ “ اندریئی یفمیچ کی آواز سے لگتا تھا کہ یا تو ابھی ابھی رو پڑنے کوہے یا پھر ایوان دمیترچ کے دل میں رحم کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ”تو پھر آخر یہ خباثت بھری ہنسی کیوں، میرے دوست؟ عام لوگوں کو اطمینان میسر نہیں تو پھر وہ فلسفے کا سہارا نہ لیں توکریں بھی کیا؟ کسی ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود دار اور آزاد شخص کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں کہ وہ ایک واہیات گندے قصبے میں ڈاکٹر بن جائے اور اپنی باقی زندگی کو سینگی سے خون نکالنے، جونکوں اور رائی کے لیپ کے لئے وقف کر دے! عطائی پن، تنگ نظری، بیہودگی، اوہ، میرے خدا! “

”یہ سب بکواس ہے۔ ڈاکٹری کا پیشہ آپ کو پسند نہیں تو آپ وزیر ریاست کیوں نہیں بن گئے تھے؟ “

”نہیں نہیں، کچھ بھی کرنا ممکن نہیں! ہم لوگ کمزور ہیں میرے دوست۔ مجھے کسی بات کی پروا نہیں تھی، ہنسی خوشی دانائی کے ساتھ غور و خوض کیاکرتا تھا لیکن جیسے ہی مجھے زندگی کا سخت دھکا لگتا ہے ویسے ہی میری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ ناتوانی۔ ہم لوگ کمزور اور بدبخت ہیں۔ اور آپ بھی میرے دوست! آپ ذہین اور عالی ظرف ہیں، نیک خواہشات آپ کی رگوں میں ماں کے دودھ کے ساتھ سرایت کر گئی تھیں لیکن آپ نے زندگی ابھی ٹھیک سے شروع بھی نہیں کی تھی کہ تھک گئے، بیمار پڑ گئے۔ کمزور ہیں کمزور! “

اندھیرا ہوگیا تو اندریئی یفمیچ کو ذلت کے احساس اور خوف کے علاوہ اور بھی کسی بات نے مسلسل پریشانی میں مبتلا کردیا۔ آخرکار اس کی سمجھ میں آیا کہ یہ بیئر اور سگریٹوں کی طلب تھی۔

”میں ذرا دیر کے لئے یہاں سے جا رہا ہوں، میرے دوست“ اس نے کہا۔

”کہوں گا کہ یہاں روشنی کا انتظام کر دیں۔ تاریکی میرے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ “ اندریئی یفمیچ نے دروازے کے پاس جاکے اسے کھولا لیکن فوراً ہی نیکیتا اچھل کے کھڑا ہوگیا اور اس کا راستہ روک لیا۔ ”کہاں جا رہے ہیں؟ “ اس کی اجازت نہیں! اس نے کہا۔ ”سونے کا وقت آگیا! “

میں صرف چند منٹ کے لئے باہر جا رہا ہوں، احاطے میں ذرا ٹہل آؤں۔ اندریئی یفمیچ نے جو بھونچکا ہوگیا تھا کہا۔

”نہیں نہیں، اس کی اجازت نہیں۔ آپ کو خود ہی معلوم ہے۔ “

اور نیکیتا نے باہر سے بھڑ سے دروازہ بند کیا اور اس سے اپنی پیٹھ ٹکا دی۔

”لیکن میرے باہر جانے سے کسی کو کیا تکلیف پہنچ سکتی ہے؟ “ اندریئی یفمیچ نے شانے اچکاتے ہوئے پوچھا۔

”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے! نیکیتا، میرا باہر جانا ضروری ہے! “ اس نے بھرائی آواز سے کہا۔ بہت ضروری ہے!

”بیکار کا ہنگامہ نہ کھڑا کیجئے“ نیکیتا نے ڈانٹا۔

”کیسی شرمناک بات ہے! “ اچانک ایوان دمتیرچ تیزی سے اٹھتے ہوئے چلایا۔

”آخر اس شخص کو حق کیا ہے کہ لوگوں کو باہر جانے سے روکے؟ قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مقدمہ چلائے بغیر کسی کو اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا! یہ تو جبر ہے جبر! بالکل من مانی! “

”بے شک یہ من مانی ہے! “ اندریئی یفمیچ نے اس غیر متوقع حمایت سے سیر ہو کر کہا۔ ”میں باہر جانا چاہتا ہوں، بہت ضروری ہے! اسے مجھ کو روکنے کا کوئی اختیار نہیں! باہر نکلنے دو، تم سے کہہ رہا ہوں! “

”ارے درندے، سن رہا ہے کہ نہیں؟ “ ایوان دمتیرچ نے دروازے کومکے سے پیٹتے ہوئے کہا۔

”دروازہ کھول ورنہ میں اسے توڑ ڈالوں گا! جلاد کہیں کا! “

”دروازہ کھولو! “

اندریئی یفمیچ غصے سے کانپتے ہوئے چلایا۔ ”میں اصرار کر رہا ہوں! “

”کرتے رہو! “ نیکیتا نے دروازے کی دوسری طرف سے جواب دیا۔ ”کرتے رہو! “

”کم از کم جا کے یوگینی فیدورچ ہی کو بلا لاؤ! ان سے کہنا کہ میں۔ انہیں پل بھر کے لئے بلا رہا ہوں! “

”کل وہ بلائے بغیر ہی آ جائیں گے۔ “

”ارے یہ لوگ ہمیں کبھی بھی نکلنے نہ دیں گے! “ ایوان دمیترچ نے کہا۔

”اس وقت تک بند رکھیں گے جب تک ہم سڑ گل نہ جائیں! اوہ خدا، کیا یہ سچ ہوسکتا ہے کہ دوسری دنیا میں جہنم کا وجود نہیں اور ان بدمعاشوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ آخر انصاف کہاں ہے؟ ارے بے ایمان، دروازہ کھول، میرا دم گھٹا جا رہا ہے! “ اس نے بھرائی ہوئی آواز سے چیختے ہوئے دروازے کو دھکیلنا شروع کر دیا۔ ”میں دروازے سے سر ٹکرا ٹکرا کر بھیجا باہر نکال دوں گا! قاتل کہیں کے! “

نیکیتا نے یکبارگی دروازہ کھول کے اندریئی یفمیچ کو اپنے ہاتھوں اور ایک گھٹنے سے سختی کے ساتھ الگ دھکیلا اور پھر اس کے منہ پر ایک زور دار مکا مار دیا۔ دوسرے ہی لمحے اندریئی یفمیچ کو ایسا لگا جیسے وہ کسی زبردست نمکین لہر میں سر سے پاؤں تک ڈوب گیا اور وہ اسے گھسیٹتی ہوئی اس کے پلنگ کی طرف لے چلی۔ اس کے منہ کا ذائقہ واقعی نمکین ہوگیا اور صاف ظاہر تھا کہ مسوڑھوں سے خون بہہ نکلا ہے۔ اس نے اپنے بازو یوں ہلائے جیسے اس لہر سے اوپر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہو اور اس کے ہاتھ کسی پلنگ کے پچھلے حصے پر جا پڑے جس کے ساتھ ہی اسے محسوس ہوا کہ نیکیتا نے اس کی پیٹھ پر دو بار وار کیا کیا۔

ایوان دمیترچ کے منہ سے زور کی چیخ نکل گئی تو اس شخص کو بھی زدو کوب کیا جا رہا تھا اور پھر سناٹا چھا گیا۔

کھڑکی کی سلاخوں سے پیلی چاندنی اندر داخل ہو رہی تھی اور فرش پر ایک سایہ پڑا ہوا تھا جو جال جیسا لگ رہاتھا۔ ہر شے کتنی مہیب ہوگئی تھی! اندریئی یفمیچ ڈرا سہما لیٹا ہوا تھا، سانس نہ لینے کی کوشش اور نئی ضرب کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی شخص نے اس کے جسم میں ہنسیا چبھو کر اسے سینے اور پیٹ میں کئی بار گھما دیا ہو۔ درد کی شدت سے اس نے اپنے تکیے کو کاٹ کاٹ لیا پھر دانت بھینچ لئے۔ اتنے میں اچانک ایک خیال اس کے سارے ذہن پر چھا گیا۔ مہیب اور ناقابلِ برداشت خیال کہ اس وقت وہ جس درد میں مبتلا تھا اسے چاندنی میں سیاہ پرچھائیوں جیسے نظر آتے ہوئے یہ سب لوگ ایک دن کے بعد دوسرے دن، مسلسل کئی برسوں سے برداشت کرتے آ رہے ہوں گے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوسکا کہ بیس سال سے زائد کے اس طویل عرصے میں اسے اس کا پتا ہی نہ چلایا اس نے خود ہی چاہا کہ پتا نہ چلے؟ اسے علم نہیں ہوسکا، ہلکا سا تصور بھی نہیں تھا کہ درد کس کو کہتے ہیں اس لئے اسے قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا لیکن اس کے ضمیر نے، نیکیتا جیسے سخت اور سنگ دل ضمیر نے اسے لرزہ براندام کر دیا۔ وہ اچھل پڑا کہ اپنی پوری قوت کے ساتھ چیخ اٹھے گا، نیکیتا، خوبوتوف، سپرنٹنڈنٹ اور طبی معاون کو ہلاک کرکے خود اپنی جان لے لے گا لیکن نہ تو اس کے منہ سے آواز نکل سکی اور نہ ہی اس کی ٹانگوں نے اس کا کہا مانا۔ اس نے ہانپ ہانپ کے سانس لیتے ہوئے اپنے اسپتالی لبادے اور قمیض کو تار تار کر دیا اور بے ہوش ہو کے پلنگ پر ڈھیر ہوگیا۔

اگلی صبح کو وہ بیدار ہوا تو درد سے سر پھٹا جا رہا تھا، کانوں میں بھن بھناہٹ سی ہو رہی تھی اور جسم کا جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ اسے اپنی گزشتہ شام کی کوتاہیوں کو یاد کرکے کسی قسم کی خجالت نہ محسوس ہوئی۔ اس نے کسی بزدل جیسا طرز عمل اپنایا تھا، چاند تک سے خوف زدہ ہوگیا تھا اور ایسے خیالات اور جذبات کا پورے خلوص کے ساتھ اظہار کیا تھا جن سے اپنی وابستگی کا اسے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا مثلاً بے اطمینانی کی بناءپر معمولی لوگوں کے بھی فلسفی بن بیٹھنے کا خیال۔ لیکن اب اسے کسی بات کی ذرا بھی پروا نہیں تھی۔

اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا بس یوں ہی بے حس و حرکت، بالکل خاموش اپنے پلنگ پر پڑا رہا۔

”مجھے کوئی پروا نہیں“ اس سے سوالات کیے گئے تو اس نے سوچا۔ ”میں ان لوگوں کو کوئی جواب نہ دوں گا۔ مجھے کوئی پروا نہیں۔ “

دوپہر کے کھانے کے بعد میخائیل آویریانچ چائے کا ایک پیکٹ اور تھوڑی سی جیلی لے کر اس سے ملنے آیا۔ واریا بھی آئی اور کوئی گھنٹے بھر تک اس کے پلنگ کے پاس مغموم و ملول کھڑی رہی اور ڈاکٹر خوبوتوف اسے دیکھنے آیا۔ وہ اپنے ساتھ پوٹاشیم برومائیڈ کی ایک شیشی بھی لیا تھا اور اس نے نیکیتا کو کسی چیز کا دھواں دے کر وارڈ کی فضا کو صاف کر دینے کی ہدایت کی۔

شام کو اندریئی یفمیچ کے دماغ کی رگیں پھٹ گئیں اور یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ پہلے اسے بخار چڑھنے کی جیسی سردی اور متلی محسوس ہوئی، ایسا لگا جیسے کوئی بڑی گھناؤنی چیز سارے جسم پر، انگلیوں کے ناخنوں تک پھیلتی جا رہی ہے، اس کے پیٹ سے اٹھ کر سر تک پہنچ رہی ہے، آنکھوں اور کانوں میں گھستی چلی جا رہی ہے۔ اندریئی یفمیچ کو سب کچھ ہرا ہرا نظر آنے لگا۔ وہ سمجھ گیا کہ آخری گھڑی آن پہنچی ہے اور اسے یاد آیا کہ ایوان دمیترچ، میخائل آویریانچ اور دوسرے لاکھوں افراد حیات ابدی میں یقین رکھتے ہیں۔ اگر ایسی کسی شے کا وجود ہو تو؟ لیکن اس کے دل میں حیات ابدی کی ذرا بھی خواہش نہ پیدا ہوئی اور اس کے متعلق یوں ہی سرسری طور پر ہی سوچا۔ ڈھیروں بہت ہی خوبصورت بارہ سنگے جن کے متعلق وہ گزشتہ روز پڑھ رہا تھا، تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کے سامنے سے گزرے، پھر کسی عورت نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جس میں وہ ایک رجسٹرڈ لفافہ لئے ہوئے تھی۔ میخائل آویریانچ نے کچھ کہا۔ پھر سب کچھ غائب ہوگیا اور اندریئی یفمیچ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے ہوش ہو گیا۔

اسپتال کے دو خدمت گار وارڈ میں آئے، ایک نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے، دوسرے نے پاؤں اور اٹھا کر گرجے میں رکھ آئے۔ وہاں وہ میز پر آنکھیں کھولے پڑا رہا اور رات کو چاند نے اس پر روشنی برسائی۔ اگلی صبح کو سرگیئی سرگیئچ نے وہاں پہنچ کر صلیب کے سامنے بڑے خضوع و خشوع سے عبادت کی اور اپنے سابق سربراہ کی آنکھیں بند کر دیں۔

دو دن بعد اندریئی یفمیچ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، میخائیل آویریانچ اور واریا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments