انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


تیس سالہ چیخوف اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ

اس کی آمد کے موقع پر اندریئی یفمیچ عموماً صوفے پر اس کی طرف پیٹھ کرکے لیٹ جاتا اور دانت بھینچ بھینچ کر اس کے قصے سنتا رہتا۔ اسے لگتا کہ اس کی روح کے اوپر غلیظ جھاگ کی تہیں جمتی جا رہی ہیں جو اس کے دوست کی ہر آمد کے ساتھ ہی ساتھ زیادہ سے زیادہ اونچی ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔

ان حقیر جذبات کاگلاگھونٹ دینے کے لئے اس نے خود کو اس تصور کا سہارا لینے پر مجبور کیا کہ دیر سویر وہ خود، خوبوتوف اور میخائل آویریانچ اپنے پیچھے خفیف ترین نقش چھوڑے بغیر ہی فنا ہو جائیں گے۔ اگر کسی ایسی روح کاتصور کیا جاسکے جو اب سے دس لاکھ سال بعد کرہ ¿ عرض کے اوپر سے خلا میں پرواز کرتی ہوئی گزرے گی۔ تہذیب و تمدن، اخلاقی قوانین سب کچھ فنا ہو جائے گا اور کہیں گھاس کی ایک کونپل تک نہیں اگے گی تو پھر آخر اس کے جذبات کو لگنے والی ٹھیس، دوکاندار کے سامنے اس کے احساسِ ندامت ادنیٰ شخص خوبوتوف اور میخائل آویریانچ کے وبال جان دوستی کی حیثیت ہی کیا ہے؟ محض حقیر کوڑا کرکٹ اور بس۔ لیکن اس قسم کی دلیلوں سے بھی اب اسے تسکین نہیں حاصل ہوتی تھی۔ وہ دس لاکھ سال بعد کے کرہ ¿ ارض کو جیسے ہی اپنی نگاہوں کے سامنے لاتا ویسے ہی کسی برہنہ چٹان کے عقب سے کبھی خوبوتوف اپنے لانگ بوٹوں میں نمودار ہو جاتا تو کبھی زور زور سے قہقہے لگاتا ہوا میخائل آویریانچ اسے توجھیپی جھیپی سی سرگوشی تک سنائی دینے لگتی تھی۔ ”اور جہاں تک وارسا والے قرضے کا تعلق ہے میرے عزیز دوست تو اسے میں چند ہی دنوں میں ادا کر دوں گا۔ ایک روز سہ پہر کو اندریئی یفمیچ صوفے پر لیٹا ہوا تھا تو میخائل آویریانچ اس سے ملنے آیا۔ اتفاق کی بات کہ خوبوتوف بھی اپنے پوٹاشیم برومائیڈ کے ساتھ آدھمکا۔ اندریئی یفمیچ کوشش کرکے صوفے پر ہاتھ کی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ “

”عزیز دوست“ میخائل آویریانچ نے کہنا شروع کیا، آج تو آپ کل سے بھی زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں۔ آپ کی صحت کا کہنا ہی کیا، واقعی شاندار نظر آ رہے ہیں!

”ہاں میرے رفیق، وقت آگیا ہے کہ اب آپ تندرست ہو جائیں“ خوبوتوف بھی جمائی لے کر گفتگو میں شریک ہوگیا۔ ”اس تمام چکر سے آپ خود ہی عاجز آ چکے ہوں گے۔ “

”ہم ضرور تندرست ہو جائیں گے! “ میخائل آویریانچ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ”ہم لوگ مزید سو برسوں تک زندہ رہیں گے۔ دیکھ لیجیے گا! “

”سو کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ مزید بیس سال تو بہرحال جی ہی سکتے ہیں“ خوبوتوف نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا۔ ”ارے کوئی بات نہیں، میرے رفیق۔ ذرا حوصلے بلند رکھیے! “

”ہاں۔ ہاں! “ میخائل آویزیانچ نے قہقہہ لگایا، ”آپ کو دکھا دیں گے ہم لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں! دیکھ لیجیے گا! خدا نے چاہا تو اگلی گرمیوں میں ہم لوگ قفقاز جائیں گے، وہاں چاروں طرف گھوڑے دوڑاتے پھریں گے۔ ہاپ! ہاپ! ہاپ! اور جب قفقاز سے لوٹیں گے نا تو بہت ممکن ہے کہ ہمارے یہاں شادی کی کوئی تقریب ہو“ میخائل آویریانچ نے عیاری سے آنکھ ماری۔ ”ہاں میرے دوست، ہم آپ کی شادی کر دیں گے۔ شادی۔ “

اچانک اندریئی یفمیچ کو لگا کہ جھاگ کی تہیں ابھرکے اس کے حلق تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ”کیا بیہودگی ہے! “ اس نے دفعتاً کھڑے ہو کر کھڑکی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کہ آپ کتنی بیہودگی پر اتر آئے ہیں؟ “

وہ نرم اور شائستہ لہجے میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے مکے بھینچ کر اپنے سر کے اوپر اٹھا لئے۔

”مجھے تنہا چھوڑ دیجئے! “ وہ اپنی پوری قوت سے چلایا۔ غصے کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور سارا جسم کانپ رہا تھا۔ ”باہر جائیے! دونوں! نکل جائیے! “

میخائل آویریانچ اور خوبوتوف کھڑے ہو کر اسے تکنے لگے، پہلے بوکھلاہٹ کے ساتھ اور پھر خوف سے۔

”آپ دونوں دفان ہو جائیے! احمق! مجھے دوستی نہیں چاہیے، مجھے آپ کی دوا بھی نہیں چاہیے! بیہودہ افراد! قابلِ نفرت! “

خوبوتوف اور میخائل آویریانچ نے ایک دوسرے کو بوکھلاہٹ کے ساتھ دیکھا اور کمرے کے دروازے سے نکل کے گزر گاہ میں آگئے۔ اندریئی یفمیچ نے پوٹاشیم برومائیڈ کی شیشی تیزی سے اٹھا کے ان دونوں کے پیچھے پھینکی جو دہلیز سے ٹکرا کے پاش پاش ہوگئی۔

”دفان ہو جاؤ! “ وہ دوڑتا ہوا گزرگاہ میں ان دونوں کے پیچھے پہنچ کر گلوگیر آواز میں چلایا۔ ”چولھے بھاڑ میں جاؤ! “

ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد اندریئی یفمیچ جس کا سارا جسم یوں کانپ رہا تھا جیسے وہ تپ لرزہ میں مبتلا ہو، صوفے پر لیٹے لیٹے بڑبراتا رہا: ”احمق کہیں کے! گدھے! “ لیکن اس ہیجانی کیفیت کے ختم ہوتے ہی اس نے سوچا کہ اس وقت میخائل آویریانچ پر جانے کیا بیت رہی ہو، یہ سارا واقعہ کتنا باعث شرم، کتنا مہیب ہے۔ اس پر اس قسم کی کیفیت کبھی بھی طاری نہیں ہوئی تھی۔ آخر اس کی ذہانت اور عاقبت اندیشی، اس کی وسیع الخیالی اور فلسفیانہ بے اعتنائی کو کیا ہوگیا تھا؟

وہ اپنے طرز عمل سے اتنا زیادہ شرمندہ اور پریشان تھا کہ رات آنکھوں میں کاٹ دی اور صبح کو دس بجے کے قریب پوسٹ ماسٹر سے معافی مانگنے کے لئے ڈاک خانے گیا۔

”ہم گڑے مردے تھوڑی اکھاڑیں گے“ میخائل آویریانچ نے جو ڈاکٹر کی آمد سے بہت متاثر ہوا تھا، ٹھنڈی سانس بھرتے اور گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”جو کچھ ہوچکا اس کی فکر ہی کیا۔ لیوبا فکین! “ وہ اتنے زور سے چلایا کہ ڈاک خانے کے سارے کلرک اور وہاں مختلف کاموں سے آنے والے افراد چونک پڑے۔ ”کرسی لاؤ! اور تم انتظار کرو! “ اس نے ایک غریب عورت کو ڈانٹا جو سلاخوں کے اندر سے اسے کوئی خط رجسٹری کرنے کے لئے پکڑا رہی تھی۔ ”دیکھ نہیں رہی ہو کہ میں مصروف ہوں؟ ہاں تو جو کچھ ہوچکا اس کی فکر ہی کیا“ اس نے اندریئی یفمیچ سے مخاطب ہوتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ”مہربانی کرکے بیٹھ جائیے، میرے عزیز دوست۔ “

وہ کچھ دیر تک خاموش بیٹھا اپنے گھٹنوں کو ملتا رہا پھر کہنے لگا:

”مجھے آپ کا طرز عمل ایک لمحے کے لئے بھی ناگوار نہیں معلوم ہوا۔ میں بخوبی واقف ہوں کہ بیماری میں کسی شخص کی حالت کیسی ہوتی ہے۔ آپ نے کل جس طرح دھاوا بول دیا اس سے ڈاکٹر کو اور خود مجھے سخت تشویش ہوئی اور ہم دونوں میں آپ کے متعلق طویل گفتگو ہوئی۔ میرے عزیز ترین دوست، آخر آپ اپنی علالت کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے؟ آپ کو ایسی لاپروائی زیب نہیں دیتی۔ میں آپ کا دوست ہوں، میری صاف گوئی کو معاف کیجئے گا“ اور میخائل آویزیانچ نے اپنی آواز سرگوشی کی حد تک نیچی کرلی، قصہ یہ ہے کہ آپ انتہائی ناخوشگوار ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جگہ تنگ ہے، چاروں طرف غلاظت بکھری ہوئی ہے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں اور علاج کے لئے پیسے نہیں۔ عزیز دوست، ڈاکٹر کی اور خود میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمارا کہا مان لیجیے، اسپتال میں بھرتی ہو جائیے! اسپتال میں بہت عمدہ غذا ملتی ہے، آپ کی معقول دیکھ بھال ہوگی اور بیماری کا علاج ہو جائے گا۔ خوبوتوف، بات ہم دونوں ہی تک رہے، آدمی تو کوڑی کے کام کا نہیں پر ڈاکٹر اچھا اور قابل اعتبار ہے۔ اس نے آپ کی دیکھ بھال کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ ”

اندریئی یفمیچ مخلصانہ تشویش کے لہجے اور آنسوؤں سے جو اچانک پوسٹ ماسٹر کے رخساروں پر بہہ نکلے تھے، بہت متاثر ہوا۔

”میرے انتہائی قابلِ احترام دوست، ان لوگوں کے جھانسے میں نہ آئیے! “ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر چپکے سے کہا۔

”آپ ان کی بات پر یقین نہ کیجئے! یہ سب جھوٹ ہے، سفید جھوٹ! میری واحد بیماری یہ ہے کہ ان بیس برسوں میں قصبے میں میری ملاقات صرف ایک ہی ذہین شخص سے ہوئی ہے اور وہ بھی پاگل ہے۔ میں قطعاً بیمار نہیں ہوں، میں تو صرف بدی کے ایک چکر میں پھنس گیا ہوں جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ مجھے کسی بات کی پروا نہیں، جیسا آپ کا جی چاہے کیجئے۔ “

”آپ اسپتال چلے جائیے، میرے دوست! “

”مجھے خاک بھی پروا نہیں کہ کہاں رہوں۔ آپ کا جی چاہے تو مجھے زندہ دفن کر دیں۔ “

”وعدہ کیجئے، میرے دوست کہ آپ ہر معاملے میں خوبوتوف کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ “

”اچھی بات ہے، وعدہ کر رہا ہوں۔ لیکن جناب عالی! ایک بار پھر آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں بدی کے چکر میں پھنس کر رہ گیا ہوں۔ اب ہر بات کا حتیٰ کہ میرے بہی خواہوں کی انتہائی مخلصانہ ہمدردی کا بھی صرف ایک ہی مقصد ہوگا۔ “

”میری تباہی۔ میں فنا ہو رہا ہوں اور اتنی جرا ¿ت رکھتا ہوں کہ اس حقیقت کو تسلیم کر لوں۔ “

”لیکن آپ کی طبیعت ٹھیک ہوجائے گی، میرے دوست! “

”اب اس قسم کی باتوں میں کیا رکھا ہے؟ “ اندریئی یفمیچ نے جھلا کر کہا۔ ”زندگی کے آخری ایام میں تقریباً ہر شخص کو ان حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے گردے خراب ہوگئے ہیں یا یہ کہ دل پھیل گیا ہے، دوائیں استعمال کرنا شروع کر دیجئے اور کبھی آپ کو پاگل یا مجرم قرار دیاجاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک بار آپ لوگوں کی نگاہوں پر چڑھ گئے تو یقین کر لیجیے کہ بدی کے ایک چکر میں داخل ہوگئے ہیں جس سے کبھی بھی باہر نہ نکل پائیں گے۔ باہر نکلنے کے لئے آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے تو اس دلدل میں اور بھی زیادہ گہرائی تک دھنس جائیں گے۔ ایسے موقعے پر بہتر یہی ہوتا ہے کہ ہار مان لیجیے کیونکہ کوئی بھی کوشش جو انسان سے ممکن ہے، آپ کو بچا نہیں سکتی۔ کم از کم میری رائے تو یہی ہے۔ “

اس اثناءمیں کاؤنٹر کے سامنے لوگوں کی بھیڑ جمع ہوچکی تھی۔ اندریئی یفمیچ نہیں چاہتا تھا کہ ان بیچاروں کو اور زیادہ انتظار کرنا پڑے اس لئے کھڑا ہوگیا اور رخصت ہونے لگا۔ میخائل آویزیانچ نے اس سے ایک بار پھر وعدہ لے لیا اور اسے دروازے تک چھوڑ گیا۔

اسی روز شام کو خوبوتوف اپنے پوستین اور لانگ بوٹوں میں بالکل غیر متوقع طور پر آن دھمکا اور کچھ اس انداز سے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، کہا:

”میں آپ کے پاس ایک کام سے حاضر ہوا ہوں۔ ایک مریض کے متعلق صلاح مشورے میں آپ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ چلیں گے؟ “

اندریئی یفمیچ اس خیال سے کہ شاید وہ دل بہلانے کے سلسلے میں چہل قدمی کے لئے بلا رہا ہے یا پھر شاید اسے تھوڑے سے پیسے کما لینے کا موقع دینا چاہتا ہے، اوورکوٹ اور ٹوپی پہن کے اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اسے خوشی ہو رہی تھی کہ اپنی گزشتہ دن کی غلطی کی تلافی کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس کے دل میں خوبوتوف کے سلسلے میں جس نے اس واقعے کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا اور جو اسے خجالت سے بچانے کا خواہاں معلوم ہوتا تھا، تشکر کے جذبات بھی بیدار ہوگئے۔ اسے خوبوتوف جیسے ناشائستہ شخص کی اس سوجھ بوجھ پر حیرت ضرور ہو رہی تھی۔

”آپ کا مریض ہے کہاں؟ “ اندریئی یفمیچ نے پوچھا۔

”اسپتال میں۔ میں عرصے سے سوچ رہا تھا کہ آپ سے اس کا معائنہ کرا دوں۔ عجب پیچیدہ سی علامت ہے۔ “

اسپتال کے احاطے میں داخل ہو کے دونوں خاص عمارت کے کنارے کنارے چلتے ہوئے اس چھوٹی سی عمارت کی طرف بڑھنے لگے جو دماغی مریضوں کے لئے وقف تھی۔ اسی دوران جانے کیوں دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی بات نہ کی۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی نیکیتا اپنے معمول کے مطابق اچھل کے مودب کھڑا ہوگیا۔

”ان میں سے ایک کا پھیپھڑا کچھ گڑبڑ ہوگیا ہے“ خوبوتوف نے اندریئی یفمیچ کے ساتھ وارڈ نمبر 6 میں داخل ہو کر کہا۔

”آپ یہیں میرا انتظار کیجئے، بس ابھی آتا ہوں۔ ذرا میں اپنا اسٹیتھوسکوپ لے آؤں۔ “

اور وہ چلا گیا۔

اندھیرا ہوچلا تھا۔ ایوان دمیترچ نصف چہرہ تکیے میں چھپائے اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ فالج کا مریض بے حس و حرکت بیٹھا چپکے چپکے رو رہا تھا اور اس کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔ فربہ اندام کسان اور سابق ڈاک چھانٹنے والا سو رہے تھے۔ وارڈ میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔

اندریئی یفمیچ ایوان دمیترچ کے پلنگ کے کنارے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ لیکن کوئی نصف گھنٹے بعد خوبوتوف کے بجائے نیکیتا جو ایک اسپتالی لبادہ، نیچے پہننے کے کچھ کپڑے اور سلیپریں لئے ہوئے تھا، اندر آیا۔

”کپڑے تبدیل کر لیجیے، حضور“ اس نے دھیرے سے کہا۔ ”یہ رہا آپ کا پلنگ“ اس نے ایک خالی پلنگ کی طرف جو کچھ دیر پہلے ہی لایا گیا تھا، اشارہ کرتے ہوئے اضافہ کیا۔ ”خداکے فضل و کرم سے آپ اچھے ہو جائیں گے، فکر نہ کیجئے۔ “

اندریئی یفمیچ پر سب کچھ عیاں ہوگیا۔ وہ اٹھا اور کچھ کہے بغیر جاکے اس پلنگ پر بیٹھ گیا جس کی طرف نیکیتا نے اشارہ کیا تھا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ نیکیتا قریب ہی کھڑا انتظار کر رہا ہے اور اس نے انتہائی شرم اور گھبراہٹ کے ساتھ ایک ایک کرکے کپڑے اتارے اور خود کو بالکل برہنہ کر دیا۔ پھر وہ اسپتال کے کپڑے پہننے لگا، زیر جامے بہت چھوٹے تھے، قمیض بہت لمبی اور لبادے میں دھوئیں سے سکھائی مچھلیوں کی بُو بَسی ہوئی تھی۔

”خدا کے فضل کرم سے آپ اچھے ہو جائیں گے“ نیکیتا نے ایک بار پھر کہا۔

اس نے اندریئی یفمیچ کے کپڑے اٹھائے اور باہر نکل کے دروازہ بند کرلیا۔

”کوئی فرق تھوڑی ہے۔ “ اس نے اپنے لبادے کے دامنوں کو جھینپتے جھینپتے جسم کے گرد سمیٹتے ہوئے سوچا ”کوئی فرق تھوڑی ہے“ فراک کوٹ ہو یونیفارم ہو یا یہ لبادہ۔

لیکن اس کی گھڑی اور نوٹ بک جو اس کی بغلی جیب میں رکھی رہتی تھی؟ اس کی سیگریٹیں؟ آخر اس کے کپڑوں کو نیکتیا کہاں اٹھا لے گیا؟ شاید وہ اپنی زندگی میں پتلون واسکٹ اور بوٹ کبھی بھی نہ پہن سکے گا۔ یہ سارا واقعہ پہلے اسے عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم معلوم ہوا۔ اندریئی یفمیچ اب بھی اپنے اس کامل یقین پر قائم تھا کہ اس کی مکان مالکن بیلووا کے کمروں اور وارڈ نمبر 6 میں ذرا بھی فرق نہیں نیز یہ کہ دنیا کی ہر شے مہمل اور ہیچہے پھر بھی اس کے ہاتھ کانپنے لگے، پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے اور اس خیال سے دل ڈوبنے سا لگ کہ ایوان دمیترچ بیدار ہو کے اسے اسپتالی لبادے میں ملبوس دیکھے گا وہ کھڑا ہوگیا، وارڈ میں چند قدموں تک چلا اور پھر لوٹ کر بیٹھ گیا۔

نصف گھنٹہ گزر گیا پھر ایک گھنٹہ اور اسے وہاں بیٹھے بیٹھے عجب بیزاری اور تھکن سی محسوس ہوئی کیا یہاں دن بھر، ہفتے بھر حتیٰ کہ کئی برس تک ان مریضوں کی طرح جینا ممکن ہوسکے گا؟ وہ کچھ دیر تک بیٹھا رہا ہے پھر چلنے لگا ہے اور ایک بار پھر بیٹھ گیا ہے۔ وہ کھڑکی کے پاس پہنچ کر باہر جھانک سکتا ہے ایک بار پھر کمرے کے اندر ٹہل سکتا ہے اور اس کے بعد؟ ہر وقت بس یوں ہی بت کی طرح بیٹھے رہنا ہوگا؟ نہیں نہیں، یہ ناممکن ہے!

اندریئی یفمیچ لیٹ گیالیکن فوراًہی اٹھ بیٹھا اور آستین سے ماتھے کا ٹھنڈا پسینہ پونچھنے لگا جس کے دوران اسے لگا کہ اس کے چہرے سے سکھائی ہوئی مچھلیوں کی بُو نکل رہی ہے۔ ”کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے“ اس نے بدحواسی سے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”مجھے ان لوگوں سے ضرور بات کرنی چاہیے، یہ غلط فہمی۔ “

اسی لمحے ایوان دمیترچ بیدار ہو کے اٹھا اور اپنی مٹھیوں پر گالوں کو ٹکا کر بیٹھ گیا۔ اس نے فرش پر تھوکنے کے بعد ڈاکٹر کو نڈھال نگاہوں سے دیکھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھ سکا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے اس کے نیند سے مارے ہوئے چہرے پر فاتح اور بے رحم ہونے کا تاثر چھا گیا۔

”اخاہ، آپ کوبھی اس جہنم میں جھونک دیا گیا! “ اس نے نیند سے بھرائی ہوئی آواز میں ایک آنکھ پوری طرح کھولے بغیر ہی کہا۔ اس نے اپنے شانے اچکائے اور ایک بار پھر کہا۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے۔

ایوان دمیترچ نے فرش پر دوبارہ تھوکا اور لیٹ گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments