انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


ٹالسٹائی ، گورکی اور چیخوف

اندریئی یفمیچ اپنا عہدہ سنبھالنے کے لئے قصبے میں آیا تو یہ ”خیراتی ادارہ“ عجب زبوں حالی کا شکار تھا۔ وارڈوں، ان کی درمیانی گزرگاہوں اور اسپتال کے احاطے میں بدبو کے مارے سانس لینا محال تھا۔ اسپتال کے خدمت گار، نرسیں اور ان کے افراد خاندان وارڈوں میں مریضوں کے ساتھ رات بسر کیا کرتے تھے۔ ہر شخص شاکی تھا کہ تل چٹوں، کھٹملوں اور چوہوں نے زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ سرجیکل شعبہ حمرہ کے مریضوں سے کبھی بھی خالی نہیں رہتا تھا۔ سارے اسپتال میں آپریشن کرنے کے چاقو صرف دو تھے، تھرما میٹر ایک بھی نہیں تھا اور غسل کرنے کے ٹب آلو رکھنے کے لئے استعمالکیے جاتے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ، میٹرن اور طبی معاون مریضوں کی غذا ہتھیا لیتے تھے اور جہاں تک اس بوڑھے ڈاکٹر کا تعلق ہے جو اندریئی یفمیچ سے پہلے اس عہدے پر مامور تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ اسپتال کو ملنے والی اسپرٹ چوری چھپے بیچ لیا کرتا تھا اور اس نے اپنے لئے منتخب نرسوں اور مریضوں کا اچھا خاصا حرم سا قائم کر رکھا تھا۔ قصبے کے لوگوں سے یہ ساری شرمناک صورتِ حال کچھ ڈھکی چھپی نہ تھی، وہ تو اسے بڑھا چڑھا کے بھی بیان کیا کرتے تھے لیکن کچھ کرنے کرانے کی فکر جیسے کسی کو بھی نہ تھی۔ کچھ لوگ تو یہ کہہ کے معاملے کو ٹال دیتے تھے کہ اسپتال میں کسانوں اور نچلے طبقوں کے مریضوں ہی کا تو علاج ہوتا ہے اور انہیں کوئی شکایت کیسے ہوسکتی ہے جبکہ ان کے گھروں کے حالات اسپتال سے کہیں بدتر ہیں۔ ایسے کنگالوں کو تیتر کھلائے جائیں کیا؟ دوسروں کی دلیل یہ تھی کہ قصبے سے یہ توقع ہی عبث ہے کہ زیمستوو کی امداد کے بغیر کوئی ٹھکانے کا اسپتال چلاتا رہے۔ لوگوں کو تو احسان مند ہونا چاہیے کہ اسپتال قائم ہے، خراب ہے تو کیا ہوا اور زیمستوو نے جس کے قیام کو خود ہی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، قصبے یا قرب و جوار میں اپنا اسپتال نہ کھولا کیونکہ جیسا کہ ان لوگوں کا کہنا تھا، ایک اسپتال تو موجود ہی تھا۔

اندریئی یفمیچ نے پہلے ہی روز اسپتال کے معائنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تو بدمعاشی کا اڈا اور صحت عامہ کے لئے انتہائی مضر ادارہ ہے۔ اس نے سوچا، بہترین بات یہ ہوگی کہ مریضوں کو چھٹی دے کر اسپتال میں تالا ڈال دیا جائے۔ پھر اسے خیال آیا کہ اسپتال بند کر دینے کے لئے خالی اسی کی خواہش نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ درکار ہوگا ا ورجیسے اس سے کچھ حاصل بھی نہ ہوگا۔ ایک جگہ کی تمام اخلاقی اور مادی غلاظتوں کو جھاڑ بھار کر الگ کر دیا جاتا ہے تو وہ یقینا کسی دوسری جگہ ڈھیر ہو جاتی ہے، آدمی کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب یہ غلاظتیں خودبخود کافور ہو جائیں۔ یہ بات بھی سوچنے کی تھی کہ یہاں کے لوگوں نے اسپتال کھولا ہے، اسے برداشتکیے جا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس کی ضرورت بھی ہے۔ جاہلانہ تعصب اور روزمرہ زندگی کی یہ ساری غلاظت اور گھناؤنے افعال ضروری ہیں کیونکہ وقت آنے پر انہیں کسی کام کی چیز میں تبدیل کیا جاسکے گا جیسے کہ گوبر زرخیز مٹی میں بدل جاتا ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی لطافت نہیں جس نے کثافت کے پیٹ سے جنم نہ لیا ہو۔

اندریئی یفمیچ نے اپنے ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اسپتال کی اس ساری بدنظمی کی طرف سے ایک لحاظ سے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ اس نے خدمت گاروں اور نرسوں کو وارڈوں میں رات بسر کرنے سے روک دیا، آپریشن کے آلات رکھنے کے لئے دو الماریاں منگوا لیں اور بس۔ سپرنٹنڈنٹ، میٹرن اور حمرہ کے مریض سب اپنی اپنی جگہ پر پہلے ہی کی طرح ڈٹے رہے۔

اندریئی یفمیچ عقل مندی اور ایمان داری کی بے حد قدر کرتا ہے لیکن خود اپنے اردگرد کی زندگی کوعقل مندی اور ایمانداری کی بنیادوں پر منظم کرنے کے لئے نہ اس کے اندر کردار کی قوت ہے اور نہ ہی اپنے حقوق پر اعتماد۔ حکم دینے، کسی بات پر روک لگانے اور کسی فیصلے کو اصرار کرکے منوانے کے لئے دراصل وہ بنا ہی نہیں ہے۔ لگتا ہے جیسے اس نے قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی بھی نہ اپنی آواز اونچی کرے گا نہ تحکمانہ لہجہ اپنائے گا۔ ”مجھے دیجئے“ یا ”میرے لئے لے آئیے“ کہتے ہوئے جیسے اس کی زبان لڑکھڑاتی ہو۔ بھوک لگتی ہے تو ہچکچاہٹ کے ساتھ کھانستا اور اپنی باورچن سے کہتا ہے : ”چائے کیسی رہے گی؟ “ یا ”کھانے کے متعلق کیا خیال ہے؟ “ اور جہاں تک سپرنٹنڈنٹ کو چوری سے منع یا اسے برطرف کر دینے یا اس غیر ضروری عہدے کو سرے سے ختم ہی کر دینے کا سوال ہے تو یہ باتیں بالکل اس کے بس ہی کی نہیں ہیں۔ لوگ اندریئی یفمیچ سے جھوٹ بولتے ہیں، چاپلوسی کرتے یا کسی صریحاً جعلی حساب کو اس کے پاس دستخط کرانے کے لئے لاتے ہیں تو اس کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے اور وہ خود کو مجرم تصور کرتے ہوئے جلدی سے کاغذ پر دستخط کر دیتا ہے۔ مریض اس سے بھوکے ہونے یا عملے کے ظالمانہ رویے کی شکایت کرتے ہیں تو وہ بوکھلا جاتاہے اور بڑے معذرتی انداز میں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہے :

”اچھی بات ہے، میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوگئی ہوگی۔ “

ابتدائی ایام میں اندریئی یفمیچ نے بڑے جوش و خروش سے کام کیا، دن کے کھانے کے وقت تک باہری مریضوں کو دیکھتا، آپریشن کرتا اور بچوں کی ولادت کے معاملات تک نپٹاتا رہتا تھا۔ عورتیں کہتی تھیں کہ وہ مریضوں پر بہت توجہ مبذول کرتا ہے اور بیماریوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کی بیماریوں کی تشخیص کے معاملے میں تو اس کا کوئی جواب ہی نہیں۔ پر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ اکتا دینے والی یکسانیت اور کام کے صریحی طور پر غیر موثر ہونے کی وجہ سے بددل ہوتا گیا۔ ایک روز اسے تیس مریض دیکھنے پڑتے، دوسرے روز پینتیس اور تیسرے روز چالیس اور یہ سلسلہ روز بہ روز، سال بہ سال یونہی جاری رہا، قصبے کی شرح اموات گھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور ہمیشہ ہی نئے مریضوں کا تانتا سا بندھا رہتا تھا۔ ہر صبح کو جوچالیس مریض اسپتال آتے تھے ان سب کی حالت پر غور سے توجہ دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لاکھ جتن کیوں نہ کرتا اس کا کام محض ڈھونگ ہی تھا۔ کسی سال کے دوران اگر وہ 12000 باہری مریضوں کو دیکھتا تھا تو اس کا مطلب دو اور دو چار کے حساب سے بھی صرف یہی ہوتا تھا کہ 12000 مردوں اور عورتوں کو فریب دیا گیا۔ یہی نہیں، جن مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہوتی انہیں اسپتال میں بھرتی کرکے سائنسی اصولوں سے علاج کرنا بھی ناممکن تھا کیونکہ اصول تو بہت سے تھے مگر سائنس کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور فلسفے سے قطع نظر صرف اصولوں ہی کی دوسرے ڈاکٹروں جیسے اصول پرستانہ انداز میں پابندی نے سب سے پہلے مطالبہ کیا ہوتا غلاظت کا نہیں بلکہ صفائی اور تازہ ہوا کے انتظام کا، ترش کرم کلے کے بدبودار شوربے کا نہیں بلکہ صحت بخش غذا کا، چوروں کا نہیں بلکہ ہمدرد خدمت گاروں کا۔

وہ یہ بھی سوچتا کہ جب زندگی کا عام اور جائز انجام موت ہی ہے تو آخر لوگوں کو مرنے سے روکا کیوں جائے؟ کسی دوکان دار یا کلرک کی زندگی میں پانچ دس برسوں کا اضافہ ہی ہو جائے تو اس سے حاصل کیا؟ اور اگر معاملے کا مقصد دوائیں دے کر تکلیف کو کم کرنا ہے تو ناگزیر طور پر سوال اٹھتا ہے۔ تکلیف کو آخر کم کیوں کیا جائے؟ اول تو تکلیف کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حصول کاملیت میں انسان کی مدد کرتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر بنی نوع انسان نے گولیوں اور سفوف کے ذریعے تکلیف کو کم کرنا سیکھ لیا تو لوگ مذہب اور فلسفے کو بالائے طاق رکھ دیں گے جن میں انہیں اب تک صرف تمام برائیوں سے نجات ہی نہیں بلکہ خود مسرت بھی ملتی رہی ہے۔ پشکن نے بستر مرگ پر تڑپا دینے والی تکالیف برداشت کیں ہیں۔ انتقال سے قبل برسوں مفلوج پڑا رہا تو پھر کوئی اندریئی یفمیچ یا کوئی ماتریونا ساوشنا جس کی حقیر زندگی تکلیف سے محروم ہو کر سب سے چھوٹے کیڑے کی زندگی جیسی غیر اہم ہو جائے گی، آخر تکلیف سے نجات کیوں پائے؟

اس قسم کے خیالات سے مغلوب ہو کر اندریئی یفمیچ بددلی کا شکار ہوگیا اس نے اسپتال ہر روز جانا بند کر دیا۔

اس کا روز کا معمول کچھ یوں ہے۔ صبح کو تقریباً آٹھ بجے اٹھ کر کپڑے پہنتا اور چائے پیتا ہے۔ پھر وہ یا تو اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھ کر کچھ پڑھنے لگتا ہے یا اسپتال چلا جاتا ہے۔ اسے وارڈوں کی درمیانی تنگ اور تاریک گزرگاہ میں باہری مریض بھرتیکیے جانے کا انتظار کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ان کے قریب سے اسپتال کی خادمائیں اور خدمت گار اینٹوں کے فرش پر اپنے اپنے لانگ بوٹوں سے کھٹ کھٹ کرتے تیزی سے گزر رہے ہوتے ہیں، بھرتی مریض لاغر جسموں کو لبادوں میں لئے اِدھر اُدھر ٹہلتے رہتے ہیں، لاشیں اور رات کی آلائش کے برتن باہر نکالے جا رہے ہوتے ہیں، بچوں کے رونے کی آوازیں گونجتی ہوتی ہیں اور تیز ہوا کے جھونکے گزرگاہ کو جھنجھوڑتے سے معلوم ہوتے ہیں۔ اندریئی یفمیچ کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ اس قسم کے حالات، بخار، دق یا محض اعصابی بیماریوں کے مریضوں کے لئے سخت اذیت دہ ہوتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کیا ہی کیا جاسکتا ہے؟ خیر مقدمی کمرے میں ایک گول مٹول پستہ قد، پھولے پھولے سے، اچھی طرح شیوکیے اور خوب دھلے ہوئے چہرے والا خوش اخلاق آدمی سر گیئچ جو اس کا نائب ہے لیکن اپنے نئے، ذرا ڈھیلے سے سوٹ اور وضع قطع کے ساتھ طبی معاون سے کہیں زیادہ کسی سٹیٹ کا ممبر معلوم ہوتا ہے اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔ قصبے میں اس کی نجی پریکٹس زوروں کے ساتھ چل رہی ہے، سفید ٹائی باندھتا اور خود کو ڈاکٹر سے زیادہ قابلِ تصور کرتا ہے جس کی کوئی نجی پریکٹس نہیں ہے۔ اس کمرے کے ایک گوشے میں پردے کے ذریعے مقدس تصویر لگانے کی مخصوص جگہ بنائی گئی جہاں بڑی سی تصویر لگی ہوئی ہے۔ اس کے سامنے بھاری بھرکم آہنی لیمپ لٹک رہا ہے اور قریب ہی سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی نذر کی موم بتیوں کے لئے ایک شمع دان رکھا ہوا ہے۔ بشپوں کی تصاویر سویا تو گورسک خانقاہ کی ایک تصویر اور خشک پھولوں کے ہار دیواروں کی زینت بڑھا رہے ہیں۔ سرگیئی سرگیئچ بڑا مذہبی آدمی اور کلیسائی آداب کا کٹر حامی ہے۔ اسپتال میں مقدس تصویراسی نے رکھوائی تھی ہر اتوار کو وہ کسی مریض سے دُعا پڑھواتا ہے جس کے بعد وہ خود مختلف وارڈوں میں جاتا اور خود ان کو آگے پیچھے ہلا ہلا کر عود کی خوشبو پھیلاتا ہے۔

مریض بہت ہوتے ہیں اور وقت کم اس لئے ڈاکٹر ہر مریض سے جلدی جلدی چند سوال پوچھ کے دوا کے طور پر عموماً لیپ کے ساتھ مالش یا کیسٹر آئل تجویز کر دیتا ہے اور بس۔ اندریئی یفمیچ اپنی مٹھی پر سر ٹکا کے خیالوں میں غرق ہو جاتا ہے اور میکانکی انداز میں مریضوں سے سوالات کرنے لگتا ہے۔ سرگیئی سرگیئچ بھی پاس ہی بیٹھا ہوا ہاتھ ملتا رہتا ہے اور کبھی کبھار بول پڑتا ہے۔ ”ہم بیماریوں اور افلاس کی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ “ وہ کہتا ہے ”کیونکہ خدائے رحیم و کریم کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ ہے قصہ۔ “

اندریئی یفمیچ باہری مریضوں کو دیکھتے وقت کوئی آپریشن نہیں کرتا۔ آپریشن کرنے کی عادت جانے کبھی کی چھوٹ چکی ہے اور اب تو وہ خون کو دیکھ کے بھی بوکھلا جاتا ہے۔ اسے کسی بچے کا منہ کھول کر حلق دیکھنا پڑتا ہے اور بچہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے الگ دھکیلنے کی کوشش کرتا اور چیخنے چلانے لگتا ہے تو اندریئی یفمیچ کا سر چکر جانے لگتا ہے اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ جلدی جلدی نسخہ لکھتے ہی اپنے ہاتھوں کو لہرا کر ماں کو اشارہ کرتا ہے کہ اسے لے جاؤ۔

وہ جلد ہی مریضوں کے بودے پن اور حماقت سے، مذہبی رسوم کے دلدادہ سرگیئی سرگئیچ کی موجودگی سے دیواروں پر آویزاں تصاویر اور خود اپنے سوالات سے عاجز آ جاتا ہے جن میں وہ گزشتہ بیس برسوں میں کوئی تنوع پیدا نہیں کرسکا۔ آخر پانچ چھ مریضوں کو دیکھنے کے بعد وہ گھر لوٹ جاتا ہے۔ باقیوں کو اس کا نائب دیکھتا ہے۔

گھر گھر پہنچتے ہی وہ اس خوشگوار احساس کے ساتھ کہ خدا کا شکر ہے نجی پریکٹس سے عرصہ ہوا دامن چھڑا چکا ہے اور کوئی اسے دق کرنے نہ آئے گا اپنی کتابوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ مطالعہ وہ بہت کرتا ہے اور ہمیشہ ہی بہت خوشی خوشی۔ اس کی نصف تنخواہ کتابوں ہی پر نکل جاتی ہے اور گھر کے چھ کمروں میں سے تین کتابوں اور پرانے رسالوں ہی سے ٹھساٹھس بھرے ہوئے ہیں۔ اس کے مطالعے کا محبوب میدان تاریخ اور فلسفے کا ہے صرف ایک ہی طبی رسالے ”ڈاکٹر“ کا وہ خریدار ہے جس کا مطالعہ ہمیشہ ہی آخری صفحے سے شروع کرتا ہے۔ وہ گھنٹوں مسلسل پڑھتا ہے اور ذرا بھی تھکن نہیں محسوس کرتا۔ لیکن اس کے مطالعے میں جلدی جلدی ورق الٹنے کا وہ انداز نہیں پایا جاتا جو کسی زمانے میں ایوان دمیترچ کا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے سمجھ سمجھ کر پڑھتا ہے اور اکثر ان جگہوں پر ٹھہر جاتا ہے جو اسے مسرت عطا کرتی یا سمجھنے میں دشوار ثابت ہوتی ہیں۔ کتاب کے پاس ہی شیشے کی صراحی میں واڈکا رکھی رہتی ہے اور میز کی باناتی بالائی سطح پر اس کے ٹھیک سامنے نمک لگا کھیرا یا کوئی مسالے دار سیب۔ وہ ہر نصف گھنٹے کے بعد صفحے سے نظریں ہٹائے بغیر ہی شراب گلاس میں انڈیل کے پی لیتا ہے، ٹٹول کے کھیرے کو اٹھاتا اور اس کا ٹکڑا کاٹ کر کھانے لگتا ہے۔

تین بجے چپکے چپکے باورچی خانے کے دروازے پر پہنچ کے دھیرے سے کھانستا اور کہتا ہے :

”ارے واریا، ڈنر کے متعلق کیا خیال ہے؟ “

بدسلیقگی سے لگائے ہوئے بے ذائقہ کھانے سے نپٹ کر اندریئی یفمیچ دونوں بازوؤں کو سینے پر موڑے موڑے مختلف کمروں میں ٹہلنا اور سوچنا شروع کر دیتاہے۔ دیواری گھڑی چار بجاتی ہے پھر پانچ مگر اندریئی یفمیچ کے ٹہلنے اور سوچنے کا سلسلے جاری رہتا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باورچی خانے کا دروازہ چرمراتا اور داریا کا لال لال بدنما چہرہ نمودار ہوتا ہے۔

”اندریئی یفمیچ، آپ کو بیئر تو نہ چاہیے؟ “ وہ ذرا تشویش بھرے لہجے میں پوچھتی۔

”نہیں، ابھی وقت نہیں ہوا“ وہ جواب دیتاہے۔ ”ذرا دیر بعد۔ “

شام ہونے لگتی ہے تو پوسٹ ماسٹر میخائل آویریانچ، قصبے کا واحد شخص جس کی رفاقت اندریئی یفمیچ کو گراں نہیں گزرتی، اس سے ملنے آتا ہے۔ یہ میخائل آویریانچ اپنے اچھے دنوں میں دولت مند زمیندار تھا، گھڑ سوار دستے میں بھی خدمات انجام دی تھیں لیکن بُرے دن دیکھے تو ایسے کہ دو وقت کی روٹی کے لئے بڑھاپے میں ڈاک خانے میں نوکری کرنا پڑی۔ دیکھنے میں تندرست اور توانا، بڑے بڑے سفید گل مچھے، مہذب اور شائستہ، آواز کافی اونچی لیکن خوشگوار۔ بڑا نیک اور زور حس آدمی ہے، پرمزاجاً کافی تند و تیز۔ ڈاک خانے جانے والے کسی شخص نے اِدھر کسی بات پر اختلاف ظاہر کیا یا یوں ہی کوئی بحث چھیڑ دی اور اِدھر میخائل آویریانچ کا چہرہ لال انگارہ ہوگیا، جسم کانپنے لگا اور دوسرے ہی لمحے اس کی گرجدار چیخ سارے ماحول میں گونج اٹھتی ہے :

”خاموش! “ یہی وجہ ہے کہ ڈاک خانے کو عرصے سے ناقابلِ تسخیر قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ میخائل آویریانچ اندریئی یفمیچ کی علمیت، شرافت اور وسیع الخیالی کی وجہ سے اسے پسند اور اس کی عزت کرتا ہے لیکن باقی سب کو کم تر سمجھتا اور حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔

”یہ لیجیے، میں آدھمکا! “ وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے زور سے چلاتا ہے۔

”کہئے کیا حال ہے، میرے دوست؟ شاید آپ مجھ سے تنگ آ چکے ہوں گے، ہے نا؟ “

”بالکل نہیں، بالکل نہیں“ ڈاکٹر جواب دیتا ہے۔ ”آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔ “

دونوں دوست مطالعے کے کمرے میں صوفے پر بیٹھ کر ذرا دیر تک خاموشی سے سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments