انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


اسپتال کے احاطے میں اسی سے متعلق ایک چھوٹی سی عمارت بنی ہوئی ہے جس کے چاروں طرف گوکھرو، بچھوا اور جنگلی سن کے پودوں کا جنگل کا جنگل کھڑا ہے۔ اس کی چھت زنگ آلود ہے، چمنی ٹکڑے ٹکڑے ہو چلی ہے، برساتی کی گلی سڑی چوبی سیڑھیوں پر گھاس اُگی ہوئی ہے اور جہاں تک دیواروں کا تعلق ہے تو انہیں غور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر کبھی پلستر بھی کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کے رخ پر اسپتال ہے اور عقب میں ایک کھیت جس سے اسے باہر نکلی ہوئی ڈھیروں کیلوں والے بدرنگ جنگلے نے الگ کر رکھا ہے۔ آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کیلوں، جنگلے اور خود اس عمارت کی خستگی کہہ رہی ہے کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں اور ہمارے ہاں صرف اسپتال اور قید خانے کی عمارتیں ہی اس حالت میں ہوتی ہیں۔

بچھوے کے کانٹوں سے آپ کے رونگٹے نہ کھڑے ہوتے ہوں تو آئیے، چھوٹی عمارت تک جاتی ہوئی اس پگڈنڈی پر میرے ساتھ چلئے ذرا اندر تو جھانکیں ہم دروازہ کھولتے اور خود کو ایک گزر گاہ میں پاتے ہیں۔ اسپتال کی ردی چیزوں کے پہاڑ دیواروں اور آتش دان سے لگے کھڑے ہیں۔ گدے، پرانے اسپتالی لبادے، پتلونوں کے نیچے پہننے کے تنگ مہری کے پاجامے، دھاری دار نیلگوں قمیضیں، پُرانے جوتے۔ اس انبار میں جو کچھ بھی ہے بالکل چیتھڑوں جیسا سڑا گلا ہے، بالکل بے مصرف اور اس کی بدبو دم گھونٹنے والی ہے۔

بوڑھا ریٹائرڈ سپاہی نیکیتیا جس کی وردی کی پٹیاں پھپھوندی جیسی لگتی ہیں اور جو یہاں چوکیدار ہے، دانتوں میں پائپ دبائے کوڑے کرکٹ کے اسی انبار کے اوپر لیٹا رہتا ہے۔ اس کا سخت، کثرت بادہ نوشی سے مسخ چہرہ جھبری جھبری بھوؤں کی بناءپر بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والے روسی کتے کے چہرے جیسا معلوم ہوتا ہے۔ لال لال ناک، چھوٹا سا قد اور دبلا پتلا جسم پھر بھی کوئی ایسی بات ہے جو اس کی وضع قطع کو رعب دار بنا دیتی ہے اور دبلا پتلا جسم پھر بھی کوئی ایسی بات ہے جو اس کی وضع قطع کو رعب دار بنا دیتی ہے اور اس کے مکے تو خاص طور سے بہت بڑے بڑے ہیں۔ وہ انہی بے لاگ، قابلِ اعتبار، کارگزار اور کوڑھ مغز لوگوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی ہر شے سے زیادہ نظم و ضبط کی قدر کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ مار کے آگے بھوت بھاگے۔ وہ چہروں، سینوں اور پیٹھوں پر اندھا دھند مکے برساتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک نظم و ضبط برقرار رکھنے کی واحد صورت یہی ہے۔

یہاں سے آگے بڑھ کے آپ ایک بڑے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اگر گزرگاہ والی جگہ کو نہ شمار کیجئے تو سمجھئے کہ یہ ساری چھوٹی سی عمارت بس اسی کمرے ہی پر مشتمل ہے۔ دیواریں مٹیالے نیلے رنگ سے لتھڑی ہوئی ہیں، چھت اگلے وقتوں کے کسی جھونپڑے کے شہتیروں کی طرح کالک سے اٹی ہوئی ہیں اور چمنی کی عدم موجودگی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سردیوں میں آتش دانوں کا دھواں فضا میں زہر پھیلاتا رہتا ہے۔ کھڑکیاں جن میں اندر سے آہنی سلاخیں لگی ہوئی ہیں، انتہائی بدنما اور فرش بدرنگ اور ٹوٹا پھوٹا ہے۔ سارے ماحول میں ترش کرم کلے، دھواں نکالتے ہوئے لیمپوں، کھٹملوں اور امونیا کی بُو بسی ہوئی ہے اور اندر قدم رکھتے ہی اس بدبو کی بناءپر آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے کسی چڑیا گھر میں داخل ہو رہے ہوں۔

پلنگوں کے پائے فرش میں جڑے ہوئے ہیں اور ان پر اسپتالی لبادے اور رات کو سوتے وقت استعمال کرنے کی قدیم طرز کی ٹوپیاں پہنے ہوئے لوگ بیٹھے یا لیٹے ہیں۔ یہ سب دماغی مریض ہیں۔

ان کی تعداد پانچ ہے۔ صرف ایک کا تعلق اونچے طبقے سے ہے اور باقی معمولی لوگ ہیں۔ دروازے سے قریب ترین پلنگ پر چمکتی ہوئی سرخ مونچھوں والا ایک دُبلا پتلا طویل قامت آدمی جس کی آنکھیں روتے روتے سرخ ہوچکی ہیں۔ سر کو اپنی مٹھیوں پر ٹکائے ہوئے بیٹھا اپنے آگے کی طرف ٹکٹکی باندھے تکے جا رہا ہے۔ وہ دن رات سر ہلاتے، ٹھنڈی سانسیں بھرتے اور تلخی سے مسکراتے ہوئے اپنے غموں کو جھیلتا رہتا ہے۔ عام گفتگو میں تو وہ کبھی کبھار شریک بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کوئی اس سے مخاطب ہوتا ہے تو جواب کبھی بھی نہیں دیتا۔ کھانے پینے کی چیزیں لائی جاتی ہیں تو میکانکی انداز میں انہیں لے لیتا ہے۔ اس کی تکلیف دہ، تقریباً مسلسل آنے والی کھانسی اور رخساروں پر مرض کی تمتماہٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دق کی ابتدائی منزلیں طے کر رہا ہے۔

بعد والا پلنگ ایک پستہ قد، زندہ دل اور انتہائی پھرتیلے بوڑھے کا ہے جس کی داڑھی نکیلی اور سر کے بال اتنے سیاہ اور گھنگریالے ہیں جیسے کسی نیگرو کے ہوں۔ دن کے وقت وہ کمرے میں ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی تک اکڑتا پھرتا ہے یا پھر اپنے پلنگ پر پالتی مار کے بیٹھے بیٹھے باری باری سے گانے والی ننھی چڑیا بل فنچ کے جیسے انتھک انداز میں سیٹیاں بجاتا، دھیرے دھیرے گاتا یا محض منہ دبا دبا کے ہنستا رہتا ہے۔ رات کو بھی وہ اپنی بچگانہ تیزی و طراری اور زندہ دلی کے مظاہرے سے نہیں چوکتا اور اٹھ کر عبادت کرتا یعنی دہرے مکے سے سینے کو پیٹتا ہے اور ہاتھ پھیلا کے دروازے کو ڈھونڈتا ٹٹولتا رہتا ہے۔ وہ ہے موئے سیئکلا، یہودی ہیٹ ساز جو گزشتہ بیس برسوں سے، اسی دن سے پاگل ہے جب سے اس کی دُکان جلا دی گئی تھی۔

وارڈ نمبر 6 کا وہی ایک ایسا باسی ہے جیسے وارڈ سے باہر نکلنے ہی کی نہیں بلکہ اسپتال کے احاطے کو پار کر کے سڑک پر جانے کی بھی اجازت حاصل ہے۔ اسے یہ مخصوص رعایت برسوں سے ملی ہوئی ہے، شاید اس لئے کہ اتنی طویل مدت سے اسپتال میں مقیم ہے، ہلڑ ہنگامہ نہیں کرتا، کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا اور اہلِ شہر کی تفریح کا سامان فراہم کرنے والا ایسا احمق ہے جس کا چھوٹے چھوٹے لڑکوں اور کتوں کے ہجوم کے درمیان نمودار ہونا روزمرہ زندگی کا ایک جزو بن چکا ہے۔ وہ اسپتالی لبادے، سوتے وقت پہننے کی واہیات ٹوپی اور چپلوں میں یا پھر ننگے پیر اور لبادے کے نیچے بالکل برہنہ حالت میں سڑکوں پر مارا مارا پھرتا اور گھروں کے پھاٹکوں اور دوکانوں کے سامنے ٹھہرٹھہر کے ایک ایک کوپیک کی بھیک مانگتا ہے۔ کہیں اسے ”کواس“ پینے کو مل جاتا ہے تو کہیں روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک کوپیک اور وہ مال دار اور مطمئن ہو کر واپس آ جاتا ہے۔ پر وہ جو کچھ بھی لاتا ہے اسے نیکیتا چھین لیتا ہے۔ سپاہی یہ کام بڑے غصے اور زور زبردستی کے ساتھ انجام دیتا ہے، موئے سیئکلا کی جیبیں الٹ الٹ کے تلاشی لیتا اور خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ وہ اب اس یہودی کو کبھی بھولے سے بھی باہر نہ جانے دے گا نیز یہ کہ بدنظمی سے بُرا دنیا میں اور کچھ بھی نہیں۔ موئے سئیکا میں مروت کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ ساتھی پیاسے ہوتے ہیں تو جاکے پانی لے آتا ہے، وہ سو جاتے ہیں تو انہیں کمبل اوڑھا دیتا ہے اور وعدہ کرتا رہتا ہے کہ شہر سے ان کے لئے ایک ایک کوپیک لے آئے گا اور نئی ٹوپیاں سی دے گا۔ یہ موئے سئیکلا ہی ہے جو اپنے مفلوج، بائیں جانب والے پڑوسی کو چمچ سے کھلاتا ہے، یہ الگ بات کہ وہ یہ کام ترس اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے نہیں بلکہ محض تقلید کے طور پر، اپنے دائیں جانب والے پڑوسی گروموف کی شخصیت سے انجانے میں اثر قبول کرکے انجام دیتا ہے۔

ایوان دمیترچ گروموف جو یہی کوئی تینتیس سال کا ہوگا، اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور کسی زمانے میں عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے والا اور صوبائی حکومت کے ایک دفتر کا سیکرٹری رہ چکا ہے۔ وہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ اذیت پہنچانے کے لئے اس کا مسلسل تعاقب کیا جا رہا ہے۔ وہ یا تو اپنے پلنگ پر گٹھڑی بناتا رہتا ہے یا پیچھے اور آگے کی طرف یوں چلتا ہے جیسے چہل قدمی کر رہا ہو، گھبراہٹ اور بے چینی کا غلبہ رہتا ہے، کسی غیر واضح، انجانے سانحے کی توقع اسے ہمیشہ ہی ہیجان میں مبتلا رکھتی ہے۔ گزرگاہ میں کوئی خفیف سی سرسراہٹ ہو یا احاطے میں کوئی آواز ابھرے، وہ فوراً ہی چونک کے سر اٹھاتا اور ہمہ تن گوش بن جاتا ہے۔ کیا وہ لوگ اسے لے جانے کے لئے آن پہنچے؟ کیا انہیں اسی کی تلاش ہے؟ ایسے موقعوں پر اس کا چہرہ انتہائی اضطراب اور نفرت کا تاثر پیش کرتا ہے۔

میں اس کے رخساروں کی ابھری ہوئی ہڈیوں والے کشادہ، زرد اور اداس چہرے کو پسند کرتا ہوں جو مسلسل کشمکش اور خوف سے اذیت میں مبتلا اس کی روح کی کسی آئینے کی طرح عکاسی کرتا ہے۔ منہ تو وہ ضرور عجب مریضانہ انداز سے بناتا رہتا ہے لیکن گہری اور حقیقی تکلیف نے چہرے پر جو ہلکی شکنیں ڈال دی ہیں ان سے زود حسی اور ذہانت ٹپکتی ہے اور آنکھوں سے گرمجوشی اور سوجھ بوجھ کی چمک۔ میں اس مہذب، نیک اور نیکیتا کو چھوڑ کر باقی سب کا خیال رکھنے والے شخص کو پسند کرتا ہوں۔ کسی کا کوئی بٹن یا ہاتھ سے چمچ گر جاتا ہے تو فوراً ہی پلنگ سے اتر کے اسے اٹھا دیتا ہے۔ بیدار ہونے پر ہر ایک سے ”صبح بخیر“ اور سونے سے قبل ”شب بخیر“ کہنا تو وہ کبھی بھی نہیں بھولتا۔

اس کے جنون کا اظہار منہ بنانے اور مسلسل مضطرب رہنے کے علاوہ مندرجہ ذیل طریقوں سے ہوتا ہے :

کبھی کبھی شاموں کو وہ اپنے اسپتالی لبادے کو جسم پر کس لیتا ہے، سر سے پاؤں تک کانپنے لگتا ہے، دانت بجنے لگتے ہیں اور اسی حالت میں کمرے کے اس سرے سے اس سرے تک اور پلنگوں کی درمیانی جگہوں پر تیزی سے چلنے لگتا ہے۔ اس وقت وہ شدید بخار کے مریض سے مشابہ ہوتا ہے۔ پھر وہ جس طرح اچانک ٹھہر کے ساتھیوں پر نظریں دوڑاتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ان لوگوں سے کوئی بڑی اہم بات کرنی ہے لیکن دوسرے ہی لمحے اپنے سر کو بے صبری سے جھٹک کر دوبارہ چلنے لگتا ہے جیسے اسے احساس ہوگیا ہو کہ کوئی متوجہ نہ ہوگا۔ اور متوجہ بھی ہوگیا تو بات پلے نہ پڑے گی۔ تھوڑی ہی دیر بعد بات کرنے کی خواہش تمام مصلحتوں پر غالب آ جاتی ہے اور اس کے منہ سے الفاظ کا دھارا پھوٹ نکلتا ہے۔ اس کی یہ دھواں دھار تقریر جو تیز بخار کے مریض کے ہذیان کی طرح بے ربط ہوتی ہے، ہمیشہ تو قابلِ فہم نہیں ہوتی لیکن لفظوں اور لہجے میں ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جو عجب انداز سے دل کو چھو لیتی ہے۔ جب وہ بولتا ہے توآپ اس کے اندر کی دونوں آوازوں کو سن سکتے ہیں، ایک ہوتی ہے فرزانے کی اور دوسری دیوانے کی۔ اس کی اس جنونی بڑ کو کاغذ پر قلم بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ وہ باتیں کرتا ہے انسانی کمینگی کی، اس ظلم کی جو سچائی کا گلا گھونٹ دیتاہے، اس خوبصورت زندگی کی جس کا ایک روز دنیا میں ظہور ہوگا اور کھڑکیوں میں لگی ہوئی ان آہنی سلاخوں کی جو اسے ظالموں اور جابروں کی حماقت اور سنگدلی کا مسلسل احساس دلاتی رہتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان گیتوں کا بے ربط اور بے سلیقہ امتزاج وجود میں آتا ہے جو ویسے تو پُرانے ہیں مگر ابھی آخر تک گائے نہیں گئے۔

بارہ یا شاید پندرہ برس ہوئے ہوں گے کہ ایک سرکاری افسر گروموف اسی قصبے کی خاص سڑک پر واقع اپنے ذاتی مکان میں عیش و آرام کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ سرگیئی اور ایوان۔ سرگیئی نے یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے ابھی تین ہی سال پورےکیے تھے کہ تیزی سے بڑھنے والی دق میں مبتلا ہو کر چل بسا۔ اس کا مرنا تھا کہ مصیبتوں نے گروموف کا جیسے گھر ہی دیکھ لیا۔ سرگیئی کی تجہیز و تکفین کے ایک ہی ہفتے بعد بوڑھے گروموف پر جعل سازی اور غبن کے الزام میں مقدمہ دائر ہوا اور کچھ ہی دنوں بعد قید خانے کے اسپتال میں ٹائفائڈ نے اس کی جان لے لی۔ اس کے گھر اور املاک کو نیلام کر دیا گیا اور ایوان دمتیرچ اور اس کی ماں کی گزر بسر کا کوئی وسیلہ باقی نہ رہ گیا۔

باپ کی زندگی میں ایوان دمتیرچ پیڑس برگ میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا، گھر سے ہر مہینے ساٹھ ستر روبل آ جاتے تھے اور کسی تنگ دستی کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ لیکن اب وہ اپنی زندگی کو دوسرے ہی سانچے میں ڈھالنے پر مجبور ہوگیا۔ اسے صبح سے رات گئے تک سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی، تھوڑے سے پیسوں کے لئے بچوں کو پڑھاتا، دستاویزات کی نقلیں کرتا پھر بھی پیٹ کی آگ بجھائے نہ بجھتی کیونکہ تھوڑا بہت جو کچھ ملتا اسے ماں کو بھیج دیا کرتا تھا۔ ایوان دمتیرچ اس طرح کی زندگی کے لئے بنا ہی نہ تھا، حوصلے پست ہوگئے، بیمار پڑا اور یونیورسٹی کو خیرباد کہہ کر گھر لوٹ آیا۔ یہاں با اثر دوستوں کی مدد سے اسے ضلع اسکول میں پڑھانے کی نوکری مل گئی لیکن اس کے لئے نہ دوسرے اساتذہ سے نباہ کرنا ممکن ہو رہا تھا اور نہ ہی بچوں میں کوئی مقبولیت حاصل ہو رہی تھی اس لئے جلد ہی استعفیٰ دے دیا۔ پھر اس کی ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس نے چھ مہینے بیکاری میں یوں کاٹے کہ روٹی اور پانی کے سوا کسی چیز کا ذائقہ چکھنا تک نصیب نہ ہوا۔ تب اسے عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے والے کی حیثیت سے ملازمت ملی اور اس عہدے پر خرابی صحت کی بناءپر برطرفکیے جانے تک مامور رہا۔

وہ کبھی بھی، یہاں تک کہ طالب علمی کے زمانے میں بھی ہٹا کٹا نہیں رہا تھا۔ ہمیشہ وہی دبلا پتلا جسم، پیلا پیلا چہرہ، ذرا بھی سردی لگی اور زکام نے آدبوچا، کم کھانا اور گہری نیند نہ سو پانا۔ ہلکی شراب کا بس ایک ہی گلاس اسے بیخود اور آپے سے باہر کرنے کے لئے کافی ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی دوسروں میں کشش محسوس کرتا تھا۔ لیکن اپنے جھکی اور شکی مزاج کی بناءپر کسی سے کبھی گہرے مراسم نہ قائم کرسکا اور ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جسے وہ اپنا دوست کہہ سکتا۔ قصبے کے لوگوں کا ذکر وہ ہمیشہ ہی حقارت کے ساتھ کرتا اور کہا کرتا تھا کہ یہاں کے لوگوں کی جہالت اور ان کے جانوروں جیسے کاہل وجود سے اسے متلی آتی ہے۔ اس کی آواز باریک اور تیز تھی، زور زور سے جوشیلے انداز میں باتیں کرتا تھا اور ہمیشہ ہی بڑے خلوص کے ساتھ آپ اس کے سامنے کوئی بھی مسئلہ کیوں نہ چھیڑتے وہ گفتگو کو کھینچ تان کے اپنے محبوب موضوع ہی کی طرف لے آتا تھا۔ ہمارے قصبے کے ماحول میں بڑی گھٹن ہے، زندگی بڑی بے کیف ہے، اعلیٰ و ارفع دلچسپیوں سے یکسر خالی معاشرہ اپنے بے جان بے معنی وجود کو جوں توں برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس میں جان بھی پڑتی ہے تو صرف تشدد اعلیٰ واہیات قسم کی عیاشی اور مکاری سے۔ بے ایمان گلچھرے اڑاتے ہیں، ایمان دار روز کنواں کھودتے، روز پانی پیتے ہیں، یہاں ضرورت ہے اسکولوں کی، ایک ترقی پسند مقامی اخبار کی، ایک تھیٹر، پبلک لیکچروں اور تمام دانش وروں کے اتحاد و تعاون کی، معاشرے کو ان سب باتوں کا احساس دلایا جانا چاہیے، دکھایا جانا چاہیے کہ وہ کتنا نفرت انگیز ہے۔ اپنے ہم عصروں کے متعلق فیصلے صادر کرتے وقت وہ ان کی عکاسی رنگوں کی موٹی موٹی تہیں جما کر کیا کرتا تھالیکن اس کی رنگ ملانے کی تختی پر صرف سیاہ اور سفید رنگوں ہی کو جگہ ملتی تھی، زیادہ لطیف رنگوں کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا۔ دراصل اس کا خیال تھا کہ انسان یا تو بے ایمان ہوتے ہیں یا ایمان دار اور ان دونوں کے بیچ انسانوں کی کسی اور قسم کا وجود نہیں۔ عورتوں اور محبت کے بارے میں وہ بڑے پُرشوق جوش و خروش سے اظہار خیال کیا کرتا تھا حالانکہ خود کبھی محبت میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔

وہ اپنی ان تمام نکتہ چینیوں اور اضطراری جھلاہٹ کے باوجود قصبے میں پسند کیا جاتا تھا اور پیٹھ پیچھے لوگ اسے محبت سے وانیا کہا کرتے تھے۔ اس کی نفاست پسندی، لوگوں کے کام آنے کی عادت، اعلیٰ اصول اور اخلاقی دیانت داری، اس کا پرانا کوٹ، مریضوں جیسی صورت اور ان مصیبتوں کا تصور جو اس کے خاندان پر نازل ہوئی تھیں۔ ساری چیزیں ایک دوسرے سے مل جل کر اس کے سلسلے میں گرمجوشی اور دوستی کے جذبات بیدار کرتی تھیں۔ جن میں افسوس کی آمیزش ہوتی تھی۔ اس سب کے ساتھ ہی ساتھ اس نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تھی اور مطالعہ بہت وسیع تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں جو اس کے علم میں نہ ہو اور اسے ایک طرح کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تصور کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments